وہ جو گھر میں ’’بے کار‘‘ بیٹھی رہتی ہیں۔۔۔

 ’خواتین خانہ‘ کی خدمات کا اعتراف کیوں نہیں کیا جاتا؟


Rizwan Tahir Mubeen September 15, 2020
 ’خواتین خانہ‘ کی خدمات کا اعتراف کیوں نہیں کیا جاتا؟ فوٹو: فائل

گذشتہ دنوں شہرِ قائد میں برسات کے حوالے سے سماجی ذرایع اِبلاغ (سوشل میڈیا) پر جہاں ہمارے ہم سائے ممالک کی بہت سی ویڈیو غلط طور پر کراچی شہر سے منسوب کی گئیں، وہاں جمع ہوئے پانی اور گندگی وغیرہ کی بہت سی ایسی تصاویر بھی سامنے آئیں۔

جن کا تعلق ہمارے شہر سے نہیں تھا۔۔۔ ایسی ہی ایک تصویر ہماری نظر سے بھی گزری، جو کراچی شہر میں جمع ہونے والے گندے پانی کے حوالے سے مشتہر کی گئی، لیکن بغور دیکھنے پر بہت آسانی سے یہ بات واضح ہو رہی تھی کہ اس تصویر کا تعلق بنگلا دیش یا ہندوستان کے کسی علاقے سے ہے، کیوں کہ تصویر میں 'سائیکل رکشا' دکھائی دے رہا ہے، جو کراچی شہر میں نہیں ہوتا۔

بہرحال، ہم نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ 'فیس بک' پر بار بار مشتہر ہوتی ہوئی یہ تصویر دیکھی، تو اس کی غلط توجیہہ سے قطع نظر اس کے منظر کی گہرائی نے ہماری توجہ حاصل کر لی۔۔۔

ہر چند کہ تصویر غلط طور پر کراچی سے منسوب کی جا رہی تھی، لیکن یہ تصویر جہاں کہیں کی بھی ہے، بلاشبہ ایک باکمال تصویر کہی جا سکتی ہے، جس میں ایک برقع پہنی ہوئی خاتون ایک شیر خور بچے کو گود میں اٹھائے اور دوسرے کم سن بچے کا ہاتھ تھامے ہوئے گندے پانی کا جوہڑ پار کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

یہ بظاہر ایک گھریلو خاتون ہیں، یا کم از کم اس موقع پر اپنی 'گھریلو ذمہ داریاں' ادا کرنے والی خاتون ہیں، جنھیں سماج کے بہت سے حلقے اور بیش تر مرد حضرات گھر میں 'بے کار' بیٹھنے یا بے مقصد اور فارغ رہنے سے تعبیر کرتے ہیں۔۔۔ اور ایک پڑھا لکھا طبقہ بھی ان کے لیے کچھ ایسی ہی سوچ رکھتا ہے، کیوں کہ وہ صرف گھر سے باہر نکل کر معاشی جدوجہد کرنے والی خواتین کو ہی 'کارآمد' سمجھتا ہے۔

یہاں ہمیں ہندوستان کی معروف سماجی کارکن کملا بھاسن کی بات یاد آتی ہے، وہ کہتی ہیں کہ گھر میں رہنے والی عورتیں مردوں سے پانچ چھے گھنٹے زیادہ کام کرتی ہیں۔ مرد اگر کماتا ہے، تو وہ گھر میں صرف پیسہ لے کر آتا ہے، بچے پیسہ نہیں کھاتے، وہ کھانا کھاتے ہیں، انھیں پہننے اوڑھنے سے لے کر رہنے سہنے کی بہت سی ضروریات کی تکمیل درکار ہوتی ہے، اور ایک عورت ہی اس پیسے کی مدد سے یہ تمام سہولتیں بہم پہنچاتی ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ مرد وزن دونوں کے ہی مل کر کام کرنے سے خاندان بنتے ہیں۔ یہ ایک عورت کی ہی محنت ہے کہ وہ مرد کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ بے فکری سے اپنے 'جائے روزگار' پر جا سکے۔

عورت کے اِس کردار کے بغیر مرد ناکام ہے۔۔۔! اس لیے 'خواتین خانہ' کو سماج کے لیے 'بے کار' کہہ دینا نرم سے نرم الفاظ میں بھی ان کی عظمت کو گھٹا دینے کے مترادف ہے۔ وہ اپنی اہم ترین گھریلو ذمہ داریوں کے ذریعے بالواسطہ اس گھر کی معاشی جدوجہد میں ہی حصہ ڈال رہی ہیں۔ انھیں قطعی طور پر معاشرے کا 'عضوِ معطل' یا ناکارہ حصہ نہیں کہا جاسکتا۔۔۔!

پھر ایک عورت وہ بھی تو ہے، جو گھر میں رہ کر ہماری ایک پوری نسل کی تربیت کرتی ہے، ہم اپنے آنے والے کل کی تشکیل کرنے والی خاتون کو کیسے 'بے کار' قرار دے سکتے ہیں۔۔۔؟ اس کی اغوش میں ہمارے مستقبل کی پرورش ہو رہی ہے، اور ہم ذرا سی زبان ہلا کر یہ کہہ دیتے ہیں کہ وہ تو کچھ کر ہی نہیں رہیں۔۔۔! یہی وجہ ہے کہ ہم کبھی اس عورت کی حوصلہ افزائی بھی نہیں کرتے، کیوں کہ ہمارے ہاں یہ سوچ پھیلا دی گئی ہے کہ صرف گھر سے باہر کام کرنا ہی دراصل 'کام' ہے۔

گھریلو ذمہ داریاں تو کسی قطار شمار میں ہی نہیں۔ ہمارے گھروں کے بیش تر مرد بھی بالکل یہی سوچ رکھتے ہیں کہ اصل کام تو وہ کرتے ہیں، جب کہ گھر میں موجود خواتین کچھ نہیں کرتیں، اس لیے کبھی وہ گھر میں اپنی والدہ، بہن، بیوی یا بیٹی اور بہو وغیرہ کا حوصلہ تک نہیں بڑھاتے کہ ہم آپ کے شکر گزار ہیں کہ آپ ہمارے لیے سارا دن اتنی مشقت سے سارے امور انجام دیتی ہیں، ہمیں ساری سہولتیں فراہم کرتی ہیں، ہمارے پہننے اوڑھنے کے آرام سے لے کر کھانے پینے تک ساری ضرورتیں پوری کرتی ہیں۔۔۔ گھر میں چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال اور ان کی تعلیم وتربیت میں مرکزی کردار ادا کرتی ہیں۔

ان کے کھانے پینے اور نگہداشت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتیں۔۔۔ جب کہ یہ بات بھی سبھی مانیں گے کہ اسی بے فکری کی بنا پر اپنے کاموں پر جانے والے مرد حضرات یکسوئی سے اپنے پیشہ ورانہ امور انجام دے پاتے ہیں اور کم ازکم اپنے کام کے وقت میں اپنی بہت سی نجی اور گھریلو ذمہ داریوں کے حوالے سے آزاد ہو جاتے ہیں، دراصل 'گھریلو خواتین' کا یہ معاشی جدوجہد میں حصہ ہی ہے۔۔۔ اسے بھی تسلیم کیا جانا چاہیے۔۔۔!

بابائے اردو مولوی عبدالحق کہتے تھے کہ جس تحریک میں خواتین شامل ہوں، تو پھر وہ تحریک کبھی مرتی نہیں ہے۔۔۔ ایک عورت کی تعلیم کو پوری نسل کے تعلیم یافتہ ہونے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔۔۔ اگر ایک تعلیم یافتہ عورت گھریلو ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو رہی ہے، تو اس میں ہمیں ایک پورا سلیقہ اور ڈھنگ دکھائی دے گا، اس کے غوروفکر اور عمدہ قوت فیصلہ گھر بھر کے ماحول، مسائل ومعاملات اور میلانات پر مثبت اثرات مرتب کرے گی، ملازمت نہ کرنے سے اس کی تعلیم 'ضایع' نہیں جائے گی۔۔۔!

یہی وجہ ہے کہ ماہرین لسانیات خواتین کی 'زبان وبیان' کے تحفظ پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں، کیوں کہ بچے گھر میں اپنی ماں اور گھر میں سارا دن موجود خواتین سے جیسی زبان سنتے ہیں، زیادہ تر وہی ذخیرۂ الفاظ اور زبان ہی ان کے بنیادی تصورات کے خدوخال واضح کرتی ہے، انھی الفاظ، روز مرہ، محاورے اور ضرب المثل کے سہارے ہی وہ سماج میں دوسروں سے برتاؤ سیکھتے ہیں، ان ہی شَبدوں سے ہی ان کے کردار تشکیل پاتے ہیں اور اچھے یا برے رویے پروان چڑھتے ہیں۔

پھر بھلے وہ کتنی ہی دوسری زبانیں سیکھ لیں، لیکن ماں کی گود میں جو بولی ٹھولی ان کے کان میں پڑتی ہے، اور جو رکھ رکھاؤ وہ سیکھتے ہیں، اس کے اثرات تاعمر برقرار رہتے ہیں۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ مختلف میدانوں میں سرگرم خواتین کی خدمات کے ساتھ گھروں میں ہمہ وقت مصروف رہنے والی خواتین کے کردار کو بھی کم تر نہ جانیں اور اسے بھرپور انداز میں تسلیم کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں