کرامت علی راہ گزر تو دیکھو آخری حصہ
کرامت علی 70ء کی دہائی سے ہی سیاست میں سرگرم ہوگئے تھے۔
پاکستان ایک ایسا خواب تھا جس کے قیام سے پہلے بات جمہوریت اور عوامی حقوق کی ہوتی رہی اور وجود میں آنے کے بعد وہاں جمہوری نظام کا مذاق اڑایا گیا، جمہوری حکومتوں کو ہوا میں اڑا دیا گیا، ایک کے بعد ایک آمر آکر عوام کے جمہوری حقوق غصب کرتے رہے اور جمہوریت کے پردے میں آمریت مسلط کردی گئی، وہاں ایک ایسا سماج وجود میں آنا بہت مشکل ہوجاتا ہے جس میں لوگ اپنے اور دوسروں کے حقوق کے لیے جم کر لڑسکیں۔
ملک کے قیام کو 70 برس سے زیادہ ہوچکے ہیں، شروع میں ایسے بہت سے لوگ ہمارے درمیان موجود تھے جنھوں نے برصغیر میں انگریز سے عوامی حقوق کے لیے جم کر لڑائی لڑی تھی۔ جیل گئے تھے، شداید برداشت کیے تھے، ان کے گھر برباد ہوگئے تھے، ان میں سے بہت سے جان سے گزرے تھے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان میں ایک جمہوری سماج کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے، اسی لیے انھوں نے یہاں اس خواب کی تعبیر کے لیے نئے سرے سے جدوجہد کی، اس وقت مشرقی بنگال پاکستان کا حصہ تھا اور وہاں ایسے بے شمار لوگ موجود تھے جو جمہوریت اور سب کے لیے مساوی حقوق کی بات کرتے تھے لیکن اس کے بعد جو ہوا وہ ایک خونیں داستان ہے۔
بچے کچھے پاکستان میں جدوجہد کرنے والے نوجوانوں میں کسی کی زندگی، زنداں میں گزری، کسی پر اتنا تشدد کیا گیا کہ وہ جان سے گزرگیا اور کہا یہ گیا کہ اس نے خود کشی کرلی، ہم خیال ترقی پسندوں کو سازش کیس میں بند کیا گیا۔ بلوچ سرداروں اور نوجوانوں سے جھوٹے وعدے کرکے انھیں قتل کردیا گیا۔ ایسے میں کرامت علی جیسے مزدور نوجوان، انسانوں کے حقوق کی بحالی کے نہایت مشکل کام میں جٹ گئے۔
متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے جعفر احمد پڑھنے کے لیے باہر چلے گئے، وہاں سے لوٹ کر آئے تو سبط حسن کو پیرو مرشد مانا، کراچی یونیورسٹی میں نوجوانوں کی ذہنی تربیت کا مشکل کام کرنے لگے۔ اب وہ ڈاکٹر طارق سہیل کی سرکردگی میں آئی ایچ سوشل ریسرچ سینٹر (IHSR) چلاتے ہیں۔ اس انسٹیٹیوٹ کے تحت انھوں نے متعدد کتابیں اور کتابچے شایع کیے۔ اسی پروگرام کے تحت انھوں نے کرامت علی کی زندگی کا قصہ ان سے سنا، اسے ریکارڈ کیا اور پھر صائمہ حیات اور ڈاکٹر انور شاہین کی محنت سے اسے کاغذ پر اتار کرکتابی شکل میں ہمارے سامنے پیش کر دیا۔
کرامت علی نکلے تھے مزدوروں کے حقوق کے لیے انھیں منظم کرنے پھرا نہیں اندازہ ہوا کہ مزدوروں کے حقوق کا رشتہ خطے میں امن کی جدوجہد سے بھی جڑا ہوا ہے۔ یہ ایک بنیادی معاملہ تھا کہ اگر برصغیر میں مزدوروں کے درمیان رشتہ ناتا نہیں ہوگا تو پھر خطے میں امن کیسے ہوسکتا ہے۔ کرامت اور ان کے دوستوں نے اینٹی نیوکلیئر موومنٹ چلائی اور اسے بھی مزدوروں کی زندگی اور ان کی روزی روٹی سے جوڑ کر دیکھا۔ یوں پائلر جو بہ ظاہر مزدوروں کے حقوق کے حصول کے لیے بنایا گیا تھا، وہ خطے کے امن سے بھی جڑ گیا۔
ڈاکٹر جعفر احمد نے اس طویل انٹرویو کے دوران کرامت سے یہ سوال بھی کیا کہ پائلر کے ذریعے گزشتہ تین دہائیوں کے دوران لیبر قوانین کے علاوہ دیگر کون سے سماجی اور سیاسی مسائل پر خطے کے ملکوں کے دانشور اور دانش مند لوگوں کے درمیان بڑی بڑی کانفرنسیں کروائیں، پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، نیپال اور بھوٹان وغیرہ سے لوگ آئے۔ ایک دوسرے سے ملے اور انھیں اندازہ ہوا کہ جنگو ازم ہمارے مسائل کا حل نہیں بلکہ یہ بے شمار پیچیدہ مسائل پیدا کرتا ہے۔
ان کی زندگی کی کہانی ہمیں 1958ء اور اس سے بھی پہلے سے سیاسی شعور، جمہوریت کے لیے جدوجہد اور آمریت کے خلاف مزاحمت کا قصہ سناتی ہے۔ ایک دلچسپ بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ نواب کالاباغ جو اس وقت مغربی پاکستان کے گورنر تھے اور اپنی سفاکی اور اپنی پلی پلائی مونچھوں کے لیے مشہور تھے۔ انھوں نے طلبہ کے لیے پاکستان یوتھ موومنٹ، شروع کرائی، باشعور اور سیاسی سوچ رکھنے والے نوجوانوں نے ''مونچھ موومنٹ'' شروع کردی۔ بہت سے طلبہ نے مونچھیں بڑھائیں اور یوں نواب آف کالاباغ کے خلاف مزاحمت کی۔ کرامت کو آج تک اس بات کا قلق ہے کہ وہ اس ''مزاحمت'' میں شریک نہ ہوسکے کیوں کہ اس وقت ان کی مونچھیں نہیں نکلی تھیں۔ اس ایک چھوٹے سے واقعے سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ عوام اگر باشعور ہوں تو وہ آمریت کی کس کس طرح مزاحمت کرتے ہیں۔
کرامت علی 70ء کی دہائی سے ہی سیاست میں سرگرم ہوگئے تھے۔ وہ بہت محبت سے مولانا بھاشانی کا ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ''مولانا بھاشانی مذہبی آدمی تھے۔ وہ نماز پڑھتے تھے لیکن سکہ بند مذہبی آدمی نہیں تھے۔ جب ان سے بات چیت ہوتی تھی تو وہ یہ کہتے تھے کہ بھئی دو لوگ تھے میری جیسی ہی شکل جیسے لیکن وہ مسلمان نہیں تھے۔ ان کی بھی لمبی لمبی داڑھیاں تھیں۔ تم لوگ ان کی کتابیں پڑھو۔ وہ کہتے تھے کہ کچھ سیکھنا ہے توتم لوگ مارکس اور اینگلز کی کتابیں پڑھو۔ وہ پیر بھی تھے۔ جب کرامت بنگلہ دیش بننے کے بعد ان کے گائوں سنتوش گئے تو اس وقت ان کی بیگم زندہ تھیں اور کافی ضعیف تھیں۔ جب ان کو یہ پتہ چلا کہ ایک شخص کراچی سے آیا ہے اور مولانا کے ساتھ کام کرتا تھا تو ان کی بیگم نے کرامت کو بلایا اور پھر دعوت کی۔
وہ میر غوث بخش بزنجو کے بارے میں ہمیں تفصیل سے بتاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے سماجی انصاف، مزدوروں کے حقوق اور خطے میں امن کے لیے بہت کام کیا۔ ان کا کچھ وقت صادقین صاحب کے ساتھ بھی گزرا۔ شاید یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ جب سلطان کاظمین جو صادقین صاحب کے بھتیجے ہیں، وہ انھیں جمعیت کے تشدد سے بچاکر اپنے گھر لے گئے تو وہاں ان کی ملاقات صادقین صاحب سے ہوئی۔ ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ رات میں زیادہ کام کرتے تھے، ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ ان کا بہت وسیع مطالعہ تھا، تاریخ کا، مارکسزم کا، کمیونسٹ موومنٹ کا۔ وہ انقلاب روس کی تفصیلات بیان کرتے تھے۔
صادقین صاحب اور فیض صاحب دونوں کی ایک دوسرے سے وابستگی تھی۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے جب ملنے کے لیے آتے،تو ہم بھی اکثر ان محفلوں میں ساتھ ہوتے تھے۔ خیر یہ دو شخصیات تو بزنجو صاحب سے پہلے کی تھیں، جن سے ہمارا رابطہ ہوا۔ پھرمیں لاہور چلا گیا تو حبیب جالبؔ کے ساتھ ملنے کا سلسلہ ہوا۔وہ پروفیسر کرار حسین کا ذکر بہت احترام سے کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کرار صاحب کا خاندانی پس منظر اور گھرانہ بہت مذہبی تھا لیکن کرار صاحب مکمل طور پر ایک سیکولر انسان تھے۔ ہم نے کبھی ان کو کسی فرقے، مسلک یا مذہب کے خلاف بات کرتے نہیں سنا۔ کبھی انھوں نے یہ کوشش نہیں کی کہ اپنے مذہب کو بڑا ثابت کردیں۔
وہ ٹریڈ یونین کے ساتھیوں کو یاد کرتے ہیں اور ان کی گفتگو میں بہت سے نام آتے ہیں جنھیں آج کی نئی نسل ذرا کم جانتی ہے لیکن جو اپنے وقت کے اہم نام تھے۔ وہ مرزا ابراہیم، نبی احمد صاحب، عثمان بلوچ کو یاد کرتے ہیں۔ راحت سعید، فرحت سعید اور بعض دوسرے نوجوان دوستوں کا ذکر کرتے ہیں۔ ڈاکٹر اختر حمید خان، ان کے اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کو سراہتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ کہنا نہیں بھولتے کہ ڈاکٹر صاحب نے عوامی سطح پر عمدہ کام کیا لیکن حکومت کو اس کی بعض ذمے داریوں سے آزاد کردیا۔ وہ جسٹس دراب پٹیل کی تعریف و توصیف کرتے ہیں اور ان کی اصول پسندی کا قصہ سناتے ہیں۔ ان کے اس انٹرویو میں ہمیں رسول بخش پلیجو، غلام کبریا، ایم بی نقوی اور بی ایم کٹی کا ذکر ملتا ہے۔
پائلر نے امن کے حوالے سے جو کام کیا اس میں نرملا دیش پانڈے کا اہم کردار ہے۔ وہ ہندوستان کی ایک سیاستدان اور سوشل ورکر تھیں، جب وہ کرامت اور ان کی تنظیم سے جڑیں تو انھوں نے پاکستانی امن پسند دوستوںپر بہت شفقت کی۔ وہ راجیہ سبھا کی رکن رہیں لیکن اس دوران وہ سکھوں کے خلاف فسادات، بابری مسجد کے انہدام اور ایٹمی دھماکوں کی مخالفت میں پیش پیش رہیں۔ وہ کئی بار پاکستان آئیں اوریہاں کی امن کانفرنسوں میں شریک ہوئیں۔ اسی طرح انھوں نے کرامت اور ان کے ساتھیوں کو ہندوستان بلایا۔ دیدی کوکرامت اور ان کے پاکستانی ساتھیوں پر اتنا مان تھا کہ جب وہ اس جہان سے گزریں تو ان کی وصیت تھی کہ ان کی راکھ پاکستانی دریائوں میں بھی بہائی جائے۔ کرامت نے ان کی اس خواہش کو پورا کیا اور ان کی راکھ دریائے سندھ میں بہائی گئی۔
کرامت کا زندگی نامہ جو ڈاکٹر جعفر احمد نے ٹیپ میں محفوظ کیا، اس کی آخری سطر میں وہ کہتے ہیں کہ میرے خیال میں ہمیں اپنے سماج کو سمجھنے اور اس کا تجزیہ کرنے کے حوالے سے مارکسزم سے بھرپور استفادہ کرنا چاہیے تھا۔ پھر ہم کو اپنا ورلڈ ویو وضع کرنا چاہیے جس میں یہ واضح ہو کہ ایک گلوبلائزڈ دنیا میں رہتے ہوئے ہمیں اپنے خطے اور اپنے ملک میں سماجی انصاف کی حامل ایک سوسائٹی کے قیام کے لیے کن ترجیحات کواپنے سامنے رکھنا ہوگا۔ ان کے خیال میں یہ بہت ضروری بات ہے کہ جمہور یت کا استحکام ہو۔ اس کے علاوہ سماجی انصاف، غربت کا خاتمہ اور شرف انسانیت کی بحالی، یہ ہمارے پیش نظر ہونا چاہیے۔ ان کے خیال میں کلچر اور تعلیم انسانی سماج کی ترقی اور اس کو روشن خیالی سے ہم کنار کرنے کے لیے بہت ضروری ہیں اور جب بات کلچر کی ہو یا تعلیم کی تو یہ لازماً عقلیت پسندی اور سائنسی طرز فکر کی حامل ہونی چاہیے، محنت کشوں کا کردار اور سول سوسائٹی کے اداروں کا رول اس سارے عمل میں کلیدی نوعیت کا ہوگا۔
ملک کے قیام کو 70 برس سے زیادہ ہوچکے ہیں، شروع میں ایسے بہت سے لوگ ہمارے درمیان موجود تھے جنھوں نے برصغیر میں انگریز سے عوامی حقوق کے لیے جم کر لڑائی لڑی تھی۔ جیل گئے تھے، شداید برداشت کیے تھے، ان کے گھر برباد ہوگئے تھے، ان میں سے بہت سے جان سے گزرے تھے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان میں ایک جمہوری سماج کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے، اسی لیے انھوں نے یہاں اس خواب کی تعبیر کے لیے نئے سرے سے جدوجہد کی، اس وقت مشرقی بنگال پاکستان کا حصہ تھا اور وہاں ایسے بے شمار لوگ موجود تھے جو جمہوریت اور سب کے لیے مساوی حقوق کی بات کرتے تھے لیکن اس کے بعد جو ہوا وہ ایک خونیں داستان ہے۔
بچے کچھے پاکستان میں جدوجہد کرنے والے نوجوانوں میں کسی کی زندگی، زنداں میں گزری، کسی پر اتنا تشدد کیا گیا کہ وہ جان سے گزرگیا اور کہا یہ گیا کہ اس نے خود کشی کرلی، ہم خیال ترقی پسندوں کو سازش کیس میں بند کیا گیا۔ بلوچ سرداروں اور نوجوانوں سے جھوٹے وعدے کرکے انھیں قتل کردیا گیا۔ ایسے میں کرامت علی جیسے مزدور نوجوان، انسانوں کے حقوق کی بحالی کے نہایت مشکل کام میں جٹ گئے۔
متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے جعفر احمد پڑھنے کے لیے باہر چلے گئے، وہاں سے لوٹ کر آئے تو سبط حسن کو پیرو مرشد مانا، کراچی یونیورسٹی میں نوجوانوں کی ذہنی تربیت کا مشکل کام کرنے لگے۔ اب وہ ڈاکٹر طارق سہیل کی سرکردگی میں آئی ایچ سوشل ریسرچ سینٹر (IHSR) چلاتے ہیں۔ اس انسٹیٹیوٹ کے تحت انھوں نے متعدد کتابیں اور کتابچے شایع کیے۔ اسی پروگرام کے تحت انھوں نے کرامت علی کی زندگی کا قصہ ان سے سنا، اسے ریکارڈ کیا اور پھر صائمہ حیات اور ڈاکٹر انور شاہین کی محنت سے اسے کاغذ پر اتار کرکتابی شکل میں ہمارے سامنے پیش کر دیا۔
کرامت علی نکلے تھے مزدوروں کے حقوق کے لیے انھیں منظم کرنے پھرا نہیں اندازہ ہوا کہ مزدوروں کے حقوق کا رشتہ خطے میں امن کی جدوجہد سے بھی جڑا ہوا ہے۔ یہ ایک بنیادی معاملہ تھا کہ اگر برصغیر میں مزدوروں کے درمیان رشتہ ناتا نہیں ہوگا تو پھر خطے میں امن کیسے ہوسکتا ہے۔ کرامت اور ان کے دوستوں نے اینٹی نیوکلیئر موومنٹ چلائی اور اسے بھی مزدوروں کی زندگی اور ان کی روزی روٹی سے جوڑ کر دیکھا۔ یوں پائلر جو بہ ظاہر مزدوروں کے حقوق کے حصول کے لیے بنایا گیا تھا، وہ خطے کے امن سے بھی جڑ گیا۔
ڈاکٹر جعفر احمد نے اس طویل انٹرویو کے دوران کرامت سے یہ سوال بھی کیا کہ پائلر کے ذریعے گزشتہ تین دہائیوں کے دوران لیبر قوانین کے علاوہ دیگر کون سے سماجی اور سیاسی مسائل پر خطے کے ملکوں کے دانشور اور دانش مند لوگوں کے درمیان بڑی بڑی کانفرنسیں کروائیں، پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، نیپال اور بھوٹان وغیرہ سے لوگ آئے۔ ایک دوسرے سے ملے اور انھیں اندازہ ہوا کہ جنگو ازم ہمارے مسائل کا حل نہیں بلکہ یہ بے شمار پیچیدہ مسائل پیدا کرتا ہے۔
