سندھ کے مسائل پر وفاقی اور صوبائی حکومت کی محاذ آرائی جاری

حالات نے پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت کے رویے کو مزید تلخ کر دیا ہے۔


عامر خان September 16, 2020
حالات نے پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت کے رویے کو مزید تلخ کر دیا ہے۔فوٹو : فائل

سندھ میں ہونے والی طوفانی بارشوں نے صوبے کے لیے نئی مشکلات کھڑی کردی ہیں۔

کورونا سے نبرد آزما عوام کے لیے یہ بارشیں زحمت بن کر سامنے آئی ہیں۔وادی مہران کے کئی علاقوں میں اس وقت سیلابی صورت حال ہے۔ ان حالات نے پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت کے رویے کو مزید تلخ کر دیا ہے۔

وفاق سے نالاں پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بارش او ر سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرکے جہاں عوام کی داد رسی کی کوشش کی وہیں انہوں نے وفاقی حکومت کی پالیسیوں کو ہدف تنقید بنایا۔ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت سندھ کے عوام کو اس کا حق دے ورنہ اسلام آباد آکر اس سے اپنا حق چھین لیں گے۔

ان کا دعویٰ تھا کہ آج تک سیلاب متاثرین کے لیے وفاق کی طرف سے ایک روپیہ نہیں آیا، وفاقی حکومت رواں سال این ایف سی ایوارڈ میں سندھ کے 200 ارب روپے کھا گئی، ہمیں کوئی خصوصی پیکج یا خصوصی رویہ نہیں چاہیے بلکہ اپنا حق چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ سندھ کے عوام ڈوب رہے ہیں مدد مانگو تو کہتے ہیں کہ ان کو 3 سو روپے بھی نہیں دیں گے، آپ کو سندھ کے عوام کا حق دینا پڑے گا۔ ب

لاول بھٹو زرداری کا دوٹوک انداز میں کہنا تھا کہ عمران خان کو عوام کی خدمت کے لیے سندھ میں آنا ہوگا، وزیر اعظم سندھ کے عوام کو ایسے لاوارث نہیں چھوڑ سکتے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ وفاق زرعی ایمرجنسی نافذ کرے اور کسانوں کو خصوصی پیکج دے۔

جہاں ایک جانب سے بلاول بھٹو زرداری نے سندھ کے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کیا وہیں صدر مملکت ڈاکٹرعارف علوی بھی ان متاثرہ علاقوں کے دوروں پر گئے،جہاں ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے کہا ہے کہ اندرون سندھ کے شہرویوں کا خیال رکھا جائے گا۔ صدر مملکت کا کہنا تھا کہ سندھ کا کوئی حصہ لاوارث نہیں رہ سکتا، وفاقی اور سندھ حکومت کے تعاون سے ہی بہتری آئے گی۔

ادھر پی ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ سندھ بھر میں حالیہ بارشوں اور سیلاب سے 24 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔اس ضمن میں سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ صوبے کی موجودہ صورت حال پاکستان پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔

تحریک انصاف کے رہنما الزامات لگا رہے ہیں کہ سندھ حکومت کی جانب سے متاثرین میں امداد کی تقسیم منصفانہ انداز میں نہیں کی جا رہی ہے۔ان مبصرین کا کہنا ہے کہ اس وقت تمام سیاسی جماعتوں کو الزامات کی سیاست سے گریز کرنا چاہیے۔ اس وقت لاکھوں لوگ مشکلات کا شکار ہیں۔

مقدس شخصیات کی توہین کے معاملے پر کراچی میں مذہبی جماعتیں انتہائی متحرک نظر آرہی ہیں اور گزشتہ ہفتے اس حوالے سے شہر میں تین انتہائی بڑے اجتماعات دیکھنے میں آئے۔

پہلے علماء کمیٹی کراچی کی جانب سے''عظمت صحابہ''کانفرنس کا انعقاد کیا گیا اور اس کے بعد اہلسنت والجماعت نے مزار قائد اعظم سے تبت سینٹر تک''تحفظ ناموس رسالت و عظمت صحابہ واہلبیت مارچ'' منعقد کیا۔اہلحدیث جماعتوں کی جانب سے ''عظمت صحابہ ریلی'' کا انعقاد کیا گیا۔ ان تینوں اجتماعات کی خاص بات یہ رہی کہ مقررین نے اپنے خطابات میں اشتعال انگیزی سے گریز کیا اور پرامن انداز میں اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

متحدہ قومی موومنٹ(ایم کیو ایم) پاکستان اور مہاجر قومی موومنٹ کی جانب سے ایک مرتبہ پھر سندھ کے شہری علاقوں پر مشتمل ایک نیا صوبے بنانے کا مطالبہ سامنے آیا ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا پارٹی کے جنرل ورکرز اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سندھ کے شہری علاقوں کا وزیر اعلی شہری علاقوں سے ہونا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر اضلاع اور ڈویڑن بن سکتے ہیں، اسی طرح صوبوں کا بننا آئینی ضرورت ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملک کے موجود حالات میں ان دونوں جماعتوں کی جانب سے نئے صوبے کا مطالبہ اپنے ووٹرز کو ''تسلی''دینے کا ایک ذریعہ تو ہوسکتا ہے لیکن اس کو عملی جامہ پہنچانااتنا آسان نہیں ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کراچی میں فراہمی آب کے منصوبے کی تکمیل میں تاخیر کی ذمہ داری وفاقی حکومت کے قائم کردہ انکوائری کمیشن پر عائد کردی ہے۔اس ضمن میں وفاقی وزیر اسد عمر نے وزیراعلیٰ سندھ کو خط لکھ کر کے فور اور دیگر منصوبوں کا معاملہ اٹھایا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ان منصوبوں پر عمل درآمد کے لیے وفاقی حکومت سنجیدہ ہے اور صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتی ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی کے خط کے جواب میں واضح کیا کہ وفاقی حکومت کے قائم کر دہ انکوائری کمیشن کی وجہ سے کے فور منصوبہ تاخیر کا شکار ہوا۔ فراہمی آب کے میگا منصوبے پر جلد کام کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

شہرقائد میں تواتر کے ساتھ عمارتیں گرنے کے واقعات نے متعلقہ اداروں کی کارکردگی پر کئی سوالات کھڑے کردیئے ہیں۔غیرقانونی تعمیرات کی وجہ سے صرف گزشتہ ہفتے کراچی میں دو عمارتیں زمین بوس ہوگئیں۔ پہلے اللہ والا ٹاؤن کورنگی اور پھر لیاری میں یہ واقعات پیش آئے،جن میں قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ شہر میں اس طرح کی لاتعداد عمارتیں موجود ہیں جو شہریوں کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔

متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر شہر بھر میں سروے کرے اور ایسی عمارتوں کی نشاندہی کرکے انہیں خالی کرایا جائے جبکہ چائنا کٹنگ اور تعمیرات ناقص میٹریل استعمال کرنے والے عناصر کو بھی قانون کی گرفت میں لایا جائے۔

حکومت سندھ نے تقریباً چھ ماہ کے وقفے کے بعد صوبے بھر میں شادی ہالز کھولنے پر عائد پابندی اْٹھالی ہے اب شادی ہالز میں شادی بیاہ کی تقریبات کے علاوہ دیگر تقاریب کا انعقاد ممکن ہوسکے گا۔ شادی ہالز میں تقاریب کے لئے بھی محکمہ داخلہ کی کورونا سے بچاؤ کی ایس او پیز پر عمل درآمد لازم ہوگا جس کے تحت سماجی فاصلہ اور ماسک کا استعمال شامل ہے۔

محکمہ داخلہ سندھ کے گزشتہ روز یعنی 14ستمبر کو جاری کردہ حکم نامے کے مطابق سندھ میں تجارتی و کاروباری سرگرمیوں،کھیل وتفریحی میدان میں سرگرمیاں، ہوٹلز ریسٹورینٹس میں بھی آمدورفت کی اجازت ہوگی اور نئے حکم نامے کے بعد نرمی کا موجودہ حکم نامہ پندرہ اکتوبر تک موثر رہے گا۔ ضلعی انتظامیہ جس علاقے میں کورونا کیسز کی تعداد میں اضافہ کا مشاہدہ کرے تو دوبارہ تمام پابندیاں عائد کرسکتی ہے۔

صوبائی محکمہ داخلہ کے مطابق ریسٹورینٹس میں ٹیبل سروس سمیت ٹیک اوے کی اجازت ہفتے کے سات روز ہوگی جبکہ تمام تجارتی کاروباری سرگرمیاں ہفتے وار ایک تعطیل کیساتھ صبح چھ سے رات آٹھ بجے تک کی جاسکیں گی۔ صرف ہفتے کے روز دکانیں رات نوبجے تک کھلی رکھی جا سکیں گی۔

سندھ بھر میں کورونا وائرس کے سبب بند تعلیمی ادارے بتدریج کھلنا شروع ہوگئے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کے ساتھ طلباء و طالبات اور والدین کو چاہیے کہ وہ کورونا کی وباء سے بچنے کے لیے ماسک پہنیں،بار بار ہاتھ دھویں اور سماجی فاصلہ اختیار کریں۔اس حوالے سے محکمہ تعلیم اور محکمہ صحت کوتعلیمی اداروں کی انتظامیہ کے ساتھ مل کر مذید اقدام کرنا ہوں گے۔

کراچی میں معصوم بچوں کے اغواء اور قتل کے کئی واقعات ماضی میں اور اب بھی رونما ہورہے ہیں۔حکومت اور سیکورٹی اداروں کو چاہیے کہ وہ ان واقعات میں ملوث عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرے۔والدین اپنے بچوں کا خصوصی خیال رکھیں۔اپنے بچوں کو ہدایت کریں کہ وہ غیر ضروری لوگوں سے بات کرنے یا کوئی چیز لینے سے احتیاط کریں۔اس حوالے سے ''آگہی''مہم چلانے کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