زیادتی کے بڑھتے واقعات اور ایس او پیز

شادی آسان، سخت اسلامی قوانین، قانون پر عمل، انٹرنیٹ، ٹی وی پر سنسر کے ساتھ جنسی تعلیم دینا بھی بہت ضروری ہے


تزئین حسن September 11, 2020
ملک میں زیادتی کے واقعات تشویشناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہمارے ہاں جنسی زیادتی کے حوالے سے رائے عامہ کچھ اس طرح تقسیم ہے کہ ایک انتہا کا کہنا ہے یہ خواتین کے بے پردہ ہونے اور مختصر کپڑے پہننے کی وجہ سے ہے، یا ان کی اپنی بے احتیاطی کی وجہ سے ہے۔ اور دوسری انتہا وہ ہے جس کا کہنا ہے کہ آزادانہ جنسی تعلقات کی معاشرتی اور قانونی اجازت سے ایسے واقعات کی روک تھام ممکن ہے- ایک اور تجویز یہ سامنے آئی کہ ریڈ لائٹ ایریاز کی قانونی اجازت دے دی جائے تاکہ راہ چلتی خواتین کے ساتھ ایسے واقعات نہ ہوں۔ آئیے ان عوامل کا جائزہ لیتے ہیں جو ایسے واقعات کے پیچھے کام کر رہے ہیں۔

پہلی بات جو سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ ایسے واقعات دنیا میں ہر جگہ ہوتے ہیں۔ یہ دوسری بات کہ مغرب میں ریپ کی تعریف ہم سے بہت مختلف اور وہاں رپورٹ زیادہ ہوتے ہیں۔ اس لیے کچھ لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ سب سے زیادہ یہ واقعات امریکا میں ہوتے ہیں۔ ہاں وہاں اقدار اور قانون دونوں مضبوط ہیں، زنا بالجبر یا جنسی ہراسانی کے مجرم کو بیشتر صورتوں میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ قانون سے نہیں بچ سکے گا۔

لیکن مغربی ممالک میں بھی جنسی آزادی کے باوجود ایسے لوگ بہرحال موجود ہیں جو موقع کی تاک میں ہوتے ہیں اور معصوموں کو نشانہ بناتے ہیں۔ می ٹو تحریک کے دوران یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ مادر پدر جنسی آزادی کے بعد بھی وہاں بڑے پیمانے پر خواتین کو تلخ تجربات ہوتے ہیں۔ یہ دوسری بات کہ اگر ہمارے ہاں پانچ فیصد کیس بھی رجسٹر ہوں تو وہ مغرب کے سو فیصد کے مقابلے میں زیادہ ہوں۔

ہمارے ہاں بڑی تعداد میں گھروں کے اندر یہ واقعات ہوتے ہیں جو سامنے نہیں آتے، کیونکہ ہم نے جنسی زیادتی کا شکار ہونے کو مظلوم کے لیے کلنک کا ٹیکا بنا رکھا ہے۔ وہ اپنی بدنامی کے ڈر سے آواز نہیں نکالتا اور شکاری کے حوصلے بڑھتے جاتے ہیں۔ کبھی کبھی وہ ایک ہی فرد کو اپنی ہوس کا نشانہ بار بار بناتا ہے۔ اس سے بچنے کےلیے بہت چھوٹی عمر سے جنسی تعلیم یعنی پرائیویٹ پارٹس کا شعور بچوں اور بچیوں دونوں کو دینا ضروری ہے کہ انہیں کوئی دوسرا ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ اور انہیں اتنی ہمت اور اعتماد دینا بھی اشد ضروری ہے کہ وہ ایسے کسی بھی فرد کو چاہے وہ رشتے دار ہو، ٹیچر ہو، چچا یا ماموں ہو، اپنے بڑوں کو رپورٹ کرسکیں۔ اس کام کےلیے اسکولوں اور مساجد میں بالغ افراد کےلیے سیشنز ہونے چاہئیں کہ وہ اپنے گھر کے بچوں کو مناسب انداز میں بنیادی جنسی تعلیم دے سکیں۔ اسکولوں میں بھی ضرور یہ بنیادی تعلیم شامل ہونی چاہیے۔

واقعات بڑھتے جارہے ہیں اور اس میں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔ اس کی چار وجوہات ہیں: پہلی ہماری اقدار، جس میں عزت اس کی لٹتی ہے جس کے ساتھ یہ ظلم کیا جاتا ہے اور جس نے کیا ہوتا ہے معاشرے کی نظر میں پاک صاف ہی رہتا ہے۔ دوسرے انصاف مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ تیسرے جنسی خواہش، جو ایک بنیادی ضرورت ہے، کا حلال طریقے سے پورا نہ ہونا۔ ہمارے معاشرے میں شادی کو شدید مشکل بنادیا گیا ہے۔ اس وقت پاکستان کی صورت حال یہ ہے کہ بلوغت کے دس دس، پندرہ پندرہ سال تک لڑکے کنوارے گھومتے ہیں اور دینی یا سیکولر کسی طبقے میں بھی نوجوانوں کی اس بنیادی ضرورت کا ادراک نظر نہیں آتا۔ لڑکیاں بوڑھی ہورہی ہیں لیکن ان سے زیادہ عمر کے بھائی کی شادی محال ہوتی ہے۔

لیکن یہ سب وجوہات تو کم یا زیادہ ہمیشہ سے ہمارے معاشرے کا حصہ تھیں۔ سب سے زیادہ جس چیز کی وجہ سے یہ واقعات بڑھ رہے ہیں وہ انٹرنیٹ پر پورن اور سنسر کا نہ ہونا ہے۔ ٹیکنالوجی کو رول بیک نہیں کیا جاسکتا، لیکن سنسر جس حد تک ممکن ہے لگایا جاسکتا ہے۔ میری معلومات کے مطابق سعودی عرب میں غیر اخلاقی پورن سائٹس پر کچھ سال پیشتر سنسر تھا۔ خدا کرے آج بھی ہو۔ اس سے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے میں خاطر خواہ مدد مل سکتی ہے۔ بہت سے لوگ یہ دلائل دیتے ہیں کہ پورن تو مغربی ممالک میں بھی ہوتا ہے، وہاں ایسے واقعات کیوں کم ہوتے ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہر معاشرے کے اپنے حالات ہوتے ہیں۔ مغرب میں اس حوالے سے اقدار اور قانون دونوں مضبوط ہیں۔ جنسی تعلیم بہت چھوٹی عمر سے دی جاتی ہے اور سب سے بڑھ کر آزادانہ جنسی تعلقات کی اجازت ہے جو مسلم معاشروں میں نہیں دی جاسکتی۔ اس کے باوجود می ٹو تحریک کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ وہاں کی عورت بھی کلی طور پر محفوظ نہیں۔

دوسری طرف یہ بات سمجھنے کی ہے کہ انڈیا میں ریپ کے واقعات بڑھنے کے بعد بالی ووڈ کی اداکاراؤں نے آئٹم سونگ پرفارم کرنے سے معذرت کرلی تھی۔ یعنی آئٹم سانگ بھی ایسے واقعات میں اضافے کا باعث ہوتے ہیں۔ دہلی کو ریپ کیپٹل آف دی ورلڈ کہا جانے لگا ہے۔ اگر ریڈ لائٹ ایریاز کی اجازت ہی حل ہوتا تو بھارت میں اتنے بڑے پیمانے پر یہ واقعات نہ ہوتے، کیونکہ وہاں بہت بڑے پیمانے پر یہ انڈسٹری موجود ہے اور اب ایک طبقے میں آزادانہ جنسی تعلقات بھی معمول کی بات بنتی جارہی ہے۔

دوسری طرف انڈیا میں کئی دہائیوں تک فحش فلمیں بنانے کے بعد بالی ووڈ میں ٹرینڈ یوٹرن ہورہا ہے۔ وہاں ہیروئنز اب بہت مناسب کپڑے استمعال کررہی ہیں۔ حالانکہ یہ وہ انڈسٹری ہے جو 70 ، 80 اور 90 کی دہائی میں ساری دنیا میں مقبول ہی اپنی فحاشی کی وجہ سے ہوئی۔ بقول عامر خان ہم جو حرکتیں سلوراسکرین پر ماضی میں کرتے رہے وہ دراصل جنسی ہراسانی کی مختلف شکلیں تھیں، لیکن ہمیں اس کا احساس تک نہ ہوا۔

اگر کوئی سمجھنا نہ چاہے تو اسے کوئی نہیں سمجھا سکتا، لیکن انٹرنیٹ اور پورن یہاں تک کہ پاکستانی چینلز پر بھی سنسر کی ضرورت ہے۔ کمرشل فائدے کےلیے پاکستان کو خواتین اور دیگر صنف کے لوگوں کےلیے بھی غیر محفوظ کرنے کا کسی کو کوئی حق نہیں ہونا چاہیے۔

اسی طرح کوئی بھی ذی عقل شخص اس امر سے انکار نہیں کرسکتا کہ انٹرنیٹ پورن ہیجان انگیزی پیدا کرتا ہے اور اب یہ فور جی اور موبائل کی شکل میں بہت آسانی سے ہر طبقے کے لوگوں کو میسر ہے۔ ریپ کے خلاف آپ کوئی بھی قانون بنا لیجئے، جب تک اس مسئلے سے نہیں نمٹا جائے گا، آپ سنسر نہیں لگائیں گے، یہ کیسز بڑھتے جائیں گے۔

جہاں تک مناسب لباس پہننے کی بات ہے تو یہ بات متعدد کیسز میں سامنے آچکی ہے کہ کم عمر بچیوں اور مدرسے اور اسکولوں کے لڑکوں کے ساتھ بھی ایسے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ باپردہ بچیاں ایسی گواہی مشکل سے دیں گی مگر حقیقت یہ ہے کہ سڑکوں پر درندے گھوم رہے ہیں، جو موقع کی تاک میں ہوتے ہیں۔

ایسے میں لباس سے بہت زیادہ سیفٹی کےلیے ایس او پیز کی ضرورت ہے، جو بنیادی جنسی تعلیم کا حصہ ہونا چاہیے۔ احتیاط لازم ہے۔ ہم اپنی عزت کو پاکستان کے قانون یا سڑکوں پر گھومنے والوں کی اخلاقیات پر نہیں چھوڑ سکتے۔ پھر خود پولیس کے ایسے واقعات میں ملوث ہونے کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا۔ حالیہ موٹروے حادثے کے بعد سی سی پی او لاہور کے بیان پر بھی سنجیدگی سے غور اور کارروائی ہونی چاہیے۔

شادی آسان، سخت اسلامی قوانین، قانون پر عمل، انٹرنیٹ، ٹی وی پر سنسر کے ساتھ بچوں اور بڑوں کو جنسی تعلیم دینا بھی بہت ضروری ہے۔ جس کےلیے نصاب، نیوز اور انٹرٹینمنٹ میڈیا، فکشن، نان فکشن، خطبات و دروس ہر ذریعے کو استعمال کرنا ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