’’کالے کمبل‘‘ میں لپٹے ہوئے گڑ کے آدمی

کل ہم نے ’’گڑ‘‘ کے ایک آدمی کو دیکھا بلکہ یوں کہئے کہ نہیں دیکھا کیونکہ وہ ’’کالا کمبل‘‘ اوڑھے ہوا تھا لیکن ہم نے۔۔۔


December 16, 2013
[email protected]

کل ہم نے ''گڑ'' کے ایک آدمی کو دیکھا بلکہ یوں کہئے کہ نہیں دیکھا کیونکہ وہ ''کالا کمبل'' اوڑھے ہوا تھا لیکن ہم نے کمبل کی موٹائی سے اندازہ لگایا کہ اندر ضرور گڑ کا بنا ہوا آدمی ہو گا، ویسے کھجور کا بنا ہوا بھی ہو سکتا تھا لیکن کھجور اتنے مہنگے ہیں کہ ان کا آدمی بنانا خاصا مہنگا پڑے گا، اس لیے یقینی طور پر کمبل کے نیچے ''گڑ'' ہی کا آدمی تھا، اس لیے ہمیں یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی کہ کمبل کے نیچے کیا ہے، پردے کے پیچھے کیا ہے، شاید ''گڑ کے آدمی'' اور کھجور کے بنے ہوئے آدمی سے آپ کچھ کنفیوژ ہو رہے ہیں اور کنفیوژن مٹانے کا سیدھا نسخہ لطیفہ ہی ہوتا ہے، چاہے وہ پرانا گڑ ہی کیوں نہ ہو، لطیفہ اس آدمی کا ہے جو ایک ٹھیلے کے پاس کھڑا آوازیں لگا رہا تھا کہ کھجور لے لو، میٹھے کھجور لے لو، سستے کھجور... ایک آدمی آکر اس کے پاس کھڑا ہوا اور پوچھا ... کہاں ہیں کھجوریں ... ٹھیلے والے نے ٹھیلے کی طرف اشارہ کیا تو آدمی بولا ... ذرا یہ کمبل تو ہٹاؤ دیکھو کھجوریں کیسی ہیں، ٹھیلے والا کوئی جادوگر لگتا تھا، اس نے ہاتھ ہلایا تو کمبل اٹھ کر مکھیوں میں بدل گیا اور نیچے واقعی کھجوریں پڑی ہوئی تھیں، پتہ نہیں اس گاہک نے پھر کھجوریں خریدیں یا نہیں لیکن ہم تو نہ ''گڑ'' خرید سکے اور نہ آدمی کو دیکھ سکے کیونکہ کمبل ہٹ ہی نہیں رہا تھا بلکہ دم بدم اور دبیز ہوتا جا رہا تھا، امید ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ ہم کس گڑ کے آدمی کا ذکر کر رہے ہیں کیونکہ گڑ کا سیزن ہے اور گڑ کے آدمی بہت ہو رہے ہیں، صوبے کی سطح پر بھی اور ملکی سطح پر بھی اور موسم کے لحاظ سے سب نے کالے کمبل اوڑھے ہوئے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ لوگ ان کو دوسرے ناموں سے پکارتے ہیں، کسی کو وزیر کسی کو مشیر کسی کو معاون اور کسی کو متعاون کہا جاتا ہے لیکن ہیں سب کے سب ''گڑ'' کے بنے ہوئے آدمی۔ ہر کسی کی مٹھاس کا اندازہ اس کے کمبل کی موٹائی سے کیا جا سکتا ہے، کل ہم نے جس گڑ کے آدمی کو دیکھا وہ پاکستان کی سطح کے نفیس گڑ سے بنا ہوا تھا، کہتے ہیں بمقام اسلام آباد ،کوئی صاحب ہیںجو آج کل اسلام آباد میں ''گڑ'' کے آدمی بناتے ہیں جن کی مٹھاس کے چرچے ''گڑ گا نڑیوں'' تک پھیلے ہوئے ہیں اور مکھی مارکہ کمبل اوڑھے رہتے ہیں لیکن رنگ میں فرق ہے یہ کمبل شوخ سبز رنگ کے ہوتے ہیں اور کونے پر چاند تارے کا ٹھپہ پایا جاتا ہے، گڑ کے آدمی صوبائی سطح پر بھی بہت ہیں اور یہ بھی مکھی مارکہ کمبل اوڑھتے ہیں لیکن ایک تو ان کا رنگ گہرا نہیں بلکہ ہلکا سا سبز ہوتا ہے اور دوسرے اس میں سرخ دھاری بھی ہوتی ہے، یعنی وہ اسلام آباد پروڈکٹ کی سی شان نہیں ہوتی

جناب شیخ نے داڑھی بڑھائی سن کی سی
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی

آدمی تو طرح طرح کے ہوتے ہیں گوشت پوست کے، مٹی کے، پتھر کے بلکہ ''گوبر'' تک کے بنے ہوئے آدمی بھی پائے جاتے ہیں جن کو عام طور پر عوام کہا جاتا ہے لیکن گڑ کے آدمی بنانا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہوتا، پرانے زمانے میں سوات کے والی صاحب کے بارے میں مشہور تھا کہ گڑ کے زین بھی بنا سکتے ہیں لیکن کبھی بنائے نہیں تھے، دراصل سوات بلکہ ہر پہاڑی علاقے میں گڑ کی بڑی مانگ ہوتی ہے اور اسے دنیا کا سب سے بڑا اور قیمتی تحفہ سمجھا جاتا ہے، اس زمانے میں کوہستان ہزارہ کے پکھلی وغیرہ سے لوگ سردیوں میں اتر آتے تھے اور گڑ گانیوں میں مزدوری کرتے تھے وہ خود بتاتے تھے کہ ہم جب اپنے گھر پہنچتے ہیں تو ہمارے بچے ہمارا پیٹ چاٹنے لگتے ہیں کہ ہائے کتنا گڑ اس میں ڈالا گیا ہو گا، والیٔ سوات کی طاقت اور دولت کا اندازہ اس سے کیا جاتا تھا کہ وہ چاہیں تو گھوڑے کی زین بھی گڑ کی بنا سکتے ہیں۔ گویا سونے اور چاندی سے بھی گڑ کا درجہ اونچا تھا، والئی صاحب کے بارے میں یہ تو نہیں بتایا جا سکتا تھا کہ وہ گڑ کی زین کے علاوہ اور کیا کیا بناتے تھے یا بنا سکتے تھے لیکن پاکستان چونکہ سوات کے مقابلے میں ایک بہت بڑا ملک ہے اور اس کے صوبے بھی بڑے بڑے ہیں۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان کو ''مادام تساؤ'' کا عجائب گھر بھی کہا جا سکتا ہے لیکن مادام تساؤ پرانے زمانے کے تکنیک سے کام لے کر صرف موم کے آدمی بناتی تھی، جن کا کوئی ذائقہ تک نہیں ہوتا اور چونکہ ذائقہ نہیں ہوتا اس لیے کمبل بھی ان سے نہیں لپٹتے، جب کہ پاکستان نے اس صنعت کو انتہائی بام عروج پر پہنچایا ہوا ہے، بلکہ شاید پوری دنیا میں نمبر ون پوزیشن پر ہے بلکہ سنا ہے کہ یہاں کے گڑ کے آدمی دساور میں بھی اچھے خاصے مقبول ہیں خاص طور پر لندن، دبئی اور امریکا میں تو گڑ کے ان آدمیوں کی بڑی مانگ ہے، ارے ہاں وہ اصل بات تو ہم بھول ہی گئے جس گڑ کے آدمی کا ہم ذکر کر رہے تھے وہ صوبائی پراڈکٹ تھا لیکن ہمارے ساتھ پرابلم یہ ہوئی کہ تلخی ایام نے ہمارے حلق کو بہت ہی کڑوا کر دیا تھا یہاں تک کہ غذا نگلنا بھی مشکل ہو گیا تھا، حلق میں کانٹے سے چبھنے لگتے تھے، اس لیے ہم نے سوچا بلکہ ایک تجربہ کار حکیم نے بتایا کہ ہمیں بھی کسی ''گڑ کے آدمی'' تک پہنچنا چاہیے تا کہ اس سے تھوڑی سی مٹھاس لے کر ہم اپنے کڑوے اور کانٹے دار حلق کو تھوڑا میٹھا کر سکیں۔

گرمن از باغ تو یک ''میوہ'' بچینم چہ شود
پیش پائی بہ چراغ تو بہ بینم چہ شود

یعنی اگر میں تمہارے باغ کا ایک میوہ حاصل کروں تو تمہارا کیا بگڑ جائے گا اور اگر میں تمہاری روشنی سے کچھ فیض اٹھاؤں تو کیا مضائقہ ہے لیکن وہاں پہنچے تو ہم جیسوں کا ایک کمبل اس سے چمٹا ہوا تھا اور مقدور بھر مٹھاس حاصل کر رہا تھا بہت کچھ نظر دوڑائی لیکن اس دبیز کمبل میں گھسنا تقریباً ناممکن نظر آیا، دور کھڑے حسرت سے دیکھتے رہے کہ

یارب اندر کنف سایہ آں سرو بلند
گرض سوختہ یک دم بنشینم چہ شود

یعنی اے خدا اگر میں بھی اس سرو بلند کے سائے میں کسی کنارے پر ہی سہی بیٹھنے کا موقع پاؤں اور اپنی سوختگی کو ذرا کم کروں تو کسی کا کیا جائے، لیکن ایک بے رنگ اور کمزور مکھی کو موٹی موٹی طاقت ور اور تجربہ کار مکھیوں کے کمبل میں گھسنے کی ہمت نہیں ہوئی، شاید کوئی مکھی ذرا ہٹے تو ہم آگے بڑھیں لیکن کیا کبھی ایسا ہو سکتا ہے یا ہوا ہے کہ کسی مکھی نے کبھی گڑ کو اپنی مرضی سے چھوڑا ہو صرف حسرت سے تکا کیے اور دل ہی دل میں دعا مانگتے رہے کہ

کاخر اے خاتم جمشید ہمایوں آثار
گرفتد عکس تو برلال و نگینم چہ شود

یعنی اے خاتم جمشید، ہمایوں صفت گڑ کے آدمی گر تیرا مبارک سایہ پڑے تو میری مٹی بھی لعل و نگینہ ہو جائے، مقدور بھر آگے بڑھنے کی کوشش بھی کی لیکن ایک قدم آگے بڑھتے تھے تو وہ سبز رنگ کی موٹی موٹی مکھیاں دو قدم پیچھے دھکیل دیتی تھیں، حالانکہ کچھ ہی دن پہلے یہی آدمی جب گڑ کا آدمی بنا تھا تو آس پاس کوئی مکھی تو کیا مکھی کا پر بھی نہیں تھا کیونکہ وہ مٹی کا آدمی تھا اور مکھیاں مٹی پر نہیں بلکہ گڑ پر جھپٹتی ہیں، ہونا کیا تھا ایسی صورت میں ہم نے بھی وہی کیا جو کمزور مکھیاں کرتی ہیں اپنا کڑوا حلق لیے ہوئے واپس آ گئے

جاں بچی سو لاکھوں پائے
خیر سے بدھو گھر کو آئے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں