’’بااثر ‘‘نامعلوم

سات ماہ کا بچہ اگر اپنی ماں کے پیٹ میں کسی وجہ سے مر جائے تو قیامت برپا ہو جاتی ہے ۔ ماں جیتے جی مر جاتی ہے۔


انیس منصوری December 16, 2013
[email protected]

سات ماہ کا بچہ اگر اپنی ماں کے پیٹ میں کسی وجہ سے مر جائے تو قیامت برپا ہو جاتی ہے ۔ ماں جیتے جی مر جاتی ہے ۔ مگر اُس سے بڑا ظلم اس وقت ہوتا ہے جب سات ماہ کے بچے کو ماں کے پیٹ میں قتل کر دیا جائے ۔ تو پھر ماں ہی نہیں پوری دنیا رونے لگتی ہے ۔ اخبار میں یہ خبر پڑتے ہی میری آنکھوں سے آنسو رواں تھے ۔ دماغ سوچ سوچ کر پھٹ رہا تھا کہ اُس ماں کو نیند کیسے آئی ہو گی؟ اُس کے باپ کے حلق سے نوالہ کیسے اترا ہو گا ؟ وہاں کے حکمران کس طرح آرام سے سو رہے ہونگے اور پھر یکدم ٹی وی اسکرین پر نگاہ گئی وہاں کے حکمران ہنستے مسکراتے اپنی تہذیب پر فخر کر رہے تھے ۔ خوبصورت اور مہنگے کپڑوں میں سب ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کر رہے تھے اور ان کی ''سلطنت'' میں ایک ماں تڑپ رہی تھی ۔

کراچی کا ایک پیلس ، جو ماضی میں تو لوگوں کی شان ظاہر کرتا تھا ۔ آج بھی اس ثقافتی ورثے میں عالیشان ناموں کی ہی تقاریب ہوتی ہیں۔ وہاں جب بار بار کہا جارہا تھا کہ ہم موہن جوداڑو جیسی عظیم ثقافت کے علمبردار ہیں تو اُسی وقت لاڑکانہ میں ایک ماں رو رہی تھیں ۔ گیرلو تھانہ کے خلاف مظاہرہ کیا جارہا تھا اور سات ماہ کا مردہ بیٹا اُن کے ہاتھ میں تھا ۔ مظاہرین کسی اور پر نہیں بلکہ پولیس پر الزام لگا رہے تھے کہ یہ بچہ انھوں نے قتل کیا ہے ۔ محل میں جس سندھ کی اعلیٰ قدروں کی بات کی جارہی تھی ۔ اسی اعلیٰ تاریخ میں ایک نام ماروی کا بھی ہے ۔ یہ بھی ماروی ہی تھی تو جو بڑی چاہ سے لاڑکانہ میں اپنے بچہ کودنیا کی نظروں سے بچا کر پیٹ میں چھپائے ہوئے تھی ۔ بس کچھ ہی وقت رہ گیا تھا کہ پولیس نے اُن کے گھر پر دھاوا بول دیا۔ مطلوب شخص نہ ملنے پر خواتین پر تشدد کیا ۔ اُن پر لاٹھیاں برسائیں ۔ ماروی کی حالت بگڑنے لگی ۔ اسے مقامی اسپتال میں پہنچایا گیا ۔ مگر اُس کا بچہ نہ بچ سکا ۔ بہت اچھا منظر تھا محل کا جہاں سندھ کی دھرتی کی بات کی جارہی تھی ۔ مگرماروی کو اب کون یقین دلائے گا کہ اُس کے بچے کے '' با اثر''قاتلوں کو سزا ہو گئی ۔

بڑی بڑی گاڑیوں میں سندھ کے تقریبا تمام طاقت ور لوگ موجود تھے۔ اُس تقریب میں ایک دوسرے سے گلے مل کر شاندار تقریب کی مبارکباد دی جا رہی تھی ۔ فخر سے بیان کیا جارہا تھا کہ سندھ میں کیا عظیم تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ پتہ نہیں کسی نے وہاں موجود وزیر اعلیٰ کو بتایا تھا یا نہیں کہ اُن کے آبائی علاقے خیرپور کے گاؤں ماچی وڈا میں اس وقت خوف کے سائے ہیں ۔ سولنگی برادری کے دو گروپوں میں تصادم کی وجہ سے کئی افراد ہلاک ہو چکے ہیں ۔ حکمرانوں کے محل میں سکیورٹی کے سخت انتظام تھے ۔ پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا تھا ۔ وزیر اعلیٰ اور محکمہ داخلہ نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ۔ مگر گھر کی آگ کو کون بجھاتا ؟ ججوں کے لیے تو ہم سب کہتے ہیں کہ اُن کے فیصلوں کو بولنا چاہیے ۔ مگر حکمرانوں کے لیے شاید یہ فارمولا ابھی تک ہمارے یہاں لاگو نہیں ہوتا ، کم از کم اب تو اپنا کام کرلیں ۔سنا ہے یہ لوگ بھی بہت '' بااثر '' ہیں جس کی وجہ سے وہاں کی انتظامیہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ۔

میرا خون ایک کلو نہیں بلکہ ایک من بڑھ جاتا جب اپنے حاکموں کو انڈیا میں دیکھا، اگر میں پنجاب سے آئی خبروں کو نہ دیکھ رہا ہوتا ۔ ہمارے حکمرانوں نے انڈیا کے پنجاب کی بہت تعریف کی وہاں کے ترقیاتی کاموں کا بھی بہت ذکر کیا ۔ لیکن اگر کوئی پوچھ لیتا کہ جناب لاہور میں ایک عورت نے خود کشی کی کوشش کیوں کی ؟ پھر کیا ہوتا ؟ یہ واقعہ سندھ سے مختلف نہیں ۔ وہاں معصوم بچے کو پیٹ میں قتل کر دیا گیا اور قاتلوں پر کوئی ہاتھ نہ ڈال سکا ۔ بالکل اسی طرح پنجاب کے گاؤں قلعہ کالروالا کی 35 سالہ خاتون کو سرعام اغواء کر لیا گیا ۔ اُس کے ساتھ زیادتی کی گئی ۔ اور یہ '' با اثر '' افراد اسے سڑک پر پھنک کر چلے گئے ۔ شوہر نے مظلوم عورت کا بھرپور ساتھ دیا ۔ وہ ہر جگہ انصاف کے لیے دھکے کھاتے رہے ۔ لیکن آپ کو تو معلوم ہو گا کہ اس وقت حکمران اور ان کے تمام خادم کتنے مصروف ہیں۔ دونوں میاں بیوی نے نارنگ منڈی میں مایوس ہو کر دیوار سے سر مار مار کر اپنا سر پھاڑ دیا ۔ پھر بھی کچھ نہ بنا تو عورت نے خود کو آگ لگانے کی کوشش کی ۔ پھر کہیں جا کر اس کا نوٹس لیا گیا ۔ اس طرح کے '' بااثر ''افراد انھیں حکمرانوں کے لیے اردگرد ہوتے ہیں یا پھر حکمرانوں کے اردگرد رہنے والوں کے قریب ہوتے ہیں ۔

''بااثر '' افراد کی ایک اور کہانی سنیے ۔ ان کی جو دنیا کی ''بااثر'' طاقت کو پیروں میں جھکانے کے لیے مشہور ہیں جن کا دعوی ہے کہ امریکا اب اُن کے گھٹنوں کو چھوڑ نہیں رہا ۔ اور اپنا نقصان بچانے کے لیے اتنے آنسو بہا رہا ہے کہ پشاور میں ایک نیا دریا جنم لینے لگا۔ مگر ان 'بااثر '' افراد کا کیا کریں جو امریکا کو شکست دینے والی سونامی کے ہاتھ بھی نہیں آتے ۔میں کیا بتاؤ ں کہ تحریک انصاف کے کارکن اپنی ہی حکومت کے وزیر بلدیات کے خلاف کیوں مظاہرہ کرتے ہیں؟ میں کون ہوتا ہوں جو یہ کہوں کہ پشاور میں '' بااثر'' لوگ اتنے ہوگئے ہیں کہ پولیس کو اغواء برائے تاوان کے لیے خصوصی ٹیم بنانی پڑ گئی ۔ امریکا کو تو بعد میں سبق سکھائیے گا پہلے جس جگہ آپ نے دھرنا دیا ہے وہاں سے ہشت نگری کا چکر بھی لگا لیجیے گا کہ وہاں اسی وقت نوجوان قتل ہوا اور ''بااثر'' قاتل فرار ہو گئے ۔ بالکل تنقید کیجیے گا مگر پشاور میں سفید ڈھیری کا بھی چکر لگا لیجیے گا کیونکہ وہاں ایک جوان لڑکی کو گھر میں گھس کر قتل کر دیا اور ''بااثر'' قاتل فرار ہو گئے ۔ مہنگائی پر طوفان برپا کر دیجیے گا لیکن پہلے ہری پور میں یہ تو معلوم کر لیں کہ نوجوان نے کیوں خود کشی کی ؟

صوابی اور جمرود میں پولیو ٹیموں پر حملہ ہوا ہے ۔ پولیو ٹیم کا ایک رضا کار اور دو پولیس اہلکار ''شہید '' ہو گئے ۔ لیکن ''بااثر '' افراد فرار ہو گئے ۔

اگر ان علاقوں میں جا کر کسی سے پوچھیں تو آپ کو اُن ''بااثر '' افراد کے گھر تک پہنچا دینگے جہاں تک ہمارا سونامی نہیں پہنچ سکتا ۔پوری سونامی انتظامیہ صرف اُس وقت متحرک ہوئی جب یہ اطلاع آئی کہ خیبر میڈیکل کالج کے ایک پروفیسر نے مبینہ طور پر ایک لڑکی کا حجاب کھینچا ہے ۔

باقاعدہ وزرا نے نوٹس لے لیا ۔ لیکن روز ہونے والے درجنوں واقعات پر آنکھیں موند لی ہیں کیونکہ وہاں '' بااثر '' لوگ بہت ہیں ۔

اللہ کے واسطے اپنا کام ٹھیک کر لیں دنیا کو سدھارنے اور بڑی بڑی باتیں کرنے سے پہلے لوگوں کو کم از کم جینے کا حق دے دیں تاکہ اخبارات میں اس ''بااثر '' لفظ کا خاتمہ ہو سکے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں