سیاسی جماعتیں کوئٹہ کی میئر شپ کے لئے متحرک

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے بعض آزاد ارکان سے رابطے کئے ہیں جبکہ وحدت المسلمین نے میئرشپ کے لئے پشتونخوا ملی۔۔۔


رضا الرحمٰن December 18, 2013
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے بعض آزاد ارکان سے رابطے کئے ہیں جبکہ وحدت المسلمین نے میئرشپ کے لئے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی غیر مشروط حمایت کی ہے۔ فوٹو : فائل

بلوچستان میں7 دسمبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے حتمی نتائج کاالیکشن کمیشن نے اعلان کردیا ہے جس کے تحت ان بلدیاتی انتخابات میں آزاد امیدواروں نے میدان مار لیا ہے۔

6166 نشستوں میں سے2676 نشستوں پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے جبکہ سیاسی جماعتوں میں بلوچستان بھر میں جمعیت علماء اسلام(ف) 964 نشستیں حاصل کرکے سرفہرست رہی۔ اسی طرح پشتونخواملی عوامی پارٹی 765 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر، نیشنل پارٹی 562 نشستوں کے ساتھ تیسرے اورمسلم لیگ(ن) 472 نشستوں کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہی۔ اسی طرح جمعیت علماء اسلام نظریاتی کے حصے میں 227، بی این پی مینگل 198، مسلم لیگ(ق) 68، اے این پی 62، بی این پی(عوامی) 54، پی پی پی 39، تحریک انصاف 22، جماعت اسلامی 9، جاموٹ قومی موومنٹ 11، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی 5، ایم کیوایم 4 جبکہ 29 نشستیں مختلف جماعتوں کو ملیں۔

ریٹرننگ آفیسران کی سفارش پر صوبے کے17 حلقوں کے نتائج روک دیئے گئے ہیں جبکہ 559 نشستوں پر انتخابات نہ ہونے کی وجہ سے خالی رہ گئیں جن پر دوبارہ الیکشن کرانے کا اعلان کیا گیا ہے جس کا شیڈول ایک دو روز میں جاری کردیا جائیگا۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ مخصوص نشستوں پر انتخابات میئر، ڈپٹی میئر چیئرمین اور وائس چیئرمین کے انتخابات کے تمام مراحل جنوری کے آخر تک مکمل کرلئے جائیں گے۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ 7 دسمبر کو بلوچستان میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں ٹرن آؤٹ 42 سے 45 فیصد رہا۔ سیاسی حلقوں کے مطابق جنرل انتخابات کے بعد بلدیاتی انتخابات میں جے یو آئی(ف) کو جس طرح سے عوام میں پذیرائی ملی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بلوچستان میں چند ہی ماہ میں سیاسی سوچ میں کچھ تبدیلی رونما ہوئی ہے۔

دوسری جانب بلوچستان میں مخلوط حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں (ن) لیگ، نیشنل پارٹی اور پشتونخواملی عوامی پارٹی کے لئے ایک بڑا امتحان کوئٹہ میٹروپولیٹن کی میئرشپ اورڈپٹی میئرشپ کا انتخاب ہے؟۔ اتحادی جماعتیں جن میں پشتونخواملی عوامی پارٹی اورن لیگ شامل ہیں اپنے اپنے طور پر ان دو عہدوں کیلئے زور لگا رہی ہیں۔ پشتونخواملی عوامی پارٹی کو میٹروپولیٹن کوئٹہ کی 58 نشستوں میں سے18 نشستیں حاصل ہوئی ہیں جبکہ (ن) لیگ 5 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے جبکہ 21 آزاد امیدوار کامیاب ہوکر آئے ہیں۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے بعض آزاد ارکان سے رابطے کئے ہیں جبکہ وحدت المسلمین نے میئرشپ کے لئے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی غیر مشروط حمایت کی ہے۔ بعض آزاد ارکان نے بھی پشتونخواملی عوامی پارٹی میں شمولیت اورحمایت کی جس کے بعد پشتونخواملی عوامی پارٹی کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ میئر اورڈپٹی میئرشپ کیلئے مطلوبہ ہدف تک پہنچ گئی ہے جبکہ دوسری طرف (ن) لیگ بھی یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ وہ بھی عددی اعتبار سے مطلوبہ ہدف تک پہنچ گئی ہے اور میئر(ن) لیگ کا ہوگا۔

(ن) لیگ کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ آزاد ارکان کی اکثریت اس کے ساتھ ہے۔ ن لیگ کے صوبائی صدر اور سینئر صوبائی وزیر نواب ثناء اﷲ زہری نے بھی گذشتہ دنوں کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اس بات کا اعادہ کیا کہ کوئٹہ کی میئرشپ(ن) لیگ کا حق ہے اوراس کے لئے وہ اپنی اتحادی جماعتوں سے بھی یہ کہتے ہیں کہ ساتھ دیں کیونکہ ہم نے بہت قربانیاں دی ہیں۔ سیاسی حلقوں کے مطابق میٹروپولیٹن کوئٹہ کے میئروڈپٹی میئر کا انتخاب مخلوط حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے لئے ایک امتحان ہوگا جس کے اثرات بلوچستان کی آئندہ مخلوط حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے مستقبل کے تعلقات اور صوبے کی آئندہ سیاست پر بھی مرتب ہوسکتے ہیں؟۔ اس حوالے سے صلاح ومشورہ بھی جاری ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ ان حلقوں کے مطابق میئر، ڈپٹی میئر، چیئرمین اور وائس چیئرمین کے انتخابات میں نئے سیاسی اتحاد بھی تشکیل پائیں گے اور وہ سیاسی جماعتیں جوکہ سیاسی میدان میں ایک دوسرے کی مخالفت کر رہی ہیں اب ان نئے تشکیل پانے والے اتحادوں میں ایک دوسرے کے قریب آرہی ہیں۔

وزیراعلیٰ بلوچستان نے ایک بار پھر اس عزم کا اعادہ کیا ہے نہ وہ خود کرپشن کریں گے اور نہ ہی کسی کو کرپشن کی اجازت دیں گے، کرپشن کا الزام بیوروکریسی سمیت کسی بھی شخص پر ثابت ہوا اس کے خلاف بغیر کسی لحاظ کے ضروری کارروائی کی جائے گی۔ کیونکہ موجودہ حکومت اور کرپشن ایک ساتھ نہیں رہ سکتی، وزیراعطم نوازشریف اورپشتونخوامیپ کے چیئرمین محمودخان اچکزئی کو صوبے سے کرپشن ختم کرنے کا وعدہ دے چکا ہوں ان کے سامنے ندامت اٹھانے کی بجائے کرپشن میں ملوث افراد کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کرونگا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ میں نہ خود منافق ہوں اور نہ ہی منافقت پر یقین رکھتاہوں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اگر ہم نے کسی آفیسر کو کھڈے لائن لگانا ہے تو انہیں وزیر اعلیٰ انسپکشن ٹیم میں تعینات کیا جاتا ہے لیکن اب ایسا نہیں ہوگا۔محکمہ اینٹی کرپشن اور وزیراعلیٰ انسپکشن ٹیم کو جو بھی سہولیات اور بجٹ کی ضرورت ہوتی ہے ہم فراہم کریں گے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بہت جلد پبلک اکاؤنٹ کمیٹی کو فعال کریں گے، وزیراعلیٰ کابینہ کے فیصلوں کے ماتحت جبکہ بیوروکریسی کو حکومتی فیصلوں کے ماتحت کام کرناہوگا۔ سیاسی حلقوں کے مطابق بلاشبہ وزیراعلیٰ بلوچستان نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلے دن سے ہی اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ صوبے سے نہ صرف کرپشن کا خاتمہ کریں گے بلکہ وہ اس بات کوبھی یقینی بنائیں گے کہ ماضی میں صوبے میں جو کرپشن ہوئی ہے اور اس حوالے سے صوبے کی جو بدنامی ہوئی ہے اس تاثر کو ختم کریں گے اور ساتھ ہی ایسے ٹھوس اقدامات کریں گے جس سے آئندہ صوبے میں کرپشن کے راستوں کو بند کیا جا سکے۔ ان حلقوں کے مطابق وزیراعلیٰ بلوچستان اور ان کی ٹیم کو اس حوالے سے انتہائی کڑواگھونٹ پینا ہوگا اورکرپٹ عناصر کو لگام دینی ہوگی تب جاکر انہیں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں