مزدور رہنما عثمان غنی شہید…حبیب الدین جنیدی

ایک زمانہ تھا کہ پاکستان میں بنکنگ انڈسٹری کی ٹریڈ یونینز ملک میں مزدور تحریک کا ہر اوّل دستہ تھیں۔


Habib Uddin Jinaidi September 17, 2020
حبیب الدین جنیدی

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی

اک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا

ایک زمانہ تھا کہ پاکستان میں بنکنگ انڈسٹری کی ٹریڈ یونینز ملک میں مزدور تحریک کا ہر اوّل دستہ تھیں۔ نواز شریف کے دورِ حکومت میں شروع کی گئی نجکاری ،ڈاؤن سائزنگ اور چھانٹیوں نے ان ٹریڈ یونینز کا زور توڑنے اور ملازمین کو بے یارومددگار کرنے کے لیے اس پر تابڑتوڑ حملے کیے۔بینکوں کی ٹریڈ یونینز کو دیوار سے لگانے کے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے سب سے زیادہ مزدور دشمن قانون سازیاں اسی دور میں کی گئیں۔

جن میں بینکنگ کمپنیز آرڈیننس مجریہ 1962کی شق 27B ہے، جس نے اس صنعت کی ٹریڈ یونین کے لیے زہرکا کام کیا۔ نواز شریف دورِحکومت اپنے انجام کو پہنچا مگر آمر جنرل پرویز مشرف کے امپورٹڈ وزیر اعظم شوکت ترین نے بھی یہ سلسلہ جاری رکھا۔اس زمانہ میںبینکنگ انڈسٹری کی لیبر یونینز کو یہ فخرحاصل ہے کہ اُس نے کئی نامور مزدور رہنما اس ملک کو دیئے جن میںسرفہرست سندھ کے موجودہ وزیر محنت کے والد عثمان غنی شہید کا نام آتا ہے۔

عثمان غنی شہید نے1970کی دہائی میں مسلم کمرشل بینک میں ملازمت اختیار کی ، وہ 1948کو کراچی میں پیدا ہوئے تھے جبکہ میٹرک NJVہائی اسکول اورگریجویشن کراچی یونیورسٹی سے کیا، ایک پڑھے لکھے باکردار انسان تھے اور مزدور طبقات پر ہونے والے مظالم کے خلاف اُن کی سوچ اُنہیں ٹریڈ یونین تحریک میں لے گئی۔وہ مسلم کمرشل بینک ایمپلائر یونین سی بی اے کے 1972 میں صدر منتخب ہوئے اور اُن کی یہ وابستگی اُن کی زندگی کے آخری سانس تک جاری رہی۔

ہمارے ملک میں صنعت بینکاری نے اب تک تین ادوار دیکھے ہیں۔ پہلا دور 1947سے 1974 تک کا ہے کہ جب تمام کمرشل بینک پرائیویٹ سیکٹر میں تھے۔ دوسرا دور جنوری 1974سے شروع ہوتا ہے کہ جب ذوالفقار علی بھٹو نے ایک انقلابی قدم اُٹھاتے ہوئے تمام کمرشل بینکوں کو قومی تحویل میں لے لیا اور یوں ملک کا بینکنگ سیکٹر سرکاری کنٹرول میں آگیا۔ تیسرے دور کا آغاز 1991سے مسلم لیگ کے دور ِحکومت سے شروع ہوا ہے کہ جب قومی ملکیتی بینکوں کو پرائیویٹ سیکٹر کے ہاتھوں بیچنے کا سلسلہ شروع ہوا اور مسلم کمرشل بینک سب سے پہلے اُس کی زد میں آیا۔

عثمان غنی نے مندرجہ بالا دو ادوار میں بینکوں کی ٹریڈ یونین سرگرمیوں اور مزدور تحریک میں بھی بھرپور حصّہ لیا وہ پاکستان کی بینکنگ انڈسٹری کی ٹریڈ یونین کے پہلے رہنما تھے کہ جنہیں مزدور دشمن قوتوںنے دن دیہاڑے شہید کیا۔

عثمان غنی ایک ایسے مزدور رہنما تھے کہ جنہیں تاریخ میں ایک فائٹر ٹریڈ یونینسٹ کے نام سے یاد رکھا جانا چاہیے ۔اُن کی تمام تر زندگی مزدوروں کے حقوق اور پاکستان پیپلز پارٹی کے پرچم تلے جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد میں گذری، ایک انتہائی فعال سیاسی رہنما اور پی پی پی سے تعلق بھی رکھتے تھے۔

انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بینظیر بھٹو کی قیادت میں ملک میں جمہوریت کی بحالی اور اُس کے استحکام کی جدوجہد میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور اس ضمن میں بھی کئی بار پابند سلاسل بھی رہے۔اُنہیں یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ انہوں نے دیگر ترقی پسند ساتھیوں کے ہمراہ بینظیر بھٹو کو اس امر پر قائل کیا کہ پارٹی کا لیبر ونگ قائم کیا جانا چاہیے اور اس طرح پیپلز لیبر بیورو کا قیام عمل میں آیا ۔

عثمان غنی کی پہلی گرفتاری 1974 میں اُس وقت عمل میں آئی جب وہ مسلم کمرشل بینک کے ملازمین کے لیے پرافٹ بونس کے اجراء کے لیے احتجاجی جلسہ عام سے خطاب کررہے تھے، پولیس نے اُنہیں جلسہ عام سے گرفتار کیا اور سینٹرل جیل کراچی منتقل کردیا اور یوں ان کی قربانیوں کا سلسلہ شروع ہوا ۔قید وبند کی صعوبتیں اُن کا اوڑھنا بچھونا بن گئی اور اُنہیں کمرشل بینکوں کی ٹریڈ یونینزمیں احتجاجی تحریکوں اور ملازمین کا ہیرو تصور کیا جاتا تھا۔

ان کے مزدور دوست اور سامراجی سرمایہ دارانہ نظام دشمن روّیہ نے جہاں اُنہیں محنت کشوں میں مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچایا تو دوسری جانب عوام دشمن قوتّیں اُن کی جان کی دشمن بھی بن گئیں۔عثمان غنی کراچی کے قدیمی علاقے چنیسر گوٹھ کے رہائشی تھے اور اُنہو ں نے اپنی بھرپور سیاسی زندگی بھی اسی علاقے میں گزاری ۔ پی پی پی کے پلیٹ فارم سے اُنہوں نے اسی حلقہ سے اسمبلی کے انتخابات بھی لڑے اور مخالفین کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، وہ اس حلقہ کے سرکردہ سیاسی رہنماؤں میں بھی شمار ہوتے تھے جہاں اُنہیں انتہائی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ یہ وہی حلقہ ہے کہ جہاں اُن کی شہادت کے بعداُن کے سب سے بڑے فرزند سعید غنی نے بھی سیاست کا آغاز کیا اور صوبائی اسمبلی کی نشست جیتی اور آج صوبائی وزیر محنت و تعلیم کے عہدے پر بھی فائز ہیں۔

ستمبرکا مہینہ اتفاق اور بدقسمتی سے ایک ایسے مہینے میں شمارکیا جاتا ہے کہ جس میں متعدد سانحات نے جنم لیا۔قائداعظم محمد علی جناح اسی ماہ ہم سے جُدا ہوئے، علی انٹرپرائزز گارمنٹس فیکٹری بلدیہ کراچی کا اندوہناک حادثہ جس میں 260 غریب بے قصور مزدور جل کر راکھ ہوئے، نائن الیون کا واقعہ ستمبر ہی میں وقوع پذیر ہوا جبکہ معروف مزدور رہنما عثمان غنی بھی اسی مہینہ میں شہید کیے گئے ۔ 1995میںستمبر کی 17تاریخ کو عثمان غنی چنیسر گوٹھ میں واقع اپنی رہائش گاہ سے اپنے دفتر واقع ہیڈآفس مسلم کمرشل بینک کے لیے روانہ ہوئے ابھی اُن کی کار کالا پُل پہنچی ہی تھی کہ پُل پر گھات لگائے ہوئے مسلح قاتلوں نے اُن کی کار کو گھیر لیا اور اُنہیں ہم سے چھین لیا۔

یہ درست ہے کہ عثمان غنی شہید آج ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جدوجہد اور قربانیوں کی جس شمع کو انہو ں نے روشن کیا تھا وہ اب بھی پورے آب و تاب کے ساتھ فروزاں ہے اور آج ہزاروں محنت کشوں کی آنکھیں اُن کی یاد میں نمناک ہیں۔دوسری جانب اُن کے صاحبزادے سعید غنی اپنی پوری صلاحیتوں کے ساتھ مزدور طبقہ کے حقوق کے لیے صوبائی وزیر محنت کی حیثیت سے شب وروز سرگرداں ہیں، یہ دو شمعیں عثمان غنی کی یاد کو محنت کشوں کے دلوں سے کبھی بجھنے نہیں دیں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں