پیکیج تو زبردست ہے مگر۔۔۔
بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ پیکیج میں سندھ کا حصہ زیادہ ہے سندھ کو اس پیکیج کے لیے 750ارب روپے مہیا کرنا ہوں گے۔
کراچی والوں کی مایوسیاں بالآخر دور ہوئیں اور ان کی دلی خواہش بر آئی۔ وزیر اعظم عمران خان نے گیارہ سو ارب روپے کے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کرکے اس شہر سے اپنی محبت کا واضح ثبوت پیش کردیا۔
ملک کا تجارتی ہب اور بڑی بندرگاہ ہونے کے ناتے وہ کراچی کی اہمیت سے اچھی طرح واقف ہیں، کہ یہاں سے کس قدر زیادہ ریونیو حاصل ہو رہا ہے۔ حالیہ دنوں ہونے والی بارشوں سے جو پریشان کن صورتحال پیدا ہوئی اور پورا شہر ندی کی صورت اختیار کر گیا، اسے دیکھتے ہوئے انھوں نے اپنا وعدہ تو پورا کردیا ہے مگر ابھی ایک دن بھی نہیں گزرا تھا کہ اس پیکیج پر پیپلز پارٹی کی جانب سے شک و شبہ کا اظہار کیا جانے لگا۔
بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ پیکیج میں سندھ کا حصہ زیادہ ہے سندھ کو اس پیکیج کے لیے 750ارب روپے مہیا کرنا ہوں گے جب کہ وفاق صرف 362 ارب روپے دے گا۔ اس سلسلے میں جلد ہی اسد عمر کا بیان سامنے آگیا ان کا کہنا تھا کہ بلاول غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں۔ پیکیج میں وفاق کا حصہ 62 فیصد جب کہ سندھ کا صرف 38 فیصد ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سندھ حکومت حقائق کو مسخ کرکے اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرکے اس عظیم پیکیج کی اہمیت کو کم کرنے اور اسے متنازعہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔
کراچی کے عوام ابھی پرانے پیکیج کو بھولے نہیں تھے اس کا انتظار کر رہے تھے کہ وفاق کی طرف سے ایک نئے اور بڑے پیکیج کا اعلان کردیا گیا ہے۔ جو یقیناً خوش آئند ہے اگر اس پر اس کے معنی و مفہوم کے مطابق عمل کیا جائے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نئے پیکیج نے اہل کراچی کو ایک نئی الجھن میں بھی مبتلا کردیا ہے کہ جب وفاق 162 ارب کراچی کو نہیں دے سکا تو اب اس سے کئی گنا زیادہ رقم کیسے مہیا کرے گا۔
بہرحال نئے پیکیج کے اعلان سے اہل کراچی پر یہ تاثر ضرور قائم ہوا ہے کہ ملک کے حالات جو بھی ہوں کم سے کم وفاق کو کراچی کے مصائب کا احساس تو ہے اور وہ خواہ رقم مہیا کرسکے یا نہ کرسکے مگر رقم دینے کا اعلان تو کرتی رہتی ہے۔ پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ نئے پیکیج سے کراچی کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا، جب تک مستقل بنیادوں پر کراچی کی معاشی و انتظامی خودمختاری کے لیے اصلاحات نہیں کی جاتیں۔ کاش کہ اس پیکیج پر عمل درآمد ہو جائے تو کراچی کی قسمت جاگ جائے۔
البتہ ضرورت شفافیت کی ہے کیونکہ کرپشن ملک میں جڑ پکڑ چکی ہے۔ خاص طور پر سندھ میں اس کا بہت چرچا ہے۔ سندھ کرپشن کے معاملے میں اتنا بدنام ہو چکا ہے کہ اکثر تجزیہ کار کراچی پیکیج کی رقم کے صحیح استعمال پر مشکوک نظر آتے ہیں۔
ملک کے ایک معروف تجزیہ کار نے یہاں تک کہا ہے کہ پیکیج کی اگر آدھی رقم بھی کراچی پر لگ جائے تو غنیمت سمجھو۔ اس طرح اس پیکیج کا اصل پہلو اس کے اخراجات اور رقم کی مانیٹرنگ ہے۔ کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں ایک رابطہ کمیٹی بنائی گئی ہے جو اس پیکیج کے تحت انجام پانے والے تمام منصوبوں پر عمل درآمد کی نگرانی کرے گی بہرحال رقم کی فراہمی پھر بھی ایک اہم مسئلہ رہے گی اس لیے کہ وفاق کا کہنا ہے کہ وہ رقم کسی صورت سندھ حکومت کے حوالے نہیں کرے گی مگر 18 ویں ترمیم کے تحت تو رقم صوبائی حکومت ہی وصول کرسکتی ہے۔
اس پیکیج کا اعلان تو کردیا گیا ہے مگر اس پر عمل درآمد شروع کرنے کی کوئی تاریخ نہیں بتائی گئی ہے چنانچہ اکثر شہریوں کو خدشہ ہے کہ یہ پیکیج بھی کہیں پرانے پیکیج کی طرح صرف اعلان تک ہی محدود نہ رہے مگر اس دفعہ کراچی والوں کے ساتھ ایسا مذاق نہیں ہونا چاہیے اس لیے کہ کراچی کی حالیہ تباہ کن بارشوں نے شہر میں ایسی بھیانک تباہی مچائی ہے کہ اب اس تباہی کا تدارک اور آگے کی بارشوں سے مزید تباہی کو روکنے کے لیے انتظامات کرنا بے حد ضروری ہیں۔ اب اس دفعہ بھی اگر پرانے پیکیج جیسا حال ہوتا ہے تو کراچی کے شہریوں کی ناراضگی کو دور کرنا اور انھیں کسی طرح بہلانا مشکل ہوگا۔
افسوس اس امر پر ہے کہ کراچی کی تباہی کو ابھی بھی خاطر میں نہیں لایا جا رہا ہے کراچی کے کئی علاقوں میں اب تک پانی کھڑا ہوا ہے۔ نیا ناظم آباد جیسے شہر کے نشیبی علاقوں میں اب تک پانی گھروں میں بھرا ہوا ہے جس نے لوگوں کی روز مرہ کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے۔ ایسے رہائشی پروجیکٹس جو انسانوں کے لیے سراسر مصیبت کا سامان پیدا کرسکتے ہیں ان کی اجازت کیوں دی جاتی ہے۔ مجاز ادارے آخر ایسے رہائشی منصوبوں کی پہلے مکمل چھان بین کیوں نہیں کرتے کہ ان میں پانی کی نکاسی کے مناسب انتظامات کیے گئے ہیں کہ نہیں، دراصل سرکاری اداروں کی لاپرواہی یا پھر بلڈرز سے ملی بھگت کی وجہ سے شہر میں کئی عمارتیں گر چکی ہیں جن میں درجنوں انسان ہلاک ہو چکے ہیں۔
نالوں پر تجاوزات کا ہونا سب سے بڑا المیہ ہے۔ نالوں کی مناسب صفائی نہ ہونے سے ہر سال ہی وہ چوک ہو جاتے ہیں جس سے بارشوں کا پانی قریب کی آبادیوں میں تباہی مچا دیتا ہے۔ اس دفعہ صوبائی حکومت نے خود اعتراف کیا ہے کہ وہ بروقت نالوں کی صفائی نہیں کرسکی تھی کیا ایسی کوتاہی سے صرف نظر کیا جاسکتا ہے۔کراچی کے مسائل ایک دن میں پیدا نہیں ہوئے اس کی ذمے دار تمام حکومتیں ہیں جو عوام کے حقوق دلانے کے نام پر برسراقتدار آئیں۔سول اداروں کی بے بسی اور نااہلی دیکھتے ہوئے آخر فوج کو کراچی کے نالوں سے کچرا صاف کرنے کا کام کرنا پڑا، یہ فوج کا کام نہیں ہے بہرحال صوبائی حکومت کو اپنی ذمے داریوں سے نمٹنا ہوگا۔
بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ نالوں پر بنے ہوئے گھروں کو ہرگز اس وقت تک نہیں گرایا جائے گا جب تک وہاں کے رہائشیوں کو متبادل جگہ نہیں دی جاتی۔ یہ اچھا بیان ہے مگر نہ انھیں متبادل جگہ ملے گی اور نہ تجاوزات کا خاتمہ ہوگا اور اگر انھیں متبادل جگہ دی جاتی ہے تو پھر نئے علاقوں میں پلاٹ کاٹ کر چائنا کٹنگ کا ماحول پیدا کیا جاسکتا ہے جب کہ کراچی کو پہلے ہی چائنا کٹنگ کے ذریعے بے ڈھنگا شہر بنا دیا گیا ہے۔
انھوں نے مزید کہا ہے کہ اب کراچی میں دہشت گردوں کا راج ختم ہو چکا ہے اب صرف پیپلز پارٹی کا راج چلے گا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کا راج تو ختم ہو گیا مگر کرپشن کا تو اب بھی کراچی میں راج ہے کیا وہ اس کے خاتمے کی جانب بھی توجہ فرمائیں گے اور بقول مصطفیٰ کمال انھوں نے 18ویں ترمیم کے ذریعے عوام کو ملنے والے اختیارات غصب کرائے ہیں وہ عوام کی امانت ہیں کیا وہ عوام کو منتقل کرنے پر غور فرمائیں گے؟
ملک کا تجارتی ہب اور بڑی بندرگاہ ہونے کے ناتے وہ کراچی کی اہمیت سے اچھی طرح واقف ہیں، کہ یہاں سے کس قدر زیادہ ریونیو حاصل ہو رہا ہے۔ حالیہ دنوں ہونے والی بارشوں سے جو پریشان کن صورتحال پیدا ہوئی اور پورا شہر ندی کی صورت اختیار کر گیا، اسے دیکھتے ہوئے انھوں نے اپنا وعدہ تو پورا کردیا ہے مگر ابھی ایک دن بھی نہیں گزرا تھا کہ اس پیکیج پر پیپلز پارٹی کی جانب سے شک و شبہ کا اظہار کیا جانے لگا۔
بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ پیکیج میں سندھ کا حصہ زیادہ ہے سندھ کو اس پیکیج کے لیے 750ارب روپے مہیا کرنا ہوں گے جب کہ وفاق صرف 362 ارب روپے دے گا۔ اس سلسلے میں جلد ہی اسد عمر کا بیان سامنے آگیا ان کا کہنا تھا کہ بلاول غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں۔ پیکیج میں وفاق کا حصہ 62 فیصد جب کہ سندھ کا صرف 38 فیصد ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سندھ حکومت حقائق کو مسخ کرکے اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرکے اس عظیم پیکیج کی اہمیت کو کم کرنے اور اسے متنازعہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔
کراچی کے عوام ابھی پرانے پیکیج کو بھولے نہیں تھے اس کا انتظار کر رہے تھے کہ وفاق کی طرف سے ایک نئے اور بڑے پیکیج کا اعلان کردیا گیا ہے۔ جو یقیناً خوش آئند ہے اگر اس پر اس کے معنی و مفہوم کے مطابق عمل کیا جائے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نئے پیکیج نے اہل کراچی کو ایک نئی الجھن میں بھی مبتلا کردیا ہے کہ جب وفاق 162 ارب کراچی کو نہیں دے سکا تو اب اس سے کئی گنا زیادہ رقم کیسے مہیا کرے گا۔
بہرحال نئے پیکیج کے اعلان سے اہل کراچی پر یہ تاثر ضرور قائم ہوا ہے کہ ملک کے حالات جو بھی ہوں کم سے کم وفاق کو کراچی کے مصائب کا احساس تو ہے اور وہ خواہ رقم مہیا کرسکے یا نہ کرسکے مگر رقم دینے کا اعلان تو کرتی رہتی ہے۔ پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ نئے پیکیج سے کراچی کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا، جب تک مستقل بنیادوں پر کراچی کی معاشی و انتظامی خودمختاری کے لیے اصلاحات نہیں کی جاتیں۔ کاش کہ اس پیکیج پر عمل درآمد ہو جائے تو کراچی کی قسمت جاگ جائے۔
البتہ ضرورت شفافیت کی ہے کیونکہ کرپشن ملک میں جڑ پکڑ چکی ہے۔ خاص طور پر سندھ میں اس کا بہت چرچا ہے۔ سندھ کرپشن کے معاملے میں اتنا بدنام ہو چکا ہے کہ اکثر تجزیہ کار کراچی پیکیج کی رقم کے صحیح استعمال پر مشکوک نظر آتے ہیں۔
ملک کے ایک معروف تجزیہ کار نے یہاں تک کہا ہے کہ پیکیج کی اگر آدھی رقم بھی کراچی پر لگ جائے تو غنیمت سمجھو۔ اس طرح اس پیکیج کا اصل پہلو اس کے اخراجات اور رقم کی مانیٹرنگ ہے۔ کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں ایک رابطہ کمیٹی بنائی گئی ہے جو اس پیکیج کے تحت انجام پانے والے تمام منصوبوں پر عمل درآمد کی نگرانی کرے گی بہرحال رقم کی فراہمی پھر بھی ایک اہم مسئلہ رہے گی اس لیے کہ وفاق کا کہنا ہے کہ وہ رقم کسی صورت سندھ حکومت کے حوالے نہیں کرے گی مگر 18 ویں ترمیم کے تحت تو رقم صوبائی حکومت ہی وصول کرسکتی ہے۔
اس پیکیج کا اعلان تو کردیا گیا ہے مگر اس پر عمل درآمد شروع کرنے کی کوئی تاریخ نہیں بتائی گئی ہے چنانچہ اکثر شہریوں کو خدشہ ہے کہ یہ پیکیج بھی کہیں پرانے پیکیج کی طرح صرف اعلان تک ہی محدود نہ رہے مگر اس دفعہ کراچی والوں کے ساتھ ایسا مذاق نہیں ہونا چاہیے اس لیے کہ کراچی کی حالیہ تباہ کن بارشوں نے شہر میں ایسی بھیانک تباہی مچائی ہے کہ اب اس تباہی کا تدارک اور آگے کی بارشوں سے مزید تباہی کو روکنے کے لیے انتظامات کرنا بے حد ضروری ہیں۔ اب اس دفعہ بھی اگر پرانے پیکیج جیسا حال ہوتا ہے تو کراچی کے شہریوں کی ناراضگی کو دور کرنا اور انھیں کسی طرح بہلانا مشکل ہوگا۔
افسوس اس امر پر ہے کہ کراچی کی تباہی کو ابھی بھی خاطر میں نہیں لایا جا رہا ہے کراچی کے کئی علاقوں میں اب تک پانی کھڑا ہوا ہے۔ نیا ناظم آباد جیسے شہر کے نشیبی علاقوں میں اب تک پانی گھروں میں بھرا ہوا ہے جس نے لوگوں کی روز مرہ کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے۔ ایسے رہائشی پروجیکٹس جو انسانوں کے لیے سراسر مصیبت کا سامان پیدا کرسکتے ہیں ان کی اجازت کیوں دی جاتی ہے۔ مجاز ادارے آخر ایسے رہائشی منصوبوں کی پہلے مکمل چھان بین کیوں نہیں کرتے کہ ان میں پانی کی نکاسی کے مناسب انتظامات کیے گئے ہیں کہ نہیں، دراصل سرکاری اداروں کی لاپرواہی یا پھر بلڈرز سے ملی بھگت کی وجہ سے شہر میں کئی عمارتیں گر چکی ہیں جن میں درجنوں انسان ہلاک ہو چکے ہیں۔
نالوں پر تجاوزات کا ہونا سب سے بڑا المیہ ہے۔ نالوں کی مناسب صفائی نہ ہونے سے ہر سال ہی وہ چوک ہو جاتے ہیں جس سے بارشوں کا پانی قریب کی آبادیوں میں تباہی مچا دیتا ہے۔ اس دفعہ صوبائی حکومت نے خود اعتراف کیا ہے کہ وہ بروقت نالوں کی صفائی نہیں کرسکی تھی کیا ایسی کوتاہی سے صرف نظر کیا جاسکتا ہے۔کراچی کے مسائل ایک دن میں پیدا نہیں ہوئے اس کی ذمے دار تمام حکومتیں ہیں جو عوام کے حقوق دلانے کے نام پر برسراقتدار آئیں۔سول اداروں کی بے بسی اور نااہلی دیکھتے ہوئے آخر فوج کو کراچی کے نالوں سے کچرا صاف کرنے کا کام کرنا پڑا، یہ فوج کا کام نہیں ہے بہرحال صوبائی حکومت کو اپنی ذمے داریوں سے نمٹنا ہوگا۔
بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ نالوں پر بنے ہوئے گھروں کو ہرگز اس وقت تک نہیں گرایا جائے گا جب تک وہاں کے رہائشیوں کو متبادل جگہ نہیں دی جاتی۔ یہ اچھا بیان ہے مگر نہ انھیں متبادل جگہ ملے گی اور نہ تجاوزات کا خاتمہ ہوگا اور اگر انھیں متبادل جگہ دی جاتی ہے تو پھر نئے علاقوں میں پلاٹ کاٹ کر چائنا کٹنگ کا ماحول پیدا کیا جاسکتا ہے جب کہ کراچی کو پہلے ہی چائنا کٹنگ کے ذریعے بے ڈھنگا شہر بنا دیا گیا ہے۔
انھوں نے مزید کہا ہے کہ اب کراچی میں دہشت گردوں کا راج ختم ہو چکا ہے اب صرف پیپلز پارٹی کا راج چلے گا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کا راج تو ختم ہو گیا مگر کرپشن کا تو اب بھی کراچی میں راج ہے کیا وہ اس کے خاتمے کی جانب بھی توجہ فرمائیں گے اور بقول مصطفیٰ کمال انھوں نے 18ویں ترمیم کے ذریعے عوام کو ملنے والے اختیارات غصب کرائے ہیں وہ عوام کی امانت ہیں کیا وہ عوام کو منتقل کرنے پر غور فرمائیں گے؟