سقوط غرناطہ سے سقوطہ ڈھاکا تک

سقوط مشرقی پاکستان کا سانحہ سقوط بغداد اور سقوط غرناطہ کے بعد مسلم تاریخ کا بڑا ہی شرمناک سنگ میل ہے۔


محمد عارف شاہ December 16, 2013

سقوط مشرقی پاکستان کا سانحہ سقوط بغداد اور سقوط غرناطہ کے بعد مسلم تاریخ کا بڑا ہی شرمناک سنگ میل ہے۔ اندلس، بغداد اور متحدہ پاکستان کے آخری شب و روز کو سامنے رکھ کر دیکھیں تو ان میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ سارے مناظر ایک جیسے ہیں، ان تینوں واقعات میں حکمرانوں کی عیش کوشی اور ان کے اخلاق و کردار کی کمزوریاں مشترکہ نظر آتی ہیں، ان کمزوریوں سے اسلام کے ازلی دشمنوں نے فائدہ اٹھایا اور مسلمانوں کے عسکری تفاخر کو خاک میں ملادیا۔ مشرقی پاکستان کی شکست درحقیقت سیاسی شکست تھی۔

برصغیر ہند کے مسلمانوں نے اپنی سلطنت سے محرومی اور اس کے بعد غیروں کی غلامی کا صدمہ ڈیڑھ سو برس تک برداشت کیا۔ انگریزوں نے مسلمانوں سے ان کا ہندوستان چھینا تھا اس لیے غلامی کے دور میں مسلمان ہی ان کا نشانہ بنے رہے۔ ان کے بادشاہ جلاطن ہوئے، ان کے شہزادوں کو پھانسیاں ملیں اور جب مسلمانوں نے نافرمانی اور غدر کیا جو کہ ایک بغاوت تھی تو اس کے لیڈروں کو پھانسی پر چڑھادیا گیا۔ ہندو جو مسلمانوں کے غلام رہے تھے، انگریزوں کی حکومت ان کے لیے آزادی کی نوید لے کر آئی کہ اس طرح ہندوستان کی مسلمان سلطنت ختم ہوگئی تھی اور ہندو اس کی ہزار سالہ غلامی سے نجات پاگئے تھے۔

اس خطے کے مسلمانوں کو دو سامراجوں کا سامنا کرنا پڑا ایک بیرونی برطانوی سامراج دوسرا اس کا مقامی ساتھی ہندو سامراج۔ مسلمانوں کے قائدین اور دانشوروں نے ان دو میں سے کسی بھی سامراج کو قبول نہیں کیا اور قصہ مختصر کہ جب عالمی جنگ کے بعد برطانوی سامراج حکمرانی کے قابل نہ رہا اور ہندوستان کو آزاد کرنے کا سوال پیدا ہوا تو مسلمانوں نے اعلان کردیا کہ وہ ہندو کے ساتھ مل جل کر اس آزادی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ وہ ایک الگ قوم ہیں، ان کے ذہنوں میں اگرچہ یہ بات زندہ تھی کہ اس ملک کے وارث وہی ہیں لیکن حالات اس دبی ہوئی خواہش کا ساتھ نہیں دے سکتے تھے چنانچہ انھوں نے اس سرزمین پر ایک الگ ملک کا مطالبہ کردیا اور اس میں شک نہیں کہ اس خطے کے مسلمانوں نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا اور پاکستان بن گیا، جس کی بنیاد دو قومی نظریہ تھا، یہ دو قومیں ہندو اور مسلمان رنگ و نسل کی بنیاد پر نہیں اپنی جداگانہ ثقافت اور مذہب کی بنیاد پر دو قومیں تھیں۔ واضح اکثریت والے علاقوں میں مسلمانوں نے اپنی ریاست قائم کرلی، اس کے دو حصے تھے اور ان کے درمیان اگر چہ ہزار میل سے زائد کا فاصلہ تھا، بیچ میں ایک غیر ملک حائل تھا لیکن یہ دونوں حصے دو قومی نظریے کی زنجیر سے بندھے ہوئے تھے۔

دنیا کے جغرافیے پر ابھرنے والی یہ نئی سلطنت اپنے ساتھ کئی دشمن بھی لے کر پیدا ہوئی۔ ایک دشمن تو اس کے پڑوس میں تھا، اس کے دوسرے دشمن جو کئی تھے اس سے دور مگر اس کے وجود کے درپے تھے۔ وہ ایک اور مسلمان ملک برداشت کرنے پر تیار نہ تھے لیکن ان دشمنوں کو چھوڑیے کہ بعض اوقات دشمنی زندگی کی جدوجہد کی علامت اور سبب بن جاتی ہے، اصل دشمن ہمارے اندر تھے، یہ وہ پاکستانی مسلمان تھے جو اپنے آپ کو انگریز کا جانشین سمجھنے لگے اور یہ جانشینی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

ان لوگوں کا سوائے مفادات اور حکمرانی کے اور کوئی نظریہ نہ تھا۔ اس لیے اس صورتحال کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ اسلامی عدل و انصاف اور مساوات سے محروم یہ قوم دو ٹکڑوں میں بٹ گئی۔ دلوں میں پڑنے والی وہ دراڑ جو بنگالی زبان پر اردو زبان کو مسلط کرنے سے شروع ہوئی تھی بہت سی محرومیوں اور مغربی پاکستان کے حکمرانوں کی زیادتیوں کو اپنے جلو میں لیے نفرت کا ایک ایسا دریا بن گئی جس میں ہمارا سب کچھ ڈوب گیا۔ یہ درست ہے کہ مشرقی پاکستان کو مغربی بازو سے جدا کرنے کے لیے بھارت، روس اور امریکا بھی اپنا اپنا گھناؤنا کردار ادا کررہے تھے لیکن مغربی پاکستان کے حکمرانوں، سیاستدانوں اور سول و ملٹری بیورو کریسی کے بھی جرائم ناقابل فراموش ہیں۔ ہم نے اپنے ہی بھائیوں کے حقوق سلب کیے، ہر شعبہ حیات میں انھیں محروم اور نظر انداز کیا گیا، آبادی میں وہ ہم سے زیادہ تھے لیکن ہم نے دونوں حصوں کو زبردستی برابر کرنے کی سازش کی۔ اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ وہ تابعداری کا جوا اتار کر خلیج بنگال میں پھینک دیتے۔

حکمران طبقے کی اس منافقت کی وجہ سے یہ مسلمان ملک ٹوٹ گیا، لیکن اس کے باوجود جاتے جاتے دو قومی نظریے کا ایک اور حیران کن ثبوت بھی دے گیا، مشرقی پاکستان جو بنگلہ دیش بن گیا بنگالیوں کا خطہ تھا، جس سے ملحق بھارتی بنگال تھا، ان دونوں حصوں کے لوگوں کی خوراک تک مشترک تھی، زبان اور لباس ہی ایک نہیں تھا موسیقی بھی ایک ہی تھی اور اس پر یہ بات بھی کہ بنگلہ دیش بنانے میں بھارتی فوج کا فیصلہ کن کردار تھا اور قدرتی طور پر یہ لوگ اس کے احسان مند تھے لیکن اس یکسانیت اور احسان مندی کے باوجود یہ پھر بھی ایک نہیں تھے، مسلمان اور ہندو تھے، دو الگ الگ قومیں تھے، چنانچہ بنگلہ دیش کے مسلمانوں نے اپنی انفرادیت برقرار رکھی۔ تہذیبی اعتبار سے اسے پاکستان ہی رکھا صرف نام بدل لیا۔

تاریخ یہی بتاتی ہے کہ یہ ملک توڑنے میں زیادہ حصہ ان پاکستانیوں کا تھا جو اس کے مغربی حصے سے تعلق رکھتے تھے، جن کی ملی بھگت نے آج کے دن بیالیس برس قبل یہ ملک توڑ دیا۔ برصغیر کے مسلمانوں کو ایک ایسی ٹھیس لگی کہ اس کی کسک ہمیشہ محسوس ہوتی رہے گی، ہندوستان کے مسلمانوں نے اعلان کیا کہ ''اب ہمارا کوئی محافظ نہیں رہا، ہمیں اب خود اپنی طاقت پر جینا اور زندہ رہنا ہے'' لیکن پاکستان کے مسلمانوں نے اس جاں گداز حادثے سے سبق سیکھنے سے انکار کردیا۔

ہم نے رسماً تو 1973 کے آئین کی صورت میں پاکستان کے اساسی نظریات کا اقرار کیا لیکن عملاً اس سے انکار کرتے رہے۔ گو قتل مشرقی پاکستان کو بیالیس برس ہونے کو ہیں لیکن اس کا دریدہ بدن آج بھی اسی طرح بے گور و کفن پڑا ہوا ہے، جب تک مقتول مشرقی پاکستان سے انصاف نہیں ہوگا اس کی روح، بدروح بن کر ہمیں ڈراتی رہے گی۔ 16دسمبر آتا ہے تو دشمنان پاکستان پھر سے جشن منانے لگتے ہیں، اس سہانی یاد میں جب انھوں نے مل کر عالم اسلام کی سب سے بڑی نظریاتی مملکت کو دولخت کرکے اس کی طاقت نصف کردی تھی۔ ان دشمنوں میں بھارت نمایاں ہے، دسمبر کی آمد کے ساتھ ہی بھارتی اخبارات و جرائد میں پاکستان دشمن ہندو دانشوروں کی باچھیں کھل اٹھتی ہیں، وہ پاکستان پر طنز کرتے اور ٹھٹھہ اڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان آج بھی 71 کے دنوں کی طرح اندر سے کمزور اور انارکی کا شکار ہے۔

ملک بھر بالخصوص معاشی حب شہر قائد کراچی میں دہشتگردی کا عفریت اور بلوچستان کے حالات ہمیں ایک اور سقوط کی طرف لے جارہے ہیں، ملک دشمن طاقتوں نے ہم پر جنگ مسلط کر رکھی ہے، شکر ہے کہ ہماری فوج بار بار اپنی اسلامیت کا اعلان کررہی ہے اور اس کے تحفظ کے لیے جان ہتھیلی پر لیے ہوئے ہے۔ ملک و ملت کی بقا کے لیے فوج اور قوم کا اتحاد لازمی ہے، ہمیں ان شہیدوں کی قربانیوں کو نہیں بھولنا چاہیے جن کی ہڈیاں مشرقی پاکستان کی مٹی میں مل گئی ہیں، وہ بھوکے اور پیاسے لڑے تھے، وہ بیماری کی حالت میں لڑے تھے، وہ دشمن کی جنگی قوت کے مقابلے میں نہتے تھے، ہم نے انھیں دھوکے دیے وہ پھر بھی لڑتے رہے، تاریخ ہمارا یہ گناہ کبھی نہیں بخشے گی کہ دشمن انھیں خراج تحسین پیش کرتا رہا اور ہم انھیں مجرم کہتے رہے۔ یاد رکھیے کہ مجاہد مجرم نہیں ہوتے اور مجرم مجاہد نہیں بن سکتے، البتہ مجرم حکمران بن سکتے ہیں اور جب ملک و ملت کی قسمت اس قبیل کے حکمرانوں کے ہاتھ آتی ہے تو تاریخ اس قوم کو سقوط غرناطہ سے سقوط ڈھاکا تک پہنچاتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں