عوام کی بالادستی کے بجائے

پیپلز پارٹی کی حکومت نے عوام کی بالادستی قبول نہیں کی مگر اسلام آباد کی بالادستی کو قبول کرلیا۔

tauceeph@gmail.com

27اگست کو کراچی میں قیامت خیز بارش کے بعد تباہی پر 10دن تک اسلام آباد کے وزیر اعظم ہاؤس میں سوچ و بچار ہوتا رہا۔ وزراء روزانہ صحافیوں کو یہ اطلاع فراہم کرنے میں مصروف رہے کہ عمران خان روزانہ ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے اجلاسوں میں صرف کرتے ہیں بالآخر وزیر اعظم 5 ستمبر کو کراچی آئے،انھوں نے کراچی کا فضائی جائزہ لیا۔

گورنر ہاؤس میں اعلیٰ سطح اجلاس کی صدارت فرمائی۔ اس اجلاس میں وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کو بھی مدعو کیا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے صحافیوں کے سامنے کراچی ٹرانسفارمیشن پیکیج کا انکشاف کیا۔ وزیر اعظم نے فرمایا کہ یہ پیکیج113 1بلین روپے کا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ اس پیکیج کے تحت پانی کی فراہمی، سیوریج ٹریٹمنٹ، سولڈ ویسٹ مینیجمنٹ، سڑکوں کی تعمیر اور ماس ٹرانزٹ منصوبوں پر یہ رقم خرچ کی جائے گی۔

وزیر اعظم نے پیکیج کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے یہ تو بتایا کہ وفاق اور صوبائی حکومتیں اس پیکیج کے لیے رقوم فراہم کریں گی مگر اس تاریخی موقعے پر انھوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ اس پیکیج میں وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کا کتنا کتنا حصہ ہوگا، البتہ انھوں نے اس پیکیج کے لیے طے کردہ ترجیحات کو ضرور واضح کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے نالوں کی صفائی پر توجہ دی جائے گی۔ وزیر اعظم نے یہ واضح کیا کہ اس پیکیج پر عملدرآمد کے لیے صوبائی رابطہ اور عملدرآمد کمیٹی Provincial Coordination and Implementation Committee قائم کی گئی ہے جس کے سربراہ سندھ کے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ ہیں۔ کمیٹی میں وفاقی حکومت کے نمایندوں کے علاوہ کراچی کور کمانڈر بھی شامل ہیں۔

اس پیکیج کے اعلان ہونے کے دوسرے دن بلاول بھٹو زرداری نے پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ سندھ حکومت کراچی پیکیج کے لیے 60فیصد رقم دے گی جو تقریباً 800 بلین روپے ہوگی۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ وفاقی حکومت 300بلین روپے فراہم کرے گی۔ اس انکشاف کے بعد منصوبہ بندی کے وزیر اسد عمر نے اپنے ساتھی وزراء کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ بلاول حقائق مسخ کررہے ہیں۔

انھوں نے ریکارڈ کی درستگی کے لیے کہا کہ وفاقی حکومت اس پیکیج کا 62فیصد خرچ برداشت کرے گی جب کہ صوبائی حکومت 38فیصد رقم فراہم کرنے کی ذمے دار ہوگی۔ اسد عمر نے کہا کہ ہمیں کام کرنا ہے مگر حقائق کو چھپانے کی کوشش کی جائے گی تو پھر جواب دینا ضروری ہوتا ہے۔ ایک اوروفاقی وزیر نے کہا کہ وفاقی حکومت کو سندھ حکومت پر اعتبار نہیں ہے، اس بناء پر وہ یہ رقم صوبائی حکومت کے حوالے نہیں کرے گی۔

وفاقی اور صوبائی حکومت کے وزراء اور معاونین نے ایک دوسرے کے فراہم کردہ اعداد و شمار کو غلط ثابت کرنا شروع کیا۔ یوں سیاسی صورت حال گھمبیر ہوگئی۔ اچانک اسد عمر نے اسلام آباد سے ایک بیان میں یہ حقیقت تسلیم کی کہ سندھ حکومت اس پیکیج کے لیے 750 بلین روپے دے رہی ہے۔ انھوں نے اس بیان میں کہا کہ اب حکومت سندھ کو گریٹر کراچی واٹر سپلائی پروجیکٹ (K-IV) کی اپ ڈیٹ فزیبلٹی فراہم کرنی چاہیے۔ انھوں نے نصیحت کی کہ اگر اس پیکیج پر کام نہ ہوا تو عوام پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے نمایندوں کو جوتے ماریں گے۔

کراچی 80ء کی دہائی سے بدامنی کا شکار ہے۔ 1987ء میں سرسید کالج کی طالبہ بشر یٰ زیدی کی ایک منی بس سے ہلاکت کے بعد ہنگاموں کا آغاز ہوا۔ یہ ہنگامے ٹرانسپورٹ مافیا کے خلاف تھے مگر اسے لسانی تصادم میں تبدیل کردیا گیا۔ یوں 2015ء تک کراچی بدامنی کا شکار رہا۔ اس پورے عرصہ میں کراچی کا انفرااسٹرکچر زبوں حالی کا شکار رہا۔ حکومتوں نے مختلف شعبوں کے حالات بہتر بنانے کے لیے رقوم مختص کرنے کے اعلانات کیے۔

ان میں سے کچھ رقم منصوبوں پر خرچ ہوئی اور کچھ کہاں گئی کچھ پتہ نہیں۔ اس دوران کراچی کا کوئی بھی ترقیاتی منصوبہ وقت پر مکمل نہ ہوسکا۔ سابق صدر پرویز مشرف کے نچلی سطح تک بلدیاتی نظام میں کچرے اور سیوریج کا نظام باقاعدہ تھا۔ شہری ،کچرے اور سیوریج کے پانی سے پریشان نہیں تھے مگر 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت آئی۔ بلدیاتی نظام ختم ہوا۔ بلدیاتی اداروں کی کارکردگی مایوسی کی حد تک کم ہوگئی۔ دیگر ممالک سے آنے والے شہریوں نے محسوس کرنا شروع کیا کہ ہر طرف کوڑا پھیلا ہوا ہے۔


کراچی کے شہریوں کو احساس ہوا کہ وہ کوڑے کے ٹیلوں پر زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ کوڑے کا معاملہ پہلے قومی مسئلہ بن گیا، پھر امریکا اور یورپ کے اخبارات میں کراچی کے کوڑے کے بارے میں فیچر شایع ہونے لگے۔

کراچی کا سیوریج سسٹم فیل ہوگیا۔ کراچی کی ہر گلی اور سڑک اور بازار میں سیوریج کا پانی جمع ہونا معمول بن گیا۔ ایم اے جناح روڈ، فیصل روڈ ، آئی آئی چندریگر روڈ جیسی معروف شاہراہوں پر بھی چھوٹے چھوٹے تالاب نظر آنا معمول ہوگیا۔ شہر کے چھوٹے بڑے علاقوں میں اونچی عمارتیں تعمیر ہونے لگیں۔

یہ عمارتیں بوٹ بیسن اور کلفٹن سے لے کر لیاقت آباد ، ناظم آباد اور اولڈ کراچی کے علاقوں میں امڈ آئیں۔ کراچی میں بارش سے پہلے مخدوش عمارتوں کے گرنے کا سلسلہ بھی ہوا۔

گزشتہ 8ماہ کے دوران عمارتوں کے گرنے سے ہلاکتوں کی تعداد دو ہندسوں تک پہنچ گئی۔ 27اگست کی بارش کے بعد جو صورتحال ہوئی وہ سب کے سامنے ہے۔ بلدیاتی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے پالیسی ساز ادارے میں موجود صاحبانِ دانش بااختیار بلدیاتی نظام کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔

ان صاحبانِ دانش نے پیپلز پارٹی کے گڑھ لیاری میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں شکست کی وجوہات پر بھی کبھی غور نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی کے وزراء کراچی کے بارے میں اپنی حکومت کی پالیسی کی مختلف توجیہات بیان کرتے ہیں ۔

تعلیم کے وزیر سعید غنی نے کہاکہ ان کی حکومت نے کراچی میں صحت کے منصوبوں پر زیادہ توجہ دی مگر حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ کراچی کے چار بڑے اسپتالوں میں ایک تو انتہائی مشکل صورتحال کا شکار ہے ، باقی تین اسپتالوں میں ترقی کی وجہ ان کی قیادت کی بصیرت اور عوام سے ملنے والے عطیات کی مرہونِ منت ہے۔

27 اگست کی خوفناک بارش کے بعد صوبائی حکومت، وفاق کی ڈکٹیشن قبول کرنے پر مجبور ہوئی ۔ پروفیسر سعید عثمانی جو کراچی کی ترقی کے بارے میں آگہی رکھتے ہیں اور ملک میں سیاسی اتار چڑھاؤ کو بخوبی سمجھتے ہیں اس بات پر حیرت کا اظہار کررہے تھے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے کراچی پیکیج کے لیے اتنی بڑی رقم کا اعلان کیا ، اگر یہ حکومت اس میں سے آدھی رقم بھی گزشتہ پانچ برسوں میں شفاف انداز میں خرچ کردیتی تو کراچی کی حالت ایسی نہ ہوتی۔

ان کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے عوام کی بالادستی قبول نہیں کی مگر اسلام آباد کی بالادستی کو قبول کرلیا۔ آج کل کراچی پریس کلب میں ذکر کررہے ہیں کہ بلدیہ کراچی کے سول افسران کے بے اختیار ہونے کا آغاز ہوگیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کراچی کی تعمیر نو کے منصوبہ پر عملدرآمد ہوا تو سندھ حکومت نہیں بلکہ دیگر افسران ان منصوبوں پر عملدرآمد کرائیں گے۔

بہت سے افراد جن میں ریٹائر ہونے والے افسران بھی شامل ہیں اس خوف کا اظہار کررہے ہیں کہ کراچی کے حالات میں کوئی بہت بڑی تبدیلی رونما نہیں ہوگی اور بعض سیاسی مبصرین کا یہ خیال ہے کہ اس ساری صورتحال میں فائدہ سیاسی جماعتوں کے بجائے طالع آزما قوتوں کو ہوگا۔ اس صورتحال میں عوام مایوسی کا شکار ہورہے ہیں۔

رضا ربانی جو 18ویں ترمیم کے آرکیٹکٹ ہیں انھوں نے کراچی میں ایک بیان میں کہا تھا کہ 18ویں ترمیم کے آرٹیکل 140(A) کے تحت ہر صوبہ کی ذمے داری ہے کہ بلدیاتی ادارے قائم کرے۔ بلدیاتی اداروں کے منتخب اراکین کو انتظامی، مالیاتی اور سیاسی ذمے داریاں دیں، اگر رضا ربانی کی بات بلاول بھٹو سمجھ جائیں تو وفاق کی مداخلت کا جواز نہیں رہے گا۔
Load Next Story