عوام کی حالت زار
عوام کی حالت زار دیکھ کر میری حالت بھی زار ہی نہیں ہے بلکہ زار و قطار رو رہی ہے۔ دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔
عوام کی حالت زار دیکھ کر میری حالت بھی زار ہی نہیں ہے بلکہ زار و قطار رو رہی ہے۔ دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ یہ حالت میری ہی نہیں ہے بلکہ عوام کا بھی یہی حال ہے مگر معلوم نہیں صاحبان اقتدار کے دلوں کا کیا حال ہے یا عوام و ملک کی حالت پر ان کے دل بلیوں اچھل رہے ہیں۔ یہ لوگ کیوں کر عوام کی خدمات اور فلاح و بہبود کا سبق کیوں بھول گئے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے ان سب لوگوں نے عوام کو جھوٹی تسلیاں دیکر ان کے ووٹ حاصل کرکے اقتدار کے ایوانوں میں براجمان ہوگئے لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے ان کے تیور بھی بدلتے جا رہے ہیں۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ ان سب نے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس رکھی ہے کہ ان کو عوام کی آواز سنائی دے رہی ہے اور نہ فیصلہ عوام کا سنائی دے رہا ہے۔
عوام کے جو مسائل ہیں ان پر تو توجہ نہیں دی جا رہی ہے بلکہ غیر ضروری معاملات میں عوام کو الجھایا جارہا ہے۔ عوام ہیں کہ اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں، کوئی رہبر و رہنما میسر نہیں ہے۔ ایسے میں ہمیں منزل کیسے مل سکتی ہے۔ ظاہر ہے ہم رہبر و رہنما کی عدم دستیابی کی وجہ سے یوں راہوں میں بھٹکتے رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ہمیں قدم قدم پر راہزن تو مل رہے ہیں، ہمیں منزل کی راہ سے بھٹکا بھی رہے ہیں لیکن کوئی ہمیں منزل کا نشان نہیں بتا رہا ہے۔ مسائل کے انبار ہیں کہ دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں۔
حکمرانوں کے ہاتھوں سے نکلے جا رہے ہیں اس لیے مسائل کو سلجھانے کے بجائے وہ ان مسائل کو الجھائے جا رہے ہیں۔ یوں کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ عوام کی حالت زار کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ ملک کے دانشور، کالم نگار، ناقدین، الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا چیخ چیخ کر حکمرانوں کو جھنجھوڑ رہے ہیں کہ خدارا! عوام کی حالت زار دیکھو، ان کے مسائل حل کرو، عوام خوشحال ہونگے تو ملک خوشحال ہو گا لیکن دوسری جانب سرد مہری کا مظاہرہ کیا جارہا ہے کیونکہ ان کا مطمع نظر تو یہی ہے نا کہ ایوانوں تک پہنچنے کے لیے جتنا سرمایہ خرچ کیا ہے پہلے اسے تو وصول کرلو۔ چاہے عوام کی حالت زار دم ہی کیوں نہ توڑ دے۔
مہنگائی، غربت، بیروزگاری نے تو عوام کی کمر توڑ رکھی ہے لیکن پھر بھی ان کو عوام کی حالت زار پر رحم نہیں آرہا ہے۔ ان کی اس بے حسی کی وجہ ہی سے تو ملک کی معیشت زمیں بوس ہو رہی ہے۔ عوام کو قرضوں تلے دبایا جارہا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی آ رہی ہے۔ برآمدات صفر ڈگری پر آگئی ہیں۔ تجارتی طبقہ بیزار ہے۔ پیداوار نہیں رہی ہے۔ کارخانے بند ہو رہے ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کار سرمایہ کاری سے کترا رہے ہیں یہاں تک کہ ہمارے ملکی سرمایہ دار بھی اپنا سرمایہ نکال کر بیرون ملک منتقل کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غربت، مہنگائی اور بیروزگاری کی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ جرائم کی وارداتیں بھی جنم لے رہی ہیں۔
اس صورتحال میں عوام کی حالت سدھرنے اور امن وامان بحال ہونے کی کیسے توقع کی جاسکتی ہے۔ اس طرح کی اندرون خانہ سنگین صورت حال پیدا ہوجائے تو حکومت کی رٹ بھی قائم نہیں ہوسکتی اور نہ ہی امن وامان بحال ہوسکتا ہے۔ حالانکہ صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ اسم بہ مسمیٰ ''قائم علی شاہ'' ہیں۔ اگر شاہ صاحب کے راج میں صوبے میں امن و امان قائم نہیں ہوسکتا تو پھر کوئی دوسرا ہرگز ہرگز صوبے کی امن وامان کی خراب صورت حال پر قابو پاسکتا ہے اور نہ ہی قانون کی بالادستی قائم کرسکتا ہے۔ اب اس وقت تو امن و امان دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے۔
یعنی صوبے اور بالخصوص شہر کراچی پر تو دہشت گردوں کا ہی راج ہے۔ حکومتی رٹ کہیں نظر نہیں آرہی۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ لیاری ٹاؤن شپ میں کتنے عرصے سے آپریشن ہو رہا ہے مگر لیاری میں امن قائم نہیں ہوسکا۔ کیوں؟ اس لیے کہ گینگ وار کے کارندے اتنے جدید اسلحے سے لیس ہوکر قانون نافذ کرنے والوں کا مقابلہ کر رہے ہیں کہ انھیں باقاعدہ مسلح ہونے کے باوجود پسپائی اختیار کرنا پڑ رہی ہے۔ ایسے میں عوام کی حالت زار قوت نہیں پکڑے گی بلکہ ''مردہ'' ہوجائے گی۔ رہی قوم کی حالت ، تو وہ اب خستہ حال ہوگئی ہے۔ اور قوم کی یہ حالت اس وقت تک نہیں سنبھل سکتی جب تک معاشرے میں ملی یکجہتی کا شعور نہ پیدا ہو۔ قوم کے ہر فرد کی ذمے داری ہوتی ہے وہ قوم کی حالت زار پر صرف آنسو نہ بہائے بلکہ یکجہتی اور یکسوئی سے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر ملک و قوم کی سلامتی و بقا کے لیے آہنی زنجیر بن جائیں۔ تاکہ کسی اندرونی یا بیرونی ملک دشمن عناصر کو اس ''ملی یکجہتی زنجیر'' کو توڑنے کی جرأت نہ ہوسکے۔ اسی صورت قوم کی حالت کو بہتر کیا جاسکتا ہے۔
ملی یکجہتی قائم ہوجائے تو اس ملک کی موجودہ صورت حال یکسر بدل جائے۔ لیکن یہ جذبہ قوم میں بالکل نظر نہیں آتا۔ کیونکہ قوم اس وقت مذہبی و سیاسی گروہوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ہر کوئی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد تعمیر کرنے کی فکر کر رہا ہے۔ کسی کو ملک و قوم کی فکر و سدھار کی پرواہ ہی نہیں ہے۔ کیا حال کردیا ہمارے ملک کا ان ناقابل برداشت دہشت گردوں نے۔ حکومت کی اول تو رٹ قائم نہیں ہے اور تھوڑی بہت ملک کے ایک صوبے میں نظر آرہی ہے۔
بالخصوص صوبہ سندھ اور پختونخواہ اور بلوچستان کا تو حال مت پوچھیے، ان کی حالت زار تو انتہا کو پہنچ گئی ہے، کیوں؟ اس لیے کہ ان تینوں صوبوں میں انتہا پسندوں کا راج ہے اور انھوں نے ہی حکومت کو چیلنج کیا ہوا ہے اور باقاعدہ اعلان کرکے کہ ہم ''حکیم اللہ محسود کے قتل کا بدلہ لیں'' اب ملک کے کونے کونے میں بم دھماکے ہوں گے، ٹارگٹ کلنگ ہوگی، اہم رہنماؤں اور عمارات پر حملے ہوں گے۔ سب ہمارے نشانے پر ہوں گے۔ اور صرف یہ دعویٰ ہی نہیں تھا بلکہ اس ''اعلان بغاوت'' پر عمل بھی شروع ہوگیا ہے۔ کئی سنگین نوعیت کے سانحات رو پذیر ہوچکے۔
اب نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ یہ انتہا پسند علمائے کرام (بغیر کسی فرقہ واری تفریق کے) کا قتل عام کر رہے ہیں، جو ان کے مطلوبہ ''شریعت اور شرعی نظام کے قیام'' مقاصد کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں، تاکہ علمائے کرام ان کے اس سفاکانہ عمل سے گھبرا کر ہتھیار ڈال دیں اور ان کے منصوبے کامیاب ہوجائیں۔
نہیں! ہرگز ایسا نہیں ہونے دیں۔ پوری قوم اٹھے گی اور ان کے سامنے آہنی دیوار بن جائے گی۔ یہ انتہاپسند دراصل قوم کی حالت زار دیکھ کر ذاتی مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انشاء اللہ وقت بتائے گا ان کی ساری منصوبہ بندی خاک میں مل جائے گی اور یہ خود منہ کے بل گر پڑیں گے۔ اس لیے صوتحال کو درست کرنے اور تقویت پہنچانے کے لیے صاحبان اقتدار کو بھی قربانیاں دینی ہوں گی۔ قربانی صرف جان ہی کی نہیں ہوتی بلکہ مال و جان، چین و سکون، عیش و عشرت کی قربانیاں بھی دینا پڑتی ہے۔
صاحبان اقتدار کے پاس اب بھی وقت ہے کہ نان ایشوز پر وقت ضایع کرنے کے بجائے حالات کو سنوارنے، سدھارنے اور تقویت پہنچانے کی تدبیر کریں۔ موجودہ حکومت کے ان ابتدائی چند مہینوں میں اپل وطن کی زندگیوں میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آیا بلکہ دن بہ دن قوم کی حالت زار بگڑتی جا رہی ہے، صرف بیان بازیوں اور دعوؤں پر اکتفا کیا جارہا ہے، عملاً کچھ بھی تو ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔ عوام کی خدمت آپ کا فرض اولین ہے۔ ان کو ریلیف دیجیے، ان کو کچھ ڈلیور کیجیے تاکہ کچھ ہوتا نظر آئے اور عوام کی حالت زار سدھر جائے۔