کراچی پیکیج آغاز پر ہی انجام سے دوچار
تین سالہ گیارہ سوارب روپے پروگرام کی تفصیلات میں کراچی کے جَلتے بَلتے ظاہری مسائل کا جن بوتل میں بند کرنے کاوظیفہ تھا۔
کراچی ریفارمیشن پیکیج نے بھی عجیب قسمت پائی ہے۔ اس کی تشکیل طوہاً کرہاً اس وقت ہوئی جب کراچی بارشوں میں ڈوب گیا، پانی نشیبی علاقوں میں نچلابیٹھا رہتا تو شاید اس پیکیج کی بھی نوبت نہ آتی، مگر اس بار تو بپھرے ہوئے بے مروت پانی نے حد کردی، کراچی کی پوش اور مہنگی ترین ہاؤسنگ سوسائٹیوں میںجا کر پاؤں پسار بیٹھا۔ پوش علاقے کے لوگ بلبلا کر باہر نکل آئے۔ تاجر اور صنعت کار چلّا اٹھے۔
میڈیا ، عوام ، سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کی داد فریاد کے بعد بالآخر صوبائی اور قومی حکومت سر جوڑ کر بیٹھیں اور بقول ان کے اپنے ایک تاریخی پیکیج کا اعلان کیا ۔
تین سالہ گیارہ سو ارب روپے پروگرام کی تفصیلات میں کراچی کے جَلتے بَلتے ظاہری مسائل کا جِن بوتل میں بند کرنے کا وظیفہ تھا۔ مگر پھر ہوا کچھ یوں کہ مسائل کا جِن اور بوتل تو رہ گئے ایک طرف، صوبائی اور وفاقی حکومت دوسرے ہی دن ایک دوسرے سے دُو بدُو ہو گئیں ۔سو وہی روزمرہ معمول کی تُوتَڑاخ پھر سے شروع ہو گئی۔
ہم نے بند کمرے میں یہ طے کیا تھا کہ اس وضاحت کی ضرورت نہیں کہ صوبائی حکومت نے اس تین سالہ پیکیج میں کتنا حصہ ڈالنا ہے اور وفاقی حکومت نے کتنا، لیکن اب ہمیں مجبوراً وضاحت کرنا پڑ رہی ہے کہ وفاق اس پیکیج کا 62% ادا کرے گا۔ وفاقی وزیر اسد عمر بولے۔اُدھر صوبائی حکومت کے مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ آٹھ سو ارب ہم ڈالیں اور کریڈٹ لے وفاقی حکومت ، یہ تو ہم ہونے نہیں دیں گے۔
کریڈٹ کی یہ چھینا جھپٹی اور ایک دوسرے پر بے اعتمادی کراچی کی گورننس کا ایک چھوٹا سا ٹریلر ہے۔ سیاسی محاذ آرائی سے ہٹ کر دیکھیں تو حقیقت یہ ہے کہ کراچی کے بنیادی مسائل گزشتہ تین چار دہائیوں سے حل ہونے کے بجائے مزید دگرگوں ہوئے ہیں۔
بارش کے سیلابی پانی کے عذاب سے ہی سہی مگر یہ احساس تو جاگا کہ شہر کے بے رحمانہ مسلسل پھیلاؤ اور نالوں پر قبضہ گیری کے سبب پانی کے ڈرینیج کا جنگی بنیادوں پر ایک ہمہ گیر حل درکار ہے، صاف پانی کی فراہمی، ماس ٹرانسپورٹ اور کچرا اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کے کام دھندے کو نمٹائے بغیر کراچی ایک صاف ستھرا اور قابل رہائش شہر نہیں بن سکتا۔ پیکیج پر عمل درآمد کے لیے میئر کراچی کی مدت ختم ہونے پر ایک ایڈمنسٹریٹر کے نام پر اتفاق بھی ہوگیا۔ مگر یہ سب دھرے کا دھرا رہ گیا۔
ایک لمحے کو مانے لیتے ہیں کہ دونوں پارٹیوں میں وقتی بھائی چارہ قائم رہتا اور اس پیکیج پر اس کی روح کے مطابق عمل بھی ہو جاتا، توبھی کیاکراچی میٹروپولیٹن شہر کے مسائل اس حدتک حل ہو پاتے اور اس کی روزمرہ کی نظامت اس درجے پر فائز ہو جاتی کہ یہاں کے باسی سکھ چین سے رہنے کے قابل ہوجاتے؟ شاید نہیں۔ کیوں؟ جواب پیچیدہ ہے لیکن فی الحال چند بنیادی عناصر کا ذکر کیے لیتے ہیں۔
ایک بڑا مسئلہ اس کی سیاسی حیثیت اور شناخت کا ہے۔ ملک کی معیشت میں مرکزی کردار اور سب سے بڑا شہر ہونے کے ناتے کراچی کی سیاست پر قبضے کی خواہش نے تمام سیاسی قوتوں کو اپنا دیوانہ بنا رکھا ہے۔ ایک پارٹی نے گزشتہ چالیس سال سے زائد جس طرح اس پر بلا شرکت غیرے سیاست اور سیاہ و سفید کو اپنے مخصوص انداز میں چلانے کی کوشش کی اس نے اس شہر کی اجتماعیت پر شدید اثر چھوڑا ہے۔
سندھ کی بڑی پارٹی پی پی پی کو اس شہر میں اکثریت نہیں ملی مگر سندھ کی حکومت بنانے کا موقع ملا تو بیشتر اوقات سندھ اور کراچی کی الگ شناخت کا ٹکراؤ وجہ نزاع رہا، مقامی اور صوبائی حکومت کی محاذ آرائی میں شہر کے نام پر سیاسی اور انتظامی کھینچا تانی ہوتی رہی، وسائل کی چھینا جھپٹی اور کلیدی اداروں پر تسلط کے لیے ہر جتن روا رکھا گیا۔ اس وقت تین سیاسی پارٹیاں اس شہر کی سیاسی ملکیت کی دعوے دار ہیں۔ ملک کی سیاست میں اس شہر کا کردار بیشتر اوقات فیصلہ کن رہا ہے۔ اکنامکس کی زبان میں کہیے تو یہ شہر اپنی مرکزیت کی سزا پا رہا ہے Curse of being so vital۔
کراچی شہر کا موجودہ سائزمتقاضی ہے کہ اسے اُسی انداز میں چلایا جائے جس طرح اس سائز کے دیگر شہر دنیا میں چلائے جا رہے ہیں، نیویارک، لندن، سئیول وغیرہ۔ ان میٹروپولیٹن شہروں کی مقامی حکومت نیم خودمختار ہوتی ہیں، ان کے انتخاب، وسائل اور اختیارات کا انحصار صوبائی اور وفاقی حکومت کی خوشنودی پر ہوتا ہے نہ ہی وہ ان کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ کراچی میں مقامی حکومت تو کئی بار بنی مگر سیاسی تعصبات کا رنگ بہت انمٹ اور گہرا تھا۔ کراچی کی شہری حکومت کو نیم خود مختار حیثیت دینے کی ضرورت ہے جس کے وسائل اور اختیارات کی واضح تقسیم اور تحفظ ہو۔
جس انداز میں سیاست کے نام پر اس شہر کی ہر شئے پر تسلط قائم کرنے کی خوفناک تاریخ رہی ہے، بہتر ہوگا کہ سینیٹ کی طرزپر اس شہر کی ایک کونسل آف کامن انٹرسٹ ہو جس میں ٹیکنوکریٹس پارٹی لائن سے ماوراء منتخب کیے جائیں ، یہ کونسل ایک watch dog ادارہ ہو جو شہر کی نظامت میں اجتماعیت کو ممکن بنائے اور سیاسی تعصب یا تسلط کی صورت میں ایک سیفٹی والو کا کام دے۔
ماڈرن اربن پلاننگ کراچی ایسے شہر کے لیے ایک مسلسل عمل اور ضرورت ہے مگر سیاسی تسلط، قبضہ گیری اور کرپشن نے اسے پنپنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ شہرہمیشہ نہیں پھیل سکتے مگر کراچی مسلسل پھیل کر بے ہنگم ہوتا جا رہا ہے،ماضی میں چائنا کٹنگ، ٹارگٹ کلنگ، گینگ وار، اسلحے اور منشیات جیسی بے رحم وارداتوں نے قانونی اور انتظامی ڈھانچے کو مزید ادھیڑ دیا ہے۔ ایسے میں کراچی کے اس دیر آید درست آید ریفارمیشن پیکیج کاآغاز ہی میں یہ انجام یقیناًکراچی اور پورے ملک کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