پاکستان بین الاقومی سطح پر تیزی سے تنہائی کا شکار ہورہا ہے الطاف حسین
ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ملک کو ایک آزاد اور ترقی یافتہ ریاست بنانا ہے یا مذہبی ریاست، الطاف حسین
ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ آج پاکستان بین الاقوامی سطح پر تیزی سے تنہائی کا شکار ہورہا ہے اور آج اسے بیرونی کے ساتھ کئی اندرونی خطرات کا بھی سامنا ہے۔
یوم سقوط ڈھاکا کے موقع پر ایم کیو ایم انٹرنیشنل سیکریٹریٹ لندن میں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے الطاف حسین نے کہا کہ موجودہ حالات کا تقاضہ ہے کہ اب ہم کسی اور سے مدد کی توقع کرنے کے بجائے اپنے ملک کے بارے میں سوچیں، ہمیں اب گومگوں کی کیفیت سے نکل کر ملک کے مستقبل کے بارے میں کوئی ٹھوس فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا ہمیں ملک کو ایک آزاد اور ترقی یافتہ ریاست بنانا ہے یا مذہبی ریاست، ہمیں طالبان سے مقابلہ کرنا ہے یا ملک ان کے حوالے کردینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سقوط ڈھاکہ سے قبل بھی ہم پر اجتماعی غفلت طاری تھی، ملک کے ارباب اقتدار کی سوچ تعصب اور نفرت سے بھری ہوئی تھی اور وہ ذاتی، علاقائی اور گروہی سیاست میں اس قدر الجھے ہوئے تھے کہ انہیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہوا کہ ملک کس سمت جارہا ہے، اس غفلت کا نتیجہ یہ نکلا کہ 16 دسمبر1971 کو دنیا کے نقشے سے مشرقی پاکستان کا وجود ہی مٹ گیا اور اس کی جگہ ایک نئی ریاست بنگلا دیش کی صورت میں نمودار ہوگئی۔
الطاف حسین کا کہنا تھا کہ زندہ قومیں اپنے ماضی خصوصاً ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کرتی ہیں اور ان کا اعادہ کرنے سے بچتی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے ارباب اختیار واقتدار نے اس سانحے سے کوئی سبق سیکھا یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے قبل ہمارے حکمراں یہ کہتے نہ تھکتے تھے کہ مغربی ممالک ہمارے دوست ہیں اور وہ بھارت کے مقابلے میں ہماری مدد کو آئیں گے لیکن کیا ایسا ہوا، آج بھی خطے میں اہم تبدیلیاں ہوتی نظر آرہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آج صرف ایران اور امریکا ہی کے تعلقات بہتر نہیں ہورہے بلکہ بھارت، افغانستان اور ایران کے باہمی تعلقات میں بھی تیزی سے بہتری آرہی ہے، چین اور بھارت تک ماضی کی غلطیاں بھلا کر اب تجارتی اور سفارتی مراسم بڑھا رہے ہیں جبکہ پاکستان بین الاقوامی سطح پر تیزی سے ''سفارتی تنہائی'' کا شکار ہوتا جارہا ہے۔
ایم کیو ایم کے قائد نے کہا کہ اس وقت پاکستان کو صرف بیرونی سطح پر تنہائی ہی نہیں بلکہ اندرونی خطرات کا بھی سامنا ہے، بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے، صوبہ خیبر پختونخوا میں پاکستان کے قیام کے دن سے ڈیورنڈ لائن کا تنازعہ ہے، اندرون سندھ طویل عرصے تک سندھو دیش کی تحریک چلتی رہی اور آج بھی اس کے حمایتی موجود ہیں، ان حالات میں اردو بولنے والوں میں بھی یہ احساس تیزی سے پیدا ہورہا ہے کہ اگر خدانخواستہ ان منصوبوں پر عمل درآمد ہوا تو ہمارا مستقبل کیا ہوگا۔
یوم سقوط ڈھاکا کے موقع پر ایم کیو ایم انٹرنیشنل سیکریٹریٹ لندن میں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے الطاف حسین نے کہا کہ موجودہ حالات کا تقاضہ ہے کہ اب ہم کسی اور سے مدد کی توقع کرنے کے بجائے اپنے ملک کے بارے میں سوچیں، ہمیں اب گومگوں کی کیفیت سے نکل کر ملک کے مستقبل کے بارے میں کوئی ٹھوس فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا ہمیں ملک کو ایک آزاد اور ترقی یافتہ ریاست بنانا ہے یا مذہبی ریاست، ہمیں طالبان سے مقابلہ کرنا ہے یا ملک ان کے حوالے کردینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سقوط ڈھاکہ سے قبل بھی ہم پر اجتماعی غفلت طاری تھی، ملک کے ارباب اقتدار کی سوچ تعصب اور نفرت سے بھری ہوئی تھی اور وہ ذاتی، علاقائی اور گروہی سیاست میں اس قدر الجھے ہوئے تھے کہ انہیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہوا کہ ملک کس سمت جارہا ہے، اس غفلت کا نتیجہ یہ نکلا کہ 16 دسمبر1971 کو دنیا کے نقشے سے مشرقی پاکستان کا وجود ہی مٹ گیا اور اس کی جگہ ایک نئی ریاست بنگلا دیش کی صورت میں نمودار ہوگئی۔
الطاف حسین کا کہنا تھا کہ زندہ قومیں اپنے ماضی خصوصاً ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کرتی ہیں اور ان کا اعادہ کرنے سے بچتی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے ارباب اختیار واقتدار نے اس سانحے سے کوئی سبق سیکھا یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے قبل ہمارے حکمراں یہ کہتے نہ تھکتے تھے کہ مغربی ممالک ہمارے دوست ہیں اور وہ بھارت کے مقابلے میں ہماری مدد کو آئیں گے لیکن کیا ایسا ہوا، آج بھی خطے میں اہم تبدیلیاں ہوتی نظر آرہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آج صرف ایران اور امریکا ہی کے تعلقات بہتر نہیں ہورہے بلکہ بھارت، افغانستان اور ایران کے باہمی تعلقات میں بھی تیزی سے بہتری آرہی ہے، چین اور بھارت تک ماضی کی غلطیاں بھلا کر اب تجارتی اور سفارتی مراسم بڑھا رہے ہیں جبکہ پاکستان بین الاقوامی سطح پر تیزی سے ''سفارتی تنہائی'' کا شکار ہوتا جارہا ہے۔
ایم کیو ایم کے قائد نے کہا کہ اس وقت پاکستان کو صرف بیرونی سطح پر تنہائی ہی نہیں بلکہ اندرونی خطرات کا بھی سامنا ہے، بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے، صوبہ خیبر پختونخوا میں پاکستان کے قیام کے دن سے ڈیورنڈ لائن کا تنازعہ ہے، اندرون سندھ طویل عرصے تک سندھو دیش کی تحریک چلتی رہی اور آج بھی اس کے حمایتی موجود ہیں، ان حالات میں اردو بولنے والوں میں بھی یہ احساس تیزی سے پیدا ہورہا ہے کہ اگر خدانخواستہ ان منصوبوں پر عمل درآمد ہوا تو ہمارا مستقبل کیا ہوگا۔