جمہوریت ایک محنت طلب نظام ہے
جمہوریت کا پودا ابتدا میں بہت توجہ مانگتا ہے اور اسے تن آور درخت بننے میں خاصی محنت اور لگن درکار ہوتی ہے۔
آج عالمی یومِ جمہوریت ہے۔دنیا کے لگ بھگ پونے دو سو ممالک اور خطے جمہوریہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
کہیں یہ جمہوریت منتخب کے بجائے نامزد اداروں پر مشتمل ہے، کہیں یک جماعتی نظام کو جمہوریت کے نام پر نافذ کیا گیا ہے، کہیں فوج اور سویلینز کی مخلوط حکومت کو جمہوریت کا لقب دیا گیا ہے (جیسے برما اور مصر وغیرہ )۔مگر عام طور پر جمہوریت کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ ایک کثیر جماعتی نظام میں عوام کے منتخب نمائندوں کے بنائے ہوئے آئین و قوانین کے مطابق شہریوں کو آزادیِ اظہار، آزادیِ انتخاب ، نقل و حرکت کی آزادی ، تشدد سے تحفظ ، عدالتی تحفظ اور صحت و تعلیم و روزگار و رہائش جیسے بنیادی حقوق کی ضمانت ہو۔
کہا جاتا ہے کہ کامیاب جمہوریت ایک ہدف اور تسلسل کا نام ہے جسے جاری و ساری رکھنے کے لیے نہ صرف بین الاقوامی برادری، مقتدر قومی اداروں بلکہ سول سوسائٹی اور فرد کا ہمہ وقت تعاون و تال میل و حمایت درکار ہے۔بالغ رائے دہی کے تحت انتخابی نظام میں باقاعدگی کے ساتھ ساتھ بنیادی آزادیوں اور انسانی حقوق کا احترام بھی جمہوری عمل کے فروغ کا لازمی عنصر ہے۔ اگر یہ احترام جاری رہے تو کچھ عرصے بعد خود جمہوری اقدار اتنی مستحکم ہو جاتی ہیں کہ وہ اپنا تحفظ خود کر سکیں۔
اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق چارٹر اور اقتصادی ، سماجی و ثقافتی حقوق کے بین الاقوامی کنونشنز اور دیگر متعلقہ معاہدوں میں زمیں زاد برادریوں، اقلیتوں اور معذوروں کے حقوق کے تحفظ کا جو طریقہ متعین کیا گیا ہے، اس کا نفاذ اور ان کنونشنوں کی ریاستی توثیق اور ان پر پورا پورا عمل بھی جمہوری اقدار کی مضبوطی اور وسائل و دولت کی مساوی تقسیم کا ضامن بن سکتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گتریز نے اس برس عالمی یومِ جمہوریت کے موقع پر تشویش ظاہر کی ہے کہ دنیا میں اس وقت شہری آزادیوں کے لیے گنجائش سکڑتی جا رہی ہے۔یعنی اطلاعات کی آزادانہ ترسیل کے عمل اور میڈیا کے دائرے کو محدود کرنے کے لیے تادیبی و تعزیراتی کاروائیوں کا دائرہ پھیلتا جا رہا ہے۔
کچھ لوگ تو واقعی جعلی خبریں یا افواہ طرازی میں سرگرم ہیں مگر بہت سے سرگرم کارکنوں کو اس سلسلے میں موردِ الزام ٹھہرا کر بھی پابندِ سلاسل کیا جا رہا ہے۔حتیٰ کہ طبی عملے، ڈاکٹروں، صحافیوں اور سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمے بنانے اور سزائیں دینے کا چلن بھی پہلے سے زیادہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔آن لائن سائبر نگرانی دن دونی رات چوگنی بڑھتی جا رہی ہے۔
اس طرح کے اقدامات کے سبب یہ سوال بھی سر اٹھا رہا ہے کہ آزادیِ اظہار کو گزند پہنچائے بغیر کس طرح مضر اور نفرت انگیز مواد کو پھیلنے سے روکا جائے۔غلط بیانی اور ڈس انفارمیشن کے خاتمے کے نام پر جائز اطلاعاتی ترسیل کے عمل کو بھی تادیب و تعزیر کے شکنجے سے کیسے بچایا جائے اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی شعوری و لاشعوری سنسر شپ سے بچتے ہوئے کس طرح درست اطلاعات تک عوامی رسائی پر عمومی اعتماد کو بحال رکھا جائے۔
اس کا ایک حل اگر بے جا پابندیوں سے پرہیز ہے تو دوسرا حل یہ ہے کہ اطلاعاتی ترسیل کے ذمے دار ادارے اور ان کے کارکن حقائق کو توڑے مروڑے بغیر کسی خاص ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے بجائے شفاف اطلاعاتی نظام کو مضبوط کرنے کے لیے سنجیدگی سے کام کریں۔کیونکہ جب عام آدمی اور رائے دہندہ تک اطلاعات بلارکاوٹ اور شفاف انداز میں پہنچیں گی، تب ہی وہ اپنی رائے کو درست طور پر قائم کر کے ایک صاف ستھرے جمہوری نظام کو مستحکم رکھنے میں اپنا بنیادی کردار ادا کرنے کے قابل ہو سکے گا۔
جمہوری عمل تب تک مستحکم اور مسلسل نہیں رھ سکتا جب تک کہ اس میں آبادی کے نصف حصے یعنی خواتین کی زیادہ سے زیادہ شرکت یقینی نہ بنائی جا سکے۔ترقی یافتہ ممالک جہاں جمہوریت کی جڑیں ایک طویل دورانئے، اصلاحات اور روایات کے نتیجے میں مضبوط ہو چکی ہیں وہاں جمہوری عمل میں خواتین کی شرکت کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں رہا۔البتہ ترقی پذیر ممالک میں جہاں خواندگی ، غربت ، جنسی امتیاز ایک سنگین مسئلہ ہیں، وہاں خواتین کی جمہوری عمل میں تسلی بخش نمائندگی بھی متاثر ہو رہی ہے۔
روانڈا یا چند دیگر ترقی پذیر ممالک کے پارلیمانی اداروں میں حالیہ برسوں میں خواتین کی نمائندگی حوصلہ افزا حد تک بڑھی ہے۔مگر بیشتر ممالک میں اب بھی خواتین کا جمہوری شعور اور ووٹ کی آزادی پدرسری یا قدامت پرست سماجی نظام کے تابع ہے۔
مثلاً پاکستان جہاں پچھلے بیس برس کے دوران سیاسی سرگرمیوں اور پارلیمانی نظام میں خواتین کی نمائندگی بڑھی ہے۔وہاں بھی اب تک زیادہ تر خواتین عورتوں کے لیے مخصوص پارلیمانی نشستوں پر ہی نامزد ہوتی ہیں۔بہت کم خواتین ہیں جو اپنے بل بوتے پر جنرل نشستوں پر کامیابی حاصل کر سکیں۔کوٹے کی سیٹوں پر بھی جو خواتین آتی ہیں ان میں سے زیادہ تر کا تعلق سیاسی خانوادوں یا اعلی متوسط طبقے سے ہوتا ہے۔
نچلے طبقات کی خواتین عددی اکثریت کے باوجود اپنی طبقاتی نمائندگی سے محروم رھ جاتی ہیں۔ اس کی ذمے داری کسی حد تک سیاسی جماعتوں پر بھی عائد ہوتی ہے جنہوں نے خواتین کی پارٹی سطح پر نمائندگی کو فروغ دینے میں اس مستعدی کا مظاہرہ نہیں کیا جو جمہوری عمل میں خواتین کی زیادہ سے زیادہ شرکت کو آسان اور یقینی بنا سکے۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ووٹنگ کی فہرست میں خواتین ووٹروں کا اندراج مردوں کی نسبت عموماً کم رہتا ہے۔اور جن کا اندراج ہو بھی جاتا ہے ان میں سے بھی بہت سی خواتین بالحضوص دیہی علاقوں میں رہنے والی خواتین اپنی مرضی سے ووٹ کا حق استعمال کرنے سے قاصر رہتی ہیں۔حالانکہ یہی مسئلہ دیہی علاقوں کے مرد ووٹروں کو بھی طاقتور سیاسی شخصیات کے دباؤ کی صورت میں درپیش رہتا ہے مگر خواتین پر یہ دباؤ دوہری نوعیت کا ہوتا ہے۔
کسی بھی جمہوری نظام کی راہ میں ایسی رکاوٹیں آتی رہتی ہیں۔مگر اس کا علاج یہ نہیں کہ جمہوری نظام کو ہی کمزور کر دیا جائے بلکہ ان خرابیوں کا علاج اس نظام کو مزید طاقتور بنانے ، اس پر اعتماد بڑھانے اور اس پر یقین رکھنے میں ہی مضمر ہے۔اگرچہ جمہوریت کا پودا ابتدا میں بہت توجہ مانگتا ہے اور اسے تن آور درخت بننے میں خاصی محنت اور لگن درکار ہوتی ہے لیکن ایک بار اگر یہ اپنی جڑیں پکڑ لے تو پھر اس کی گھنی چھاؤں نسل در نسل فیض پہنچاتی چلی جاتی ہے۔
البتہ تن آور درخت بننے کے بعد بھی اس کی کانٹ چھانٹ اور دیکھ بھال ضروری ہے تاکہ اسے ٹنڈ منڈ یا بیمار ہونے سے یا غیر جمہوری فطرت رکھنے والے کیڑے مکوڑوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
کہیں یہ جمہوریت منتخب کے بجائے نامزد اداروں پر مشتمل ہے، کہیں یک جماعتی نظام کو جمہوریت کے نام پر نافذ کیا گیا ہے، کہیں فوج اور سویلینز کی مخلوط حکومت کو جمہوریت کا لقب دیا گیا ہے (جیسے برما اور مصر وغیرہ )۔مگر عام طور پر جمہوریت کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ ایک کثیر جماعتی نظام میں عوام کے منتخب نمائندوں کے بنائے ہوئے آئین و قوانین کے مطابق شہریوں کو آزادیِ اظہار، آزادیِ انتخاب ، نقل و حرکت کی آزادی ، تشدد سے تحفظ ، عدالتی تحفظ اور صحت و تعلیم و روزگار و رہائش جیسے بنیادی حقوق کی ضمانت ہو۔
کہا جاتا ہے کہ کامیاب جمہوریت ایک ہدف اور تسلسل کا نام ہے جسے جاری و ساری رکھنے کے لیے نہ صرف بین الاقوامی برادری، مقتدر قومی اداروں بلکہ سول سوسائٹی اور فرد کا ہمہ وقت تعاون و تال میل و حمایت درکار ہے۔بالغ رائے دہی کے تحت انتخابی نظام میں باقاعدگی کے ساتھ ساتھ بنیادی آزادیوں اور انسانی حقوق کا احترام بھی جمہوری عمل کے فروغ کا لازمی عنصر ہے۔ اگر یہ احترام جاری رہے تو کچھ عرصے بعد خود جمہوری اقدار اتنی مستحکم ہو جاتی ہیں کہ وہ اپنا تحفظ خود کر سکیں۔
اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق چارٹر اور اقتصادی ، سماجی و ثقافتی حقوق کے بین الاقوامی کنونشنز اور دیگر متعلقہ معاہدوں میں زمیں زاد برادریوں، اقلیتوں اور معذوروں کے حقوق کے تحفظ کا جو طریقہ متعین کیا گیا ہے، اس کا نفاذ اور ان کنونشنوں کی ریاستی توثیق اور ان پر پورا پورا عمل بھی جمہوری اقدار کی مضبوطی اور وسائل و دولت کی مساوی تقسیم کا ضامن بن سکتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گتریز نے اس برس عالمی یومِ جمہوریت کے موقع پر تشویش ظاہر کی ہے کہ دنیا میں اس وقت شہری آزادیوں کے لیے گنجائش سکڑتی جا رہی ہے۔یعنی اطلاعات کی آزادانہ ترسیل کے عمل اور میڈیا کے دائرے کو محدود کرنے کے لیے تادیبی و تعزیراتی کاروائیوں کا دائرہ پھیلتا جا رہا ہے۔
کچھ لوگ تو واقعی جعلی خبریں یا افواہ طرازی میں سرگرم ہیں مگر بہت سے سرگرم کارکنوں کو اس سلسلے میں موردِ الزام ٹھہرا کر بھی پابندِ سلاسل کیا جا رہا ہے۔حتیٰ کہ طبی عملے، ڈاکٹروں، صحافیوں اور سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمے بنانے اور سزائیں دینے کا چلن بھی پہلے سے زیادہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔آن لائن سائبر نگرانی دن دونی رات چوگنی بڑھتی جا رہی ہے۔
اس طرح کے اقدامات کے سبب یہ سوال بھی سر اٹھا رہا ہے کہ آزادیِ اظہار کو گزند پہنچائے بغیر کس طرح مضر اور نفرت انگیز مواد کو پھیلنے سے روکا جائے۔غلط بیانی اور ڈس انفارمیشن کے خاتمے کے نام پر جائز اطلاعاتی ترسیل کے عمل کو بھی تادیب و تعزیر کے شکنجے سے کیسے بچایا جائے اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی شعوری و لاشعوری سنسر شپ سے بچتے ہوئے کس طرح درست اطلاعات تک عوامی رسائی پر عمومی اعتماد کو بحال رکھا جائے۔
