غذائی اشیا کی بڑھتی قیمتیں اور خالی ہوتی جیب الزام حکومت کو نہیں خود کو دیں

افراط زر ان دنوں پاکستان میں سب سے زیادہ زیر بحث موضوع ہے، حالیہ برسوں میں عمومی سطح پر قیمتوں میں بے انتہا اضافہ...

جب تک ہم افراط زر کے پیچھے طلب اور رسد کے عمل کو نہیں جان لیتے اس وقت تک ہم غیر ارادی طور پر قیتموں میں اضافے کی حمایت کرتے رہیں گے۔ فوٹو: اے پی پی

افراط زر ان دنوں پاکستان میں سب سے زیادہ زیر بحث موضوع ہے، حالیہ برسوں میں عمومی سطح پر قیمتوں میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے، وفاقی ادارہ شماریات کی پریس ریلیز کے مطابق نومبر 2013 میں کنزیومر پرائس انڈیکس(سی پی آئی) 191.21 پوائنٹس پر موجود تھا جو کہ گزشتہ اسی مہینے میں 172.42 انڈیکس پوائنٹس تھا۔

اس بات کو جاننا ضروری ہے کہ سی پی آئی جولائی 2001 میں 62.82 انڈیکس پوائنٹس سے بڑھ کر صرف 13 سال کے عرصہ کے دوران 191.21 انڈیکس پوائنٹس کی بلندی تک پہنچ گیا ہے۔

وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق سی پی آئی میں سب سے زیادہ حصہ 34.83 فیصد کے ساتھ خوراک اور الکوحل سے پاک مشروبات کا ہے، یہ کیٹیگری جلد خراب ہونے والی اور نہ خراب ہونے والی دونوں کھانے کی اشیا پر مشتمل ہے۔ اسی پریس ریلیز کے مطابق نومبر 2013 میں نہ خراب ہونے والی اور خراب ہونے والی خوراک کے لیے سی پی آئی بالترتیب 209 اور 270 انڈیکس پوائنس تھا جو کہ گزشتہ برس اسی مہینے میں بالترتیب 193 اور 188 انڈیکس پوائنٹ تھا۔ یہ چیز جلد خراب ہونے والی اشیا کی قیمتوں میں 44 فیصد اضافے کو ظاہر کرتی ہے۔

آپ نے لازمی طور پر اخبارات میں پڑھا ہوگا یا نیوز چینلز پر دیکھا ہو گا کہ غذائی اشیا کی قیمتیں مختلف وجوہات کی وجہ سے خطرناک حد تک بڑھ رہی ہیں۔ تجزیہ کاروں نے اس افراط زر کو مختلف عوامل بشمول ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ، روپے کی قدر میں گراوٹ، کھانے کی اشیا کی برآمد، ٹرانسپورٹ کی ہڑتال، حکومتی پالیسیوں سے منسلک کیا ہے۔

تاہم ہم بحیثیت صارفین اپنی جانب انگلی سے اشارہ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ سامان اور سروسز کی قیمتوں میں اضافے کی وجوہات میں سے ہم بھی ایک وجہ ہو سکتے ہیں؟ ذرا اپنے اس ردعمل کے بارے میں سوچیں کہ جب آپ کو مارکیٹ میں کچھ چیزوں کی کمی کے بارے میں علم ہوتا ہے؟ کیا آپ کا پہلا ردعمل یہی نہیں ہوتا کہ آپ اپنی ضرورت سے زیادہ خرید لیں کیونکہ آپ قیمتوں کے استحکام اور اشیا کی دستیابی کے بارے غیریقینی صورتحال کا شکار ہیں؟

بہت سے لوگ اشیائے خواراک بالخصوص سبزیاں اتوار بازاروں سے خریدتے ہیں اور آپ نے لازماً یہ چیز غور کی ہو گی کہ کیسے لوگ خریداری سے قبل مارکیٹ میں موجود دکانداروں کے پاس موجود اشیا کے معیار اور قیمتوں کا موازنہ کرتے ہیں، گذشتہ اتوار جب میں اتوار بازار میں سبزیوں کی خریداری کے لیے موجود تھا، ایک عورت آئی اور اس نے دکاندار سے ٹماٹر کی قیمت پوچھی۔ سبزی والے نے جواب دیا کہ 150 روپے فی کلو، جس پر عورت نے کہا کہ:
کیا؟ 150 روپے ! بھائی تھوڑا تو کم کرو

سبزی والے نے روایتی سا جواب دیا کہ،
آپ میری باقاعدہ کی خریدار ہیں اور میں نے پہلے ہی آپ کو رعایت دے رہا ہوں، کل اس کی قیمت میں 180 روپے فی کلو تک بڑھ جائے گی۔

اور اچانک ہی خاتون ایک نہیں بلکہ 5 کلو ٹماٹر خریدنے کے لئے تیار ہوگئی۔ جیسا کہ میں کھڑا ان کی دکارندار سے بات چیت پر مسکرا رہا تھا، خاتون نے مجھے دیکھا اور کہا،

ہنس لو ہنس لو، اپنے والدین سے پوچھنا کتنی مہنگائی ہوگئی ہے۔

میں نے اس کی کوئی مدد نہیں کہ مگر سوال پوچھا کہ جب ٹماٹر اتنے مہنگے ہیں تو اس نے اتنے زیادہ مقدارمیں کیوں خریدے۔ یہ وہ بات چیت ہے جو کہ ہمارے درمیان ہوئی ۔
اگر قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگیا تو میں کیا کروں گی؟ میرے گھر کا بجٹ تو آسمان پر پہنچ جائے گا۔

ٹھیک ہے، مگر آپ کتنے عرصے تک ان ٹماٹروں کو استعمال کرسکیں گی، وہ جلدی خراب ہونے والی تمام اشیا کی طرح سڑ جائیں گے۔

میرے خیال میں اگر میں ریفریجریٹر میں بھی رکھوں تو یہ ایک ہفتے چل سکیں گے۔

کیا آپ نے سوچا کہ اگر کسی نے بھی یہ ٹماٹر نہ خریدے تو کب تک استعمال کے قابل رہیں گے۔
مجھے صیح اندازہ تو نہیں مگر شاید 3 یا 4 دن یا شاید ایک ہفتے۔

آپ کے خیال میں ہول سیلر اور ذخیرہ اندوز ان اشیائے خوراک کو کب تک رکھ سکتے ہیں کہ یہ خراب ہونا شروع ہوجائیں؟
شاید 2 ہفتے یا اس سے زائد۔

تو آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ دکاندار کیا کرے گا جب یہ خراب ہونا شروع ہوجائیں گے؟
وہ کم قیمت پر انہیں کافی کم قیمت پر فروخت کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔

تو پھر آپ قیمتوں میں کمی آنے تک اس طرح کی اشیا کی خریدار کیوں نہیں روک دیتیں۔
مجھے حقیقت پسند ہونا پڑے گا، اگر میں آج انہیں نہیں خریدوں گی تو کوئی اور آکر اس کو خرید لے گا اور کل مجھے اس سے بھی زیادہ قیمت کو برداشت کرنا پڑے گی۔

ٹھیک ہے، لیکن کیا تب بھی صرف واحد حکومت کو ہی موردِالزام ٹھہرایا جانا چاہیےجب آپ اور مجھ جیسے لوگ افراط زر سے لڑنے کے لیے معمولی سے اقدامات نہیں اٹھا سکتے؟ کیا ہم بھی برابر کے ذمہ دار نہیں ہیں؟

اس کے جواب میں اس خاتون نے مجھے یہ معیار " میں متاثر ہوں اور میرے تمام تر مسائل پر حکومت کو ہی موردِ الزام ٹھہرایا جائے" کا معیار دیااور کہا کہ
کیا تم پاگل ہو یا حکومت کے ایک مضبوط حامی؟

میں نے بہت سارے ایسے کیسز کے بارے میں سنا ہے جن میں لوگوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے عام عوام کے مفاد کو نظرانداز کرتےہوئے یونیز اور کمیٹیاں بنائی ہیں۔ تو میرا سوال ہے کہ کیوں ہم عام عوام اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے متحد ہو کر ایک یونین یا باڈی نہیں بنا سکتے۔

ہم کیوں ٹماٹر، آلو، پیاز اور دودھ جیسی اشیا کی قیمتیں بڑھنے پر ان کی خریداری نہیں بند کر سکتے؟

ہم کیوں ان مصنوعات کا بائیکاٹ کیوں نہیں کرسکتے جن کی قیمتیں (بین الاقوامی ذخیرہ اندوزی ) کی وجہ سے غیر ضروری طور پر بڑھائی گئی ہیں؟

میں عام عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ پرسکون ہو کر غور کریں کہ کیا ہم پاکستان میں افراط زر کے مسئلے کا حصہ ہیں یا نہیں، یہ ہماری معیشت، ذات اور اپنے ملک کے عوام کے لیے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم کوشش کریں اور افراط زر کے پیچھے موجود وجوہات سے آگاہ رہیں، اور اشیا کی قیمتوں ممیں اضافے کی اصل وجوہات جاننے تک عجلت میں فیصلے لینے کو روکیں۔

جب تک ہم افراط زر کے پیچھے طلب اور رسد کے عمل کو نہیں جان لیتے اس وقت تک ہم غیر ارادی طور پر قیتموں میں اضافے کی حمایت کرتے رہیں گے اور اس سے بری طرح متاثر بھی ہوتے رہیں گے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
Load Next Story