ایفائے عہد

اعلیٰ انسانی قدر جسے ہم فراموش کر بیٹھے ہیں


تحریم قاضی September 13, 2020
اعلیٰ انسانی قدر جسے ہم فراموش کر بیٹھے ہیں۔ فوٹو: فائل

HYDERABAD: کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ''وعدہ سب کچھ ہوتا ہے مگر وہ ایک بار ٹوٹ جائے تو پھر معذرت کوئی معنی نہیں رکھتی'' وعدہ نام ہے اس عہد کا جو اعتماد کی بنا پر کیا جاتا ہے۔

اعتماد ختم ہوجائے تو کچھ باقی نہیں رہتا۔ کہا جاتا ہے کہ نیک نیت افراد وعدے کرتے ہیں اور باکردار لوگ انہیں نبھاتے ہیں جوکہ بالکل درست ہے۔ کوئی شخص اپنے وعدے یا قول کا کس قدر پکا ہے اسی سے اس کی دیانت داری کا حساب لگایا جاسکتا ہے۔

دراصل آج کے دور میں نفسا نفسی کا عالم ہے جہاں ہر کوئی آگے بڑھنے کی دوڑ میں لگا ہے۔ اس دوران وہ ان تمام پہلوؤں کو بھی نظر انداز کردیتا ہے جوکہ معاشرے میں اس کی عزت و حرمت اور امانت و دیانت کی ضمانت ہوتے ہیں۔ بچہ جس روز سے پیدا ہوتا ہے اسی روز سے اس کی تربیت کا آغاز ہوجاتا ہے۔ اب اس تربیت میں سب سے گہرا اثر اس کے والدین کی شخصیت کا ہوتا ہے۔ بچہ ہر چیز کو غور و خوض سے دیکھتا سنتا اور سمجھتا ہے۔

اب اس کے سامنے جو بھی پہلو رکھا جائے اور جس انداز سے رکھا جائے وہ اسے ہی درست سمجھے گا کیونکہ ابھی اس کی سوچ پختگی کی سرحدوں کو نہیں چھوپائی۔ درحقیقت جو سوچیں، عقائد اور نظریات بچپن سے دیکھنے سننے کو ملتے ہیں وہ شعور و لاشعور میں جابیٹھتے ہیں۔ عہد حاضر کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ہر کوئی پیسہ کمانے کی مشین بن کر رہ گیا ہے۔

اس بات کی اہمیت سے مفر ممکن نہیں کہ زندگی کا پہیہ چلانے کے لیے پیسے اور وسائل درکار ہیں مگر پیسے کو ہی زندگی کی اوین خواہش بنالینا قطعاً درست نہیں۔ والدین بچوں میں یہ صحت مند عادات پروان ہی نہیں چڑھنے دیتے کہ وہ وعدہ وفا بنے اور دیانت دار بنے، بجائے اس کے والدین چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے بچے کو جھوٹ بولنا سکھا دیتے ہیں۔

مثلاً اگر وہ کسی سے ملنا نہیں چاہتے تو دوران فون کوئی نہ کوئی بہانہ بنالیتے ہیں یا کوئی ایسا عذر تراش لیتے ہیں جس سے ان کی جان بچ جائے بلا سوچے سمجھے کہ ان کی بغل میں بیٹھا کھیلتا بچہ بظاہر تو کھلونوں میں مگن ہے مگر درحقیقت وہ آپ کے ایک ایک لفظ کو توجہ سے سن اور سمجھ رہا ہے اور جو عذر تراش کر آپ نے کسی کو ٹالا ہے مت بھولیے آپ نے اپنے بچے کو بھی یہ تربیت دے دی ہے کہ وہ جھوٹ بول سکتا ہے۔

کہاں شیخ عبدالقادر جیلانی کی والدہ تھیں جن کی تربیت میں جھوٹ نہ بولنے کی نصیحت نے ڈاکوؤں کے سردار کی زندگی بدل دی۔ جب چھوٹے سے بچے نے اپنی ماں کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے اپنے کرتے میں سلی اشرفیوں کی بابت اپنے مال کے لٹ جانے کا ڈر بھلائے اوروالدہ کے قول کی پاسداری کا بھرم رکھتے ایفائے عہد کی مثال قائم کی۔ پھر حضرت گنج شکر صاحب کی والدہ کی مثال جو ایک روز مصلے کے نیچے شکر رکھنا بھول گئیں تو اس ڈر سے کہ اگر آج ان کے بچے کو شکر نہ ملی تو وہ ماں کی بات کا اعتبار نہ کرے گا۔ بارگاہ اقدس میں دعا مانگ ڈالی اور پھر رب جلیل نے دعا کو رد نہ کیا بلکہ اپنے کن سے مصلے تلے شکر پہنچادی۔

مذہب کی بات کریں تو اللہ کی صفات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ وعدہ وفا کرتا ہے۔ متعدد جگہوں پر اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ وہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔ اس پر مزید زور دیتے اور اعتماد بخشتے ہوئے سورۃ الحج کی آیت 47 میں فرماتا ہے کہ ''اللہ تعالیٰ ہرگز اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔ پھر اپنے بندوں کو بھی وعدہ پورا کرنے کی بھرپور تلقین کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ ''اور وعدہ پورا کیا کرو (قیامت کے دن) وعدے کے بارے میں پوچھ ہوگی۔

(نبی اسرائیل34)۔ ساتھ ہی اپنے راست باز بندوں کی یہ صفت بھی سورۃ بقرہ میں بیان فرمادی کہ ''اور جب وعدہ کرتے ہیں تو اسے پورا کرتے ہیں'' یعنی صرف وعدے کرلینے ہی کافی نہیں بلکہ ان کو نبھانا اصل چیز ہے۔ اللہ نے آج تک جس قوم پر بھی عذاب نازل کیا وہ اپنی عبادت نہ کرنے کی پاداش میں نازل کیا بلکہ اپنے بندوں کے ساتھ ظلم، زیادتی، بد دیانتی، عدل و انصاف کے تقاضوں کے پورا نہ کرنے اور قول و فعل کے تضاد کی بنا پر کیا۔زندگی کا کوئی پہلو بھی اٹھا کردیکھ لیجئے ہر ہر لمحے اور موڑ پر انسان کسی نئے عہد کا امین ہوتا ہے۔ دیکھا جائے تو انسان کی یہ زندگی بھی ایک عہد ہے۔

عہد الست کی جانچ کے لیے ایک امتحان گاہ۔ وہی عہد الست جو اللہ نے بنی آدم سے اس جہاں میں آنے سے قبل لیا تھا کہ وہ شیطان کی بندگی نہ کریں گے اور اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے۔

انسان کے رشتے اس کے تعلق اور بقیہ معاملات بھی عہد کے متقاضی ہوتے ہیں۔ دراصل یہ عہد ہی ہے جو انسان کو انسانوں سے بندھ کررکھتا ہے۔ اپنی وفادارایاں اپنی ذات کسی ایک کے ساتھ منسوب کرنے کا عہد دراصل شادی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ لوگ شادی کو بس ایک معاشرتی ضرورت سمجھ کر اس کے اصل مفہوم کو فراموش کردیتے ہے۔ رشتوں کا تقدس کبھی ایکسٹرا میریٹل افیئر تو کبھی طلاق کی صورت پامال کیا جاتا ہے۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تعلق خصوصاً میاں بیوی کا تعلق ایک عہد ہے جسے ایفا کرنا دونوں کی برابر ذمہ داری ہے۔

پڑھائی کی ہی مثال لے لیجئے۔ اگر کوئی طالب علم دل لگا کر پڑھتا نہیں محنت نہیں کرتا تو وہ اپنے عہد سے پھر ہا ہے۔ اس عہد شکنی کی سزا میں جہاں وہ علم سے محروم رہ جائے گا ونہی وہ اساتذہ کی دعاؤں اور خصوصی تربیت سے بھی بے بہرہ رہے گا جو زندگی کے ہر مقام پر مشعل راہ ہوتی ہیں۔

اگر کوئی نوکری کرتا ہے اور وہ اپنے کام سے دیانت دار نہیں، وقت پر دفتر میں حاضر نہیں ہوتا اس سے وابستہ لوگ اس کی وجہ سے پریشانی اور تکلیف اٹھاتے ہیں تو یقین جانیے وہ بددیانت ہی نہیں بدبخت بھی ہے جو اللہ سے رزق کے معاملے میں عہد شکنی کا مرتکب ہوا ہے۔ جان لیجئے کے اللہ نے آپ کے ذمہ جو جو ذمہ داریاں لگا رکھی ہیں ان پر آپ کے اور اللہ کے درمیان ایک خاموش معاہدہ ہوا ہے۔

اب اگر اس میں کوئی کوتاہی ہوتی ہے تو اس کے ذمہ دار آپ ہیں اور یہ تو اللہ بتا ہی چکا ہے کہ ہر شخص اپنی رعیت کا ذمہ دار ہوگا اور اس کی بابت اس شخص سے پوچھ گچھ ہوگی۔ انسان کا اپنے ایمان، عزت و آبرو کی حفاظت کرنا بھی اس عہد کی شقوں میں سے ایک ہے جو وہ رب سے کرتا ہے۔ توحید،رسالت اور عقیدہ ختم النبوت پر ایمان ہی وہ گواہی، وہ عہد ہے جو اسے اللہ سے جوڑتا ہے۔

کلمہ طیبہ اسی کا اقرار تو ہے مگر افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ دور حاضر میں مسلمانوں کی اکثریت خصوصاً نوجوانوں کی اکثریت ایفائے عہد کے معنی و مفہوم سے ناآشنا ہے اور ایک ایسی مصنوعی رنگوں بھری زندگی کے حصول کے پیچھے اندھا دھند دوڑ رہی ہے جس کا حاصل خسارے ہی خسارے ہیں۔ ناصرف اس جہاں میں بلکہ اگلے جہاں میں بھی، جہاں زندگی ہی زندگی ہے جبکہ کوئی موت نہ ہوگی۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ وعدوں کو ایفاء کرنے کی عادت اپنائیں۔ وعدہ توڑنا برا ہے مگر اس سے بھی برا یہ ہے کہ وہ آپ کو ہی توڑ ڈالے۔

