جدید علم و حکمت کے بغیر حکمرانی ناممکن… آئی ایچ سید

انسانوں پر حکمرانی اور ان کی رہنمائی کرنے کا حق رب العالمین صرف اس شخص، گروہ اور قوم کو عطا کرتا...


آئی ایچ سید December 16, 2013

انسانوں پر حکمرانی اور ان کی رہنمائی کرنے کا حق رب العالمین صرف اس شخص، گروہ اور قوم کو عطا کرتا ہے جو ذہنی، تکنیکی، مادی، علمی اور سامان حرب کے اعتبار سے باصلاحیت اور ترقی یافتہ ہو، یہ فطرت اور رب کائنات کے بنائے ہوئے دائمی اصول کے عین مطابق ہے۔ ہزاروں سال پر محیط انسانوں کی معاشرتی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ اس طویل تاریخ میں کوئی صدی یا عشرہ ایسا نہیں گزرا کہ جب مذکورہ بالا فطری اصولوں پر عمل پیرا ہوئے بغیر کوئی شخص، گروہ یا قوم حق حکمرانی کے رتبے کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہو۔ یہ انسانی تاریخ کا بنیادی اصول تھا، ہے اور رہے گا۔ سولہویں اور سترہویں صدی کے بعد کی نئی سائنسی اور تکنیکی بنیاد پر تعمیر شدہ یہ نئی دنیا بھی اسی بنیادی فطری اصول کے تابع ہے۔

وہ قومیں جنھوں نے اپنی ذہنی اور جسمانی کاوشوں کو بروئے کار لا کر تعلیم و تربیت، صحت، ذرائع مواصلات، تکنیکی شعبہ جات، اور حربی آلات، زراعت اور انفرااسٹرکچر کے شعبے میں تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر بھرپور محنت اور توجہ دی اور انتہائی مہارت کا ثبوت دیا وہی قومیں آج حق حکمرانی کا تاج سر پر سجائے دنیا کے اقتدار پر مسند افروز ہیں اور ہم جیسے مسلم ممالک کو وہی کچھ کرنے کا حق دیتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں جو ان کی دانست میں بہتر ہے، تعمیل نہ کرنے کی صورت میں سزا کا مستحق ٹھہراتی ہیں، ان کی نظر میں سچائی، انصاف، انسانی بنیادی تقاضے، بین الاقوامی اصول اور قانون کی تشریح اور ان کے معنی ان کی نظر میں یہ ہیں کہ تمام کمزور قومیں صرف ہمارا حکم مانیں اور ہمارے احکامات کی تکمیل میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ رکھیں، ورنہ نافرمانی کی صورت میں بھیانک نتائج کو بھگتنے کے لیے تیار رہیں۔

آٹھویں صدی سے سترہویں صدی تک مسلمانوں نے اپنے حکمرانی کے دور میں ان ہی قوموں کے ساتھ یہی طرز عمل اختیار کیے رکھا، چاہے وہ بنو امیہ کا 89 سالہ دور حکومت ہو، خلافت عباسیہ کا پانچ سو سالہ دور حکومت ہو، عثمانوی خلافت کا سات سو سالہ دور حکومت ہو یا ہندوستان کا آٹھ سو سالہ دور حکومت۔ اس وقت یہ تمام محکوم قومیں بھی ہمارے خلاف اسی انداز سے سوچتی تھیں جیسے آج ہم ان کے متعلق سوچتے ہیں اور ہمیشہ سے ہی اس محکومی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے سے آزادی کے حصول کی خواہاں تھیں اور کئی سو سال تک اپنے آپ کو اپنی بقا اور اپنی رومن، بازنطینی اور اشوک اعظم کے دور کے رعب و دبدبے اور جاہ و جلال کے دوبارہ حصول کی جدوجہد میں مصروف رکھا مگر کامیابی ان کا مقدر اس وقت تک نہ بن سکی ۔

جب تک کہ انھوں نے حق حکمرانی کے فطری اصولوں یعنی ذہنی برتری، علم و عمل، ذرائع نقل و حمل کی ترقی مادے کو توانائی میں تبدیل کرنے کی مہارت، سامان حرب میں جدت اور تعلیم و تربیت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے جیسے ابدی اصولوں کو پورے صدق دل سے نہ اپنا لیا۔ اور آج فرق صاف ظاہر ہے کہ وہ مشرقی اور مغربی اقوام جو کبھی عربوں، عباسیوں، عثمانیوں اور مغلوں کے نام سے خوف زدہ ہو جایا کرتی تھیں، آج ان ہی مسلم قوموں کے ساتھ کس طرح کا ذلت آمیز رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ یقیناً جو قومیں بھی مذکورہ بالا بنیادی اور فطری اصولوں سے روگردانی کریں گی وہ حکمرانی کا استحقاق کھو دیں گی اور غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دی جائیں گی۔

مسلم اقوام نے جب تک ان بنیادی اصولوں کی پیروی کی، دنیا پر حکمرانی کرتی رہیں اور جب اس نے ان بنیادی اصولوں سے روگردانی کرتے ہوئے اپنے آپ کو فقہی، مسلکی، قبیلائی، صوبائی رنگ و نسل، تعصب زدہ جیسے مسائل میں الجھا لیا تو آج اس کا حشر دنیا کے سامنے ہے۔ تشدد، عدم اطمینانیت، لالچ، قتل و غارت گری، لوٹ کھسوٹ اور دہشت گردی ان مسلم قوموں کا مقدر بن گئی۔

رہی بات وطن عزیز پاکستان کی تو تقریباً ہر خطرناک معاشرتی برائی اس معاشرے میں اپنی جڑیں نہ صرف پھیلا چکی ہے بلکہ انھیں انتہائی مضبوط کرچکی ہے، تشدد سے زندگی اور املاک کو لاحق خطرات انتہائی بڑھ چکے ہیں، تعلیم و تربیت کا فقدان واضح نظر آتا ہے۔ اقتصادی زبوں حالی، مہنگائی، بے روزگاری، مفلسی اور کسمپرسی کی وجہ سے پورا معاشرہ جذباتیت کی شدید انتہا کو پہنچ چکا ہے، تھوڑے سے اشتعال دلانے پر اپنے ہی بھائیوں کی املاک کو اور زندگیوں کو نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کرتا، کھیلوں کی چیزوں سے زیادہ اسلحہ رکھنے اور اسے استعمال کرنے میں فخر اور لذت محسوس کرتا ہے، کسی بھی مسئلے پر چاہے وہ دنیاوی ہو یا دینوی کم علمی کے باوجود بحث و مباحثہ کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے اور اپنی رائے اور نقطہ نظر کو منوانے کے لیے دلائل کے بجائے طاقت اور تشدد کے استعمال کو بھی جائز سمجھتا ہے۔ اپنی مرضی کو دوسروں کی مرضی پر مسلط کرنے کی اس خطرناک ذہنی روش میں پوری طرح مبتلا ہے جوکہ انتہائی خطرناک نفسیاتی کیفیت ہے، جو کسی بھی زندہ معاشرے کو تباہ و برباد کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

اس میں کسی شک و شبے کی گنجائش ہی نہیں کہ اس سوچ کو پروان چڑھانے میں ہمارے دنیوی پیشواؤں، جاگیردار اور وڈیروں، ماضی کے فوجی جرنیلوں، بے لگام افسر شاہی اور آمریت کے شوقین حکمرانوں نے اہم کردار ادا کیا۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج ملک بے شمار مسائل کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم بحیثیت مجموعی قوم کو درپیش مذکورہ بالا مسائل کے حل کی طرف اپنی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ان کا تدارک کریں۔ دوسری صورت میں تباہی ہمارا مقدر بن جائے گی اور ہم تنکوں کی طرح بکھر جائیں گے۔ خدارا! مملکت خداداد کے حکمران، دانشور حضرات اس بات پر بھرپور توجہ فرمائیں اور قوم کو مایوسی اور انتشار کے گڑھے سے باہر نکالنے کی دانشمندانہ کوشش کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں