عرب اسرائیل تعلقات آج کے تھوڑے ہیں
اگلے چند ہفتے میں ایک آدھ مزید مسلمان ملک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کیا جا سکتا ہے۔
انیس سو اڑتالیس میں اسرائیل کے قیام کے بعد جن عرب ممالک نے فلسطینیوں کے حق میں نئی ریاست پر لشکر کشی کی ان میں سے چار ممالک ( شام ، لبنان ، اردن ، مصر) کی سرحدیں براہ راست اسرائیل سے ملتی تھیں۔جب کہ متعدد مسلمان ممالک کی جانب سے فلسطینیوں کی حمایت علامتی نوعیت کی تھی۔ علامتی تو محض تکلفاً کہہ رہا ہوں۔دراصل ان مسلمان ممالک کی فلسطین نواز پالیسی '' حسین سے بھی مراسم یزید کو بھی سلام '' کے اصول پر استوار تھی۔
یہاں میں غیر عرب مسلم ممالک ترکی اور ایران کا تذکرہ نہیں کر رہا جنھوں نے اسرائیل کو وجود میں آنے کے ایک برس کے اندر ہی باضابطہ تسلیم کر لیا (انیس سو اناسی میں ایران نے اسرائیل سے تعلقات توڑ لیے)
آج میرا موضوع غیر خلیجی عرب ممالک اور شمالی افریقہ ہے۔ اردن جیسی فرنٹ لائن اسٹیٹ بھی نومولود اسرائیلی ریاست سے روزِ اول سے رابطہ میں تھی۔مثلاً انیس سو اڑتالیس انچاس میں جن عرب ممالک نے اسرائیل کے خلاف اعلانِ جنگ کیا ان میں سب سے مضبوط اردن کی فوج المعروف عرب لیجن تھی۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ جس برطانیہ نے اسرائیل کی پیدائش میں دائی کا کردار ادا کیا۔اسی برطانیہ کا ایک جنرل سر جان بیگٹ گلب عرف گلب پاشا انیس سو چھپن تک عرب لیجن کا کمانڈر رہا۔اسی کی قیادت میں عرب لیجن نے انیس سو اڑتالیس میں اسرائیل کے قیام کے اعلان کے بعد مغربی کنارے پر اسرائیل کو روکا (مغربی کنارہ بشمول بیت المقدس بالاخر انیس سو سڑسٹھ میں اسرائیل نے چھین لیا )۔
مگر گلب پاشا اپنے بادشاہ اور اس کے سرپرست برطانیہ کی مرضی کے برعکس نومولود ریاست پر فیصلہ کن وار کیسے کر سکتا تھا؟ چنانچہ اسرائیل نے متحدہ عرب فوج کو راستے میں ہی روک دیا۔ یہ فوج خود ہی رک گئی یا پھر سامراجی اسکرپٹ میں اس فوج کا بس اتنا ہی کردار تھا؟ یہ آپ کی سوچ پر چھوڑتا ہوں۔
بس یوں سمجھ لیں کہ صرف گلب پاشا ہی اسکرپٹ کا حصہ نہیں تھا بلکہ موجودہ اردنی بادشاہ کے دادا شاہ عبداللہ کے بھی اسرائیل کے پہلے وزیرِ اعظم ڈیوڈ بن گوریان سے مراسم تھے۔
اسی لیے شاہ عبداللہ پر کسی سرپھرے نے مسجدِ اقصی کی سیڑھیوں پر قاتلانہ حملہ کیا مگر گولی خوش قسمتی سے سینے پر لگے تمغوں سے ٹکرا کر پھسل گئی۔شاہ عبداللہ کے بعد آپ کے صاحبزادے شاہ حسین تخت پر بیٹھے تو انھوں نے والد کی پالیسی کو آگے بڑھایا۔انیس سو تریسٹھ کے بعد سے شاہ حسین اور اسرائیلی حکام کی لندن کے اس کلینک میں ملاقاتیں ہوتی تھیں جہاں شاہ طبی معائنے کی غرض سے آتے جاتے تھے۔
جون انیس سو سڑسٹھ میں اگرچہ اسرائیل نے شام سے گولان کی پہاڑیاں اور مصر سے جزیرہ نما سینا اور اردن سے بیت المقدس سمیت پورا غربِ اردن چھین لیا مگر اردن اور اسرائیل کے خاموش روابط پر کوئی خاص فرق نہ پڑا۔انیس سو ستر میں اردنی ٹینکوں نے اسرائیل سے انیس سو اڑتالیس میں نکالے گئے فلسطینوں کے کیمپ یہ کہہ کر کھدیڑ دیے کہ فلسطینی اردن میں ریاست کے اندر ریاست بنا رہے ہیں۔سیکڑوں ہلاکتیں ہوئیں۔ چنانچہ فلسطینیوں کی اکثریت لبنان منتقل ہو گئی۔
انیس سو تہتر میں جب مصری صدر انور سادات اور شامی صدر حافظ الاسد نے اپنے اپنے مقبوضہ علاقوں کو اسرائیل سے آزاد کروانے کا منصوبہ بنایا تو اس منصوبے میں اردن کو بھی شامل کیا گیا۔سادات اور اسد نے حملے کی اصل تاریخ یعنی چھ اکتوبر خود تک محدود رکھی مگر شاہ حسین کو ایک ہفتے بعد کی تاریخ بتائی گئی۔
شاہ حسین نے اگلے ہی دن اسرائیل کا خفیہ دورہ کر کے وزیرِ اعظم گولڈا میر کو بتا دیا کہ دس اکتوبر کے بعد کسی بھی دن سرپرائز کے لیے تیار رہیں۔اس سے پہلے کہ اسرائیلی ریزرو فوجیوں کو طلب کیا جاتا مصر اور شام نے چھ اکتوبر کو دو طرفہ حملہ کر دیا اور پھر شاہ حسین کو باضابطہ مطلع کیا گیا۔
جب نومبر انیس سو ستتر میں انور سادات پہلے عرب رہنما بن گئے جنھوں نے کھلم کھلا اسرائیل کا دورہ کیا اور اسرائیلی پارلیمنٹ سے خطاب کیا تو پوری مسلمان دنیا سوگ میں تھی۔مصر کا سیاسی و سماجی بائیکاٹ ہو گیا اور اسے عرب لیگ اور اسلامی کانفرنس کی تنظیم سے نکال دیا گیا۔
لیکن جب انیس سو چورانوے میں دوسرے عرب ملک اردن نے اسرائیل کو باضابطہ تسلیم کیا تب تک اسرائیل کو کسی مسلمان بالخصوص عرب ملک کی جانب سے تسلیم کرنا نہ کرنا کوئی اچنبھے کی یا چیخنے چلانے والی خبر نہیں رہی۔
اس سے دو برس پہلے انیس سو بانوے میں خود پی ایل او اوسلو سمجھوتے کے تحت اپنوں کی بے اعتنائی اور امریکی دباؤ کی تاب نہ لا کر اسرائیل کو تسلیم کر چکی تھی۔ مگر پی ایل او کا یہ قدم اختیار سے زیادہ اس کی بے بسی کا غماز تھا۔لہذا اس کے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور کسی مقتدر مسلمان عرب ریاست کی جانب سے تسلیم کرنے کی نوعیت میں فرق کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے۔
صرف اردن ہی کیا۔خود مراکش کے پچاس کی دہائی سے اسرائیل سے غیر اعلانیہ تعلقات ہیں۔شمالی افریقہ میں مراکشی یہودی برادری عددی اعتبار سے سب سے بڑی تھی اور اب بھی ہے۔حالانکہ اکثریت پچھلے ستر برس میں اسرائیل منتقل ہو چکی ہے۔اسرائیل نے مراکش کی انٹیلی جینس ایجنسی کو تربیت دی۔دو اسرائیلی وزرائے اعظم مختلف مواقعے پر رباط جا چکے ہیں۔
تیونس اور اسرائیل کے غیر رسمی تعلقات حبیب بورقیبہ کے دور سے ہی قائم ہیں۔اسرائیل زرعی ٹیکنالوجی سے تیونس نے بھی خاصا استفادہ کیا۔
جب انیس سو بیاسی میں شدید اسرائیلی فوجی دباؤ کے سبب یاسر عرفات کی قیادت میں پی ایل او کو بیروت چھوڑنا پڑا تو فلسطینی قیادت کو تیونس نے ہی سرچھپانے کی جگہ دی۔مگر پھر اسی تیونس کے صدر زین العابدین بن علی نے انیس سو چھیانوے میں اسرائیل کو رابط دفتر کھولنے کی اجازت دی اور اپنا بھی ایک دفتر تل ابیب میں کھولا۔
عرب لیگ اور اسلامی کانفرنس کے ایک اور اہم افریقی عرب رکن سوڈان کے بھی اسرائیل سے تعلقات بگڑتے بنتے رہے۔انیس سو ستاون میں سوڈانی وزیرِ اعظم عبداللہ خلیل کی اسرائیلی رکن ِ پارلیمان گولڈا میر سے پیرس میں ملاقات ہوئی۔
مگر بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی۔اگرچہ انیس سو انہتر میں تختہ الٹنے والے جنرل جعفر النمیری کے دورِ صدارت میں اسرائیل سے روایتی فاصلہ برقرار رہا۔البتہ جب انیس سو چوراسی پچاسی میں اسرائیل نے ایتھوپیا کے آٹھ ہزار فلاشا یہودیوں کو فضائی راستے سے براستہ سوڈان اسرائیل منتقل کرنے کا آپریشن شروع کیا تو نمیری حکومت انجان بن کے دوسری جانب دیکھتی رہی۔
اس برس پھر کسی حیرت انگیز خبر کے لیے قیاس آرائی شروع ہو گئی جب فروری میں سوڈان کی عبوری حکمران کونسل کے سربراہ جنرل عبدالفتح برہان نے یوگنڈا میں اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو سے کیمروں کے سامنے ملاقات کی۔اس ملاقات کے بعد نیتن یاہو نے دو طرفہ تعلقات میں اہم پیش رفت کی امید ظاہر کی۔مگر فوراً ہی سوڈانی وزارتِ خارجہ کی جانب سے تردید آ گئی۔
سوڈان دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے والے ممالک کی امریکی فہرست میں شامل ہے۔لہذا اسے بین الاقوامی بالخصوص امریکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور عالمی مالیاتی اداروں سے مدد کے حصول میں سیاسی دشواریوں کا سامنا ہے۔
سوڈانی فوجی قیادت کا خیال ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بدلے میں امریکی پابندیاں ختم ہو سکتی ہیں۔البتہ حکومت میں شامل سویلین رہنما فلسطینیوں سے سمجھوتے پر تسلی بخش عمل درآمد سے قبل اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مخالف ہیں۔حال ہی میں امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے بھی سوڈان کو رجھانے کے لیے خرطوم کا دورہ کیا مگر کچھ زیادہ پیش رفت نہ ہو سکی۔
اس وقت عربوں اور شمالی افریقی ممالک سے دوطرفہ اسرائیلی تجارت کا حجم بظاہر بہت کم یعنی سات ارب ڈالر سالانہ کے لگ بھگ ہے۔مگر اگلے برس یہ حجم اگر تگنا نہیں تو دوگنا ہونے کی امید ضرور ہے۔
اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ کی پوری کوشش ہے کہ وہ نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے جتنی ٹرافیاں جمع کر سکتے ہیں کر لیں۔جب کہ کئی ممالک اور ان کے حکمران ٹرمپ کے احسانات کا بدلہ چکانے کے لیے بھی بے چین ہے۔لہذا اگلے چند ہفتے میں ایک آدھ مزید مسلمان ملک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کیا جا سکتا ہے۔البتہ قطار میں لگے زیادہ تر ممالک شائد امریکی صدارتی نتائج کا انتظار کریں۔
مگر بالخصوص خلیجی ممالک اسرائیلی قربت کے لیے اتنے اتاؤلے کیوں ہو رہے ہیں۔اس بابت اگلے کالم میں کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کریں گے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)