گجرات پر فیصلہ‘ دہلی پر خاموشی
نریندر مودی نے فسادات میں مایا کڑنانی کے کردار کی اس قدر تعریف و ستائش کی کہ اسے وزیر بنا دیا
ہر بار جب گجرات میں فسادات کے مقدمے میں کسی کو عدالت سے سزا ملتی ہے تو میں یہ امید کرنا شروع کر دیتا ہوں کہ وہ دن دور نہیں جب اصل مجرم' ریاستی وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔
مایا کڑنانی کو 28 سال کی طویل سزا' جس نے احمد آباد میں نرودا پٹیا کا قتل عام منظم کرایا تھا' مجھے پُراعتماد کر دیا ہے کہ انصاف میں تاخیر ہو سکتی ہے... کہ فسادات 2002ء میں ہوئے... مگر انصاف سے انکار نہیں ہو سکتا۔ نریندر مودی نے فسادات میں مایا کڑنانی کے کردار کی اس قدر تعریف و ستائش کی کہ اسے وزیر بنا دیا مگر سپریم کورٹ کی خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) نے مایا کے جرم کو پکڑ لیا حالانکہ پولیس نے اپنی سی پوری کوشش کر لی تھی کہ مایا کے ملوث ہونے کی بات کسی ریکارڈ میں نہ آنے پائے۔
جو سوال مجھے شروع ہی سے پریشان کر رہا ہے وہ اس وزیر اعلیٰ کو سزا دینے کا ہے جس نے باقاعدہ منصوبہ بندی سے اپنے ہی لوگوں کا قتل عام کرایا کیونکہ ان کا تعلق مختلف مذہب سے تھا۔ تقریباً 2000 مسلمان موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے۔ 95 صرف نرودا پٹیا میں ہلاک کیے گئے۔ اسی نوعیت کا مخمصہ مجھے 1984ء میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد بھی پیش آیا تھا جب قومی دارالحکومت میں 3000 سکھوں کو مار ڈالا گیا۔ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیے جانے والے معصوم لوگوں کے اس قتل عام کو راجیو گاندھی کی مکمل حمایت حاصل تھی۔
اس کا یہ بے رحمانہ تبصرہ مجھے اب تک یاد ہے جس میں اس نے کہا تھا کہ جب ایک بڑا درخت گرتا ہے تو اس کے اردگرد کی ساری زمین کانپ جاتی ہے۔ گجرات اور دہلی دونوں جگہوں پر قتل و غارت اور لوٹ مار کا طریقۂ کار ایک ہی تھا۔ پہلے پبلک کو مشتعل کیا گیا۔ پولیس کو ہدایت کر دی گئی تھی کہ وہ اپنا دھیان دوسری طرف رکھیں اور فوج کے طلب کیے جانے کو جان بوجھ کر موخر کر دیا گیا...
کاش کہ اس وقت لوک پال (محتسب) کا ادارہ موجود ہوتا تو لازماً اصل مجرموں نریندر مودی اور راجیو گاندھی کا نام لے لیا جاتا۔ لیکن اس کے یعنی لوک پال کے تحفظ کی عدم موجودگی میں ایسی بربریت کا نشانہ بننے والے مظلوموں کو انصاف کون دلائے گا؟ جب محافظ ہی قاتل بن جائے تو پھر تحفظ کیسے نصیب ہو۔ درحقیقت گجرات اور دہلی دونوں کے واقعات نے امن و امان قائم کرنے والی مشینری کے بارے میں ایک عام سوال کھڑا کر دیا ہے۔ پولیس حکمرانوں کی کنیز ہے جو آزادانہ طور پر کچھ نہیں کر سکتی۔
دھرم ویر کمیٹی نے 1980ء میں جن پولیس اصلاحات کی تجویز دی تھی اگر اس پر عمل کر لیا جاتا تو بھی صورت حال کو کسی حد تک بچایا جا سکتا تھا۔ اس تجویز کے مطابق پولیس کا کنٹرول ایک کمیٹی کے سپرد کرنے کا کہا گیا تھا جس میں اپوزیشن لیڈر بھی شامل ہو لیکن اس قسم کی تجاویز کو کوئی ریاست بھی تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ درحقیقت ایسے معاملات وفاقی پولیس فورس کے حل کرنے کے ہوتے ہیں جس طرح کہ امریکا میں مسسپی کا مشہور مقدمہ ہے جس میں وفاقی پولیس نے مجرم کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے مقامی انتظامیہ اور سیاست دانوں کے سازباز کو غیر موثر بنا دیا تھا۔
چونکہ ریاستیں امن و امان قائم رکھنے والی مشینری پر اپنا مکمل کنٹرول رکھنے کے حوالے سے بہت حاسد ہوتی ہیں تو یہ خیال کرنا بہت مشکل ہے کہ نئی دہلی کی حکومت کسی وفاقی فورس پر رضامند ہو سکتی ہے۔ جہاں تک اقلیتوں کا تعلق ہے تو مسلمانوں کے گجرات میں اور سکھوں کے دہلی میں تجربے نے اس حقیقت کو طشت از بام کر دیا کہ حکمران اپنے پارٹی اراکین کو بچانے کی خاطر کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ ان کے نام خواہ وہ کتنے ہی مختلف ہوں لیکن اصل میں یہ پارٹی کے وہ لوگ ہوتے ہیں جو سیاسی آقاؤں کے لیے ظلم و تشدد کی کوئی بھی داستان رقم کر سکتے ہیں۔
میرے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ آر ایس ایس اور اس کے پریوار (خاندان) کے ہاتھوں زیادہ سے زیادہ ہندوؤں کا ذہن تعصب سے آلودہ ہو رہا ہے۔ یہ بات البتہ دل خوش کن ہے کہ آر ایس ایس کے عسکری بازو بجرنگ دل کے ایک رکن کو نرودا پٹیا کیس میں عمر قید کی سزا دی گئی ہے۔ لیکن سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اکثریتی کمیونٹی سیکولرازم کے راستے سے منحرف ہو رہی ہے حالانکہ انھیں احساس ہونا چاہییکہ اس سے بھارت ٹوٹ کر بکھر جائے گا۔
بی جے پی 2014ء کے انتخابات میں فتح یابی کی توقع لیے ہوئے ہے لیکن وہ ملک کو اس متوقع تباہی سے بچانے کے لیے اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کر رہی۔ یہ بھی درست ہے کہ دوسری قومی پارٹی یعنی کانگریس بھی بی جے پی کی کاربن کاپی بن کر رہ گئی ہے البتہ سیکولر ازم کے وعدوں کی یہ ابھی تک حمایت کرتی ہے۔ اس پارٹی کا عمومی مؤقف مفاد پرستانہ ہے مگر یہ مہاتما گاندھی اور جواہر لعل نہرو سے متاثر ہے گرو گوالکر سے نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس کئی مواقع پر سیکولر مؤقف اختیار کر لیتی ہے اور فرقہ واریت پھیلانے والی قوتوں کے مقابل ڈٹ جاتی ہے۔
البتہ مجھے اس موقع پر ضرور مایوسی ہوئی جب کانگریس حکومت نے نہ تو شیو سینا کے خلاف کوئی کارروائی کی بالخصوص راج ٹھاکرے کے خلاف جس نے ممبئی میں ہجوم کو قومی شائونزم کے نام پر مشتعل کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی حکومت نے ان مسلمان بنیاد پرستوں کے خلاف کوئی کارروائی کی جنہوں نے آزاد میدان (آسام) میں تشدد پھیلا کر دو افراد کو ہلاک کروا دیا۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ میدان میں جس شخص نے ہجوم کو اکسایا وہ مقامی کانگریس کا ایک مسلمان لیڈر تھا۔
افسوس کی بات ہے کہ کانگریس اور بی جے پی دونوں ہی یہ سمجھتی ہیں کہ ذات برادری کی بات کر کے انھیں زیادہ ووٹ مل سکتے ہیں تاہم اگر سپریم کورٹ لاتعداد جعلی پولیس مقابلوں میں سے نو مقدمات کو منتخب نہ کرتی تو کسی مایا کڑنانی کو سزا نہیں مل سکتی تھی۔ لیکن سکھوں کے قتل عام میں سپریم کورٹ مداخلت نہیں کر سکی کیونکہ راجیو گاندھی کی انتظامیہ نے خون کے تمام دھبے دھو ڈالے تھے۔ کوئی ثبوت باقی نہیں رہنے دیا گیا۔ تمام ریکارڈ تلف کر دیا گیا۔ یہ سارا قتل عام حکمران کانگریس نے کرایا جس کی پہلے سے ہی مکمل منصوبہ بندی کر لی گئی تھی۔
اس نوجوان وکیل ایچ ایس پھولکا کا شکریہ ادا کرنا واجب ہے جس نے ظلم کا شکار ہونے والوں کے حلفی بیانات سے ایک مضبوط مقدمہ تیار کر لیا لیکن کانگریس حکومت اس مقدمے کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کر رہی ہے۔ گجرات میں مجرموں کو سزا ملنا ایک استثنائی معاملہ ہے۔ وہاں پر کم از کم ریکارڈ میں کوئی ایسی چیزیں تو باقی تھیں جن کی بناء پر ایس آئی ٹی نے فرد جرم عائد کر دی۔ لیکن دہلی میں کانگریس حکومت نے تمام شواہد مٹا دیئے جن کی بناء پر 1984کے قتل عام کے مجرموں کو سزا دی جا سکتی۔
حکومت کی طرف سے دبائے جانے والے معاملات میں یو پی کے علاقے ہاشم پورہ کا وہ واقعہ بھی شامل ہے جس میں 22 مسلمان لڑکوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ یہ واقعہ 1987میں رونما ہوا۔ یہ مقدمہ ماتحت عدالت سے ہی آگے نہیں بڑھا۔ آسام میں ہونے والے فسادات بھی مسلم کش تھے۔ ان سارے واقعات سے ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ قانون کی حکمرانی اس وقت تک ایک بے معنی اصطلاح ہے جب تک حکومت کسی ڈر، خوف یا لالچ کے بغیر خود کوئی قدم نہ اٹھائے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)