طبقاتی تضادات کی انتہا

کیا اب طبقاتی تضادات ختم ہوگئے یا اہل قلم، قلم تکیے کے نیچے رکھ کر سو گئے؟


Zaheer Akhter Bedari September 14, 2020
[email protected]

جمہوریت عوام کی اجتماعی طاقت کا نام ہے۔ ہماری اشرافیہ نام نہاد جمہوریت سے تو خوش رہتی ہے کیونکہ جعلی اور نام نہاد جمہوریت سے اس کے طبقاتی مفادات کو کوئی نقصان نہیں ہوتا یعنی عوام بٹے رہیں تو پھر اشرافیہ خوش رہتی ہے اور عوام کو رنگ نسل زبان اور قومیت کے نام پر اپنی سیاست کی بلی چڑھاتی ہے۔

پاکستان مختلف زبانوں مسلکوں اور قومیتوں کا ایک مجموعہ ہے ہماری اشرافیہ اس تقسیم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام کو تقسیم در تقسیم کا نیک کام کر رہی ہے۔ ماضی میں خیبر پختونخوا میں نسل اور قومیت کی سیاست کی جاتی رہی اب اسی نوع کی سیاست کا مرکز سندھ کو بنایا جا رہا ہے۔ ہمارے سندھی بھائی اس حوالے سے بہت فراخ دل ہیں لیکن اشرافیہ کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی حوالے سے عوام کو تقسیم کر کے رکھا جائے۔

کراچی ایک بڑا میگا سٹی ہے جہاں چاروں صوبوں کے عوام ہی نہیں رہتے بلکہ دنیا کے مختلف ملکوں کے لاکھوں عوام بھی رہتے ہیں۔ اس میگاسٹی میں زبان اور قومیت کے حوالے سے بڑی احتیاط سے سیاست کرنے کی ضرورت ہے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے سیاستدان اپنی کمپنی کی شہرت کے لیے اپنی تقریروں اور گفتگو میں لسانی مسالہ ڈال کر عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے عوام میں غلط فہمیاں پیدا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اس حوالے سے ہمارا میڈیا بہت محتاط ہے اور عوام میں یکجہتی پیدا کر رہا ہے۔

پاکستان مختلف زبانوں، رنگوں اور قومیتوں کا ایک حسین گلدستہ ہے ہمارے دشمن اور دوست نما دشمن ہمیشہ یہ کوشش کرتے رہتے ہیں کہ مذکورہ حوالوں سے عوام کو تقسیم کر کے ان کی طاقت کو کمزور کیا جائے۔ عوام کا فرض ہے کہ وہ ان سازشوں سے ہوشیار رہیں۔ اس تقسیم میں ایک تقسیم مسلکوں کی ہے بدقسمتی سے یہ تقسیم بہت جذباتی ہے اور عام طور پر مسلک کے حوالے سے عوام جلد جذباتی ہو جاتے ہیں۔ ایک اور اسی طرح کی جذباتی تقسیم مقامی اور مہاجروں یعنی اردو اسپیکنگ کی ہے یہ اب کسی حد تک نارمل ہو رہی ہے لیکن عوام دشمن طاقتیں اسے اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

اصل میں اس کمزوری کی ایک بڑی وجہ پاکستان میں بائیں بازو کی کمزوریاں ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد بائیں بازو نے طبقاتی تضادات کو روشناس کرایا ہے اور اس حوالے سے زبان قومیت وغیرہ کی سیاست کرنے کے بجائے غریب اور امیر کی طبقاتی سیاست کی جس کا نتیجہ غریبوں اور محنت کشوں میں لسانی نفرتوں کے بجائے طبقاتی یکجہتی کی شکل میں سامنے آیا۔

غریب طبقات کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دولت اور غربت میں جو فاصلے موجود ہیں وہ سرمایہ دارانہ نظام میں بڑھتے ہی جاتے ہیں کم نہیں ہوتے۔ محنت کش طبقات اس حقیقت کو اگر نہ بھولیں تو ان میں یکجہتی کبھی کم نہیں ہو سکتی اور مراعات یافتہ طبقات کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اس طبقاتی یکجہتی کو کمزور کیا جائے۔

طبقاتی معاشروں کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ غریب کی غربت کی کوئی انتہا نہیں رہتی اسی طرح امیر کی امارت کی بھی کوئی انتہا نہیں رہتی۔ دوسری بات یہ کہ غریب دن رات محنت کرنے کے باوجود بھی پیٹ بھر روٹی سے محروم رہتا ہے اور امیر ٹیلیفونوں پر سودے کرکے کروڑوں کما لیتا ہے۔ یہ فرق وقت کے ساتھ کم ہونے کے بجائے بڑھ رہا ہے۔ دنیا میں اقتصادی ناانصافی کے نتیجے میں بڑے بڑے انقلابات آئے، 1789ء کا انقلاب فرانس اس حوالے سے دنیا کا یادگار انقلاب ہے ایک طرف ننگوں، بھوکوں کا ہجوم تھا جو گھروں میں استعمال ہونے والے چھری چاقو لیے سڑکوں پر پھر رہا تھا اور دولت مندوں کو مار رہا تھا دوسری طرف مٹھی بھر مراعات یافتہ طبقات تھے جو باغیوں سے جان بچاتے پھر رہے تھے۔

اس انقلاب کی دنیا میں اس قدر دھوم اس لیے مچی تھی کہ یہ انقلاب طبقاتی بنیادوں پر اٹھا تھا اور غریب طبقات امیر طبقات کے مقابلے کے لیے گھروں سے چاقو اور چھریاں لے کر نکلے تھے۔ دنیا کی تاریخ میں بہت سارے انقلابات آئے لیکن انقلاب فرانس کی شہرت کو کوئی نہ پہنچ سکا۔ اس کی وجہ غریب اور نہتے عوام کا امیروں، جاگیرداروں کے خلاف وہ بغاوت تھی جو تاریخ میں ایک منفرد مقام کی حامل تھی۔

انقلاب فرانس دراصل طبقاتی تضاد کا شاہکار تھا۔ دنیا میں سیکڑوں جنگیں ہوئیں، بے شمار انقلابات آئے لیکن انقلاب فرانس کا نام ان سارے انقلابات سے بالکل مختلف اور طبقاتی تضادات کا ایک ناگزیر نتیجہ تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تاریخ میں انقلاب فرانس کی ایک الگ شناخت کیوں بنی؟ اس سوال پر محققین غور کرتے رہے ہیں اور غور کر تے رہیں گے۔

ساری دنیا طبقاتی نظام میں جکڑی ہوئی ہے، اس نظام کی بدولت دنیا کے انسان دو حصوں میں بٹ گئے ہیں۔ ایک طرف دو فیصد ایلیٹ کلاس ہے جو اربوں کھربوں کی دولت پر قبضہ جمائے بیٹھی ہے۔ دوسری طرف وہ 98 فیصد غریب اور پچھڑے ہوئے عوام ہیں جو دو وقت کی روٹی سے محتاج ہیں اس کھلی بے ایمانی کے نظام کے خلاف ملک کے 22 کروڑ عوام کو آواز اٹھانا چاہیے۔ المیہ یہ ہے کہ ہر ترقی یافتہ ملک میں اہل سیاست عوام کو اس کھلی اقتصادی ناانصافی کے خلاف احتجاج کرنے کی ترغیب فراہم کرتے ہیں۔

ماضی میں ادیب طبقاتی مظالم کے خلاف کہانیاں لکھتے تھے، شاعر اپنی شاعری میں طبقاتی مظالم کے خلاف عوام کو طبقاتی مظالم کے خلاف مزاحمت کی ترغیب فراہم کرتے تھے، فنکار اپنے ڈراموں میں عوام کو طبقاتی تضادات کے خلاف بیدار کرنے کی کوشش کرتے تھے، مشہور ڈرامہ نگار احمد علی نے اس حوالے سے کئی ڈرامے لکھے جن میں طبقاتی مظالم کے خلاف بیدار کرنے کی ایک کامیاب کوشش کی۔ اس حوالے سے مذکورہ معروف ڈرامہ نگار کا ایک ڈرامہ ''آدھی روٹی ایک لنگوٹی'' بہت مقبول ہوا۔ ہم اس حوالے سے مصنف کے ڈراموں کو غریب بستیوں میں دکھانے کا انتظام کرتے تھے۔

اس وقت کا دور ہی الگ تھا عوام میں بیداری تھی مشرقی پاکستان کے لیڈر مولانا بھاشانی کی تقریریں اس حوالے سے آگ پر تیل کا کام کرتی تھیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب طبقاتی تضادات ختم ہوگئے یا اہل قلم، قلم تکیے کے نیچے رکھ کر سو گئے، جب کہ آج طبقاتی تضادات ماضی کے مقابلے میں بہت شارپ ہو گئے ہیں اور خصوصاً اہل قلم کی حالت بہت پتلی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں