جرائم کا سد باب برسرعام شرعی سزائیں

اگر ریاست مدینہ ہوتی تو اب تک حقیقی مجرم کسی چوراہے پر لٹکتے نظر آجاتے۔


[email protected]

لاہورسیالکوٹ موٹروے پر پیش آنے والے شرمناک اور افسوسناک واقعہ نے ہر پاکستانی کو نمناک کر دیا ہے، یہ واقعہ حکومت کی بیڈ گورننس بلکہ بے حسی کی بدترین مثال ہے۔ اس واقعہ نے ایک بار پھر ہمارے انتظامی اداروں کی ناقص کارکردگی کا بھانڈہ بھی بیچ چوراہے میں لاکر پھوڑ دیا ہے۔

اگر ریاست مدینہ ہوتی تو اب تک حقیقی مجرم کسی چوراہے پر لٹکتے نظر آجاتے لیکن یہ پاکستان ہے ریاست مدینہ ہرگز نہیں۔ یہ کیسے حکمران ہیں جو پاکستان کو ریاست مدینہ تو دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اس میں بسنے والے شہریوں کی حفاظت کو ان خطوط پر یقینی بنانے کے لیے تیار نہیں جو حقیقی ریاست مدینہ نے اپنائے تھے، ریاست مدینہ کیسی تھی، اس کے خدوخال کیا تھے۔

اس کے خلفاء کا طرز حکمرانی کیا تھا؟ ان سوالات کے جوابات موجودہ حکمرانوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوسکتے، اگر ہوتے تو انھیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہوتی کہ ریاست مدینہ کے خلفاء کے دبدے سے انسان تو انسان، درندے بھی درندگی کی جسارت نہیں کرتے تھے، یہ نیا پاکستان ہی ہے جہاں درندے تو درندے، انسان بھی درندے بنے بیٹھے ہیں۔ گزشتہ سے پیوستہ بدھ کی شب ایک خاتون اپنے بچوں کے ساتھ لاہور سے گوجرانوالہ کے لیے براستہ موٹروے نکلتی ہے۔

ایک ایسی موٹروے جسے عام ٹریفک کے لیے کھلے ہوئے بھی چھ ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے، موٹروے پر خاتون ابھی لاہور کی حدود سے باہربھی نہیں نکلی کہ اس کی گاڑی کا پٹرول ختم ہوگیااور گاڑی بند ہوگئی، دور دور تک کوئی مددگار نہیں،خاتون نے پولیس اور موٹروے پولیس کی مدد حاصل کرنے کے لیے کال کی لیکن کوئی اس کی مدد کو نہ پہنچا، پولیس کے آنے سے پہلے ڈاکو آگئے، جو پہلے ہی کسی گاڑی کو لوٹنے کے لیے گھات لگائے بیٹھے تھے۔

ڈاکوؤں نے دیکھا کہ گاڑی میں ایک اکیلی خاتون اپنے بچوں کے ساتھ ہے، ڈاکوؤں نے خاتون کو گاڑی کا شیشہ کھولنے کو کہا، متعدد بار کہنے اور اسلحہ دکھانے کے باوجود بھی جب خاتون نے شیشہ نہ کھولا تو ڈاکوؤں نے توڑ دیا اور خاتون کو باہر نکال لیا۔ اسے ناصرف لوٹا بلکہ بچوں کے سامنے تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ ڈاکو خاتون کو لوٹنے کے بعد پاس ہی کرول جنگل میں لے گئے جہاں اسے اپنی ہوس کا نشانہ بناتے رہے۔

واقعہ میں ملوث دو مرکزی ملزموں میں سے ایک گرفتار ہوچکا جس نے ناصرف اقبال جرم کرلیا ہے بلکہ اس کا ڈی این اے ٹیسٹ بھی متاثرہ خاتون کے نمونوں سے میچ ہوچکا ہے، لیکن ابھی تک اہم مرکزی ملزم گرفتار نہیں ہوا۔ اس نوعیت کی گھناؤنی وارداتوں میں ملوث مزید دو شریک ملزم بھی حراست میں ہیں۔ تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملزمان عادی مجرم اور سزا یافتہ بھی ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ پہلے ہی ایسی سنگین واردات میں ملوث تھے تو انھیں اسی وقت کیفر کردار تک کیوں نہیں پہنچایا گیا؟ اگر ایسا ہوجاتا تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔

اس کرب ناک واقعہ نے پورے معاشرے کے ڈھانچے کو ہلا کررکھ دیا ہے۔ آٹھ روز سے تمام حکومتی مشینری اور انتظامی ادارے ہنگامی حالت میں ہیں لیکن بدھ کی شام تک مرکزی ملزم کی گرفتاری عمل میں نہیں آسکی۔ ستم بالائے ستم یہ کہ نااہل سرکار کے نکمے ترجمان پوری ڈھٹائی کے ساتھ ٹی وی چینلز پر نمودار ہوتے ہیں اور نجانے کس بات کی مبارک بادیں دینا شروع کردیتے ہیں۔ اگر ملزم گرفتار ہونے یا ان کا پتا معلوم ہونے پر مبارک بادیں دی جارہی ہیں تو یہ نہایت افسوسناک بات ہے۔

کیا ان کی یہ پھرتیاں متاثرہ خاتون ، اس کے معصوم بچوں اور اہل خانہ کے دل کو پہنچنے والی تکلیف کا مداوا کرسکتی ہیں؟ مجرموں کو پکڑنا اور انھیں کیفر کردار تک پہنچانا ریاست اور ریاستی اداروں کی بنیادی ذمے داری ہے پھر یہ مبارک بادیں کس بات کی دی جارہی ہیں؟ یہ واقعہ حکومت کی غیر ذمے داری کا نتیجہ ہے، اس کے سوا کچھ نہیں، حکومتی شخصیات مبارکبادیں دینے کے بجائے حکومت میں موجود ذمے داروں کو تلاش کریں اورانھیں بھی سزا دینی چاہیے۔

جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے کہ لاہور سیالکوٹ موٹروے گزشتہ چھ ماہ سے عام ٹریفک کے لیے کھلی ہوئی ہے، سب سے پہلے اس بات کا پتا لگایا جائے کہ جب اس موٹر وے کی سیکیورٹی موٹروے پولیس یا پنجاب پولیس کے سپرد نہیں کی گئی تھی تو اسے کیوں اور کس کے حکم پر کھولا گیا؟ ٹول ٹیکس لینا تو یاد تھا لیکن اس پر شہریوں کے تحفظ کے لیے پولیس تعینات کرنا کیسے بھول گئے؟

دوسری اہم بات کہ آخر ہمارا یہ مزاج کیوں بن گیا ہے کہ ہم چیزوں کو درست ڈگر پر لانے کے لیے کسی بڑے حادثے یا سانحے کا انتظار کرتے ہیں، اس سے پہلے ہم ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں ہوتے لیکن جونہی کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے ہماری پھرتیاں دیدنی ہوتی ہیں۔ ہم سی سی پی او لاہور کے ایک غیرذمے دارانہ بیان کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑگئے ہیں اوراس چکر میں وقوعہ کے اہم نکات کو یکسر فراموش کربیٹھے۔ آخر میڈیا کب ذمے دارانہ کردار ادا کرے گا؟

کب لکیر کے فقیر والی پالیسی ترک کرکے حقیقی ایشوز کی جانب توجہ دلائے گا؟ میڈیا نے اس حد تک پہلی بار مثبت کردار ادا کرتے ہوئے متاثرہ خاتون اوراس کے اہل خانہ کی شناخت پردے میں رکھی، اگر تھوڑی سی مزید ذمے داری کا مظاہرہ کرے اورجرم کو پروموٹ کرنے والی پالیسی ترک کرکے سزا کی تشہیر والی پالیسی اپنا لے تو یہ عمل لوگوں کے لیے عبرت کا باعث بنے گا؟

میڈیا کو اس بات کا پابند بنادیا جائے کہ وہ اس نوعیت کے مجرموں کو دی جانے والی سزا کی لائیو کوریج کرے اورموم بتی مافیا ہو یا کوئی اور، کسی کو اس سزا کے خلاف لب کشائی کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جب تک میڈیا ، سیاستدان اور ریاستی ادارے ذمے داری کا احساس نہیں کریں گے تب تک برائی کا راستہ نہیں روکا جاسکتا۔ میں اس بات کو مانتاہوں کہ ہر معاشرے میں برائیاں ہوتی ہیں لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ہر معاشرے نے اپنے زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر قانون سازی کرنی ہے اور پالیسیاں مرتب کرنی ہیں، سعودی عرب کی مثال ہمارے سامنے ہے۔

کسی کو سعودی عرب کے طرز حکمرانی سے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن یہ بات سب تسلیم کرتے ہیں کہ وہاں نافذ شرعی سزائیں جرائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، آپ زیادہ دور نہ جائیں ہمارے ہاں جب جنرل ضیاء الحق کے دور میں سرعام سزائیں ملنا شروع ہوئیں تو جرائم کا گراف نیچے آگیا تھا، ملک میں امن و مان کی صورتحال بہتر تھی جب سے سر عام سزاوں کا باب بند ہوا ہے تب سے جرم کوچہ و بازار میں بچے جَن رہا ہے۔

ہمارے معاشرے میں ایک تسلسل کے ساتھ بچوں اور خواتین کے ساتھ زیادتیوں کے واقعات ہو رہے ہیں، بیشتر کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوتے، والدین عزت بچانے کی خاطر خاموشی میں ہی عافیت سمجھ لیتے ہیں تاہم جونہی کوئی بڑا واقعہ سامنے آتا ہے تو میڈیا پر اس نوعیت کے واقعات کا ایک تسلسل شروع ہوجاتا ہے۔

حالیہ واقعہ کے بعد بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ایک ہی راستہ ہے اور وہ راستہ شرعی سزاؤں کا راستہ ہے۔ ہم سات دہائیوں سے بھٹک رہے ہیں، نجانے اس دوران کون کون سا نظام اپنایا ، اگر نہیں اپنایا تو صرف اسلام کا دیا ہوا نظام نہیں اپنایا خدارا مزید تجربات نہ کریں، یہ ملک مزید تجربات کا متحمل بھی نہیں اس لیے ریپ اور گینگ ریپ کے واقعات میں ملوث افراد کو سر عام شرعی سزا دی جائے اور شرعی سزا سنگساری ہی ہے، جس میں عبرت بھی ہے اور حکمت بھی۔ وزیر اعظم عمران خان نے اگر ریاست مدینہ کا نام لے ہی دیا ہے تو خدارا اس کی جانب ایک قدم بڑھا کر تو دیکھیں، ساری قوم آپ کے ساتھ کھڑی نظر آئے گی۔

یورپی یونین اور ان کے ٹکڑوں پر پلنے والے موم بتی مافیا کے دباؤ میں آنے کی ضرورت نہیں۔ ایک سچے مسلمان کو صرف اﷲ سے ڈرنے کی ضرورت ہے جب ہم اﷲ سے ڈرنے والے بن جائیں گے تب یورپ اور امریکا بھی ہماراکچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ ہماری ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کی عصمتیں تارتار ہورہی ہیں اور ہم بیرونی دباؤ سے نکلنے کو تیار نہیں۔ اب ہمیں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں