کیا پاکستانی فلمیں بھارت میں چلنے کے قابل نہیں ہیں
پاکستانی فلم پروڈیوسرز کا کہنا تھا کہ اگر بھارتی فلمیں پاکستان میں دکھائی جائیں تو پاکستانی فلموں کو بھی بھارت میں۔۔۔
ISLAMABAD:
پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کوئی نئی بات نہیں، آزادی کے بعد سے اب تک بھارت کو ہماری یہ خوشی ہضم نہیں ہوئی وہ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا کہ پاکستان کو کسی طرح نقصان پہنچے، ہر شعبہ کی تاریخ اس سے بھری پڑی ہے جب بھارت دشمنی نے نقصان نہ پہنچایا ہو، ثقافتی رشتوں کو مضبوط بنانے اور اس کی بہتری کی بات تو بہت کی جاتی ہے اس میں کبھی کوئی سچائی نظر نہیں آئی۔
بھارت کے انتہاء پسند ہندو کسی بھی صورت پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو بہتر بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ جب بھی پاکستان کے فنکار بھارت گئے یا انہوں نے وہاں کی فلموں اور ڈراموں میں کام کرنا چاہا میوزک کنسرٹ کرنے کی منصوبہ بندی کی پاکستانی فنکاروں اور آرگنائز کے ساتھ بہت برا سلوک کیا گیا، متعدد فنکاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ہندو انتہاء پسندوں کی اس حرکت پر بھارتی حکومت نے کوئی نوٹس نہیں لیا بلکہ خاموشی اختیار کرلی، ثقافتی محاذ پر خاص طور سے ہمیشہ پاکستانیوں کو نقصان پہنچایا گیا۔
بھارتی ٹیلی ویژن ڈراموں کے ذریعہ جس طرح وہ ہماری زندگی میں داخل ہوئے اور جس طرح ہماری نئی نسل کو گمراہ کرنے اور ان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی وہ کسی سے ڈھکی چپھی بات نہیں ہے ہمارے ٹیلی ویژن ڈراموں نے بھارتی ثقافتی حملے کو ناکام بناتے ہوئے انتہائی دیدہ دلیری سے مقابلہ کیا، بھارت کے کسی بھی چینل نے آج تک نہ تو کسی پاکستانی ڈرامہ پیش کیا نہ اور ہی کوئی پروگرام بلکہ کسی بھی پاکستانی فنکاروں کو کبھی انھوں نے اس قابل نہیں سمجھا کہ انہیں اپنے کسی پروگرام میں مدعو کرتے، لیکن اس کے بر عکس ہمارے ٹی وی چینلز بھارتی پروگرام دکھا کر فخر محسوس کرتے ہیں۔
بھارتی فنکاروں کو ہیرو بناکر عوام کے سامنے پیش کرتے رہے ہیں، بھارت میں شاید کسی فنکار کو کوئی اتنا نہیں جانتے ہوں جتنا انہیں پاکستان میں پہچانا جاتا ہے لیکن ہمارے فنکار اور گلوکار اس کھلی بھارت دشمنی کے باوجود بھارت میں جاکر کام کرنا فخر سمجھتے ہیں وہ بھارتی فلموں اور ڈراموں میں کام کرنے کے بعد اپنے آپ کو دنیا کا بہترین اداکار سمجھنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ انا پرستی اور ایک محب وطن ہونے کا دعوی کرنے والے یہ لوگ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ بھارت میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے وہ تو اپنے مفاد کو مد نظر رکھ کر وہ سب کچھ کرلیتے ہیں جو وہاں کے فنکار اپنی توہین سمجھتے ہیں ہمارے ہاں کے فنکار اکثر بیان دیتے ہیں کہ ہم پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستی کے رشتوں کو مضبوط بنانے کے لیے ایک پل کا کام کررہے ہیں لیکن یہ یک طرفہ ٹریفک کیوں، بھارتی فنکاروں نے اس کا کبھی عملی مظاہرہ نہیں کیا۔
انہوں نے کبھی پاکستانی فلموں اور ڈراموں میں کام کرنے کا ارادہ ظاہر نہیں کیا، انہیں جب بھی کسی ڈرامے یا فلم میں کام کرنے کی پیش کش کی گئی انہوں نے ٹال مٹول سے کام لیکر انکار کردیا ۔اس کے باوجود بھارتی گلوکار جب بھی پاکستان آئے انہوں نے پاکستانی عوام کو بے وقوف بناکر بڑے بڑے لائیو کنسرٹ کیے اور لاکھوں روپے پاکستان سے کما کر چلے گئے، ہمارے گلوکاروں نے اس ڈر خوف سے کہ پاکستان میں ہمارے میوزک البم ریلیز ہونے سے نقصان ہورہا ہے انھوں نے بھارت جاکر اپنے البم تیار کیے اور پاکستانی پیسہ بھارت کو دے کر آگئے، بھارتی میوزک انڈسٹری کے لوگوں نے پاکستانی فنکاروں سے خوب فائدہ اٹھایا ، بھارت نے بہترین ڈپلومسی سے پاکستان میں اپنی فلمیں چلانے کی اجازت حاصل کرلی اور ان فلموں نے پاکستانی فلم انڈسٹری کو یرغمال بنا لیا اور بیڑہ غرق کردیا، بھارتی فلموں نے پاکستان میں کرورڑوں روپے کا بزنس کرکے پاکستانی سنیماؤں پر قبضہ جما لیا، جس کی وجہ ہمارے سنیما مالکان نے بھارت کے مقابلے میں پاکستانی فلموں کو یکسر یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ پاکستانی میں ایسی کون سی بات ہے یا خوبی جو لوگ سنیما میں آکر ان فلموں کو دیکھیں،جب فلم انڈسٹری کے لوگوں نے اس پر احتجاج کیا تو ان کی کوئی بات نہیں سنی گئی۔
پاکستانی فلم پروڈیوسرز کا کہنا تھا کہ اگر بھارتی فلمیں پاکستان میں دکھائی جائیں تو پاکستانی فلموں کو بھی بھارت میں نمائش کی اجازت دی جائے لیکن اسے ایک مذاق سمجھ کراہمیت نہیں دی گئی۔ حکومت پاکستان نے بھی فلم انڈسٹری کے اس مطالبہ کو اہمیت نہیں دی اگر حکومت چاہتی تو بھارتی فلموں کی نمائش کے بدلے پاکستانی فلموں کی بھارت میں نمائش کی بات منوائی جاسکتی تھی، اس پر کہا گیا کہ پاکستانی فلمیں اس قابل نہیں ہیں کہ وہ بھارت میں دکھائی جاسکیں جتنی لاگت میں پاکستان میں ایک فلم بنتی ہے۔
اتنا معاوضہ تو ہمارے ہاں تیسرے درجے کے فنکار کو ملتا ہے کہاں دوسو کروڑ کا بزنس کرنے والی فلمیں اور کہاں ہماری فلم جو سنیما کا کرایہ بھی پورا نہ کرسکے، پاکستان فلم انڈسٹری سے وابستہ پرانے لوگ تو ہمت ہار بیٹھے لیکن ہمارے ملک کے نوجوان جنھوں نے ٹیلی ویژن انڈسٹری میں بھارت کو بری طرح شکست دے دی اور ان کے ڈراموں کو پاکستانی عوام سے نکال باہر کیا انھوں نے کمر کس لی اور فیصلہ کرلیا کہ وہ بھارت کو اچھی اور معیاری فلم بنا کر منہ توڑ جواب دیں گے، یہ چیلنج بہت مشکل تھا لیکن ناممکن نہیں کیونکہ کروڑوں روپے سے تیار ہونے والی میگا سیریل اور سوپ نے ثابت کردیا کہ وہ فلم انڈسٹری میں بھی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں،
پاکستان میں میگا پروجیکٹ پر کام کرکے اچھی اور معیاری فلم بنا سکتے ہیں اور پھر اس سوچ کو اس وقت تقویت ملی جبکہ چند سر پھروں نے سب کچھ داؤ پر لگا کر میدان میں قدم رکھ دیا، ابتدا تو فلم '' خدا کے لیے'' اور '' بول'' سے ہوئی، جاوید شیخ کی فلم نے بھی اس میں اہم کردار ادا کیا لیکن شعیب منصور نے دو فلمیں بنا کر ثابت کردیا کہ ہم بین الاقوامی معیار کی فلمیں بنا سکتے ہیں شعیب منصور کو نوجوانوں نے اپنا آئیڈل بنا کر سوچ میں تبدیلی لانے کا فیصلہ کیا، ان نوجوان باہمت لوگوں کا خیال تھا کہ جب ہم اپنے بہترین ٹی وی ڈراموں سے کامیابی حاصل کرسکتے تو ایک عمدہ اور اچھی فلم کیوں نہیں بنا سکتے، بھارتی کی اس سوچ کہ پاکستانی فلم بھارت میں نہیں چل سکتی، ایک انقلاب برپا کردیا، ہماری فلموں کو کوشش کے باوجود بھارت میں نہیں چلنے دیا گیا کسی طرح جب ہماری فلمیں وہاں پہنچ گئیں تو وہ ان سے اس قدر خوف زدہ ہوئے کہ ان فلموں کے خلاف سازش کرکے انہیں جلد از جلد سنیماؤں سے اتار دیا لیکن بھارت میںجن لوگوں نے پاکستانی فلموں کو دیکھا وہ تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے،
سید نور، شہزاد رفیق اور شعیب منصور نے اپنے طور پر پاکستانی فلموں کی بھارت میں نمائش ممکن بنانے کی بھر پور کوشش کی ،اگر حکومت وقت پاکستانی فلمیں بنانے والوں کا ساتھ دیتی تو شاید یہ لوگ اپنے مقصد میں ضرور کامیاب ہوجاتے بہر حال اب وقت آگیا کہ پاکستان میں بننے والی فلمیں یہ ثابت کریں گے کہ وہ بھارت سے مقابلہ ہی نہیں انھیں شکست دینے کی بھی صلاحیت رکھتی ہیں پاکستانی فلموں میں ہوں شاہد آفریدی، چنبیلی، زندہ بھاگ اور وار نے جس طرح بھارت چیلنج کو قبول کیا ہے اور ثابت کیا کہ اب مقابلہ کا وقت آگیا ہے اب بھارت میں ہی نہیں دنیا بھر میں پاکستانی فلموں کوسبقت حاصل ہوگی، بین الاقوامی فلمی میلوں میں پاکستانی فلموں کی زبردست پذیرائی کے بعد بولی وڈ فلم انڈسٹری کوجو جھٹکا لگا ہے وہ ابھی ابتداء ہے۔
جس عزم اور ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارے نوجوانوں نے بیڑہ اٹھایا ہے وہ بہت خوش آئند ہے ان کے حوصلے بتاتے ہیں کہ آنے والے دنوں یہی لوگ پاکستان کی فلم انڈسٹری کی دنیا بھر میں عزت اور شہرت کا سبب بنیں گے اور یہ ثابت کریں گے پاکستانی فلمیں بھارت میں نہ صرف چل سکتی ہیں بلکہ ان کا مقابلہ کرنے کی بھی صلاحیت رکھتی ہیں یہ فیصلہ آنے والوں وقت کرے گا کہ دنیا میں اب بھارتی کی اجارہ داری کا خاتمہ ہونے والا ہے اور بہترین، معیاری اور عمدہ پاکستانی فلمیں دنیا میں راج کرنے کی تیاریاں مکمل کرچکی ہے!!!
پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کوئی نئی بات نہیں، آزادی کے بعد سے اب تک بھارت کو ہماری یہ خوشی ہضم نہیں ہوئی وہ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا کہ پاکستان کو کسی طرح نقصان پہنچے، ہر شعبہ کی تاریخ اس سے بھری پڑی ہے جب بھارت دشمنی نے نقصان نہ پہنچایا ہو، ثقافتی رشتوں کو مضبوط بنانے اور اس کی بہتری کی بات تو بہت کی جاتی ہے اس میں کبھی کوئی سچائی نظر نہیں آئی۔
بھارت کے انتہاء پسند ہندو کسی بھی صورت پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو بہتر بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ جب بھی پاکستان کے فنکار بھارت گئے یا انہوں نے وہاں کی فلموں اور ڈراموں میں کام کرنا چاہا میوزک کنسرٹ کرنے کی منصوبہ بندی کی پاکستانی فنکاروں اور آرگنائز کے ساتھ بہت برا سلوک کیا گیا، متعدد فنکاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ہندو انتہاء پسندوں کی اس حرکت پر بھارتی حکومت نے کوئی نوٹس نہیں لیا بلکہ خاموشی اختیار کرلی، ثقافتی محاذ پر خاص طور سے ہمیشہ پاکستانیوں کو نقصان پہنچایا گیا۔
بھارتی ٹیلی ویژن ڈراموں کے ذریعہ جس طرح وہ ہماری زندگی میں داخل ہوئے اور جس طرح ہماری نئی نسل کو گمراہ کرنے اور ان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی وہ کسی سے ڈھکی چپھی بات نہیں ہے ہمارے ٹیلی ویژن ڈراموں نے بھارتی ثقافتی حملے کو ناکام بناتے ہوئے انتہائی دیدہ دلیری سے مقابلہ کیا، بھارت کے کسی بھی چینل نے آج تک نہ تو کسی پاکستانی ڈرامہ پیش کیا نہ اور ہی کوئی پروگرام بلکہ کسی بھی پاکستانی فنکاروں کو کبھی انھوں نے اس قابل نہیں سمجھا کہ انہیں اپنے کسی پروگرام میں مدعو کرتے، لیکن اس کے بر عکس ہمارے ٹی وی چینلز بھارتی پروگرام دکھا کر فخر محسوس کرتے ہیں۔
بھارتی فنکاروں کو ہیرو بناکر عوام کے سامنے پیش کرتے رہے ہیں، بھارت میں شاید کسی فنکار کو کوئی اتنا نہیں جانتے ہوں جتنا انہیں پاکستان میں پہچانا جاتا ہے لیکن ہمارے فنکار اور گلوکار اس کھلی بھارت دشمنی کے باوجود بھارت میں جاکر کام کرنا فخر سمجھتے ہیں وہ بھارتی فلموں اور ڈراموں میں کام کرنے کے بعد اپنے آپ کو دنیا کا بہترین اداکار سمجھنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ انا پرستی اور ایک محب وطن ہونے کا دعوی کرنے والے یہ لوگ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ بھارت میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے وہ تو اپنے مفاد کو مد نظر رکھ کر وہ سب کچھ کرلیتے ہیں جو وہاں کے فنکار اپنی توہین سمجھتے ہیں ہمارے ہاں کے فنکار اکثر بیان دیتے ہیں کہ ہم پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستی کے رشتوں کو مضبوط بنانے کے لیے ایک پل کا کام کررہے ہیں لیکن یہ یک طرفہ ٹریفک کیوں، بھارتی فنکاروں نے اس کا کبھی عملی مظاہرہ نہیں کیا۔
انہوں نے کبھی پاکستانی فلموں اور ڈراموں میں کام کرنے کا ارادہ ظاہر نہیں کیا، انہیں جب بھی کسی ڈرامے یا فلم میں کام کرنے کی پیش کش کی گئی انہوں نے ٹال مٹول سے کام لیکر انکار کردیا ۔اس کے باوجود بھارتی گلوکار جب بھی پاکستان آئے انہوں نے پاکستانی عوام کو بے وقوف بناکر بڑے بڑے لائیو کنسرٹ کیے اور لاکھوں روپے پاکستان سے کما کر چلے گئے، ہمارے گلوکاروں نے اس ڈر خوف سے کہ پاکستان میں ہمارے میوزک البم ریلیز ہونے سے نقصان ہورہا ہے انھوں نے بھارت جاکر اپنے البم تیار کیے اور پاکستانی پیسہ بھارت کو دے کر آگئے، بھارتی میوزک انڈسٹری کے لوگوں نے پاکستانی فنکاروں سے خوب فائدہ اٹھایا ، بھارت نے بہترین ڈپلومسی سے پاکستان میں اپنی فلمیں چلانے کی اجازت حاصل کرلی اور ان فلموں نے پاکستانی فلم انڈسٹری کو یرغمال بنا لیا اور بیڑہ غرق کردیا، بھارتی فلموں نے پاکستان میں کرورڑوں روپے کا بزنس کرکے پاکستانی سنیماؤں پر قبضہ جما لیا، جس کی وجہ ہمارے سنیما مالکان نے بھارت کے مقابلے میں پاکستانی فلموں کو یکسر یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ پاکستانی میں ایسی کون سی بات ہے یا خوبی جو لوگ سنیما میں آکر ان فلموں کو دیکھیں،جب فلم انڈسٹری کے لوگوں نے اس پر احتجاج کیا تو ان کی کوئی بات نہیں سنی گئی۔
پاکستانی فلم پروڈیوسرز کا کہنا تھا کہ اگر بھارتی فلمیں پاکستان میں دکھائی جائیں تو پاکستانی فلموں کو بھی بھارت میں نمائش کی اجازت دی جائے لیکن اسے ایک مذاق سمجھ کراہمیت نہیں دی گئی۔ حکومت پاکستان نے بھی فلم انڈسٹری کے اس مطالبہ کو اہمیت نہیں دی اگر حکومت چاہتی تو بھارتی فلموں کی نمائش کے بدلے پاکستانی فلموں کی بھارت میں نمائش کی بات منوائی جاسکتی تھی، اس پر کہا گیا کہ پاکستانی فلمیں اس قابل نہیں ہیں کہ وہ بھارت میں دکھائی جاسکیں جتنی لاگت میں پاکستان میں ایک فلم بنتی ہے۔
