کوئی آواز تو دے

میرا سوال سن کر وہ مسکرائے اور جواب میں کہا کہ اسلام آباد میں سیاسی موسم بدلتے دیر نہیں لگتی۔


Abdul Qadir Hassan September 16, 2020
[email protected]

QUETTA: گزشتہ دنوں اسلام آباد سے آنے والے ایک مہربان افسر سے ملاقات ہوئی تو ان سے پوچھا کہ اسلام آباد کا سیاسی موسم کیسا ہے اور افسرانہ حلقوں کا کیا حال احوال ہے۔

میرا سوال سن کر وہ مسکرائے اور جواب میں کہا کہ اسلام آباد میں سیاسی موسم بدلتے دیر نہیں لگتی اور افسر شاہی نے اتنے موسم بدلتے دیکھے ہیں اور ایسا وقت کئی بار آیا ہے کہ اب بیوروکریسی کو اس کی کوئی پروا نہیں ہوتی کہ نئے حالات اور نئی حکومت میں کیا ہو گا۔

وہ حالات کی مسلسل تبدیلیوں کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ کوئی دفتر بند ہوتا ہے تو لوٹ آتے ہیں ،کھلا ہوتا ہے تو کرسی پر بیٹھ کر کام شروع کر دیتے ہیں جو کام کہا جاتا ہے کر دیتے ہیں اور جس سے روکا جاتا ہے وہ نہیں کرتے ۔ ان کو کوئی پروا نہیں ہوتی کہ کون آرہا ہے جارہا ہے ، بس ان کو یہ ضرور معلوم ہے کہ کوئی آئے یا جائے انھوں نے یہیں رہنا ہے اور سب ان کے مرہون منت ہیں۔

البتہ دونوں کا ایک دوسرے کے بغیر گزارہ نہیں ہوتا۔ہلکی پھلکی باز پرس چلتی رہتی ہے۔ بیوروکریسی اپنے کام میں ماہر ہوتی ہے۔ حکومت اگر اس سے ناراض بھی ہو جائے تو ان کو وہ تمام گر آتے ہیں جس سے وہ حکومت کو راضی کر لیتے ہیں۔ نابلد اور بے خبر حکمرانوں کو چھوٹی موٹی معلومات کے عوض آسانی کے ساتھ راضی رکھا جاسکتا ہے۔ میرے مہربان نے بتایا کہ ان دنوں اسلام آباد کا موسم غضب کا ہے، بے حد سکون ہے اور شہر کے باشندے مزے میں ہیں۔

میں نے ان کی تائید میں کہا کہ میرے اندازے میں ان دنوں سب سے مظلوم طبقہ بیوروکریسی کا ہے جن کو اناڑی حکمران مل گئے ہیں جن کو وہ اپنی مرضی سے چلا نے کی کوشش کر رہے ہیںاور ہم دیکھ رہے ہیں کہ حکمران آئے روز بیوروکرسی کی تبدیلیوں کے عمل سے گزر رہے ہیں لیکن کسی ایک پر متفق نہیں ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے بیوروکرسی میں بے چینی ہے اور حکمران پریشان ہیں جن سے پورا پاکستان باز پرس کرنے کے موڈ میں ہے اور ان سے انقلابی عمل کی امید کر رہا ہے جو پوری ہوتی نظر نہیں آتی ۔ تھوڑی بہت تلخیاں تو ہوتی ہی رہتی ہیںاور بسا اوقات یہ تلخیاں اور ناراضگیاں فریقین کو مستعد رکھنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں ۔

پوری قوم نے حکومت کو نشانے پر رکھا ہوا ہے اور اس کے سوا اورکوئی موضوع ہی نہیں کہ دیکھیں کب تک موجودہ حکومت پرانی حکومتوں کی خرابیوں کو کس طرح ٹھیک کرتی ہے اور کرپشن کی رقم کس طرح وصول کرتی ہے۔

ابھی تک توحکومت نے اپنے اعلانات کے باوجود نہ تو وزیر اعظم ہاؤس اور نہ ہی کسی گورنر ہاؤس میں کوئی یونیورسٹی قائم کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ موجودہ حکمرانوں کے الیکشنی دعوؤں کو عوام نے سنجیدہ سمجھ لیا تھا لیکن اس بھولی کو قوم کو شائد یہ علم نہیں تھا کہ تمام حکمران ایک جیسے ہوتے ہیں جو ایک ہی سوراخ سے گزر کر آتے ہیں، اس لیے حکومت میں ان کے کارنامے بھی گزشتہ حکمرانوں جیسے ہوتے ہیں۔

ان کی پٹاری میں مختلف تاویلیں ہوتی ہیں جن کے ذریعے وہ اپنے آپ کو معصوم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ لیکن بہر حال جن لوگوں پر ذمے داریاں ہیں وہ بہتر جانتے ہیں کہ کن لوگوں اور کیسی ٹیم سے وہ کام لینا چاہتے ہیں ۔ یہ بھی اس لیے عرض کر رہا ہوں کہ ہم اخبار نویسوں کو ہر معاملے میں منہ مارنے کی عادت ہوتی ہے اور اپنے مشوروں سے حکومت کو مستفیدکرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔

مجھے ایک مسلمان حکمران کی پہلی تقریر میں سے یہ الفاظ یا د آرہے ہیں کہ میں ظالم کے لیے اتنا سخت ہوں کہ اسے ظلم سے باز رکھنے کے لیے سب کچھ کر گزروں گا اور مظلوموں کے لیے اتنا نرم ہوں کہ اس کا حق دلانے تک اس سے ہمدردی کرتا رہوں گا۔ ہمارے حکمرانوں کو معلوم ہے کہ ان کے ملک میں مظلوموں کی تعداد کروڑوں میں ہے اور ظالم ان کے مقابلے میں چند سو یا چند ہزار ہیں لیکن یہ چند افراد اس قدر طاقتور ہیں کہ پورے ملک کے خزانے کو انھوں نے اپنی میراث بنا کر اسے استعمال کیا ہے، اس لیے ان لوگوں کی گوشمالی بہر حال ضروری ہے ۔ ہماری افسر شاہی میں ایسے حاضر سروس لوگ موجود ہیں جو دیانت و امانت، ذہانت اور قوت کارمیں اپنی مثال آپ ہیں۔

ان لوگوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ اگر ایمانداری سے ان کو بیور وکریسی کی صفوں میں سے تلاش کر لیا جائے تو عمران خان کے لیے ان میں سے انتخاب مشکل ہوجائے گا۔ ایسے جی دار افسروں کی ملک کو ضرورت ہے جو ایمانداری ، تندہی اور لگن سے اپنا کام شروع کریں ، چوروں کو بے نقاب کریں اور مظلوم پاکستانیوں کو زندگی کا حوصلہ دیں ۔

میں بار بار عرض کرتا ہوں کہ قوم میں بڑی جان ہے اور یہ ایک زندہ قوم ہے،بے پناہ مسائل اور پریشانیوں کے باوجود یہ قوم اپنے حکمران کی بات پر ہر وقت لبیک کہنے کو تیار ہوتی ہے، بس کوئی دل سے آواز دینے والا تو ہو۔ آپ کو شاید ابھی تک اندازہ نہیں ہو سکا کہ قوم کو آپ سے کتنی امیدیں ہیں، اپنا مثبت کام کریں اور وقت اور قوتوں کو صحیح محاذ پر مرکوز رکھیں۔ آپ کو یہ ثابت کرنا ہے کہ آپ لوگوں نے سر دھڑ کی بازی لگا دی ہے ۔ اﷲ آپ کی مدد کرے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں