برصغیر کا لکھ پتی شاعر اچھن

اچھی اورمعیاری شاعری کے لیے تعلیم کی ضرورت امروہہ میں تونہیں سمجھی جاتی تھی بلکہ یہ ایک خداداد صلاحیت شمارکی جاتی تھی۔


قمر عباس نقوی September 13, 2020

یہ حقیقت ہے کہ سرزمین امروہہ میں پیدا ہی شاعر ہوتا ہے، اس وجہ سے اس سر زمین میں شاعری کی صنف بچے بچے کی گھٹی میں پایا جانا فطری عمل ہے ۔ اچھی اور معیاری شاعری کے لیے تعلیم کی ضرورت امروہہ میں تو نہیں سمجھی جاتی تھی بلکہ یہ ایک خداداد صلاحیت شمار کی جاتی تھی۔

اسی لیے برصغیر پاک و ہند میں نہ صرف مردم خیز شہر امروہہ ادب و سخن کے لحاظ سے اپنے منفرد مقام رکھتا تھا بلکہ ایک زمانہ سے علم و ادب اور اعلی تہذیب و تمدن کا گہوارہ رہا ہے۔ نسیم امروہوی ، علامہ شمیم امروہوی (دادا نسیم امروہوی )، قسیم امروہوی، قا ئم امروہوی، ڈاکٹر ہلال نقوی، کوثر نقوی، نذر امروہوی، نقوش نقوی المعروف سید معصوم حیدر نقوی، تجلی امروہوی، حیات امروہوی جیسے جید شعرا کی ایک طویل فہرست ہے، جنہوں نے اسی شاہ ولایت کی نگری ''امروہہ '' میں آنکھ کھولی۔

میری دانست میں جدید شعرا میں ماہر تعلیم محترمہ فضہ سیماب امروہوی کا نام بھی منظر عام پر آ رہا ہے۔ لیکن یہاں آپ یقینا لکھ پتی شاعر کے بارے میں متجس ضرور ہوئے ہونگے کیونکہ اس شاعر کی حسب روایت ماہ ستمبر میں بتیسویں برسی منانے کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔جی ہاں ! اس شاعراور نامور ادیب کا نام ہے ''رئیس امروہوی '' جو 22 ستمبر 1988 کو ایک نا معلوم قاتل کی گولیوں کا نشانہ بن گئے تھے۔

مشہور شاعر ، ادیب اور صحافی رئیس امروہوی اسی زرخیز مٹی کا عالمی شاہکار ہے۔ یہ سچ ہے کہ'' فخر امروہہ '' ر ئیس امروہوی اپنے دوستوں اور اپنے ہم عصرشاعروں میں ''لکھ پتی شاعر'' مشہور تھے کیونکہ پورے برصغیر میں وہ واحد شاعر تھے جنہوں نے اپنی کم عمری ہی میں کئی لاکھ اشعار کہہ چکے تھے۔ رئیس امروہوی کا قلمی نام ''رئیس '' ،امروہوی اپنے آبائی وطن ''امروہہ '' کی شناخت ، اصل نام سید محمد مہدی تھا۔ 12 ستمبر 1914 کو اسی امروہہ کے ایک مشہور علمی اور ادبی خانوادہ میں ریئس امروہوی کی پیدائش ہوئی۔

امروہہ میں صدیوں سے یہ روایت چلی آ رہی تھی کہ بچوں کو بھاری بھر کم ناموں سے نہ پکار کر ان کی عرفیت سے پکارا جاتا تھا ،اس لیے سید محمد مہدی کے دادا اور دادی نے ان کو '' اچھن '' کے نام سے پکارنا شروع کر دیا۔ اچھن یعنی رئیس امروہوی کے دادا سید نصیر حسن اپنے زمانہ کے استاد شاعر عبدالرسول نثار کے شاگرد تھے جو میر تقی میر کے خاص شاگرد تھے۔ اس طرح سے رئیس امروہوی کا شعری شجرہ خدائے سخن میر تقی میر (یاد رہے یہ برصغیر کے وہ واحد شاعر تھے جن کے اشعار لوگ تحفتا دیا کرتے تھے) تک جاتا ہے۔

دوسری جانب دیکھا جائے تو اچھن یعنی رئیس امروہوی ، سید محمد تقی ، سید محمد عباس اور جون ایلیا کے بڑے بھائی تھے۔ اس شہر کے سپوتوں نے خواہ وہ نثر ہو یا نظم ، مصوری ہو یا نغمہ نگاری غرض فنون لطیفہ کے ہر میدان میں بہترین فنکاروں کو جنم دیا جنھوں نے ساری دنیا میں وطن کا نام روشن کیا۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے پہلا شعر بارہ سال کی عمر میں کہا ۔ یہ بات ان کے والد علامہ سید شفیق حسن ا یلیا(ایک خوش گو شاعر اور عالم تھے )تک پہنچی تو وہ بہت خوش ہوئے جو خود اپنی ذات میں صاحب دیوان شاعر تھے۔

تیرا، چودا سال تک پہنچتے پہنچتے اچھن شعرو شاعری کے سارے ہنر اور طور طریقے اچھی طرح سیکھ چکے تھے چنانچہ چودہ سال کی عمر میں امروہہ کے بڑے مشاعرہ میں غزل پڑھی تو بڑے بڑے استادوں کی طبیعت باغ باغ ہو گئی۔ والد کو ہر کسی نے مبارکباد دی اور اس بات کی بشارت بھی دی کہ بچہ خاندان کا نام روشن کرے گا۔ یہ پیش گوئیاں صد فیصد درست ثابت ہوئیں اور جلد ہی اچھن کی شاعری کی شہرت امروہہ سے باہر نکل کر اطراف کے شہروں میں پھیل گئی۔

لڑکپن ہی میں اچھن نے مرادآباد ، لکھنو اور رامپور کے مشاعروں کو لوٹنے کا جو سلسلہ شروع کیا وہ تمام عمر جاری رہا اور جلد ہی رئیس امروہوی کے نام سے ان کی شہرت چہار سمت پھیل گئی۔ راقم السطور کے دادا مولانا ابوالفاروق سید محمد عسکری نقوی جو ہندوستان کے مشہور و معروف منا ظر تھے، رئیس امروہوی کے پدر بزرگوار سید شفق حسن ایلیا کے خاص دوستوں میں سے تھے او ر یہی وجہ تھی کہ علامہ شفیق حسن ایلیا کے گھر کے آنگن میںاردو ادب پلا بڑھا اور یوں اس آنگن میں رئیس ، تقی اور جو ن جیسے لوگ پیدا ہوئے تھے۔

رئیس امروہوی کے لڑکپن کے دن انگریزی حکومت کے خلاف جدوجہد کے دن تھے۔ اس دور میں ہر دن ایک نئے ہنگامہ سے عبارت ہوتا تھا چنانچہ سولہ سال کی عمر سے رئیس امروہوی نے بحیثیت صحافی جو قلم اٹھایا تو مضامین اور کالمز کے انبار لگا دیے۔ ابتدائی دور میں رئیس امروہوی نے امروہہ اور مرادآباد کے اخبارات ''قرطاس '' اور ''فخر عالم '' کی ادارت کی ذمے داریاں نبھاہیں۔ تیس کی دہائی آتے آتے ملک کے لکھنے والوں میں رئیس کا شمار ہونے لگا اور اسی دور میں 1936 میں وہ وقت بھی آیا جب رئیس امروہوی ایک ساتھ چار چار اخبارات کے مدیر تھے۔ ملک کی تقسیم کے بعد وہ ایک اردو روزنامہ سے منسلک ہو گئے اور پوری زندگی بطور قطعہ نگار اور کالم نگار انھوں نے اسی اخبار میں اہم خدمات انجام دیں۔ بزبان غزل سائنس کا وہ فارمولا جس پر پوری دنیا کا انحصار ہے گویا اسطرح رقم طراز ہوئے۔

ڈھل گئی ہستی دل یوں تیری رعنائی میں

مادہ جیسے نکھر جائے توانائی میں

صحافت کے ساتھ ساتھ نثر نگاری میں بھی انھوں نے نمایاں خدمات انجام دیں۔ ایسا کوئی دوسرا شاعر بھلا کون ہوگا جو دنیا کے ہر موضوع پر لکھ سکے چنانچہ ادب ہو یا فلسفہ ، رندی و مستی ، تصوف ہو یا دقیق سنجیدہ مضامین یا نفسیات کی باریک گتھیاں ، رئیس نے جس موضوع پر بھی قلم اٹھایااس پر حرف آخر کے حقدار بنے۔ فصاحت زبان، سلاست بیان اور وسعت نظر ان جیسی خصوصیات کے باعث ان کی تحریریں ہمیشہ پڑھنے والوں کے دلوں میں اتر جاتی تھیں۔ ایک زمانہ میں رئیس امروہوی نے نفسیات و مابعد نفسیات ، عجائبات نفس حاضرات اور روحانی علوم پر لکنا شروع کیا کہ عالم ایسی تحریروں کا دیوانہ ہو گیا۔ ان موضوعات پر ان کی تحریریں اتنی مقبول ہوئیں کہ ایک پورا اشاعتی ادارہ ان کی اپنی کتابوں کے بل پر چلنے لگا۔

ہپناٹزم ، مراقبہ ، لے سانس بھی آہستہ، عالمی ارواح، نفسیات ، ما بعدالنفسیات ، عالم برزخ، جنس و جنسیات جیسے موضوعات پر جس اعتماد اور مہارت کے ساتھ انھوں نے لکھا وہ حیرت انگیز ہے۔ رئیس نے تقریبا نصف صدی تک اخبارات میں قطعہ نگاری کی انھوں نے اس فن کو نہ صرف نئی بلندیاں عطا کیں بلکہ قطعہ نگاری کو صحافتی شاعری کی ایک صنف کے طور پر من مانی کا کام بھی بخوبی انجام دیا۔ رئیس کے قصائد ، نوحہ ، مثنویاں اردو ادب کا بیش بہا سرمایہ ہیں۔ نثر میں انھوں نے نفسیات ، فلسفہ اور روحانیت کو اپنا مخصوص موضوع بنایااور کم ہی لوگ ہونگے جو ان میدانوں میں ان کی ہمسری کا دعوی کر سکیں۔

رئیس درست پیرائے میں عاشق اردو تھے ۔ ان کی چھوٹی صاحبزادی سیدہ شاہانہ جرار اکثر یہ شعر سنایا کرتی تھیں۔

اچھن، بچھن، چھبن، جون

ان چاروں میں اچھا کون

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں