حوا کی بیٹی

موٹروے پر ایک عورت کا ریپ نہیں ہوا تھا، اس کے بچوں کے سامنے بلکہ اس گھنائونے عمل پر پوری کائنات لرز اٹھی تھی۔


جاوید قاضی September 13, 2020
[email protected]

صحیح کہا تھا پولیس افسر نے وہ رات کو گھر سے نکلی ہی کیوں! اور اب جو نکلی تھی تو پھر بھگتنا تو پڑیگا۔ کس نے کہا عورت برابر ہے مرد کے اگر آئین کہتا بھی ہے تو کیا ہوا لوگ تو نہیں مانتے،اس کی یہ جرات کہ وہ اکیلی تھی اورگاڑی بھی خود ہی چلا رہی تھی۔ موٹر وے پر جہاں پر واقعہ ہوا اس حدود کی پولیس کہتی ہے کہ یہ ہماری جیورسڈکشن نہیں۔ وہ در اصل یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ ہم یہ نہیں دیکھتے کہ گاڑی اندھیرے میں کیوں کھڑی تھی، شیشے کیوں کر ٹوٹے تھے۔

بہرحال جیو رسڈکشن کا معاملہ طے پایا۔جیو رسڈکشن میں سی سی پی او لاہور کی تھی۔ جس دن مقتول مارا گیا اس سے یہ نہیں پوچھا جاتا کہ رات کو اندھیرے میں تم باہر نکلے کیوں تھے۔ کون سے قانون میں یہ لکھا ہے کہ مدعی سے ایسا سوال کرنا پھر اگر جواب نا پاسکو تو پھر یہ کہہ دو کہ اب بھگتو بھی۔ کسی قانون میں یہ ہے کہ جس عورت کے ساتھ ایسا ہوا ہو اور اسے یہ کہا جائے کہ تم رات کو اکیلی نکلی کیوں تھی اور تمہاری گاڑی میں اتنا پٹرول کیوں نہیں تھا۔

اور اگر قانون میں ایسا لکھا نہیں ہے تو شامل کر لیجیے یہ بھی قانون میں کہ جو عورت رات کو اکیلی گھر سے نکلے گی، گاڑی چلانے کی جرات کریگی اور اس کے ساتھ ایسا ہی سب کچھ ہوگا اورریاست اس کی ذمے دار نہیں ہوگی، یہ پاکستان ہے کوئی فرانس نہیں۔

کراچی میں بھی ایک سی سی پی او نما افسر تھے۔ نہ جانے کتنے قصوروار یا پھر بے قصور لوگوں کو جعلی پولیس مقابلوں میں بھون ڈالا، نہ جانے کتنے ایسے جعلی پولیس مقابلے ہیں جو گمنام کتابچوں میں رقم ہیں،جن کو اب ہم سب بھول بھی گئے ہیں۔ اب تو یہ اصطلاح سب جانتے ہیں کہ ہاف فرائی یا فل فرائی کے کیا معنیٰ ہیں۔

نہ جانے کتنے لوگ ہیں جو اٹھا لیے گئے ہیں جن کو عدالتوں میں پیش بھی نہیں کیا گیا۔ فرض کریں کہ وہ واقعی قتل یا کسی اور گھناونے جرائم کے مرتکب ٹھہرے ہوں مگر یہ فیصلہ عدالت نے کرنا تھا اس افسر نے نہیں۔

ابھی تک یہ معمہ بھی حل نہیں ہو پا رہا کہ کراچی کے گیارہ سو اربوں میں سندھ حکومت نے کتنا حصہ ڈالا اور وفاقی حکومت نے کتنا۔ یہ معاملہ بھی جیسے جورسڈکشن کا معاملہ ہو جس طرح موٹر وے پولیس تعین کر رہی تھی کہ عصمت دری کا واقعہ سی سی پی او کی جورسڈکشن میں ہوا یا ان کی حدود میں۔

خان صاحب کی تقاریر کا لب و لہجہ وہ ہی ہے جو 2014ء کے دھرنے اور کنٹینر والوں کی تقاریر کا تھا۔ بلاول کو جواب مراد سعید دینگے ۔ وہ اگر سلطان راہی ہے تو لا لہ سدھیر یہ بھی ہے۔ نہیں لگتا کہ حزب اختلاف کو جواب حکومت دے رہی ہے بلکہ یوں لگتا ہے کہ حزب اختلاف کو جواب حزب اختلاف ہی دے رہی ہے۔ ہو سکتا ہے جب سی سی پی او، آئی جی کا تبادلہ کروادے۔ جب دو سال میں پانچ آئی جی تبدیل ہوجائیں، یوں لگتا ہے یہ ہمارا پاکستان نہیں ہے۔ یہ گلو بٹ کا پاکستان ہے۔ ہر دور میں ایک گلو بٹ ہوتا تھا مگر اب یہ گلو بٹ بہت زیادہ ہو گئے ہیں۔ اب تو جس طرح ہٹلر کی جرمنی میں گسٹاپو ہوا کرتے تھے، ان کے پاس گولی مارنے کا لائسنس بھی ہے اور اگر آپ عورت ہیں، رات کو جرأت کر کے لاہور سے گوجرانوالا جائے پھرتین چھوٹے بچے بھی آپ کے ساتھ ہوں اور لاعلمی کا یہ عالم ہو کہ گاڑی میں پٹرول بھی مناسب نہ ہو تو پھر آپ پر یہ لازم ہے کہ آپ نے جو ہمت کی ہے اس کے لیے آپ بھگتو۔

برا تو سندھ تھا، پنجاب تو بہت بہتر تھا، مگر یہ کیا سازشیں ہو رہی ہیں، پنجاب کو برا دکھایا جا رہا ہے ۔ ان سوالات کے جواب کے لیے کامران خان، وسیم اکرم پلس کو گھیرے میں لے تو آئے بار بار پوچھنے پر بھی انھوں نے سی سی پی او کے بیان کو برا نہیں کہا ۔ بلٓاخر وہ کون ہے، پیر سائیں ان کے پیچھے جن سے وہ ڈرتے ہیں۔ پورے پنجاب کی پولیس ایک طرف اورسی سی پی او، لاہور ایک طرف، یہاں تک کہ اسد عمر نے سی سی پی او کے بیان پر تنقید تو کی مگر ساتھ یہ بھی کہا کہ ایسے غیر ذمے دار بیان کی قانون میں کوئی سزا نہیں ہے۔ بات قانون کی نہیں، بات بنیادی حقوق کی ہے۔ بات جان و مال کے تحفظ کی، اگر سی سی پی او اس افسوس ناک واقعے پر اس طرح کا غیر ذمے دار بیان دے رہا ہے اور قصوروار وکٹم کو کہہ رہا ہے اور اگر ریاست لوگوں کے جان و مال کی حفاظت نہیں کر سکتی تو پھر یہ آئین کی پامالی ہے۔ ایسے آدمی کو سی سی پی او ہونے کا کوئی اخلاقی حق نہیں۔

جنرل پرویز مشرف کی امریکا میں ایک تقریر کے دوران، جب ایک عورت اٹھی اور کھڑے ہوکر عورتوں کے حقوق کی پامالی پر سوال کیا، تو جو زبان انھوں نے عورتوں کے بارے میں استعمال کی وہ آج تاریخ کا حصہ ہے۔ مورخ اس حکومت کو بھی پاکستان کی تاریخ میں جمہوری حکومت نہیں لکھے گا۔ اس حکومت کا شمار بھی کہیںآمریتوں سے جڑا رہے گا، چاہے کتنا ہی آپ اس حکومت کو جمہوری حکومت کہیں۔

اس روز موٹروے پر ایک عورت کا ریپ نہیں ہوا تھا، اس کے بچوں کے سامنے بلکہ اس گھنائونے عمل پر پوری کائنات لرز اٹھی تھی، نہ لرزے اگر تو وہ بے رحم ایوانوں کے دریچے تھے۔ عثمان بزدار کا وہ بیان تھا اور اسد عمر کا وہ رد عمل۔

مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی

یشودھا کی ہم جنس، رادھا کی بیٹی

پیامبرکی امت، زلیخا کی بیٹی

ثنا خوان تقدیس مشرق کو لائو

ثنا خوان تقدیسِ مشرق کہاں ہیں

ثنا خوان تقدیس مشرق یہاں ہیں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں