تقویٰ اخلاص اور عمل

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’دین میں اخلاص پیدا کرو، تھوڑا عمل بھی کافی ہوجائے گا۔‘‘

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’دین میں اخلاص پیدا کرو، تھوڑا عمل بھی کافی ہوجائے گا۔‘‘ فوٹو : فائل

تقویٰ بہت عظیم اور بیش بہا صفت اور ساری مطلوبہ صفات کا مجموعہ ہے۔ جو تقویٰ کی صفت رکھتے ہوں ان کو اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دنیا اور آخرت کی ساری بھلائیوں کی ضمانت دی ہے۔

تقویٰ وہ صفت ہے جس سے ہر مشکل سے نکلنے کا راستہ ملتا ہے۔ تقویٰ پرہیز گاری ہے اور یہ ہمیں جنّت کے راستے کی طرف لے جاتی ہے۔

تقویٰ، قلب و روح، شعور و آگہی، عزم و ارادے، ضبط و نظم اور عمل و کردار کی اس قوّت اور استعداد کا نام ہے جس کے بَل پر ہم اس فعل سے رک جائیں جو غلط ہو، اور اس پر جم جائیں جو صحیح ہو۔ تقویٰ، غیب پر ایمان کا نام ہے۔ غلط راستے کو چھوڑ دینا ہی تقویٰ ہے۔

حضور ﷺ نے فرمایا کہ سب انسانی اعمال کا دار و مدار صرف نیّتوں پر ہے۔ نیّت میں اخلاص ہوگا تو اس کا انعام بھی بہت زیادہ ملے گا۔ خالی عمل سے کچھ نہیں ملتا، نیّت کا خالص ہونا ہی بنیادی شرط ہے۔

اخلاص کا مطلب یہ ہے کہ ہر اچھا کام یا کسی کے ساتھ اچھا برتاؤ صرف اس لیے کیا جائے کہ ہمارا خالق و پروردگار ہم سے راضی ہو اور ہم پر اپنی رحمت فرمائے۔ اخلاص کا تعلق دل سے ہے، جس کا مقصد صرف اﷲ تعالیٰ کو خوش کرنا ہے اخلاص کو عمل میں اساس کی حیثیت حاصل ہے۔ جس طرح تعمیر بنیاد کے بغیر اور جسم سر کے بغیر بے کار ہے، اسی طرح اعمال اخلاص کے بغیر بے کار ہیں۔


آپ ﷺ نے فرمایا: ''دین میں اخلاص پیدا کرو، تھوڑا عمل بھی کافی ہوجائے گا۔'' خشیت الٰہی سے مراد اﷲ تعالیٰ کا ڈر، یعنی ہر اس کام کو کرنے سے پہلے یہ سوچنا کہ کیا اس سے ہمارا رب ہم سے ناراض تو نہیں ہو جائے گا ؟ کہیں ہم اس کے ناپسندیدہ بندوں میں تو شامل نہیں ہو رہے ہیں؟ اس کی رضا بہت ضروری ہے۔ اﷲ کا خوف ہوگا تو کوئی بھی غلط کام نہیں ہوگا۔ جب اس بات پر یقین کامل ہو کہ اﷲ ہماری شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے تو بُرائی کرنے سے پہلے ہم ہزار بار سوچیں گے۔

انسان خطا کا پُتلا ہے اور ہمارا رب ہماری فطرت بہ خوبی جانتا ہے۔ اس لیے رب ِ کائنات نے ہمارے لیے معافی کا در کھلا رکھا ہے، ایک بار توبہ کرنے بعد اگلی بار گنا ہ کرنے سے پہلے ہمیں اﷲ سے حیا آتی ہے، اور اس کے خفا ہوجانے کا ڈر بھی ہوتا ہے جو ہمیں گناہ کی طرف بڑھنے سے روک دیتا ہے۔

عبادت خالص اور صرف اﷲ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہے، اس میں کسی قسم کی نمود و نمائش کی جائے تو اس میں اخلاص نہیں رہتا ہے، ایسی عبادت صرف دکھاوا ہے جس کا دنیاوی فائدہ تو شاید ہو، لیکن اخروی کوئی فائدہ نہیں۔ ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق عبادت کرتا ہے، کوئی کم کرتا ہے تو کوئی زیادہ۔ عبادت وہی مقبول و قبول ہوگی جس میں تقویٰ، اخلاص اور خشیتِ الٰہی ہو۔ اگر عبادت شہرت، دکھاوے یا کسی اور مقصد کے تحت کی جائے تو اﷲ تعالیٰ کے یہاں اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں بل کہ وہ گرفت کا سبب بنے گی۔

اﷲ تعالیٰ کو بھی ہماری ان عبادتوں کی کوئی ضرورت نہیں جن میں دکھاوا ہو۔ عبادت میں اخلاص تو یہ ہے کہ اپنے رب کی رضا و خوش نُودی حاصل کر نے کے لیے اس کے احکامات پر فوراً لبیک کہیں۔ اپنی سوچ کو پاکیزہ رکھا جائے، اپنے ہر عمل کو اﷲ کی رضا کے لیے کیا جائے۔ عبادت صرف نماز، روزہ، حج ، زکوۃ یا وہ عمل نہیں جن کو سب دیکھ سکتے ہوں۔ عبادت تو والدین کو مُسکرا کر دیکھنا بھی ہے، ان سے اچھا سلوک بھی عبادت ہے۔

عبادت دو طرح کی ہے، ایک فرض عبادت اور دوسری نفل عبادت۔ دونوں طرح کی عبادات میں تقویٰ، اخلاص اور خشیتِ الٰہی بنیادی اور اولین شرائط میں سے ہے۔ عبادت میں تقویٰ، اخلاص اور خشیت الٰہی کا ہونا ہی اسے مقبول بناتا ہے۔
Load Next Story