کورونا اور کرپشن
اگر حمزہ کو کورونا ہو گیا ہے تو سب سے پہلے اس بات کی تحقیق کی جائے کہ جیل میں کورونا کیسے ہو گیا۔
KARACHI:
پاکستان کی جیلیں عذاب سے کم نہیں۔ شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز کو جیل کے اندر کورونا ہو گیا اگر یہ خبر درست ہے تو یہ اندازہ کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہو گی کہ ہماری جیلیں قیدیوں کے لیے کتنی بڑی مصیبت بن گئی ہیں۔
اگر حمزہ کو کورونا ہو گیا ہے تو سب سے پہلے اس بات کی تحقیق کی جائے کہ جیل میں کورونا کیسے ہو گیا، اس کی ذمے داری کس پر عائد ہو گی؟ اس کے بعد دوسری بات یہ ہے کہ کیا جیل میں کورونا جیسی خطرناک اور جان لیوا بیماری کے علاج کی سہولتیں موجود ہیں۔
کیا حمزہ شہباز کا علاج تسلی بخش طریقے پر ہو رہا ہے؟ کیا جیل میں علاج کی پوری سہولتیں حاصل ہیں، یہ سوالات ہم اس لیے اٹھا رہے ہیں کہ یہ ایک سیاسی قیدی کا معاملہ ہے اور وہ بھی ایک اہم طبقے اور عوامی نمایندے کے علاج کا معاملہ ہے، ورنہ بد احتیاطی اور لاپروائی پر شکایتوں اور الزامات کے طوفان اٹھائے جائیں گے۔
شہباز شریف اپوزیشن کے رہنما ہیں اور حمزہ شہباز ان کے صاحبزادے، اگر علاج میںتوجہ نہ دی گئی تو شکایات اور الزامات کا طوفان اٹھایا جا سکتا ہے۔ ان امکانات کی وجہ سے اس بات کی ضرورت ہے کہ حمزہ کے علاج پر خصوصی توجہ دی جائے اور انھیں کسی پہلو سے بھی شکایات کا موقعہ نہ دیا جائے۔
ہمارے ملک میں اہل سیاست الزامی سیاست کے پجاری ہیں چیل اڑی، تو بھینس اڑی کا پروپیگنڈا کرتے ہیں ایسے سیاسی ماحول میں کسی بھی سیاسی شخصیت کے علاج میں جتنی احتیاط برتی جائے کم ہے۔ اگر کسی بھی قید سیاسی شخصیت کی طبیعت زیادہ خراب ہو جائے تو الزامات کا ایک ایسا طوفان اٹھایا جاتا ہے کہ اس کا مقابلہ کرنا حکومت کے لیے آسان نہیں ہوتا۔ دو سال سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا یہ پورا دور الزامات اور جوابی الزامات لگانے میں ہی گزر گیا۔
ہر جمہوری ملک میں ایک مضبوط اپوزیشن ہوتی ہے جو حکومت کی خامیوں پر تنقید کرتی ہے تا کہ حکومت اپنی خامیاں دور کر سکے۔ لیکن ہماری اپوزیشن نے اس حوالے سے اپوزیشن کے ایک نئے فرض کو متعارف کرایا ہے وہ ہے حکومت گرانا۔تاریخ دیکھی جائے تو ایسا ہر دور میں ہوتا ہے۔
ہمیں نہیں معلوم کہ اس ایک نکاتی ایجنڈے پر ہماری اپوزیشن کس طرح عمل کرتی ہے اپوزیشن ایک طویل عرصے سے حکومت گرانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے لیکن اپوزیشن حکومت کو گرا تو نہ سکی البتہ حکومت اور مضبوط ضرور ہو گئی ہے۔
اسے ہم اپوزیشن کی غلط پالیسی کہیں یا حکومت کی عقل مندی پاکستان ایک بحرانی دور سے گزر رہا ہے، ملک کو اربوں نہیں کھربوں روپوں کے بیرونی اور اندرونی قرضوں کا سامنا ہے جس سے حکومت نکلنے کی کوشش کر رہی ہے ایسے نازک وقت میں جب کہ بھارت لائن آف کنٹرول پر مسلسل خون خرابے پر تلا ہوا ہے کیا کسی بھی جماعت کی جانب سے ٹکراؤ کا رویہ درست نظر آتا ہے؟
پاکستان اشرافیہ کی لوٹ مار کا شکار ہے جس کی داستانوں سے میڈیا بھرا پڑا ہے اب دو سال سے مڈل کلاس کی حکومت آنے سے اقتصادی حالات کچھ بہتر ہو رہے ہیں جسے اور بہتر کرنے کی ضرورت ہے ورنہ معیشت بیٹھ جائے گی۔
ایسی نازک سچویشن میں نئے نئے مسائل پیدا کرنا کسی طرح بھی قومی مفاد میں نہیں سیاسی مخالفانہ کھیل اسی طرح جاری رہا تو یہ ملک جو ایک طویل عرصے کے بعد پٹری پر آیا ہے پھر پٹری سے اتر جائے گا اور مارشل لاؤں کی زد میں بھی آ سکتا ہے ایسے نازک وقت میں اے پی سی کا ڈرامہ کرنا کسی طرح بھی اپوزیشن کو زیب نہیں دیتا۔دنیا کے ملک خصوصاً پسماندہ ملک ترقی کے لیے ہاتھ پیر مار رہے ہیں اور ایسے میں ملک کو ترقی کی طرف جانے سے روکا جا رہا ہے قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔
یہ ایسا رویہ ہے کہ جسے درست نہیں کہا جا سکتا۔ کیاآج ایک بھی ایسا فرد یا جماعت نہیں جو ملک کے بہتر مستقبل کے حوالے سے کوشش کر رہی ہو، دشمنی اور عوام دشمنی ہے جسے ختم ہونا چاہیے۔عمران خان ایک ایماندار حکمران ہے جس پر ایک پائی کی کرپشن کا الزام نہیں نہ عمران خان کی ٹیم پر کرپشن کے الزامات لگائے جا سکے کیا ایسی حکومت کو محض اقتدار کے لیے گرانا مناسب ہے؟
عمران حکومت سنبھل سنبھل کر بڑی احتیاط کے ساتھ چل رہی ہے۔ عمران خان ملکی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے بہت سنجیدہ ہیں، خارجہ تعلقات میں بہتری لانے میں انھوں نے بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔
اب وہ داخلی معاملات کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں ملک مہنگائی کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے اور یہی ایک ایسا مسئلہ ہے جو حکومت کے لیے مسائل پیدا کر سکتا ہے اس میں حکومت کی نااہلی کا بھی دخل ہے پرائس کنٹرول کمیشن سر سے پیر تک کرپٹ ہے اور ملک میں عوامی ضروریات کی چیزوں کی قیمت کو عوام کی قوت خرید کے مطابق رکھنا پرائس کنٹرول کمیشن کی ذمے داری ہے لیکن جس ملک میں زندگی کے ہر شعبے میں کرپشن نے ڈیرے ڈال رکھے ہوں اس ملک میں ایک ادارہ کیسے کرپشن سے بچ سکتا ہے؟
اپوزیشن کا مطلب حکومت گرانا ہی نہیں بلکہ ہنگامی حالات میں حکومت کی مدد کرنا بھی ہوتا ہے۔ حکومت کرپشن کے خلاف اقدامات کر رہی ہے لیکن اس ڈھیلے ڈھالے طریقوں سے اس کرپشن کو نہیں روکا جا سکتا جسے پروان چڑھانے میں ہر سیاستدان نے بہت کوشش کی ہے۔
کرپشن ایک عالمی مرض ہے لیکن پاکستان میں کرپشن کو جو مقام حاصل ہے کسی اور ملک کو شاید حاصل نہ ہو۔ عمران خان حکومت کرپشن روکنے کی جو کوششیں کر رہی ہے وہ غیر منطقی بھی ہے اور غیر عقلی بھی، پس اس حوالے سے جب تک مربوط طریقوں سے سخت اقدامات نہیں کیے جائیں گے کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں۔