اس کا ایک حل اگر بے جا پابندیوں سے پرہیز ہے تو دوسرا حل یہ ہے کہ اطلاعاتی ترسیل کے ذمے دار ادارے اور ان کے کارکن حقائق کو توڑے مروڑے بغیر کسی خاص ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے بجائے شفاف اطلاعاتی نظام کو مضبوط کرنے کے لیے سنجیدگی سے کام کریں۔کیونکہ جب عام آدمی اور رائے دہندہ تک اطلاعات بلارکاوٹ اور شفاف انداز میں پہنچیں گی، تب ہی وہ اپنی رائے کو درست طور پر قائم کر کے ایک صاف ستھرے جمہوری نظام کو مستحکم رکھنے میں اپنا بنیادی کردار ادا کرنے کے قابل ہو سکے گا۔
جمہوری عمل تب تک مستحکم اور مسلسل نہیں رھ سکتا جب تک کہ اس میں آبادی کے نصف حصے یعنی خواتین کی زیادہ سے زیادہ شرکت یقینی نہ بنائی جا سکے۔ترقی یافتہ ممالک جہاں جمہوریت کی جڑیں ایک طویل دورانئے، اصلاحات اور روایات کے نتیجے میں مضبوط ہو چکی ہیں وہاں جمہوری عمل میں خواتین کی شرکت کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں رہا۔البتہ ترقی پذیر ممالک میں جہاں خواندگی ، غربت ، جنسی امتیاز ایک سنگین مسئلہ ہیں، وہاں خواتین کی جمہوری عمل میں تسلی بخش نمائندگی بھی متاثر ہو رہی ہے۔
روانڈا یا چند دیگر ترقی پذیر ممالک کے پارلیمانی اداروں میں حالیہ برسوں میں خواتین کی نمائندگی حوصلہ افزا حد تک بڑھی ہے۔مگر بیشتر ممالک میں اب بھی خواتین کا جمہوری شعور اور ووٹ کی آزادی پدرسری یا قدامت پرست سماجی نظام کے تابع ہے۔
مثلاً پاکستان جہاں پچھلے بیس برس کے دوران سیاسی سرگرمیوں اور پارلیمانی نظام میں خواتین کی نمائندگی بڑھی ہے۔وہاں بھی اب تک زیادہ تر خواتین عورتوں کے لیے مخصوص پارلیمانی نشستوں پر ہی نامزد ہوتی ہیں۔بہت کم خواتین ہیں جو اپنے بل بوتے پر جنرل نشستوں پر کامیابی حاصل کر سکیں۔کوٹے کی سیٹوں پر بھی جو خواتین آتی ہیں ان میں سے زیادہ تر کا تعلق سیاسی خانوادوں یا اعلی متوسط طبقے سے ہوتا ہے۔
نچلے طبقات کی خواتین عددی اکثریت کے باوجود اپنی طبقاتی نمائندگی سے محروم رھ جاتی ہیں۔ اس کی ذمے داری کسی حد تک سیاسی جماعتوں پر بھی عائد ہوتی ہے جنہوں نے خواتین کی پارٹی سطح پر نمائندگی کو فروغ دینے میں اس مستعدی کا مظاہرہ نہیں کیا جو جمہوری عمل میں خواتین کی زیادہ سے زیادہ شرکت کو آسان اور یقینی بنا سکے۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ووٹنگ کی فہرست میں خواتین ووٹروں کا اندراج مردوں کی نسبت عموماً کم رہتا ہے۔اور جن کا اندراج ہو بھی جاتا ہے ان میں سے بھی بہت سی خواتین بالحضوص دیہی علاقوں میں رہنے والی خواتین اپنی مرضی سے ووٹ کا حق استعمال کرنے سے قاصر رہتی ہیں۔حالانکہ یہی مسئلہ دیہی علاقوں کے مرد ووٹروں کو بھی طاقتور سیاسی شخصیات کے دباؤ کی صورت میں درپیش رہتا ہے مگر خواتین پر یہ دباؤ دوہری نوعیت کا ہوتا ہے۔
کسی بھی جمہوری نظام کی راہ میں ایسی رکاوٹیں آتی رہتی ہیں۔مگر اس کا علاج یہ نہیں کہ جمہوری نظام کو ہی کمزور کر دیا جائے بلکہ ان خرابیوں کا علاج اس نظام کو مزید طاقتور بنانے ، اس پر اعتماد بڑھانے اور اس پر یقین رکھنے میں ہی مضمر ہے۔اگرچہ جمہوریت کا پودا ابتدا میں بہت توجہ مانگتا ہے اور اسے تن آور درخت بننے میں خاصی محنت اور لگن درکار ہوتی ہے لیکن ایک بار اگر یہ اپنی جڑیں پکڑ لے تو پھر اس کی گھنی چھاؤں نسل در نسل فیض پہنچاتی چلی جاتی ہے۔
البتہ تن آور درخت بننے کے بعد بھی اس کی کانٹ چھانٹ اور دیکھ بھال ضروری ہے تاکہ اسے ٹنڈ منڈ یا بیمار ہونے سے یا غیر جمہوری فطرت رکھنے والے کیڑے مکوڑوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)