ایشو
اصل مسئلہ یہ ہے کہ عوام اے پی سی کے سارے گھوڑوں کو آزما چکی ہے۔
ہماری اپوزیشن جتنے حربے ممکن تھے، استعمال کر چکی ہے لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہے۔ اب اپوزیشن نے اے پی سی کا ڈول ڈالا ہے۔ دیکھیے! اے پی سی اس حوالے سے کیا کارنامہ انجام دیتی ہے۔ ویسے اے پی سی کے پاس ایسے مسائل نہیں ہیں جو عوام کو متحرک کرسکیں، اب اے پی سی کو مردہ گھوڑوں پر سوار ہو کر جنگ لڑنا پڑے گی اور مردہ گھوڑوں سے جنگ نہیں جیتی جاسکتی۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ عوام اے پی سی کے سارے گھوڑوں کو آزما چکی ہے، اب اس کے پاس کوئی زندہ اور تندرست گھوڑا نہیں ہے۔ اب سارے مردہ گھوڑے قطار میں لیٹے ہوئے ہیں۔ اپوزیشن کے پاس عوام کو متحرک کرکے سڑکوں پر لانے کے لیے کوئی برننگ ایشو نہیں ہے جو عوام کو گھروں سے باہر نکال سکے، ایسی صورت حال میں مایوسی کا غلبہ ہو جاتا ہے لیکن شاباش ہے ہماری اپوزیشن کو وہ روز اول کی طرح تازہ ہے۔
پاکستانی سیاست کا ایک اچھا پہلو یہ ہے کہ سیاستدان ناکامیوں سے دل برداشتہ نہیں ہوتے اور غلط یا صحیح ڈٹے رہتے ہیں، اس سے عوام کو یہ تاثر ملتا ہے کہ مقابلہ جاری ہے حالانکہ دریاں لپیٹنے کا ٹائم ہوتا ہے۔ سیاسی مقابلے کے لیے تازہ سیاسی ایشوز سامنے ہوتے ہیں لیکن ہماری اپوزیشن کی یہ بدقسمتی ہے کہ کوئی تازہ اور عوام کو متحرک کرنے والا ایسا ایشو اپوزیشن کے ذہن میں نہیں ہے جو عوام کو گھروں سے کھینچ کر باہر نکال سکے۔
نتیجہ یہ ہے کہ اپوزیشن کی گیلریوں میں مایوسی کے بگولے اٹھ رہے ہیں اور اپوزیشن پریشان ہو کر دائیں بائیں جھانک رہی ہے کہ شاید کوئی گرما گرم موضوع مل سکے لیکن سامنے صرف مایوسی ہے۔
مہنگائی آٹے اور چینی کے ایشو اپوزیشن کی کوئی مدد نہ کرسکے۔ اپوزیشن اگر زندہ مسائل پر سیاست کرنا چاہتی ہے تو مہنگائی ایک زندہ مسئلہ ہے اور عوام مہنگائی سے بے زار ہیں لیکن ہفتے میں مہنگائی کے خلاف ایک آدھ بیان دے دینا اپوزیشن کی سیاست کی معراج ہے۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ عوام کی اکثریت اس کے ساتھ نہیں اور جب تک عوام کسی تحریک میں شامل نہ ہوں وہ تحریک کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی، اصل میں اپوزیشن کو اندازہ ہے کہ ڈنڈا سر پر لٹک رہا ہے اگر امن و امان کا مسئلہ پیدا کیا گیا تو پوری اپوزیشن کو اندر کر دیا جائے گا۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس میںکوئی شک نہیں کہ عوام کی اکثریت اب کسی اے پی سی کی باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لے گی۔ اگر عوام کسی ایشو پر اپوزیشن کا ساتھ دیں گے لیکن اگر اپوزیشن بالکل خاموش ہو جاتی ہے تو لوگ اسے بالکل بھول جائیں گے اور اگر اس قسم کی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے تو اپوزیشن کا نام و نشان تک ختم ہو جائے گا۔
ہم نے بار بار اس بات کی نشان دہی کی ہے کہ جب تک کسی تحریک میں عوام شامل نہیں ہوں گے وہ تحریک کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی اور اپوزیشن کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ کرپشن کے حوالے سے اس قدر بدنام کر دیا گیا ہے کہ مستقبل قریب میں عوام کے ذہنوں کو صاف کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ اس صورت حال میں اپوزیشن کی مایوسی ایک فطری امر ہے لیکن اگر اپوزیشن مایوسی کا اظہار کرتی ہے تو اپوزیشن کا کردار ماضی کی بات بن جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ صرف مہنگائی ایک ایسا ایشو ہے جو عوام میں کسی حد تک ہلچل مچا سکتا ہے لیکن مہنگائی کے ایشو پر عوام کو باہر نکالنا اپوزیشن کے لیے اس لیے مشکل ہے کہ اپوزیشن کی ترجیح مقدمات کا خاتمہ ہے، وہ سب پہلے ان مقدمات سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں ، عوام بھی اپوزیشن کی مجبوری سمجھتے ہیں، اس لیے وہ اس ایشو پر بھی سڑکوں پر نہیں آئیں گے۔
مہنگائی کے علاوہ کرپشن ایک ایسا ایشو ہے جس کے ذریعے عوام کو سڑکوں پر لایا جاسکتا ہے لیکن یہ ایشو اپوزیشن کی ایسی کمزوری ہے کہ وہ کرپشن کے ایشو پر عوام میں نہیں جاسکتے۔ یہ ایسی مجبوریاں ہیں جو اپوزیشن کو جامد کیے ہوئے ہیں۔ بہرحال صورت حال بہت تشویش ناک ہے۔
اپوزیشن مولانا فضل الرحمن کے دباؤ پر اے پی سی بلانے پر تیار تو ہو گئی ہے لیکن سابقہ تلخ تجربات کی روشنی میں ہماری اپوزیشن بہت متذبذب ہے کہ اگر اے پی سی کسی تحریک کا فیصلہ کرتی ہے تو اس کے نتائج کیا ہوں گے۔ یہی خیال اپوزیشن کے لیے سوہان روح بنا ہوا ہے۔
ماضی میں تحریکوں جلسوں کا کوئی پروگرام بنتا تو ہر ایم این اے ہر ایم پی اے کے ذمے عوام کو لانے کی ذمے داری ڈال دی جاتی تھی، اب صورتحال مختلف ہے، اب عوام میں جانا ہی ایک بہت بڑا رسک ہے ، انھیں تحریکوں میں شامل کرنا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ یہی وہ مسئلہ ہے جو اے پی سی میں دیری کا سبب بن رہا ہے۔ ہم نے کہا تھا کہ کرپشن مہنگائی کا ایک ایسا آلٹرنیٹ ہے جو عوام کو متحرک کرسکتا ہے۔ حال تک کرپشن اشرافیہ کے نام سے ہی پہچانی جاتی تھی لیکن اب لوئر مڈل کلاس تک یہ وبا بامعنی طور پر پھیل چکی ہے۔
ایک تازہ خبر کے مطابق ایک سابق نائب ایکسائز انسپکٹرکے گھر پر نیب نے چھاپہ مار کر 30کروڑ روپے کی کیش رقم اور بانڈز برآمد کیے۔ مبینہ ملزم کے نام پر 22 کروڑ اور اس کی بیوی کے نام پر 19 کروڑ کے اثاثے بھی نکلے ہیں، اس مبینہ ملزم کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ پہلے اس قسم کے ملزمان چھوٹی چھوٹی کرپشن کا ارتکاب کرنے سے ڈرتے تھے لیکن جب سے اہل سیاست کی اربوں روپوں کی کرپشن کی داستانیں میڈیا کے ذریعے گھر گھر پہنچی ہیں، تو اب سرکاری اہلکاروں کی کرپشن کا حجم بھی حیران کرنے والا ہے۔
ہماری اپوزیشن واقعی آج کل سخت پریشان ہے کہ اے پی سی کیا فیصلہ کرے، کوئی ایسا ایشو ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے جس کے ذریعے یہ عوام کو متحرک کرسکیں۔ بلاشبہ کرپشن ایک ایسا ایشو ہے جس سے عوام الرجک ہیں لیکن اپوزیشن کے لیے یہ ایشو بڑا امتحان ہے کہ ان پر پہلے ہی کرپشن کے مقدمات ہیں، اس ایشو پر عوام کو میدان میں لانا بہت مشکل ہے۔ بہرحال اے پی سی تو اب ہوگی ہی کیونکہ اب اسے ٹالنا نہیں ہے لیکن سوال پھر وہی پیدا ہوتا ہے کہ اگر اے پی سی فیصلہ کرتی ہے کہ تحریک شروع کی جائے تو پھر وہی سوال پیدا ہوگا کہ تحریک کس ایشو پر چلائی جائے۔