مختصر سی زندگی کو اپنے اور دوسروں کے لیے باعث راحت بنائیں۔ یہ طے کرلیں کہ زندگی میں کیا کرنا ہے اور کیوں کرنا ہے۔ اگر یہ طے ہوجائے تو خود سے اسے پورا کرنے کا وعدہ کیجئے۔ اور رب سے اسے ایفاء کرنے کی دعا مانگنے کے ساتھ خود کو بھی باور کرواتے رہئے کہ آپ عہد شکن نہیں ہوسکتے۔ زندگی گلزار ہوجائے گی۔

وعدہ کیسے ایفاء کریں؟
کیا آپ نے بھی کبھی وعدہ کیا اور پھر اس مشکل میں پھنس گئے کہ آخر اسے پورا کیسے کیا جائے؟ یقینا ہم سب زندگی میں کبھی نہ کبھی ایسی صورتحال کا سامنا کرتے ہیں۔ مگر اس بات کو یاد رکھیں کہ اگر آپ اپنی زندگی میں چھوٹے سے چھوٹے قول و قرار کو پورا کرتے ہیں تو یہ آپ کی شخصیت سازی اور بلند کرداری کی وجہ سے بنتا ہے۔ اگر آپ بھی وعدہ کی پاسداری کرنا چاہتے ہیں تو درجہ ذیل باتوں پر عمل کیجئے۔

٭ سمجھیں، اپنے عزم کا اظہار کریں
کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اس کی نوعیت کو سمجھیں اور پھر اسے کرنے کے لیے اپنے عزم کا اظہار کریں۔ جیسے عموماً لوگوں کے پاس اتوار کا دن ایسا ہوتا ہے جس کے لیے وہ اپنے کچھ کام کرنے کا اعادہ کرتے ہیں۔ مثلاً گھر کی تفصیلی صفائی کرنا، دوستوں کے ساتھ ملاقات طے کرنا یا اپنا کوئی دیرینہ نامکمل کام تکمیل دینا۔ اس کا سادہ اور آسان حل یہ ہے کہ اپنے آپ سے سوال کریں کیا میں یہ کام کرسکتا ہوں؟ کیسے اور اس کو کرنا کتنی اہمیت کا حامل ہے؟ مجھے یہ کام کتنی دیر میں مکمل کرنا ہوگا؟

مجھے یہ کام سرانجام دینے میں کتنا وقت درکار ہوگا اور کونسی چیزیں درکار ہوں گی؟ اپنی صلاحیتوں کے حساب سے اس کو سرنجام دینے کے لیے اعادہ کرلیں۔

٭ ایک اور اہم کام یہ کہ ہم اکثر مصروفیات زندگی میں الجھ کر بھول جاتے ہیں کہ فلاں کام کرنا تھا۔ اس کے لیے آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ کہیں تحریر کریں کہ آپ نے کیا کام کرنا ہے یا اپنے فون پر ایک ریمائنڈر لگایں تاکہ آپ بھول نہ سکیں۔ لکھ کر رکھنے سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بات آپ کی یادداشت میں محفوظ ہوجاتی ہے۔

٭ اپنے وعدے کو پورا کرنے کے لیے بھی ایک پلان ترتیب دیں جس میں دن، وقت، مقام کا تعین کیا جاسکے۔ کامیاب لوگ ہمیشہ بہترین حکمت عملی سے کام لیتے ہیں جس سے وقت اور وسائل دونوں کی بچت ہوتی ہے۔

٭ وعدہ پورا کریں
اب اکثر اوقات لوگ یہ سمجھتے ہی کہ انہوں نے وعدہ پورا کرنا ہے اور اس کے لیے وہ کچھ بھی کریں گے۔ مگر وقت حالات اور واقعات ہمیشہ انسان کے بس میں نہیں ہوتے۔ اگر آپ کو اپنا کوئی وعدہ ایفاء کرنے میں دقت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے تو دوسرے فرد سے بات کریں اور اسے بتائیں کہ آپ کی نیت میں کوئی کھوٹ نہیں بس حالات ساتھ نہیں دے رہے۔

لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس صورت میں ایمانداری اہم شرط ہے۔ اگر آپ حق پر ہوں اور نیک نیت ہوں تو اللہ بھی آپ کا ساتھ دیتا ہے اور کائنات کی ساری مثبت توانائیاں آپ کے ساتھ نتھی ہوجاتی ہیں۔ بعض اوقات انسان خود سے بھی کوئی وعدہ کرتا ہے یا اپنے کام سے متعلق مگر اسے پورا نہیں کرپارہا ہوتا۔ تو ایسی صورت میں دوستوں یا فیملی سے بھی اپنا مسئلہ بتاکر مدد مانگی جاسکتی ہے کہ وہ آپ کو موٹیویٹ کریں۔ ہر صورت اپنا وعدہ پورا کرنے کی کوشش کریں۔ اگر کسی صورت میں آپ وعدہ پورا نہیں کرسکے تو دوسرے فرد سے معافی مانگ لیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں