ترکی یونان کشیدگی
یہ ترکی کے لیے بہت احتیاط سے ہر قدم اُٹھانے کا وقت ہے۔
قارئین کرام ! چند سال پہلے ایک جیولاجیکل سروے رپورٹ میںاس بات کا انکشاف کیا گیا کہ مشرقی بحیرۂ روم میں قدرتی گیس و تیل کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔اس سروے رپورٹ کے سامنے آتے ہی یونان، مصر، اسرائیل ، اردن اور محمود عباس کی فلسطینی اتھارٹی نے فوری طور پر ایک گروپ تشکیل دے کر اس علاقے سے گیس نکالنی شروع کر دی۔
اس وقت مشرقی بحیرۂ روم سے نکلنے والی گیس مصر اور اسرائیل کو سستے ترین نرخوں پر سپلائی کی جا رہی ہے جس سے یونان اور یونانی قبرص خطیر زرِ مبادلہ کما رہے ہیں۔حال ہی میں فرانس اور متحدہ عرب امارات نے بھی اس گروپ میں شمولیت کے لیے دلچسپی ظاہر کی ہے۔یاد رہے کہ مشرقی بحیرۂ روم کا وہ علاقہ جہاں گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے ہیں وہ ترکی کے ساحل سے جڑا ہوا ہے۔
اس پسِ منظر میں 10اگست 2020 سے اس سمندری علاقے میں ترکی اور یونان کے درمیان شدید کشیدگی پائی جاتی ہے۔ترکی کے ساحل سے ملحق ایک جزیرہ کاسٹیلو ریزو اس کشیدگی کا مرکز ہے۔یہ جزیرہ ترکی کے ساحل سے صرف دو کلومیٹر جب کہ یونان کے قریب ترین ساحل سے کوئی 500کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
صدیوں تک یہ جزیرہ مملکتِ ترکیہ کا حصہ رہا لیکن عثمانی سلطنت کے روبہ زوال آنے کے بعد یہ کئی ممالک کے قبضے میں سے ہوتا ہوا آخر کار پہلی عالمی جنگ کے خاتمے پر جب سلطنتِ عثمانیہ کے حصے بخرے کیے گئے تو یہ جزیرہ یونانی عملداری میں دے دیا گیا حالانکہ ترکی کے ساحل سے صرف دو کلو میٹر کی دوری پر ہونے کی وجہ سے اس پر سب سے زیادہ حق ترکی کا بنتا تھا۔
تیل اور گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہو جانے کے بعد اس علاقے اور خاص کر اس جزیرے کی اہمیت دوچند ہو گئی ہے۔ترک ذہنوں میں شدید کشمکش بپا ہے کہ ترکی کے exclusiveسمندری زون میں ہوتے ہوئے اس جزیرے پر عملداری یونان کی ہے۔
10اگست 2020ء وہ دن ہے جب ترکی نے سمندر میں تیل تلاش کرنے والا ایک بڑا بحری جہاز '' اورک رِیس'' اس علاقے میں لنگر انداز کر دیا اور ترک بحری افواج کے چند جنگی جہازوں پر مشتمل ایک بیڑے نے اس کی رکھوالی کے لیے اس کے ارد گرد حصار قائم کر لیا۔چونکہ یہ جزیرہ یونان کی عملداری میں ہے اس لیے یونان اور یونانی قبرص نے ترکی کے اس اقدام پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج کیا۔
ترکی اور یونان کی چپقلش ہزاروں سال پرانی ہے۔ دنیائے ادب سے دلچسپی رکھنے والے یا وہ جنھوں نے مغربی ادب کی پہلی رزمیہ نظم ہومر کی ''ایلیڈ ''پڑھی ہے یا جنھوں نے ہالی ووڈ کی مشہورِ زمانہ فلم" ہیلن آف ٹرائے "دیکھی ہے وہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ٹرائےTroy )موجودہ ترکی کے علاقے (کے شہزادے پیرس)پیرس شہر اسی کے نام پر ہے(کو یونان کا سفر کرنا پڑا۔ پیرس دنیا کا خوبصورت ترین انسان تھا۔
یونان میں بادشاہ Agamemnonکے بھائی Meneleusکی بیوی Helenہیلن اس پر فریفتہ ہو گئی اور پیرس کی روانگی کے وقت جدائی برداشت نہ کر سکنے کی وجہ سے بھاگ کر ٹرائے آ گئی۔Agamemnonکو شدید دکھ ہوا اس نے ایک بڑی فوج اکٹھی کی اور ٹرائے کے ساحل پر لنگر انداز ہو کر محاصرہ کر لیا جو 9سال تک جاری رہا۔پیرس کا بھائی شہزادہ ہیکٹرHectorایک بہادر، دلیر اور بلا کا پھرتیلا تیغ زن تھا۔
ہیکٹر نے یونانی افواج کو قلعے کے قریب نہ آنے دیا۔یونانی افواج میں Achillies ایک ایسا فرد تھا جس کی ایڑی کے علاوہ سارا جسم غیر فانی تھا کیونکہ اس کی دیوی ماں نے پیدا ہوتے ہی اسے ایڑی سے پکڑ کر آبِ حیات میں غسل دے دیا تھا ایڑی جہاں سے ایکیلیز کو پکڑ کر آبِ حیات میں غوطہ دیا گیا تھا وہ جگہ خشک رہ جانے کی وجہ سے فانی اور کمزور رہ گئی اسی نسبت سے کسی کی بھی جان لیوا کمزوری کو ایکیلیز ہِیل Achillies Healکہتے ہیں۔
Achilliesکو ہیکٹر کے ہاتھوں اپنے دوست کی موت پر شدید غصہ آیا اور اس نے حملہ کردیا۔ہیکٹر کا ہر وار خطا جاتا تھا کیونکہ ایکیلیز غیر فانی تھا۔ایکیلیز کا ایک وار کارگر ہوا اور ہیکٹر کھیت ہو گیا۔ہیکٹر کی موت ٹرائے کی شکست بن گئی۔
اس طرح دنیائے ادب بتاتی ہے کہ ترکی اور یونان ہزاروں سالوں سے نبرد آزما رہے ہیں۔پچھلے دو سو سال میں ترکی اور یونان چھ مرتبہ آمنے سامنے آ چکے ہیں حالیہ سالوں میںایک مرتبہ 1987اوردوسری مرتبہ1996 میںجھڑپیں ہو چکی ہیںالبتہ اب ترکی دوبارہ قوت پکڑ چکا ہے اور ایک سو سال پرانا ذلت آمیز معاہدہ بھی ختم ہونے کو ہے جس کے تحت ترکی کے علاقے دوسروں کو سونپ دیے گئے تھے۔
10ستمبر کو فرانس کے جزیرے کارسیکا میں بحیرۂ روم کے سات ممالک کا ایک اجلاس ہوا جس میں فرانسیسی صدر میکرون نے ترکی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ترکی کو بحیرۂ روم میں ایک پارٹنر کے طور پر نہیں لیا جا سکتا، انھوں نے ای یو ممالک پر زور دیا کہ وہ ترکی کے خلاف موئثر پابندیاں لگائیں اور اسے سبق سکھائیں۔میکرون نے یونانی وزیراعظم کو فوجی اور سیاسی امداد کی پیش کش کی۔ای یو کونسل کا ایک اجلاس 23ستمبر کو ہو رہا ہے ۔
اجلاس کے ایجنڈے میں ترکی یونان چپقلش پر غورشامل ہے۔جرمنی صلح صفائی کرانے میں پیش پیش ہے۔ یونان نے فرانس کی فوجی امداد کی آفر کو قبول کرتے ہوئے 18رافیل لڑاکا طیارے،4فریگیٹ بحری جہاز،نیوی کے لیے 4ہیلی کاپٹر فوری طور پر خریدنے کا فیصلہ کیا ہے تا کہ ترکی کی بہتر فوج کے دباؤ کو کم کیا جا سکے۔یونان نے 15000فوجیوں کو بھرتی کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔
اسی طرح فوجی صنعت و حرفت کو بڑھاوا دینے اور سائبر حملوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے ایک بڑا پروگرام شروع کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے۔اس کے ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ اینٹی ٹینک ہتھیاروں،نیوی کے لیے تارپیڈو اور ایئرفورس کے لیے میزائل خریدے جائیں گے۔ترکی اور یونان دونوں ہی نیٹو ممالک کے رکن ہیں۔امریکی وزیرِ خارجہ پومپیو نے بتایا کہ صدر ٹرمپ نے پہلے ہی ترکی کے صدرجناب طیب اردگان اور یونانی وزیراعظم سے ٹیلیفون پر بات کی ہے اور دونوں پر زور دیا ہے کہ کشیدگی بڑھانے سے گریز کیا جائے۔
امریکی وزیرِ خارجہ نے یہ بھی کہا ہے کہ دونوں کے درمیان کشیدگی سے نیٹومخالف قوتوں کو حوصلہ ملے گا۔12ستمبر ہفتے کے دن ترکی کے صدر نے یونان کو وارننگ دیتے ہوئے خبردار کیا کہ مسئلے کو حل کرنے کے لیے مذاکرات کریں ورنہ دوسری صورت میں نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ترکی کے صدر نے فرانس کے صدر جناب میکرون کے بیان کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔یونان کے وزیرِ اعظم نے اس سے پہلے کہا تھا کہ یونان مذاکرات کرنا چاہتا ہے لیکن کن پٹی پر بندوق رکھ کر مذاکرات نہیں ہو سکتے۔
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ترکی کے ساحل سے جڑے ہوئے مشرقی بحیرۂ روم میں یونان اور یونانی قبرص کو سمندر کے بڑے حصے پر حقوق ملے ہوئے ہیں جب کہ ترکی کو اپنے سمندری علاقے میں حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔
قومیں جب غریب اور کمزور ہو جاتی ہیں تو ان کے کوئی حقوق نہیں ہوتے۔آخری اطلاعات کے مطابق ترکی نے تیل اور گیس تلاش کرنے والے اپنے جہاز اورک رَیس کو وقتی طور پر وہاں سے ہٹا لیا ہے۔ یہ ایک بہت ہی خوش آیند اقدام ہے۔ترکی کی قانونی پوزیشن بہت مضبوط ہے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ اس معاملے میں یونان پر دباؤ تو رکھا جائے البتہ جنگ سے جتنا ہو سکے گریز کیا جائے۔جنگیں ملکوں کو کمزور کر دیتی ہیں۔ترکی اس وقت ایک بڑی قوت بننے کی راہ پر گامزن ہے۔
یہ ترکی کے لیے بہت احتیاط سے ہر قدم اُٹھانے کا وقت ہے۔اگر ترکی اپنی قوت کو مجتمع رکھ کر،لڑائی سے بچتے ہوئے معاشی اور فوجی انقلاب کی طرف مارچ کرتا رہے تو وہ دن دور نہیں جب اس کے جائز حقوق بغیر لڑے اس کی جھولی میں ڈال دیے جائیں گے۔ترکی کو ہر صورت میں اپنے خلاف یورپ کو متحد نہیں ہونے دینا چاہیے۔
اس وقت مشرقی بحیرۂ روم سے نکلنے والی گیس مصر اور اسرائیل کو سستے ترین نرخوں پر سپلائی کی جا رہی ہے جس سے یونان اور یونانی قبرص خطیر زرِ مبادلہ کما رہے ہیں۔حال ہی میں فرانس اور متحدہ عرب امارات نے بھی اس گروپ میں شمولیت کے لیے دلچسپی ظاہر کی ہے۔یاد رہے کہ مشرقی بحیرۂ روم کا وہ علاقہ جہاں گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے ہیں وہ ترکی کے ساحل سے جڑا ہوا ہے۔
اس پسِ منظر میں 10اگست 2020 سے اس سمندری علاقے میں ترکی اور یونان کے درمیان شدید کشیدگی پائی جاتی ہے۔ترکی کے ساحل سے ملحق ایک جزیرہ کاسٹیلو ریزو اس کشیدگی کا مرکز ہے۔یہ جزیرہ ترکی کے ساحل سے صرف دو کلومیٹر جب کہ یونان کے قریب ترین ساحل سے کوئی 500کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
صدیوں تک یہ جزیرہ مملکتِ ترکیہ کا حصہ رہا لیکن عثمانی سلطنت کے روبہ زوال آنے کے بعد یہ کئی ممالک کے قبضے میں سے ہوتا ہوا آخر کار پہلی عالمی جنگ کے خاتمے پر جب سلطنتِ عثمانیہ کے حصے بخرے کیے گئے تو یہ جزیرہ یونانی عملداری میں دے دیا گیا حالانکہ ترکی کے ساحل سے صرف دو کلو میٹر کی دوری پر ہونے کی وجہ سے اس پر سب سے زیادہ حق ترکی کا بنتا تھا۔
تیل اور گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہو جانے کے بعد اس علاقے اور خاص کر اس جزیرے کی اہمیت دوچند ہو گئی ہے۔ترک ذہنوں میں شدید کشمکش بپا ہے کہ ترکی کے exclusiveسمندری زون میں ہوتے ہوئے اس جزیرے پر عملداری یونان کی ہے۔
10اگست 2020ء وہ دن ہے جب ترکی نے سمندر میں تیل تلاش کرنے والا ایک بڑا بحری جہاز '' اورک رِیس'' اس علاقے میں لنگر انداز کر دیا اور ترک بحری افواج کے چند جنگی جہازوں پر مشتمل ایک بیڑے نے اس کی رکھوالی کے لیے اس کے ارد گرد حصار قائم کر لیا۔چونکہ یہ جزیرہ یونان کی عملداری میں ہے اس لیے یونان اور یونانی قبرص نے ترکی کے اس اقدام پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج کیا۔
ترکی اور یونان کی چپقلش ہزاروں سال پرانی ہے۔ دنیائے ادب سے دلچسپی رکھنے والے یا وہ جنھوں نے مغربی ادب کی پہلی رزمیہ نظم ہومر کی ''ایلیڈ ''پڑھی ہے یا جنھوں نے ہالی ووڈ کی مشہورِ زمانہ فلم" ہیلن آف ٹرائے "دیکھی ہے وہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ٹرائےTroy )موجودہ ترکی کے علاقے (کے شہزادے پیرس)پیرس شہر اسی کے نام پر ہے(کو یونان کا سفر کرنا پڑا۔ پیرس دنیا کا خوبصورت ترین انسان تھا۔
یونان میں بادشاہ Agamemnonکے بھائی Meneleusکی بیوی Helenہیلن اس پر فریفتہ ہو گئی اور پیرس کی روانگی کے وقت جدائی برداشت نہ کر سکنے کی وجہ سے بھاگ کر ٹرائے آ گئی۔Agamemnonکو شدید دکھ ہوا اس نے ایک بڑی فوج اکٹھی کی اور ٹرائے کے ساحل پر لنگر انداز ہو کر محاصرہ کر لیا جو 9سال تک جاری رہا۔پیرس کا بھائی شہزادہ ہیکٹرHectorایک بہادر، دلیر اور بلا کا پھرتیلا تیغ زن تھا۔
ہیکٹر نے یونانی افواج کو قلعے کے قریب نہ آنے دیا۔یونانی افواج میں Achillies ایک ایسا فرد تھا جس کی ایڑی کے علاوہ سارا جسم غیر فانی تھا کیونکہ اس کی دیوی ماں نے پیدا ہوتے ہی اسے ایڑی سے پکڑ کر آبِ حیات میں غسل دے دیا تھا ایڑی جہاں سے ایکیلیز کو پکڑ کر آبِ حیات میں غوطہ دیا گیا تھا وہ جگہ خشک رہ جانے کی وجہ سے فانی اور کمزور رہ گئی اسی نسبت سے کسی کی بھی جان لیوا کمزوری کو ایکیلیز ہِیل Achillies Healکہتے ہیں۔
Achilliesکو ہیکٹر کے ہاتھوں اپنے دوست کی موت پر شدید غصہ آیا اور اس نے حملہ کردیا۔ہیکٹر کا ہر وار خطا جاتا تھا کیونکہ ایکیلیز غیر فانی تھا۔ایکیلیز کا ایک وار کارگر ہوا اور ہیکٹر کھیت ہو گیا۔ہیکٹر کی موت ٹرائے کی شکست بن گئی۔
اس طرح دنیائے ادب بتاتی ہے کہ ترکی اور یونان ہزاروں سالوں سے نبرد آزما رہے ہیں۔پچھلے دو سو سال میں ترکی اور یونان چھ مرتبہ آمنے سامنے آ چکے ہیں حالیہ سالوں میںایک مرتبہ 1987اوردوسری مرتبہ1996 میںجھڑپیں ہو چکی ہیںالبتہ اب ترکی دوبارہ قوت پکڑ چکا ہے اور ایک سو سال پرانا ذلت آمیز معاہدہ بھی ختم ہونے کو ہے جس کے تحت ترکی کے علاقے دوسروں کو سونپ دیے گئے تھے۔
10ستمبر کو فرانس کے جزیرے کارسیکا میں بحیرۂ روم کے سات ممالک کا ایک اجلاس ہوا جس میں فرانسیسی صدر میکرون نے ترکی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ترکی کو بحیرۂ روم میں ایک پارٹنر کے طور پر نہیں لیا جا سکتا، انھوں نے ای یو ممالک پر زور دیا کہ وہ ترکی کے خلاف موئثر پابندیاں لگائیں اور اسے سبق سکھائیں۔میکرون نے یونانی وزیراعظم کو فوجی اور سیاسی امداد کی پیش کش کی۔ای یو کونسل کا ایک اجلاس 23ستمبر کو ہو رہا ہے ۔
اجلاس کے ایجنڈے میں ترکی یونان چپقلش پر غورشامل ہے۔جرمنی صلح صفائی کرانے میں پیش پیش ہے۔ یونان نے فرانس کی فوجی امداد کی آفر کو قبول کرتے ہوئے 18رافیل لڑاکا طیارے،4فریگیٹ بحری جہاز،نیوی کے لیے 4ہیلی کاپٹر فوری طور پر خریدنے کا فیصلہ کیا ہے تا کہ ترکی کی بہتر فوج کے دباؤ کو کم کیا جا سکے۔یونان نے 15000فوجیوں کو بھرتی کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔
اسی طرح فوجی صنعت و حرفت کو بڑھاوا دینے اور سائبر حملوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے ایک بڑا پروگرام شروع کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے۔اس کے ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ اینٹی ٹینک ہتھیاروں،نیوی کے لیے تارپیڈو اور ایئرفورس کے لیے میزائل خریدے جائیں گے۔ترکی اور یونان دونوں ہی نیٹو ممالک کے رکن ہیں۔امریکی وزیرِ خارجہ پومپیو نے بتایا کہ صدر ٹرمپ نے پہلے ہی ترکی کے صدرجناب طیب اردگان اور یونانی وزیراعظم سے ٹیلیفون پر بات کی ہے اور دونوں پر زور دیا ہے کہ کشیدگی بڑھانے سے گریز کیا جائے۔
امریکی وزیرِ خارجہ نے یہ بھی کہا ہے کہ دونوں کے درمیان کشیدگی سے نیٹومخالف قوتوں کو حوصلہ ملے گا۔12ستمبر ہفتے کے دن ترکی کے صدر نے یونان کو وارننگ دیتے ہوئے خبردار کیا کہ مسئلے کو حل کرنے کے لیے مذاکرات کریں ورنہ دوسری صورت میں نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ترکی کے صدر نے فرانس کے صدر جناب میکرون کے بیان کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔یونان کے وزیرِ اعظم نے اس سے پہلے کہا تھا کہ یونان مذاکرات کرنا چاہتا ہے لیکن کن پٹی پر بندوق رکھ کر مذاکرات نہیں ہو سکتے۔
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ترکی کے ساحل سے جڑے ہوئے مشرقی بحیرۂ روم میں یونان اور یونانی قبرص کو سمندر کے بڑے حصے پر حقوق ملے ہوئے ہیں جب کہ ترکی کو اپنے سمندری علاقے میں حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔
قومیں جب غریب اور کمزور ہو جاتی ہیں تو ان کے کوئی حقوق نہیں ہوتے۔آخری اطلاعات کے مطابق ترکی نے تیل اور گیس تلاش کرنے والے اپنے جہاز اورک رَیس کو وقتی طور پر وہاں سے ہٹا لیا ہے۔ یہ ایک بہت ہی خوش آیند اقدام ہے۔ترکی کی قانونی پوزیشن بہت مضبوط ہے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ اس معاملے میں یونان پر دباؤ تو رکھا جائے البتہ جنگ سے جتنا ہو سکے گریز کیا جائے۔جنگیں ملکوں کو کمزور کر دیتی ہیں۔ترکی اس وقت ایک بڑی قوت بننے کی راہ پر گامزن ہے۔
یہ ترکی کے لیے بہت احتیاط سے ہر قدم اُٹھانے کا وقت ہے۔اگر ترکی اپنی قوت کو مجتمع رکھ کر،لڑائی سے بچتے ہوئے معاشی اور فوجی انقلاب کی طرف مارچ کرتا رہے تو وہ دن دور نہیں جب اس کے جائز حقوق بغیر لڑے اس کی جھولی میں ڈال دیے جائیں گے۔ترکی کو ہر صورت میں اپنے خلاف یورپ کو متحد نہیں ہونے دینا چاہیے۔