بلدیاتی میدان میں اترنے کی تیاریاں عروج پر

پی پی پی اور ایم کیو ایم کے مخالفین کا اتحاد

پی پی پی اور ایم کیو ایم کے مخالفین کا اتحاد۔ فوٹو : فائل

بلدیاتی انتخابات میں ایک مرتبہ پھر مقامی سطح پر پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے سامنے مشترکہ امیدوار لانے کی تیاری کی جارہی ہے، گو کہ گذشتہ عام انتخابات میں دس جماعتی اتحاد کی صورت میں یہ تجربہ ناکام ہو چکا ہے، کیوں کہ اتحاد میں پھوٹ پڑ گئی تھی، لیکن اب پھر مختلف سیاسی، مذہبی جماعتوں اور تنظیموں کی طرف سے مشترکہ امیدوار سامنے لائے جانے کی سنجیدہ کوششیں کی جارہی ہیں۔

اُس وقت دس جماعتی اتحاد میں سیٹوں کی تقیسم کے معاملے پر اختلافات کے بعد ان جماعتوں کے امیدوار کئی حلقوں میں ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے رہے جس کا فائدہ دیگر جماعتوں کو ہوا اور ان کے امیدواروں کو جیتنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ انتخابات میں حیدرآباد ضلع میں سٹی اور لطیف آباد سے حسب سابق اور توقع کے عین مطابق قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی اسمبلی کی چاروں نشستیں متحدہ قومی موومنٹ کے حصے میں آئیں، جب کہ قاسم آباد اور تعلقہ ایٹ ٹنڈو جام سے قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی دو نشستوں پر پیپلز پارٹی کے امیدوار نے کام یابی حاصل کی تھی۔ اس مرتبہ امید ہے کہ اتحاد میں شامل جماعتوں کے راہ نما ماضی سے سبق حاصل کرنے کے بعد سوچ سمجھ کر قدم بڑھائیں گے اور غلطیاں نہیں دہرائیں گے۔

حیدرآباد ضلع میں سرکاری افسران کے زیر نگرانی بلدیاتی حلقہ بندیوں کے بعد اب حیدرآباد میں سٹی اور لطیف آباد پر مشتمل میونسپل کارپوریشن، تعلقہ قاسم آباد پر مشتمل میونسپل کمیٹی، ٹنڈو جام اور ہوسٹری میں ٹاؤن کمیٹیاں اور ضلع کونسلیں بھی ہوں گی۔ یوں اعداد و شمار کے مطابق میونسپل کارپوریشن کی 94 یونین کمیٹیاں، چار یونین کونسلوں پر مشتمل قاسم آباد میں پہلے 29 اور بعد ازاں خاموشی سے دو وارڈز کا اضافہ کر کے 31 وارڈز، تعلقہ دیہی میں شامل ٹنڈو جام یونین کونسل کو میونسپل کمیٹی ٹنڈو جام کا درجہ دے دیا گیا ہے اور اس میں 9 وارڈ بنائے گئے ہیں۔ اسی طرح تعلقہ دیہی میں شامل یو سی ہوسڑی کو ٹاؤن کمیٹی کا درجہ دیا گیا ہے، جس میں پانچ وارڈ بنائے گئے۔ چوتھے تعلقہ دیہی ایٹ ٹنڈو جام کو ضلع کونسل کا درجہ دے کر وہاں 11 یونین کونسلوں کی تعداد کو بڑھا کر 21 کر دیا گیا ہے۔ اس طرح حیدرآباد ضلع میں چار طرح کے بلدیاتی ادارے حیدرآباد میونسپل کارپوریشن، قاسم آباد و ٹنڈو جام میونسپل کمیٹیاں، ہوسٹری ٹاؤن کمیٹی اور ضلع کونسل میں کل 160 یونین کمیٹیوں، وارڈز اور یونین کونسلوں پر 1490 اراکین کے لیے حیدرآباد الائنس اپنے امیدوار نام زد کرے گا۔

اس اتحاد کی صورت میں جماعت اسلامی نے پہل کرتے ہوئے اپنے دفتر میں مذہبی اور سیاسی جماعتوں کا اجلاس پچھلے دنوں منعقد کیا۔ اس میں جے یو آئی، جے یو پی اور مسلم لیگ ن کے ضلعی راہ نما شریک ہوئے۔ اجلاس میں یہ طے کیا گیا کہ حیدرآباد میں ایم کیو ایم کے سامنے سیٹ ٹو سیٹ، ون ٹو ون فارمولے کے تحت الیکشن لڑا جائے گا۔ پھر یہ ہوا کہ فنکشنل لیگ کے نواب راشد علی خان اچانک حیدرآباد کی سیاست میں فعال ہو گئے۔ وہ حیدرآباد سے ایم پی اے اور ضلعی نائب ناظم بھی رہ چکے ہیں۔

وہ فنکشنل لیگ میں تھوڑے عرصے سے غیرفعال تھے، لیکن ان کے فعال ہونے کے بعد اب انہی کی طرح فنکشنل لیگ کے 'نان فنکشنل' راہ نما ڈاکٹر نجیب لودھی کی رہائش گاہ پر اجلاس میں سرپرستِ اعلیٰ کے لیے جے یو پی کے مرکزی صدر صاحب زادہ ابوالخیر محمد زبیر کو منتخب کیا گیا۔ ایک دوسری میٹنگ نواب راشد کی رہائش گاہ پر ہو چکی ہے اور جماعت اسلامی کے دفتر میں بھی سب جماعتوں کے نمایندوں نے بلدیاتی الیکشن میں حیدرآباد الائنس میں مشاورت سے سیٹوں کی تقیسم پر حامی بھری ہے، جب کہ الائنس میں شامل جماعتوں نے قاسم آباد کو ضلع بنانے اور اسے شہر اور لطیف آباد سے الگ میونسپل حیثیت دینے کی مذمت کی ہے۔ بلدیاتی شیڈول کے اعلان کے ساتھ ہی اتحاد میں شامل جماعتوں کا ایک اور اجلاس متوقع ہے، جس میں امیدواروں کے ناموں کو حتمی شکل دینے کے لیے کمیٹی تشکیل دی جا سکتی ہے۔

دوسری جانب پی پی پی نے قاسم آباد میں عوامی رابطہ مہم شروع کر رکھی ہے، جس میں سندھ پیپلز یوتھ کے ڈویژنل صدر احسان ابڑو فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ ادھر صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن نے ٹنڈو جام سے پیپلز پارٹی کے مخالفین کی پارٹی میں شمولیت کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ باخبر ذرایع کا کہنا ہے کہ مئی میں ان کے خلاف الیکشن لڑنے والے پارٹی کے ہی لیڈر خاوند بخش جیہجو سے بھی معاملات طے ہو چکے ہیں، جلد ہی اس کا اعلان متوقع ہے یا پھر بلدیاتی انتخابات میں اس کا عملی مظاہرہ کیا جائے گا۔ شرجیل انعام میمن ٹنڈو جام کو پیپلز پارٹی کے مضبوط قلعے میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ یوں اب ضلع کونسل حیدرآباد، ٹنڈو جام میونسپل کمیٹی، قاسم آباد میونسپل کمیٹی اور ہوسٹری ٹاؤن میں پیپلز پارٹی غالب اکثریت حاصل کرنے کی پوزیشن میں آ گئی ہے۔


ادھر ایم کیو ایم کے سیکٹرز کی سطح پر کارکنان کے اجلاس جاری ہیں۔ ان کے علاوہ اراکین اسمبلی بھی عوامی رابطہ مہم میں مصروف ہیں اور حیرت انگیز طور پر حیدرآباد خصوصاً شہر میں صفائی ستھرائی کی خراب صورت حال پر حکومت اور بلدیاتی انتظامیہ سے نالاں نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں یہ اراکین اپنے غم و غصے کا اظہار عوامی حلقوں کے ساتھ ساتھ پریس ریلیز کے ذریعے بھی کررہے ہیں۔ ان کی ناراضی اس لحاظ سے حیران کُن ہے کہ کالعدم سٹی میں صفائی ستھرائی کے کاموں کی تمام تر ذمہ داری، بلدیہ اعلی حیدرآباد کے کالعدم سٹی کے ہیلتھ افسر کی ہوتی ہے اور موجودہ ہیلتھ افسر ایم کیو ایم حیدرآباد زون کے نئے سیٹ اپ کا حصہ ہیں۔ اس لیے صفائی ستھرائی کے معاملے پر غم و غصے کا اظہار وہ اپنے زونل ممبر سے ہی کرلیں تو شاید یہ زیادہ بہتر ہو گا۔

گذشتہ ہفتے مذہبی راہ نماؤں کے قتل کے خلاف حیدرآباد میں بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ کراچی میں مجلس وحدت المسلمین کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ دیدار اور ان کے محافظ کے قتل کے خلاف مجلس وحدت المسلمین کی اپیل پر حیدرآباد سمیت زیریں سندھ میں احتجاجی مظاہرے اور دھرنے دیے گئے، جب کہ چند شہروں میں ہڑتال کی گئی۔ حیدرآباد میں وادھو واہ بائی پاس پر دھرنا دیا گیا، جس میں مولانا امداد نسیمی، عالم کربلائی، ڈاکٹر شبیع حیدر و دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کراچی سے خیبر تک بدامنی، بے چینی، انتشار اور عوام میں عدم تحفظ کا احساس، حکومتی اداروں کی نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

آج کوئی بھی دہشت گردوں سے محفوظ نہیں ہے، کراچی میں ٹارگیٹ کلرز آپریشن کے باوجود بے گناہوں کا خون بہا رہے ہیں، قاتل دندناتے پھر رہے ہیں، لیکن حکومت کوئی کارروائی کرنے کو تیار نہیں۔ انہوں نے مولانا دیدارجلبانی اور ان کے محافظ کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے قاتلوں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا اور تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں سے اپیل کی کہ وہ ملک کی سلامتی کے لیے دہشت گردوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جائیں۔ دوسری جانب لاہور میں اہل سنت والجماعت کے صوبائی راہ نما مولانا شمس الرحمٰن معاویہ کے قتل، سانحہ راول پنڈی اور کراچی میں اہل سنت و الجماعت کے راہ نماؤں اور کارکنان کی ٹارگیٹ کلنگ کے خلاف بھی حیدرآباد میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔

اہل سنت والجماعت، سنی ایکشن کمیٹی حیدرآباد کی جانب سے پریس کلب کے سامنے کیے گئے احتجاجی مظاہرے میں راہ نماؤں سمیت کارکنان بڑی تعداد میں شریک تھے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ مٹھی بھر دہشت گرد ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ملک میں نہ صرف فرقہ وارانہ فسادات کرانے بلکہ فرقہ واریت کو بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ علمائے اہل سنت سمیت سنی ایکشن کمیٹی کے راہ نماؤں کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنایا جارہا ہے، لیکن اس پر حکومت خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پنجاب علمائے کرام کے تحفظ میں مکمل ناکام ہوچکی ہے۔ اس سے قبل بھی دہشت گرد پنجاب میں کئی راہ نماؤں کو نشانہ بنا چکے ہیں، لیکن حکومت تاحال کسی بھی دہشت گرد کو گرفتار نہیں کرسکی ہے، جس سے کارکنان میں شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے۔ اس موقع پر راہ نماؤں نے مطالبہ کیا کہ ملزمان کو فی الفور گرفتار کیا جائے، ورنہ احتجاج کا دائرہ وسیع کر دیا جائے گا۔ سندھ بھر میں اس سلسلے میں جمعہ کے روز سڑکوں پر احتجاج کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے، جس میں کراچی سے اوباڑو تک قومی شاہراہ اور انڈس ہائی پر کارکنان دھرنے دیں گے۔

قومی عوامی تحریک کے سربراہ رسول بخش پلیجو نے پچھلے دنوں طویل عرصے کے بعد ایک پریس کانفرنس کی، جس میں عبدالقادر رانٹو، انور سومرو، نور احمد کاتیار کے ساتھ میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کالا باغ ڈیم بنوانا چاہتی ہے، جس کے خلاف سندھ کے عوام کو کھڑے ہونا چاہیے تاکہ اس منصوبے کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیں۔ انہوں نے سندھ کے لوگوں کو یہ پیغام بھی دیا کہ پیپلز پارٹی سے نجات حاصل کرنے کا وقت آ گیا ہے، کیوں کہ اسے سندھ کے مفادات سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام بلدیاتی انتخابات میں کالا باغ ڈیم کے حامی وڈیروں کو ووٹ نہ دیں۔ دوسری جانب الیکشن سے پہلے میاں نواز شریف کے حیدرآباد میں میزبان سندھ ترقی پسند پارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر قادر مگسی بھی ان سے مایوس نظر آ رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کی قرضہ اسکیم سے غریب کے بیٹے کو نہیں بیورو کریٹس اور بڑے لوگوں کی اولادوں کو فائدہ ہو گا۔ قرضے کا حصول سرکاری افسر کی ضمانت سے جڑا ہوا ہے، جو کسی غریب کے بیٹے کے لیے ممکن نہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے قاسم آباد میں ترقی پسند ہاؤس پر پارٹی کے سندھ کونسل اجلاس کے بعد کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے ایجنڈے میں سندھ کو شامل ہی نہیں کیا اور نہ ہی ہماری تجاویز پر غور کیا، لیکن ملک کے بنیادی مسائل اور ن لیگ کی حکومت کو درپیش کئی چیلنجز کی وجہ سے نواز شریف کو ایک سال کی مہلت دیتے ہیں تاکہ وہ ان سے نمٹ کر سندھ کے مسائل پر توجہ دیں۔
Load Next Story