منٹو اور مہیش بھٹ میں تخلیقی مماثلت

کچھ دن پہلے یہ پڑھ کرحیرت ہوئی جس میں لاہور میں ہونے والی ایک تقریب میں مہیش بھٹ کوفلم کے موضوع پر مدعو کیے جانے پر۔۔۔

khurram.sohail99@gmail.com

کچھ دن پہلے یہ پڑھ کرحیرت ہوئی جس میں لاہور میں ہونے والی ایک تقریب میں مہیش بھٹ کوفلم کے موضوع پر مدعو کیے جانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ دلیل یہ دی کہ بھارت سے بین الاقوامی اعزازات کے لیے نامزد ہونے والی فلموں میں سے کوئی بھی فلم مہیش بھٹ کی نہیں ہے، اس لیے ان کے خیال میں مہیش بھٹ اتنے معقول فلم ساز نہیں ہیں کہ انھیں کہیں مدعو کیا جائے۔

مہیش بھٹ کے ساتھ وہی مسئلہ ہے، جس کا سامنا سعادت حسن منٹو کو تھا۔ منٹو نے ساری زندگی معاشرے کی برائیوں اور انسانی رویوں کو اپنی کہانیوں میں چاک کیا۔ کرداروں کے ذریعے نازک موضوعات پر بات کی، لیکن پڑھنے اور پڑھانے والے اسے گالیاں دیتے رہے۔ منٹو نے اپنی ایک کتاب کے انتساب میں لکھا۔ ''یہ کتاب اس کے نام، جس نے مجھے سب سے زیادہ گالیاں دیں۔''

گالی دینا اور تنقید کرنا بہت آسان ہوتا ہے، لیکن تخلیقی کام کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ مہیش بھٹ بھارت کے وہ واحد فلم ساز ہیں، جن کے ادارے ''بھٹ پروڈکشن'' کے تحت بنائی گئی فلمیں بہترین موسیقی سے ہم آہنگ اور شاندار اداکاری سے آراستہ ہوتی ہیں۔ نئے چہروں کو موقع دیا جاتا ہے۔ اس کی دو بڑی مثالیں راحت فتح علی خان اور عاطف اسلم ہیں۔ راحت کو پاکستان میں باریک آواز ہونے کا طعنہ دیا جاتا تھا، لیکن آج پاکستان سمیت پوری دنیا اس کے گائے ہوئے گیتوں پر سر دھنتی ہے۔ راحت کی پہلی البم ریلیز ہوئی، جس کا آج تک بہت سارے لوگوں کو نہیں پتا، اس میں سے ایک گانا ''لاگی تم سے من کی لگن'' پوجا بھٹ نے اپنی فلم ''پاپ'' کے لیے لیا۔

اسی طرح عاطف اسلم کا ایک گانا ''اب توعادت سی ہے مجھ کو'' مہیش بھٹ کے ادارے کے ایک موسیقار کو بہت پسند آیا، کسی طرح عاطف کو ڈھونڈ کر اس سے یہ گانا فلم ''کلیوگ'' کے لیے گوایا گیا۔ یہ دونوں گلوکار آج بھارت، پاکستان سمیت دنیا بھر میں جانے پہچانے جاتے ہیں۔ نعمان جاوید کے گیت بھٹ پروڈکشن کی فلم ''جشن'' میں ''دردِ تنہائی'' اور ''میں چلا'' شامل ہوئے اور آج نعمان پاکستان میں جانا پہچانا گلوکار ہے۔ بقول نعمان جاوید، اس سے پہلے پاکستان میں یہ گیت لے کر وہ تین برس تک مختلف لوگوں کے پیچھے پیچھے پھرتا رہا، مگر کسی نے اس کے یہ گیت سننے تک کی زحمت گوارا نہ کی۔

پاکستان سے نئی آوازیں ہوں یا نئے چہرے، ان کو مہیش بھٹ اور ان کے ادارے کے تحت بننے والی فلموں میں موقع دیا گیا۔ بھارت اور پاکستان کے مابین کسی قسم کا کاپی رائٹ کا معاہدہ نہیں ہے، لہٰذا ایک دوسرے کی کتابوں سے لے کر فلموں کی کہانیوں اور گیتوں تک سب کچھ چرایا جاتا ہے، لیکن مہیش بھٹ نے پاکستانی فنکاروں کو بھارتی فلمی نگر تک رسائی دی۔ حقیقی معنوں میں پاکستانی فنکاروں کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ بھارت کی آدھی فلمی صنعت کو متعارف کروانے والے مہیش بھٹ کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ وہ بھارت میں گلزار صاحب کے بعد دوسرے آدمی ہیں، جو پاکستان سے اپنی جذباتی اور دلی وابستگی کا کھلم کھلا اظہار کرتے ہیں۔ راحت فتح علی خان کو کوئی مشکل پیش آئے یا عدنان سمیع کا کوئی مسئلہ ہو یا پھر کسی اور پاکستانی فنکار کو مشکل درپیش ہو، مہیش بھٹ فوری طور پر اپنے وسائل بروئے کار لاتے ہیں۔ مہیش بھٹ کا یقین اس بات پر ہے کہ کام کوئی بھی کیا جائے، مگر اس میں سچائی ہونی چاہیے۔

مہیش بھٹ نے 1974 سے ''منزلیں اور بھی ہیں'' سے اپنی ہدایت کاری کا آغاز کیا اور اب تک 70 سے زاید فلمیں بنا چکے ہیں۔ مہیش بھٹ کی بنائی ہوئی ہر فلم اپنی جگہ بے مثال ہے، ان کی فلموں میں زندگی کے مختلف پہلو دکھائے گئے ہیں، مگر سرفہرست رومان اور جرم و سزا کی کہانیاں ہیں۔ ان کی قابل ذکر فلموں میں سڑک، گینگسٹر، وہ لمحے، روگ، زہر، مرڈر، فٹ پاتھ، انتہا، جسم، پاپ، راز، گناہ، قصور، کارتوس، سنگھرش، کرمنل، جرم، زمین، قبضہ، ارتھ، لہو کے دو رنگ، ہم ہیں راہی پیارکے، کلیوگ، جنت ٹو، جشن، مرڈر ٹو اور تھری، جسم ٹو، راز ٹو اور تھری جیسی رومانوی گیتوں سے آراستہ فلمیں ہیں۔


ان فلموں کی کہانیوں میں رومانوی معاملات میں عورت کو صرف ایک عورت کے روپ میں ہی دکھایا گیا ہے، جو کہیں مرد کو حسین دھوکے دیتی ہے اور کبھی خوبصورت گناہوں پر آمادہ کرتی ہے، کہیں اس کو مدہوش کردیتی ہے، اس کی مثال کئی فلمیں ہیں مثلاً دھوکا، جسم، زہر، راز، قصور وغیرہ۔ اسی طرح کہیں یہ عورت دماغ سے کام لینے والے کو دل کی دنیا میں لے جاتی ہے، اپنے حسن کے جنگل میں بھٹکا دیتی ہے، اپنی اداؤں سے زندہ درگور کردیتی ہے، اس کی مثال فلم ''روگ'' ہے جس میں ایک پولیس انسپکٹر جس کو نیند نہیں آتی اور وہ ایک ماہر نفسیات سے اپنا علاج کروا رہا ہوتا ہے۔ اسی عرصے میں ایک خوبصورت ماڈل کا قتل ہوتا ہے اور وہ جائے واردات پر پہنچتا ہے، تو گھر میں لگی اس ماڈل کی تصویریں دیکھ کراس پر وارفتہ ہوجاتا ہے۔ تفتیشی عملے کو واپس تھانے بھیج کر خود اسی گھر میں رات بسر کرتا ہے اور نیند بھی اس کو اپنی بانہوں میں سمیٹ لیتی ہے۔

اسی طرح گینگسٹر میں ایک لڑکی محبوبیت کا ناٹک رچا کر کس طرح اپنے محبوب کو پولیس والوں کے حوالے کردیتی ہے، وہ بھی ایک عورت کا روپ ہے، یوں ہم دیکھتے ہیں کہ مہیش بھٹ کی فلموں میں ایک خالص عورت کی نمایندگی ہوتی ہے، جو زندگی میں کامیاب ہونے کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہے، محبت فروخت کرسکتی ہے، اپنی اداؤں سے کسی کو بھی ڈس سکتی ہے۔ کہیں کہیں ان فلموں میں وہ عورت بھی ہے، جس کی محبت کسی مجرم کو جرم کی دنیا سے باہر نکال لیتی ہے، محبتوں اور نفرتوں کے بہت سے راز ان فلموں میں افشا ہوتے دکھائی دیتے ہیں، دل میں چھپی ہوئی ان کہی باتوں کو بھی مہیش بھٹ کی فلمیں بیان کرتی ہیں۔

بھٹ پروڈکشن کی فلموں میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ انھوں نے کچھ ایسے موضوعات کو بھی کیمرے کی آنکھ سے دیکھا ہے جسے بیان کرنا مشکل ہوتا ہے، اس کی ایک مثال فلم ''تمنا'' ہے جس میں ایک ہیجڑے کو کچرے کے ڈھیر سے ناجائز بچہ ملتا ہے اور وہ اس کو پالتا ہے، اس کے لیے اپنی زندگی وقف کردیتا ہے، اپنی مامتا کو اس پر نچھاور کردیتا ہے، مگر بے رحم دنیا کا سلوک وہی ہے جو ہمیشہ سے بدی کا نیکی کے ساتھ رہا ہے۔ مہیش بھٹ کی یہ فلم انھیںہمیشہ آرٹ فلموں کی تاریخ میں زندہ رکھے گی۔

ناظرین کے لیے فلم زندگی کی تلخیوں سے تھوڑی دیر کے لیے فرار کا ایک راستہ ہوتا ہے۔ اس راستے سے وہ خیال کی دنیا میں داخل ہوتے ہیں، جہاں ان کی مرضی کے کردار رہتے ہیں۔ خواب دیکھنے والے نوجوان طبقے میں بھٹ کیمپ کی فلموں کی مقبولیت کا راز یہی ہے، وہ ان کہی کو کہنے کا ہنر جانتے ہیں۔ کہیں کہیں ان کی فلمیں رومان سے ہوس پرستی کی طرف بھی جاتی ہیں، لیکن درحقیقت یہ بھی ایک ایسے پہلو کی عکاسی ہے جو ہماری جبلی ضرورتوں سے جڑا ہوا ہے، انسان کی محبت اور ہوس میں ایک معمولی فرق ہے، اس کو مہیش بھٹ کی فلموں میں نہایت خوبصورتی سے دکھایا جاتا ہے۔

انھوں نے کم بجٹ اور ہلکے پھلکے موضوعات کا انتخاب کیا، اسی لیے ہر خاص و عام نے ان فلموں میں دلچسپی لی، پھر بالی وڈ کے اسٹارڈم کو بھی ان کی فلموں نے توڑا۔ بھارتی عوام سے ان کو طعنے بھی سننے پڑتے ہیں، مگر انھوں نے ہمیشہ پاکستانی فنکاروں کے ساتھ تعاون کیا۔ جب کبھی بھی اچھے میوزک اور رومانوی کہانیوں کی بات آئے گی اور مکالموں کا ذکر نکلے گا، تو مہیش بھٹ کی فلمیں اس میں سرفہرست ہوں گی، کیونکہ یہ کردار جب آپ سے گفتگو کریں گے، تو آپ کو لگے گا کہ آپ خود سے مکالمہ کررہے ہیں۔ ایسے میں سطحی تنقید دھول بن کر اڑ جاتی ہے، دل و دماغ پر میٹھی دھنوں کی بازگشت اور شاندار کرداروں کے اثرات باقی رہ جاتے ہیں۔

ہر فلم منٹو کی کہانیوں کی طرح دکھ بھرا پیغام لیے تخلیق ہوتی ہے، مگر صد افسوس فلمی ناقدین کو صرف ان کہانیوں کی برہنگی دکھائی دیتی ہے، روح پر لگے ہوئے زخموں کا درد محسوس نہیں ہوتا۔ حقیقت ہمیشہ برہنہ ہوتی ہے، فریب حسین ملبوس میں ہوتا ہے۔ مہیش بھٹ کی فلمیں ان ہی اداؤں کی دلفریبی کو بیان کرتی ہیں۔ ان فلموں کو کہانی، موسیقی، اداکاری اور عکس بندی کا بہترین نمونہ کہا جاسکتا ہے۔ سب سے بڑی خوبی ان فلموں کی یہ ہے کہ ان کی موسیقی بھلائے نہیں بھولتی۔ اس کی تازہ ترین مثال حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم ''عاشقی ٹو'' ہے، جس کو بھٹ پروڈکشن کے تحت بنایا گیا ہے، اس کے گیت مسحور کردیتے ہیں۔

شام چوراسی گھرانے کے ہونہار سپوت رفاقت علی خان نے جب بھٹ کی فلم ''گینگسٹر'' کے لیے ایک گیت ''مولا'' گایا، تو اس کی ریکاڈنگ کے دوران مہیش بھٹ کی آنکھیں آنسوؤں سے تر تھیں۔ جس شخص کی آنکھوں سے ہمارے وطن کی آواز آنسو بن کر نکلے، جو پاکستانی فنکاروں کے لیے اپنے دل اور ملک کے دروازے کھول دے، ہم اسے گالیاں دے رہے ہیں۔ وہ اپنی فلمیں اور ان کی موسیقی ہمارے فنکاروں کے نام کررہا ہے، منٹو کے اس انتساب کی طرح ''یہ کتاب اس کے نام، جس نے مجھے سب سے زیادہ گالیاں دیں۔''
Load Next Story