اتنا معاوضہ تو ہمارے ہاں تیسرے درجے کے فنکار کو ملتا ہے کہاں دوسو کروڑ کا بزنس کرنے والی فلمیں اور کہاں ہماری فلم جو سنیما کا کرایہ بھی پورا نہ کرسکے، پاکستان فلم انڈسٹری سے وابستہ پرانے لوگ تو ہمت ہار بیٹھے لیکن ہمارے ملک کے نوجوان جنھوں نے ٹیلی ویژن انڈسٹری میں بھارت کو بری طرح شکست دے دی اور ان کے ڈراموں کو پاکستانی عوام سے نکال باہر کیا انھوں نے کمر کس لی اور فیصلہ کرلیا کہ وہ بھارت کو اچھی اور معیاری فلم بنا کر منہ توڑ جواب دیں گے، یہ چیلنج بہت مشکل تھا لیکن ناممکن نہیں کیونکہ کروڑوں روپے سے تیار ہونے والی میگا سیریل اور سوپ نے ثابت کردیا کہ وہ فلم انڈسٹری میں بھی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں،
پاکستان میں میگا پروجیکٹ پر کام کرکے اچھی اور معیاری فلم بنا سکتے ہیں اور پھر اس سوچ کو اس وقت تقویت ملی جبکہ چند سر پھروں نے سب کچھ داؤ پر لگا کر میدان میں قدم رکھ دیا، ابتدا تو فلم '' خدا کے لیے'' اور '' بول'' سے ہوئی، جاوید شیخ کی فلم نے بھی اس میں اہم کردار ادا کیا لیکن شعیب منصور نے دو فلمیں بنا کر ثابت کردیا کہ ہم بین الاقوامی معیار کی فلمیں بنا سکتے ہیں شعیب منصور کو نوجوانوں نے اپنا آئیڈل بنا کر سوچ میں تبدیلی لانے کا فیصلہ کیا، ان نوجوان باہمت لوگوں کا خیال تھا کہ جب ہم اپنے بہترین ٹی وی ڈراموں سے کامیابی حاصل کرسکتے تو ایک عمدہ اور اچھی فلم کیوں نہیں بنا سکتے، بھارتی کی اس سوچ کہ پاکستانی فلم بھارت میں نہیں چل سکتی، ایک انقلاب برپا کردیا، ہماری فلموں کو کوشش کے باوجود بھارت میں نہیں چلنے دیا گیا کسی طرح جب ہماری فلمیں وہاں پہنچ گئیں تو وہ ان سے اس قدر خوف زدہ ہوئے کہ ان فلموں کے خلاف سازش کرکے انہیں جلد از جلد سنیماؤں سے اتار دیا لیکن بھارت میںجن لوگوں نے پاکستانی فلموں کو دیکھا وہ تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے،
سید نور، شہزاد رفیق اور شعیب منصور نے اپنے طور پر پاکستانی فلموں کی بھارت میں نمائش ممکن بنانے کی بھر پور کوشش کی ،اگر حکومت وقت پاکستانی فلمیں بنانے والوں کا ساتھ دیتی تو شاید یہ لوگ اپنے مقصد میں ضرور کامیاب ہوجاتے بہر حال اب وقت آگیا کہ پاکستان میں بننے والی فلمیں یہ ثابت کریں گے کہ وہ بھارت سے مقابلہ ہی نہیں انھیں شکست دینے کی بھی صلاحیت رکھتی ہیں پاکستانی فلموں میں ہوں شاہد آفریدی، چنبیلی، زندہ بھاگ اور وار نے جس طرح بھارت چیلنج کو قبول کیا ہے اور ثابت کیا کہ اب مقابلہ کا وقت آگیا ہے اب بھارت میں ہی نہیں دنیا بھر میں پاکستانی فلموں کوسبقت حاصل ہوگی، بین الاقوامی فلمی میلوں میں پاکستانی فلموں کی زبردست پذیرائی کے بعد بولی وڈ فلم انڈسٹری کوجو جھٹکا لگا ہے وہ ابھی ابتداء ہے۔
جس عزم اور ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارے نوجوانوں نے بیڑہ اٹھایا ہے وہ بہت خوش آئند ہے ان کے حوصلے بتاتے ہیں کہ آنے والے دنوں یہی لوگ پاکستان کی فلم انڈسٹری کی دنیا بھر میں عزت اور شہرت کا سبب بنیں گے اور یہ ثابت کریں گے پاکستانی فلمیں بھارت میں نہ صرف چل سکتی ہیں بلکہ ان کا مقابلہ کرنے کی بھی صلاحیت رکھتی ہیں یہ فیصلہ آنے والوں وقت کرے گا کہ دنیا میں اب بھارتی کی اجارہ داری کا خاتمہ ہونے والا ہے اور بہترین، معیاری اور عمدہ پاکستانی فلمیں دنیا میں راج کرنے کی تیاریاں مکمل کرچکی ہے!!!