ٹوٹ پھوٹ کا شکار فنکشنل لیگ کی مقامی قیادت متحرک
بلدیاتی انتخابات کے لیے جوڑ توڑ میں تیزی
ضلع سانگھڑ سیاسی طور پر پیر پگارا کا قلعہ رہا ہے اور یہاں سے پیر پگارا کے نام زد امیدوار انتخابی بازی جیتتے رہے ہیں۔
2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ فنکشنل دس جماعتی اتحاد کے ساتھ میدان میں اتری اور ضلع سانگھڑ کی 3 قومی اسمبلی کی نشستوں میں سے 2 اور سندھ اسمبلی کی 6 نشستوں میں سے 3 نشستیں جیتنے میں کام یاب رہی۔ بعد ازاں جام نواز علی کی نشست پر دوبارہ انتخابات میں یہ نشست پیپلز پارٹی کے ہاتھوں سے نکل کر مسلم لیگ فنکشنل کے جام مدد علی کے پاس چلی گئی، جب کہ پیر صدرالدین شاہ راشدی کے 235 کی نشست خالی کرنے پر ضمنی انتخابات ہوئے تو اس پر پیپلز پارٹی کی شازیہ عطا مری نے فنکشنل مسلم لیگ کے فدا بخش درس کو شکست دے کر کام یابی حاصل کی۔ اس طرح ضلع میں پیپلز پارٹی کا پلڑا بھاری ہو گیا۔ اب بلدیاتی انتخابات سے قبل ضلع میں سیاسی صورت حال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے سینئر راہ نما فدا حسین ڈیرو، شازیہ مری، چوہدری عاصم بٹ، خادم حسین رند، ایم پی اے شاہد تھہیم، ساجد جعفری حلقے کے بااثر خاندانوں سے مسلسل رابطے میں ہیں اور ضلع میں نئے چہروں کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کا سلسلہ جاری ہے۔
ان میں برسوں سے فنکشنل لیگ سے وابستہ رہنے والے افراد شامل ہیں۔ کھپرو کے سابق ناظم مگھن ہالیپوٹو، شر برادری کے راجہ شر، جٹ برادری کے صغیر احمد جٹ، سنجھورو سٹی کے سابق ناظم محمد انور راجپوت، ایم کیو ایم کے کمال الدین شر، سابق نائب ناظم غلام مرتضیٰ شر، شاہ پورچاکر سے آصف پٹھان، جنید پٹھان، حضور بخش بروہی، مقصود احمد راجپوت، عادل پٹھان شہداد پور سے صنعت کار عبدالستار راجپوت، انور شیخ، ندیم لوہار، سابق ناظم لقمان چانڈیو سمیت فنکشنل مسلم لیگ کے صوبائی راہ نما رانا عبدالستار راجپوت نے بھی پچھلے دنوں پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا۔ جھول میں خان محمد خاصخیلی کی رہایش گاہ پر انہوں نے کہا کہ پیر صاحب پگارا ان کے محسن ہیں، لیکن مقامی قیادت کے جارحانہ رویے نے انہیں پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا ہے۔ پیپلز پارٹی عوام کی خدمت کرنے میں بہتر نظر آئی، اس لیے صوبائی صدر سید قائم علی شاہ سے ملاقات کے بعد پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا ہے۔ اب پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے ضلع سانگھڑ کے بنیادی مسائل حل کریں گے۔
مقامی شہریوں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ آنکھ بند کر کے پیر صاحب پگارا کے حکم پر ووٹ دیے اور اس ضلع سے منتخب ہونے والے وفاق اور صوبوں میں وزراء بنے، جب کہ بلدیاتی نظام میں بھی ناظمین منتخب ہوئے، لیکن یہاں کے لوگوں کی سہولیات کے لیے کام نہیں کیا گیا۔ عوام کے بنیادی مسائل حل نہ ہونے پر فنکشنل لیگ کی مقامی قیادت خاموش ہے۔ فنکشنل لیگ کی مقامی قیادت اس بدلتی ہوئی صورت حال کے بعد متحرک ہے۔ پارٹی کے راہ نما اور رکن سندھ اسمبلی سعید خان نظامانی، جام مدد علی، نند کمار ایڈووکیٹ، خدا بخش درس، حاجی خدا بخش راجڑ، فنکشنل مسلم لیگ کے چیف آرگنائزر کاشف نظامانی اور دیگر نے مختلف علاقوں کے دورے کیے ہیں اور اپنے خطاب میں پارٹی چھوڑنے والوں کو مفاد پرست قرار دیا ہے۔ ان راہ نماؤں کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نے بلدیاتی انتخابات میں کام یابی کے لیے ضلع سانگھڑ کے 6 تعلقوں میں حلقہ بندیاں، یو سی کے بہ جائے آبادی کی بنیاد پر کر کے دھاندلی کا آغاز کر دیا ہے، جس سے عوام کو پریشانیوں کا سامنا ہوگا۔ دوسری طرف بلدیاتی انتخابات کے لیے شہروں میں مختلف اتحاد بن رہے ہیں، جس کے لیے سابق ناظمین اور کونسلروں نے جوڑ توڑ کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ فنکشنل دس جماعتی اتحاد کے ساتھ میدان میں اتری اور ضلع سانگھڑ کی 3 قومی اسمبلی کی نشستوں میں سے 2 اور سندھ اسمبلی کی 6 نشستوں میں سے 3 نشستیں جیتنے میں کام یاب رہی۔ بعد ازاں جام نواز علی کی نشست پر دوبارہ انتخابات میں یہ نشست پیپلز پارٹی کے ہاتھوں سے نکل کر مسلم لیگ فنکشنل کے جام مدد علی کے پاس چلی گئی، جب کہ پیر صدرالدین شاہ راشدی کے 235 کی نشست خالی کرنے پر ضمنی انتخابات ہوئے تو اس پر پیپلز پارٹی کی شازیہ عطا مری نے فنکشنل مسلم لیگ کے فدا بخش درس کو شکست دے کر کام یابی حاصل کی۔ اس طرح ضلع میں پیپلز پارٹی کا پلڑا بھاری ہو گیا۔ اب بلدیاتی انتخابات سے قبل ضلع میں سیاسی صورت حال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے سینئر راہ نما فدا حسین ڈیرو، شازیہ مری، چوہدری عاصم بٹ، خادم حسین رند، ایم پی اے شاہد تھہیم، ساجد جعفری حلقے کے بااثر خاندانوں سے مسلسل رابطے میں ہیں اور ضلع میں نئے چہروں کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کا سلسلہ جاری ہے۔
ان میں برسوں سے فنکشنل لیگ سے وابستہ رہنے والے افراد شامل ہیں۔ کھپرو کے سابق ناظم مگھن ہالیپوٹو، شر برادری کے راجہ شر، جٹ برادری کے صغیر احمد جٹ، سنجھورو سٹی کے سابق ناظم محمد انور راجپوت، ایم کیو ایم کے کمال الدین شر، سابق نائب ناظم غلام مرتضیٰ شر، شاہ پورچاکر سے آصف پٹھان، جنید پٹھان، حضور بخش بروہی، مقصود احمد راجپوت، عادل پٹھان شہداد پور سے صنعت کار عبدالستار راجپوت، انور شیخ، ندیم لوہار، سابق ناظم لقمان چانڈیو سمیت فنکشنل مسلم لیگ کے صوبائی راہ نما رانا عبدالستار راجپوت نے بھی پچھلے دنوں پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا۔ جھول میں خان محمد خاصخیلی کی رہایش گاہ پر انہوں نے کہا کہ پیر صاحب پگارا ان کے محسن ہیں، لیکن مقامی قیادت کے جارحانہ رویے نے انہیں پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا ہے۔ پیپلز پارٹی عوام کی خدمت کرنے میں بہتر نظر آئی، اس لیے صوبائی صدر سید قائم علی شاہ سے ملاقات کے بعد پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا ہے۔ اب پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے ضلع سانگھڑ کے بنیادی مسائل حل کریں گے۔
مقامی شہریوں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ آنکھ بند کر کے پیر صاحب پگارا کے حکم پر ووٹ دیے اور اس ضلع سے منتخب ہونے والے وفاق اور صوبوں میں وزراء بنے، جب کہ بلدیاتی نظام میں بھی ناظمین منتخب ہوئے، لیکن یہاں کے لوگوں کی سہولیات کے لیے کام نہیں کیا گیا۔ عوام کے بنیادی مسائل حل نہ ہونے پر فنکشنل لیگ کی مقامی قیادت خاموش ہے۔ فنکشنل لیگ کی مقامی قیادت اس بدلتی ہوئی صورت حال کے بعد متحرک ہے۔ پارٹی کے راہ نما اور رکن سندھ اسمبلی سعید خان نظامانی، جام مدد علی، نند کمار ایڈووکیٹ، خدا بخش درس، حاجی خدا بخش راجڑ، فنکشنل مسلم لیگ کے چیف آرگنائزر کاشف نظامانی اور دیگر نے مختلف علاقوں کے دورے کیے ہیں اور اپنے خطاب میں پارٹی چھوڑنے والوں کو مفاد پرست قرار دیا ہے۔ ان راہ نماؤں کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نے بلدیاتی انتخابات میں کام یابی کے لیے ضلع سانگھڑ کے 6 تعلقوں میں حلقہ بندیاں، یو سی کے بہ جائے آبادی کی بنیاد پر کر کے دھاندلی کا آغاز کر دیا ہے، جس سے عوام کو پریشانیوں کا سامنا ہوگا۔ دوسری طرف بلدیاتی انتخابات کے لیے شہروں میں مختلف اتحاد بن رہے ہیں، جس کے لیے سابق ناظمین اور کونسلروں نے جوڑ توڑ کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