سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ ایک ماہ سے بند گندہ پانی بغیر صفائی کے سمندر میں پھینکا جانے لگا

بارشوں کے پانی نے ٹریٹمنٹ پلانٹ تھری کی مشینری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا


Syed Ashraf Ali September 15, 2020
نارتھ کراچی سیکٹر الیون سی ون میں گٹرابلنے سے گلی میں گندہ پانی جمع ہے،شہر کے بیشتر علاقوں کی گلیوں کی یہی صورتحال ہے ۔ فوٹو : ایکسپریس

شہر میں گزشتہ ماہ ہونے والی طوفانی بارشوں سے سیوریج کے پانی کی صفائی کے لیے واحد آپریشنل ٹریٹمنٹ پلانٹ بھی ایک ماہ سے بند پڑا ہے۔

سپریم کورٹ کی ہدایت پر ماڑی پور پر واقع ٹریٹمنٹ پلانٹ تھری ڈیڑھ سال قبل فعال کیا گیا تھا لیکن حالیہ بارشوں نے جہاں پورے شہرمیں تباہ کاریاں مچائیں وہاں ٹی پی تھری بھی زیر آب آگیا، مون سون کی بارشوں کے سیلابی پانی نے ٹی پی تھری کی مشینری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے جس سے مشینوں نے کام کرنا چھوڑدیا۔

ٹی پی تھری کے ذریعے 77ایم جی ڈی پانی کو صاف کرکے سمندر میں پھینکا جارہا تھا لیکن ٹریٹمنٹ پلانٹ کے بند ہونے کے باعث اب کراچی کا تمام سیوریج واٹر 460ایم جی ڈی بغیر صفائی کے سمندر برد کرنے سے سمندری حیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔

2008 میں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے 3 ٹریٹمنٹ پلانٹس ٹی پی ون ، ٹی پی ٹو اور ٹی پی تھری کی مشینری کی آپریشنل مدت پوری ہوگئی جس کے سبب تینوں ٹریٹمنٹ پلانٹ بند ہوگئے اور کراچی کا تمام سیوریج واٹر بغیر ٹریٹ کیے سمندر میں ڈالا جانے لگا۔

واٹربورڈ نے ٹریٹمنٹ پلانٹس کے احیا اور لیاری وملیر ندی میں ٹرانسمیشن لائن کی تنصیب کے لیے ایس تھری منصوبہ تشکیل دیا،2012میں وفاقی و صوبائی حکومتوں نے اس منصوبے کو منظور کیا جس کے تحت وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کو مساوی 50 فیصد فنڈز ادا کرنا ہیں۔

اس منصوبے پر تعمیراتی کام 2013 میں شروع ہوا اور اسے 2 سال میں مکمل کیا جانا تھا لیکن ایس تھری منصوبہ کی لاگت میں اضافے کے باعث 7 سال تک وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان یہ منصوبہ متنازع بنا رہا جس کی وجہ سے منصوبے کے فیز ٹو پر ترقیاتی کام شروع ہی نہ ہوسکا، فیز ون کا بیشتر کام ہوچکا ہے اور لیاری ندی پر ٹرانسمیشن لائن کی تنصیب کا نصف کام ہوچکا ہے لیکن ٹریٹمنٹ پلانٹس ابھی تک غیر فعال ہیں۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر واٹر بورڈ نے 2018 میں ماڑی پور پر ٹریٹمنٹ پلانٹ تھری کی نئی مشینری نصب کردی تھی اور کچھ پرانی مشینری کو کارآمد بنایا گیا تھا اس منصوبے کا افتتاح سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے 22جولائی 2018کو کیا تھا، ٹی پی تھری کی پرانی مشینری کی بحالی اور نئی مشینوں کی تنصیب سے 77ملین گیلن یومیہ سیوریج ٹریٹمنٹ کرکے ڈیڑھ سال سے سمندر برد کیا جاتا رہا جبکہ 383ایم جی ڈی سیوریج بدستور بغیر ٹریٹمنٹ کے بغیر سمندر میں جارہا تھا۔

واٹر بورڈ کے ذرائع کے مطابق نجی ٹھیکیدار ٹی پی تھری کا یہ نظام ڈیڑھ سال سے چلارہا ہے اس دوران ٹھیکیدار کے واجبات کی عدم ادائیگی اور دیگر وجوہات کی بنا پر ٹریٹمنٹ پلانٹ 3 بار عارضی طور بند بھی ہوا لیکن واٹر بورڈ کی درخواست پر دوبارہ فعال کردیا گیا تاہم اس بار ٹریٹمنٹ پلانٹ ایک ماہ سے بند ہے۔

ذرائع نے بتایا ہے کہ واٹر بورڈ اور ٹھیکیدار کے معاہدے کی مدت مکمل ہوچکی ہے اور ٹھیکیدار نے یہ نظام واٹر بورڈ کو حوالے کرنے کے لیے خط بھی ارسال کردیا ہے۔

پروجیکٹ ڈائریکٹر حنیف بلوچ نے نمائندہ ایکسپریس کو بتایا کہ اگست کو ہونے والی طوفانی بارشوں کے سبب ٹی پی تھری زیر آب آگیا اور اس کا الیکٹریکل سسٹم مکمل طور ناکارہ ہوگیا جبکہ مکینیکل سسٹم بچ گیا۔

انھوں نے کہا کہ ٹی پی تھری کا آپریشنل سسٹم 20دن سے بند ہے، مون سون بارشیں رکنے کے بعد الیکٹریکل نظام درست کردیا گیا ہے، لیکن ٹی پی تھری کے مقام پر اب بھی سیلابی پانی جمع ہے جس کے باعث ابھی مشینری فعال نہیں کی گئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ طوفانی بارشوں کے دوران سمندری پانی بھی ٹی پی تھری کے ٹینکوں میں گھس آیا اور اب بتدریج ڈی واٹرنگ کی جارہی ہے، پیر کے روز بھی بارش ہوئی ہے جس کے سبب ڈی واٹرنگ کا عمل روک دیا گیا ہے، بارش ختم ہوتے ہی ڈی واٹرنگ شروع کردی جائے گی اور جلد ہی مشینری فعال کرکے دوبارہ 77 ایم جی ڈی ٹریٹ کرکے سمندر میں ڈالا جائے گا۔

حنیف بلوچ نے کہا کہ ٹھیکیدار نے ٹی پی تھری کا آپریشنل سسٹم واٹر بورڈ کے حوالے کرنے کے لیے خط ارسال کردیا ہے ، واٹر بورڈ کے اعلیٰ حکام اس کے بارے میں فیصلہ کریں گے۔ ابھی یہ نظام ٹھیکیدار ہی چلارہا ہے،۔

حنیف بلوچ نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے کراچی پیکیج کے اعلان میں سیوریج کے منصوبوں میں خاطر خواہ فنڈز مختص کیے گئے ہیں تاہم ابھی تک یہ وضاحت نہیں ہوئی ہے کہ ایس تھری منصوبے کے لیے کتنا فنڈز مختص کیا گیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |