نیٹو سپلائی بندش پر مرکز اور صوبے میں سرد جنگ جاری
اب تحریک انصاف عمران خان کی قیادت میں اگلا راؤنڈ مہنگائی کے خلاف لاہور میں کھیلنے جا رہی ہے جس کا بڑا واضح مقصد۔۔۔
خیبرپختونخوا کے راستے نیٹوسپلائی کی بندش کو ایک مہینہ ہونے کو آیا ہے لیکن اب تک نہ تو تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوں کی پالیسی واضح ہے اور نہ ہی مرکز اب تک اپنی پالیسی واضح کرسکا ہے۔
خیبرپختونخوا جہاں تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتیں جماعت اسلامی اور عوامی جمہوری اتحاد برسراقتدار ہیں اب تک یہ فیصلہ نہیں کرسکی ہیں کہ وہ نیٹو سپلائی کو کب تک بند رکھیں گی ،گو کہ یہ کہا گیا ہے کہ جب تک ڈرون حملوں کی بندش کے حوالے سے امریکہ کوئی اعلان نہیں کرتا تب تک نیٹو کو سپلائی بند رکھی جائے گی تاہم اس حوالے سے مرکزی حکومت کے کردار کے بارے میں وہ واضح نہیں ہیں کیونکہ بہر کیف جس طریقہ سے نیٹو سپلائی کی بندش جاری ہے وہ کوئی قانونی طریقہ کار نہیں اور نہ ہی یہ طریقہ کار طویل عرصہ تک چل سکتا ہے۔
اس سلسلے میں لامحالہ طور پر مرکز کو کوئی نہ کوئی اقدام ضرور کرنا ہوگا جس کے حوالے سے مرکز کی سطح پر مشاورت کا سلسلہ جاری ہے اور وزیراعظم اور آرمی چیف کی دوسری ملاقات کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے، تاہم اب تک مرکز اپنی پالیسی کھل کر سامنے نہیں لایا کہ آیا مرکز اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے انتظامی طور پر مذکورہ بندش کا خاتمہ کرانے جا رہا ہے یا پھر سیاسی طور طریقے اپناتے ہوئے عمران خان کے ساتھ رابطوں اور آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کا راستہ اپناتے ہوئے یہ بندش ختم کرائی جائے گی۔
اب تک نیٹو سپلائی کی بندش کے معاملہ پر مرکز اور صوبہ کے درمیان شروع ہونے والی سرد جنگ پشاور تک محدود ہے اور عمران خان کی تحریک انصاف پشاور میں مورچہ زن ہوکر یہ جنگ لڑ رہی ہے، تاہم اب یہ سلسلہ آگے بڑھے گا کیونکہ اب تحریک انصاف عمران خان کی قیادت میں اگلا راؤنڈ مہنگائی کے خلاف لاہور میں کھیلنے جا رہی ہے جس کا بڑا واضح مقصد مسلم لیگ(ن) کو پیغام دینا ہے اور ظاہر ہے کہ جب یہ جنگ مسلم لیگ کے گھر تک پہنچے گی تو پھر یقینی طور پر مسلم لیگ بھی اس پر خاموش نہیں رہے گی بلکہ وہ بھی اس کا جواب دینے کی کوشش کرے گی کیونکہ اس بات کا بھی امکان ہے کہ جس طرح نیٹو سپلائی کی بندش کا معاملہ طول پکڑ گیا ہے اسی طرح اگر مہنگائی کے نام پر احتجاج کا سلسلہ طول پکڑ گیا تو یہ سیدھا سادھا شہباز شریف اور وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے لیے مسلہ ہوگا اور وہ اس معاملہ پر چپ کر کے نہیں بیٹھیں گے۔
مذکورہ معاملہ اس لیے بھی حکومت کے لیے مسائل پیدا کرسکتا ہے کہ اس میں پیپلز پارٹی بھی شامل ہو سکتی ہے، گو کہ یہ شو تو تحریک انصاف ہی کا ہوگا تاہم اس میں پیپلزپارٹی بھی اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کرے گی اور ممکنہ طور پر مسلم لیگ (ن) کی مخالف دیگر جماعتیں بھی اس میں شریک ہوجائیں گی جس سے یہ معاملہ حکومت بمقابلہ اپوزیشن ہوجائے گا اور جب معاملہ اس سطح پر پہنچے گا تو پھر یقینی طور پر مرکزی حکومت اس کا جواب خیبرپختونخوا اور پشاور میں دینے کی کوشش کرے گی جس کے لیے مرکز کی جانب سے خیبرپختونخوا میں صرف اپوزیشن کے سر پر ہاتھ رکھنے کی ضرورت ہوگی جس کی اب تک کمی محسوس کی جا رہی ہے اور اپوزیشن احساس محرومی کا شکار ہے تاہم اگر مرکز نے لاہور کا جواب پشاور میں دینے کا فیصلہ کرلیا تو پھر یقینی طور پر وہ اپوزیشن کے سر پر ہاتھ بھی رکھے گی اور اپوزیشن کا احساس محرومی بھی دور کرے گی جس سے دھماچوکڑی مچ سکتی ہے تاہم اس بات کا انحصار مرکز اور مسلم لیگ (ن) پر ہوگا۔
خیبرپختونخوا میں اپوزیشن جماعتیں حکومت سازی سے صرف دس ارکان کی دوری پر ہیں اور وہ یہ دوری اس جست کی صورت میں پوری کرنا چاہتی ہیں کہ جس جست کے پیچھے مرکز کی طاقت ہو، تاہم مرکز نے اب تک اس حوالے سے سیاسی رویہ اپناتے ہوئے جس کا حق بنتا ہے اسی کو کھیلنے کا موقع دیا ہے کیونکہ مرکز اس وقت معاشی طور پر جن مسائل کا شکار ہے ان سے نمٹنے کے لیے وہ اپنی ساری اور بھرپور توجہ اسی محاذ پر رکھنا چاہتا ہے، تاہم جب بھی مرکز نے یہ فیصلہ کرلیا کہ اب اس نے سیاسی میدان کو گرمانا بھی ہے اور سیاست کا جواب سیاست سے دینا بھی ہے تو پھر صورت حال میں ضرور تبدیلی آئے گی جس کے لیے خیبرپختونخوا میں اپوزیشن جماعتیں تیار بیٹھی ہوئی ہیں کیونکہ اپوزیشن میں موجود پانچوں جماعتیں تحریک انصاف ہی کے ہاتھوں زخم خوردہ ہیں جن میں سے چار جماعتوں کو عام انتخابات میں شکست جبکہ قومی وطن پارٹی کو بعدازالیکشن حکومت سے نکال باہرکرنے کی صورت میں تحریک انصاف کے ہاتھوں زخم لگے اس لیے ان میں سے ہر جماعت تحریک انصاف کے ساتھ اپنا حساب برابر کرنے کی خواہاں ہے۔
ان جماعتوں کی قیادت جانتی ہے کہ ایسی صورت میں جبکہ اپوزیشن جماعتوں کے پاس اعدادوشمار بھی پورے نہ ہوں او ران کے سر پر مرکز کا ہاتھ بھی نہ ہو تو وہ کسی بھی طور صوبائی حکومت پر وار نہیں کرسکتیں تاہم جیسا کہ اس سے قبل بھی انہی سطور میں کہا گیا تھا کہ اگر مرکز نے کچھ کرنے کا فیصلہ کر لیا تو اس کی ابتدا ممکنہ طور پر خیبرپختونخوا میں گورنر کی تبدیلی سے ہوگی اور جب مرکز نے صوبہ کے موجودہ گورنر انجینئر شوکت اللہ کو تبدیل کرتے ہوئے گورنرشپ آفتاب شیرپاؤ یا اسی طرح کے کسی گھاگ سیاسی کھلاڑی کے حوالے کردی تو اس کا واضح مطلب ہوگا کہ ''کھیل'' شروع ہوگیا ہے اور پھر جونہی کھیل شروع ہوگا تو فیلڈرز بھی میدان میں اپنی، اپنی پوزیشنیں سنبھال لیں گے تاکہ ہر کوئی اپنا حساب چکتا کرسکے۔
گوکہ خیبرپختونخوا میں اپوزیشن میں شامل جماعتیں تحریک انصاف کے سے انداز میں حزب اختلاف کے طور پر اپنی سرگرمیاں شروع نہیں کرپائیں تاہم ان جماعتوں نے بلدیاتی نظام کے حوالے سے تحریک انصاف کے ساتھ سیاسی حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کرلیا ہے یہی وجہ ہے کہ ایک جانب عوامی نیشنل پارٹی نے عدالت سے رجوع کرلیا ہے تو دوسری جانب مولانا فضل الرحمٰن کی جمعیت بھی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے ہی والی ہے اور دونوں پارٹیوں کا اس حوالے سے موقف بھی لگ بھگ ایک ہی ہے کہ یہ دونوں پارٹیاں صوبہ میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد جماعتی بنیادوں پر چاہتی ہیں، وہ ویلیج اور نیبر ہڈ کونسلوں کی جگہ یونین کونسلوں کو نئے بلدیاتی نظام میں بنیادی یونٹ کے طور پر دیکھنا چاہتی ہیں اوربلدیاتی نظام کے حوالے سے وزیراعلیٰ کو جو اختیارات دیئے گئے ہیں ، یہ دونوں پارٹیاں ان کے خاتمے کی بھی خواہاں ہیں ، اگرچہ اب تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) اس حوالے سے میدان میں نہیں آئیں تاہم اس بات کا امکان موجود ہے کہ یہ دونوں پارٹیاں بھی اے این پی اور جے یو آئی کا ساتھ دینے کے لیے میدان میں نکل آئیں گی۔
اگر ایسا نہیں بھی ہوتا اور بلدیاتی انتخابات کا میدان سجتا ہے تو اس صورت میں بھی یہ بڑا واضح ہے کہ اے این پی، جے یو آئی اور پیپلزپارٹی مل کر ہی میدان میں اتریں گی جس کے لیے مذکورہ بالا تینوں پارٹیوں میں پہلے ہی سے ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور جب انتخابات کا اعلان ہوگا تو پھر صرف نشستوں کی تقسیم کا معاملہ ہوگا جس کے لیے انھیں سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور ایسا کرنا ان کی مجبوری بھی ہے کیونکہ دوسری جانب سے بھی تحریک انصاف ،جماعت اسلامی کے سنگ ہی میدان میں اترے گی اور اتحاد کا مقابلہ اتحاد ہی سے کیا جاسکتا ہے جس سے اپوزیشن کی یہ تینوں جماعتیں بخوبی واقف ہیں۔
تحریک انصاف نے ڈیرہ اسماعیل خان کا معرکہ تو سرکرلیا ہے جس میں شہید اسراراللہ گنڈا پور کے برادراکبر، اکرام اللہ گنڈا پور تحریک انصاف کے ٹکٹ پر کامیاب ہوگئے ہیں، گو کہ یہ کامیابی تحریک انصاف کی بھی ہے تاہم اصل میں یہ کامیابی اسراراللہ گنڈا پور شہید کے کھاتے میں جاتی ہے کیونکہ ایک جانب تو گزشتہ دس ،گیارہ سالوں میں انہوں نے اپنے حلقہ میں جو کام کیے ہیں اس کے بدلے میں عوام نے ان کے بھائی کی جھولی میں یہ کامیابی ڈال دی ہے جبکہ دوسری جانب اسراراللہ گنڈا پور کی شہادت کی وجہ سے ہمدردی کا جو عنصر ان کے حلقہ کے لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوا وہ بھی ووٹوں کی صورت میں ان کے بھائی کے لیے بیلٹ بکس میں منتقل ہوگیا، تاہم اس معرکہ سے فارغ ہونے کے بعد اب اگلا میدان ہری پور میں سجنے والا ہے جہاں سابق صوبائی وزیر یوسف ایوب خان کے بھائی تحریک انصاف کے ٹکٹ پر میدان میں اتریں گے تو دوسری جانب مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر قاضی محمد اسد میدان میں آئیں گے جو اسی حلقہ سے دو مرتبہ پہلے کامیابی حاصل کرچکے ہیں اور 2013ء کے الیکشن میں یوسف ایوب سے شکست کھانے کے بعد ان کو نااہل قرار دلوانے کے لیے عدالت چلے گئے تھے اور اب ان کی نااہلی کے بعد دوبارہ میدان میں موجود ہیں جن کی کامیابی سے (ن) لیگ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت بن جائے گی جبکہ تحریک انصاف کو کامیابی ملنے کی صورت میں اس کی نشستیں بڑھ کر 54 ہوجائیں گی۔
خیبرپختونخوا جہاں تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتیں جماعت اسلامی اور عوامی جمہوری اتحاد برسراقتدار ہیں اب تک یہ فیصلہ نہیں کرسکی ہیں کہ وہ نیٹو سپلائی کو کب تک بند رکھیں گی ،گو کہ یہ کہا گیا ہے کہ جب تک ڈرون حملوں کی بندش کے حوالے سے امریکہ کوئی اعلان نہیں کرتا تب تک نیٹو کو سپلائی بند رکھی جائے گی تاہم اس حوالے سے مرکزی حکومت کے کردار کے بارے میں وہ واضح نہیں ہیں کیونکہ بہر کیف جس طریقہ سے نیٹو سپلائی کی بندش جاری ہے وہ کوئی قانونی طریقہ کار نہیں اور نہ ہی یہ طریقہ کار طویل عرصہ تک چل سکتا ہے۔
اس سلسلے میں لامحالہ طور پر مرکز کو کوئی نہ کوئی اقدام ضرور کرنا ہوگا جس کے حوالے سے مرکز کی سطح پر مشاورت کا سلسلہ جاری ہے اور وزیراعظم اور آرمی چیف کی دوسری ملاقات کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے، تاہم اب تک مرکز اپنی پالیسی کھل کر سامنے نہیں لایا کہ آیا مرکز اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے انتظامی طور پر مذکورہ بندش کا خاتمہ کرانے جا رہا ہے یا پھر سیاسی طور طریقے اپناتے ہوئے عمران خان کے ساتھ رابطوں اور آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کا راستہ اپناتے ہوئے یہ بندش ختم کرائی جائے گی۔
اب تک نیٹو سپلائی کی بندش کے معاملہ پر مرکز اور صوبہ کے درمیان شروع ہونے والی سرد جنگ پشاور تک محدود ہے اور عمران خان کی تحریک انصاف پشاور میں مورچہ زن ہوکر یہ جنگ لڑ رہی ہے، تاہم اب یہ سلسلہ آگے بڑھے گا کیونکہ اب تحریک انصاف عمران خان کی قیادت میں اگلا راؤنڈ مہنگائی کے خلاف لاہور میں کھیلنے جا رہی ہے جس کا بڑا واضح مقصد مسلم لیگ(ن) کو پیغام دینا ہے اور ظاہر ہے کہ جب یہ جنگ مسلم لیگ کے گھر تک پہنچے گی تو پھر یقینی طور پر مسلم لیگ بھی اس پر خاموش نہیں رہے گی بلکہ وہ بھی اس کا جواب دینے کی کوشش کرے گی کیونکہ اس بات کا بھی امکان ہے کہ جس طرح نیٹو سپلائی کی بندش کا معاملہ طول پکڑ گیا ہے اسی طرح اگر مہنگائی کے نام پر احتجاج کا سلسلہ طول پکڑ گیا تو یہ سیدھا سادھا شہباز شریف اور وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے لیے مسلہ ہوگا اور وہ اس معاملہ پر چپ کر کے نہیں بیٹھیں گے۔
مذکورہ معاملہ اس لیے بھی حکومت کے لیے مسائل پیدا کرسکتا ہے کہ اس میں پیپلز پارٹی بھی شامل ہو سکتی ہے، گو کہ یہ شو تو تحریک انصاف ہی کا ہوگا تاہم اس میں پیپلزپارٹی بھی اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کرے گی اور ممکنہ طور پر مسلم لیگ (ن) کی مخالف دیگر جماعتیں بھی اس میں شریک ہوجائیں گی جس سے یہ معاملہ حکومت بمقابلہ اپوزیشن ہوجائے گا اور جب معاملہ اس سطح پر پہنچے گا تو پھر یقینی طور پر مرکزی حکومت اس کا جواب خیبرپختونخوا اور پشاور میں دینے کی کوشش کرے گی جس کے لیے مرکز کی جانب سے خیبرپختونخوا میں صرف اپوزیشن کے سر پر ہاتھ رکھنے کی ضرورت ہوگی جس کی اب تک کمی محسوس کی جا رہی ہے اور اپوزیشن احساس محرومی کا شکار ہے تاہم اگر مرکز نے لاہور کا جواب پشاور میں دینے کا فیصلہ کرلیا تو پھر یقینی طور پر وہ اپوزیشن کے سر پر ہاتھ بھی رکھے گی اور اپوزیشن کا احساس محرومی بھی دور کرے گی جس سے دھماچوکڑی مچ سکتی ہے تاہم اس بات کا انحصار مرکز اور مسلم لیگ (ن) پر ہوگا۔
خیبرپختونخوا میں اپوزیشن جماعتیں حکومت سازی سے صرف دس ارکان کی دوری پر ہیں اور وہ یہ دوری اس جست کی صورت میں پوری کرنا چاہتی ہیں کہ جس جست کے پیچھے مرکز کی طاقت ہو، تاہم مرکز نے اب تک اس حوالے سے سیاسی رویہ اپناتے ہوئے جس کا حق بنتا ہے اسی کو کھیلنے کا موقع دیا ہے کیونکہ مرکز اس وقت معاشی طور پر جن مسائل کا شکار ہے ان سے نمٹنے کے لیے وہ اپنی ساری اور بھرپور توجہ اسی محاذ پر رکھنا چاہتا ہے، تاہم جب بھی مرکز نے یہ فیصلہ کرلیا کہ اب اس نے سیاسی میدان کو گرمانا بھی ہے اور سیاست کا جواب سیاست سے دینا بھی ہے تو پھر صورت حال میں ضرور تبدیلی آئے گی جس کے لیے خیبرپختونخوا میں اپوزیشن جماعتیں تیار بیٹھی ہوئی ہیں کیونکہ اپوزیشن میں موجود پانچوں جماعتیں تحریک انصاف ہی کے ہاتھوں زخم خوردہ ہیں جن میں سے چار جماعتوں کو عام انتخابات میں شکست جبکہ قومی وطن پارٹی کو بعدازالیکشن حکومت سے نکال باہرکرنے کی صورت میں تحریک انصاف کے ہاتھوں زخم لگے اس لیے ان میں سے ہر جماعت تحریک انصاف کے ساتھ اپنا حساب برابر کرنے کی خواہاں ہے۔
ان جماعتوں کی قیادت جانتی ہے کہ ایسی صورت میں جبکہ اپوزیشن جماعتوں کے پاس اعدادوشمار بھی پورے نہ ہوں او ران کے سر پر مرکز کا ہاتھ بھی نہ ہو تو وہ کسی بھی طور صوبائی حکومت پر وار نہیں کرسکتیں تاہم جیسا کہ اس سے قبل بھی انہی سطور میں کہا گیا تھا کہ اگر مرکز نے کچھ کرنے کا فیصلہ کر لیا تو اس کی ابتدا ممکنہ طور پر خیبرپختونخوا میں گورنر کی تبدیلی سے ہوگی اور جب مرکز نے صوبہ کے موجودہ گورنر انجینئر شوکت اللہ کو تبدیل کرتے ہوئے گورنرشپ آفتاب شیرپاؤ یا اسی طرح کے کسی گھاگ سیاسی کھلاڑی کے حوالے کردی تو اس کا واضح مطلب ہوگا کہ ''کھیل'' شروع ہوگیا ہے اور پھر جونہی کھیل شروع ہوگا تو فیلڈرز بھی میدان میں اپنی، اپنی پوزیشنیں سنبھال لیں گے تاکہ ہر کوئی اپنا حساب چکتا کرسکے۔
گوکہ خیبرپختونخوا میں اپوزیشن میں شامل جماعتیں تحریک انصاف کے سے انداز میں حزب اختلاف کے طور پر اپنی سرگرمیاں شروع نہیں کرپائیں تاہم ان جماعتوں نے بلدیاتی نظام کے حوالے سے تحریک انصاف کے ساتھ سیاسی حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کرلیا ہے یہی وجہ ہے کہ ایک جانب عوامی نیشنل پارٹی نے عدالت سے رجوع کرلیا ہے تو دوسری جانب مولانا فضل الرحمٰن کی جمعیت بھی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے ہی والی ہے اور دونوں پارٹیوں کا اس حوالے سے موقف بھی لگ بھگ ایک ہی ہے کہ یہ دونوں پارٹیاں صوبہ میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد جماعتی بنیادوں پر چاہتی ہیں، وہ ویلیج اور نیبر ہڈ کونسلوں کی جگہ یونین کونسلوں کو نئے بلدیاتی نظام میں بنیادی یونٹ کے طور پر دیکھنا چاہتی ہیں اوربلدیاتی نظام کے حوالے سے وزیراعلیٰ کو جو اختیارات دیئے گئے ہیں ، یہ دونوں پارٹیاں ان کے خاتمے کی بھی خواہاں ہیں ، اگرچہ اب تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) اس حوالے سے میدان میں نہیں آئیں تاہم اس بات کا امکان موجود ہے کہ یہ دونوں پارٹیاں بھی اے این پی اور جے یو آئی کا ساتھ دینے کے لیے میدان میں نکل آئیں گی۔
اگر ایسا نہیں بھی ہوتا اور بلدیاتی انتخابات کا میدان سجتا ہے تو اس صورت میں بھی یہ بڑا واضح ہے کہ اے این پی، جے یو آئی اور پیپلزپارٹی مل کر ہی میدان میں اتریں گی جس کے لیے مذکورہ بالا تینوں پارٹیوں میں پہلے ہی سے ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور جب انتخابات کا اعلان ہوگا تو پھر صرف نشستوں کی تقسیم کا معاملہ ہوگا جس کے لیے انھیں سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور ایسا کرنا ان کی مجبوری بھی ہے کیونکہ دوسری جانب سے بھی تحریک انصاف ،جماعت اسلامی کے سنگ ہی میدان میں اترے گی اور اتحاد کا مقابلہ اتحاد ہی سے کیا جاسکتا ہے جس سے اپوزیشن کی یہ تینوں جماعتیں بخوبی واقف ہیں۔
تحریک انصاف نے ڈیرہ اسماعیل خان کا معرکہ تو سرکرلیا ہے جس میں شہید اسراراللہ گنڈا پور کے برادراکبر، اکرام اللہ گنڈا پور تحریک انصاف کے ٹکٹ پر کامیاب ہوگئے ہیں، گو کہ یہ کامیابی تحریک انصاف کی بھی ہے تاہم اصل میں یہ کامیابی اسراراللہ گنڈا پور شہید کے کھاتے میں جاتی ہے کیونکہ ایک جانب تو گزشتہ دس ،گیارہ سالوں میں انہوں نے اپنے حلقہ میں جو کام کیے ہیں اس کے بدلے میں عوام نے ان کے بھائی کی جھولی میں یہ کامیابی ڈال دی ہے جبکہ دوسری جانب اسراراللہ گنڈا پور کی شہادت کی وجہ سے ہمدردی کا جو عنصر ان کے حلقہ کے لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوا وہ بھی ووٹوں کی صورت میں ان کے بھائی کے لیے بیلٹ بکس میں منتقل ہوگیا، تاہم اس معرکہ سے فارغ ہونے کے بعد اب اگلا میدان ہری پور میں سجنے والا ہے جہاں سابق صوبائی وزیر یوسف ایوب خان کے بھائی تحریک انصاف کے ٹکٹ پر میدان میں اتریں گے تو دوسری جانب مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر قاضی محمد اسد میدان میں آئیں گے جو اسی حلقہ سے دو مرتبہ پہلے کامیابی حاصل کرچکے ہیں اور 2013ء کے الیکشن میں یوسف ایوب سے شکست کھانے کے بعد ان کو نااہل قرار دلوانے کے لیے عدالت چلے گئے تھے اور اب ان کی نااہلی کے بعد دوبارہ میدان میں موجود ہیں جن کی کامیابی سے (ن) لیگ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت بن جائے گی جبکہ تحریک انصاف کو کامیابی ملنے کی صورت میں اس کی نشستیں بڑھ کر 54 ہوجائیں گی۔