ان کی زندگی کی کہانی ہمیں 1958ء اور اس سے بھی پہلے سے سیاسی شعور، جمہوریت کے لیے جدوجہد اور آمریت کے خلاف مزاحمت کا قصہ سناتی ہے۔ ایک دلچسپ بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ نواب کالاباغ جو اس وقت مغربی پاکستان کے گورنر تھے اور اپنی سفاکی اور اپنی پلی پلائی مونچھوں کے لیے مشہور تھے۔ انھوں نے طلبہ کے لیے پاکستان یوتھ موومنٹ، شروع کرائی، باشعور اور سیاسی سوچ رکھنے والے نوجوانوں نے ''مونچھ موومنٹ'' شروع کردی۔ بہت سے طلبہ نے مونچھیں بڑھائیں اور یوں نواب آف کالاباغ کے خلاف مزاحمت کی۔ کرامت کو آج تک اس بات کا قلق ہے کہ وہ اس ''مزاحمت'' میں شریک نہ ہوسکے کیوں کہ اس وقت ان کی مونچھیں نہیں نکلی تھیں۔ اس ایک چھوٹے سے واقعے سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ عوام اگر باشعور ہوں تو وہ آمریت کی کس کس طرح مزاحمت کرتے ہیں۔
کرامت علی 70ء کی دہائی سے ہی سیاست میں سرگرم ہوگئے تھے۔ وہ بہت محبت سے مولانا بھاشانی کا ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ''مولانا بھاشانی مذہبی آدمی تھے۔ وہ نماز پڑھتے تھے لیکن سکہ بند مذہبی آدمی نہیں تھے۔ جب ان سے بات چیت ہوتی تھی تو وہ یہ کہتے تھے کہ بھئی دو لوگ تھے میری جیسی ہی شکل جیسے لیکن وہ مسلمان نہیں تھے۔ ان کی بھی لمبی لمبی داڑھیاں تھیں۔ تم لوگ ان کی کتابیں پڑھو۔ وہ کہتے تھے کہ کچھ سیکھنا ہے توتم لوگ مارکس اور اینگلز کی کتابیں پڑھو۔ وہ پیر بھی تھے۔ جب کرامت بنگلہ دیش بننے کے بعد ان کے گائوں سنتوش گئے تو اس وقت ان کی بیگم زندہ تھیں اور کافی ضعیف تھیں۔ جب ان کو یہ پتہ چلا کہ ایک شخص کراچی سے آیا ہے اور مولانا کے ساتھ کام کرتا تھا تو ان کی بیگم نے کرامت کو بلایا اور پھر دعوت کی۔
وہ میر غوث بخش بزنجو کے بارے میں ہمیں تفصیل سے بتاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے سماجی انصاف، مزدوروں کے حقوق اور خطے میں امن کے لیے بہت کام کیا۔ ان کا کچھ وقت صادقین صاحب کے ساتھ بھی گزرا۔ شاید یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ جب سلطان کاظمین جو صادقین صاحب کے بھتیجے ہیں، وہ انھیں جمعیت کے تشدد سے بچاکر اپنے گھر لے گئے تو وہاں ان کی ملاقات صادقین صاحب سے ہوئی۔ ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ رات میں زیادہ کام کرتے تھے، ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ ان کا بہت وسیع مطالعہ تھا، تاریخ کا، مارکسزم کا، کمیونسٹ موومنٹ کا۔ وہ انقلاب روس کی تفصیلات بیان کرتے تھے۔
صادقین صاحب اور فیض صاحب دونوں کی ایک دوسرے سے وابستگی تھی۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے جب ملنے کے لیے آتے،تو ہم بھی اکثر ان محفلوں میں ساتھ ہوتے تھے۔ خیر یہ دو شخصیات تو بزنجو صاحب سے پہلے کی تھیں، جن سے ہمارا رابطہ ہوا۔ پھرمیں لاہور چلا گیا تو حبیب جالبؔ کے ساتھ ملنے کا سلسلہ ہوا۔وہ پروفیسر کرار حسین کا ذکر بہت احترام سے کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کرار صاحب کا خاندانی پس منظر اور گھرانہ بہت مذہبی تھا لیکن کرار صاحب مکمل طور پر ایک سیکولر انسان تھے۔ ہم نے کبھی ان کو کسی فرقے، مسلک یا مذہب کے خلاف بات کرتے نہیں سنا۔ کبھی انھوں نے یہ کوشش نہیں کی کہ اپنے مذہب کو بڑا ثابت کردیں۔
وہ ٹریڈ یونین کے ساتھیوں کو یاد کرتے ہیں اور ان کی گفتگو میں بہت سے نام آتے ہیں جنھیں آج کی نئی نسل ذرا کم جانتی ہے لیکن جو اپنے وقت کے اہم نام تھے۔ وہ مرزا ابراہیم، نبی احمد صاحب، عثمان بلوچ کو یاد کرتے ہیں۔ راحت سعید، فرحت سعید اور بعض دوسرے نوجوان دوستوں کا ذکر کرتے ہیں۔ ڈاکٹر اختر حمید خان، ان کے اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کو سراہتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ کہنا نہیں بھولتے کہ ڈاکٹر صاحب نے عوامی سطح پر عمدہ کام کیا لیکن حکومت کو اس کی بعض ذمے داریوں سے آزاد کردیا۔ وہ جسٹس دراب پٹیل کی تعریف و توصیف کرتے ہیں اور ان کی اصول پسندی کا قصہ سناتے ہیں۔ ان کے اس انٹرویو میں ہمیں رسول بخش پلیجو، غلام کبریا، ایم بی نقوی اور بی ایم کٹی کا ذکر ملتا ہے۔
پائلر نے امن کے حوالے سے جو کام کیا اس میں نرملا دیش پانڈے کا اہم کردار ہے۔ وہ ہندوستان کی ایک سیاستدان اور سوشل ورکر تھیں، جب وہ کرامت اور ان کی تنظیم سے جڑیں تو انھوں نے پاکستانی امن پسند دوستوںپر بہت شفقت کی۔ وہ راجیہ سبھا کی رکن رہیں لیکن اس دوران وہ سکھوں کے خلاف فسادات، بابری مسجد کے انہدام اور ایٹمی دھماکوں کی مخالفت میں پیش پیش رہیں۔ وہ کئی بار پاکستان آئیں اوریہاں کی امن کانفرنسوں میں شریک ہوئیں۔ اسی طرح انھوں نے کرامت اور ان کے ساتھیوں کو ہندوستان بلایا۔ دیدی کوکرامت اور ان کے پاکستانی ساتھیوں پر اتنا مان تھا کہ جب وہ اس جہان سے گزریں تو ان کی وصیت تھی کہ ان کی راکھ پاکستانی دریائوں میں بھی بہائی جائے۔ کرامت نے ان کی اس خواہش کو پورا کیا اور ان کی راکھ دریائے سندھ میں بہائی گئی۔
کرامت کا زندگی نامہ جو ڈاکٹر جعفر احمد نے ٹیپ میں محفوظ کیا، اس کی آخری سطر میں وہ کہتے ہیں کہ میرے خیال میں ہمیں اپنے سماج کو سمجھنے اور اس کا تجزیہ کرنے کے حوالے سے مارکسزم سے بھرپور استفادہ کرنا چاہیے تھا۔ پھر ہم کو اپنا ورلڈ ویو وضع کرنا چاہیے جس میں یہ واضح ہو کہ ایک گلوبلائزڈ دنیا میں رہتے ہوئے ہمیں اپنے خطے اور اپنے ملک میں سماجی انصاف کی حامل ایک سوسائٹی کے قیام کے لیے کن ترجیحات کواپنے سامنے رکھنا ہوگا۔ ان کے خیال میں یہ بہت ضروری بات ہے کہ جمہور یت کا استحکام ہو۔ اس کے علاوہ سماجی انصاف، غربت کا خاتمہ اور شرف انسانیت کی بحالی، یہ ہمارے پیش نظر ہونا چاہیے۔ ان کے خیال میں کلچر اور تعلیم انسانی سماج کی ترقی اور اس کو روشن خیالی سے ہم کنار کرنے کے لیے بہت ضروری ہیں اور جب بات کلچر کی ہو یا تعلیم کی تو یہ لازماً عقلیت پسندی اور سائنسی طرز فکر کی حامل ہونی چاہیے، محنت کشوں کا کردار اور سول سوسائٹی کے اداروں کا رول اس سارے عمل میں کلیدی نوعیت کا ہوگا۔