خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
دُکھ تو اس بات کا ہے کہ اتنے برس گزر جانے کے بعد عبدالقادر ملا کو بھی ایک اور سیاسی کھیل کا مہرہ بنا کر پٹوا دیا گیا
KARACHI:
دُنیا کی تاریخ میں متعدد بار کئی ملکوں میں خون ریز بحران پیدا ہوئے ہیں۔ ذرا ٹھنڈے دل سے ان بحرانوں کے اسباب کا مطالعہ کریں تو بآسانی دریافت کیا جا سکتا ہے کہ ان کا حتمی نشانہ بالآخر انھیں پیدا کرنے والے ہی بنے۔ اندرا گاندھی خود کو بھارت کا واحد مقبول (Populist) رہنما ثابت کرنے کے جنون میں مبتلا تھیں۔ ان کو مگر اس بات کی بڑی تکلیف رہی کہ وسیع تر حوالوں سے ان کے ملک کی نام نہاد Cow Belt کا حصہ ہوتے ہوئے بھی بھارتی پنجاب ان کی جماعت کو ووٹ نہیں دیتا تھا۔ وہاں مذہبی بنیادوں پر قائم اکالی سکھوں کو اس ضمن میں ہمیشہ واضح برتری حاصل رہی۔ بھارتی پنجاب کے بارے میں پالیسیاں بناتے ہوئے وہ گیانی ذیل سنگھ کی رائے کو بڑی اہمیت دیا کرتی تھیں۔ ذیل سنگھ نے اندرا جی کو مشورہ دیا کہ اکالیوں کی ''مذہبیت'' کو توڑنے کے لیے سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کی پشت پناہی کی جائے۔ بھارتی خفیہ ایجنسیوں اور کانگریس کی مکارانہ سرپرستی کی وجہ سے بھنڈرانوالہ چند ہی مہینوں میں ایک مقبول رہنما بن گیا۔ اس نے سکھوں کے سب سے مقدس گردوارے پر اپنے مسلح جتھوں کے ذریعے مکمل قبضہ کر لیا۔ اسی گولڈن ٹیمپل کو Clear کرنے کے نام پر اندرا گاندھی آخر کار فوج کو استعمال کرنے پر مجبور ہوئی۔ اپنے مقدس مقام کی بے حرمتی پر مشتعل سکھوں میں سے ہی دو افراد نے پھر مسز اندرا گاندھی کو قتل کر دیا اور نئی دلی کو مشرقی پنجاب میں حالات کو معمول پر لانے میں کئی برس لگ گئے۔
امریکا والے نائن الیون کے بعد سے القاعدہ، القاعدہ کی دہائی دے رہے ہیں۔ ان کی پریشانی کو دیکھتے ہوئے میرے جیسے رپورٹروں کو 1980کی دہائی کے وہ دن اکثر یاد آجاتے ہیں جب اسلام آباد میں موجود امریکی صحافی اور سفارتکار جلال الدین حقانی کی افغان جہاد میں کی جانے والی مزاحمت کا چمکتی آنکھوں سے دیوانہ وار ذکر کیا کرتے تھے۔ میں 1987 کے ان دنوں نیویارک میں موجود تھا جب اس وقت کے امریکی صدر ریگن افغان مجاہدین کے ایک وفد سے ملاقات کرنے کو بہت بے تاب تھے مگر مشکل ہو رہی تھی کہ گل بدین حکمت یار اس وفد میں شامل ہونے کو تیار نہ تھا۔
یکے بعد دیگرے مثالوں کی تفصیل میں کھو جانے کے بجائے فی الوقت میرا اصرار اس دعوے پر ہے کہ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم اپنے ملک کی جماعت اسلامی کے ساتھ Do or Die والا شوڈائون پیدا نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ ان کا واحد مقصد صرف اتنا تھا کہ جنوری 2014کے انتخاب کے وقت ان کی ازلی سیاسی دشمن خالدہ ضیاء جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر کوئی ایسا اتحاد نہ بنا لیں جہاں عوامی لیگ بنگلہ دیش کی تمام اپوزیشن جماعتوں کے متفقہ امیدواروں کے مقابلے پر تنہاء نظر آئے۔ جماعت اسلامی کو ممکنہ اتحاد سے دور رکھنے کی خاطر انھوں نے 1971کے ''جنگی جرائم'' کو یاد کرنا شروع کر دیا۔ بالآخر ان واقعات میں ملوث لوگوں کی سزائوں کے لیے خصوصی قوانین اور عدالتیں بنانا پڑیں۔ اس سارے انتظام کے بعد جب کچھ لوگوں پر مقدمات چلنا شروع ہوئے تو بنگلہ دیش کی نوجوان نسل کی ایک کثیر تعداد کو شک ہوا کہ حسینہ واجد 1971کے جذباتی واقعات کے حوالے سے اپنی سیاست چمکانا چاہ رہی ہیں۔ ''شاہ باغ تحریک'' کے نام پر یہ نوجوان متحرک ہو گئے اور معاملات حسینہ واجد کے کنٹرول سے آزاد ہو کر ایک نئی راہ پر چل نکلے۔ عبدالقادر ملا کی پھانسی درحقیقت حسینہ واجد کی اس بے بسی کو آشکار کرتی ہے جو اپنے تئیں ہوشیار بنے سیاستدانوں کو Unintended Consequences کی صورت بھگتنا پڑتے ہیں۔ ایک مشہور لطیفے کے اس شیر والا واقعہ ہو جاتا ہے جہاں اختیار جنگل کے مسافروں کے ہاتھ نہیں رہتا، شیر کے پاس چلا جاتا ہے۔
''مشرقی پاکستان'' کا بنگلہ دیش بن جانا میرے لیے ایک بہت ہی جذباتی صدمہ تھا۔ میں ان دنوں نیا نیا کالج گیا تھا اور خود کو پاکستانی سیاست کا ایک بہت ہی مستعد طالب علم ہوتے ہوئے اس حوالے سے ایک سخت گیر رائے بھی رکھتا تھا۔ میری اس وقت کی رائے جماعت اسلامی کو بھی اس صدمے کے ذمے داروں میں شمار کرتی تھی۔ مجھے یہ بات دریافت کرنے میں کئی برس لگے کہ شیخ مجیب، ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل یحییٰ تو محض بے بس کردار تھے۔ جماعتِ اسلامی کا اس قضیے کے حوالے سے معاملہ بھی اسی طرح کا تھا۔ حقیقت تو یہ تھی کہ قیامِ پاکستان کے بعد ہماری اشرافیہ وہ پالیسیاں بنانے میں قطعاََ ناکام رہی جن کے نتیجے میں ایک دوسرے سے ایک ہزار میل دور پاکستان کے دو حصے دنیا کو ایک مثالی جمہوری فیڈریشن کی طرح ایک متحدہ ملک ہی نظر آتے۔ بظاہر انہونی نظر آنے والی یہ بات بالکل ممکن ہوتی اگر ہماری اشرافیہ اپنے بنگالی شہریوں کو برابر کے حقوق دیتی۔
ان کی رائے کا احترام کرتی۔ دل سے یہ تسلیم کرتی کہ بنگالی ایک بھرپور زبان ہے۔ اسے بولنے والوں کی اکثریت مسلمانوں پر ہی مشتمل ہے جنھیں مغربی پاکستان سے بھیجے گورنروں اور اعلیٰ افسروں کے ذریعے ''اسلام سکھانے'' کی ضرورت نہیں۔ زبان سے شروع ہونے والے جھگڑوں کے دنوں میں لگائے زخموں کو ہم نے Parity کے بیہودہ تصور کے ذریعے مزید گہرا کر دیا۔ مشرقی پاکستان والوں کو ''برابری'' کے نام پر اس گمان سے بھی محروم کر دیا کہ وفاقِ پاکستان کی آبادی کے حوالے سے سب سے بڑی اکائی ہوتے ہوئے وہ اسلام آباد میں فیصلہ سازی کے عمل میں خود کو سب سے زیادہ طاقتور محسوس کر سکتے ہیں۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ کو ہم نے صرف ''دفاع لاہور'' کی کہانی بنا دیا۔ اس جنگ کے بعد ''مشرقی پاکستان'' میں اجنبیت مزید گہری ہو گئی۔ ہم نے اس کے سدباب کے لیے کچھ بھی نہ کیا اور 1970 کے انتخابات کروا دیے۔
میرے جیسے جذباتی لوگ اُن دنوں بڑے خلوص سے یہ چاہتے تھے کہ چونکہ شیخ مجیب کی عوامی لیگ کو اکثریت حاصل ہو گئی ہے اس لیے اقتدار فی الفور اس جماعت کو منتقل کر دیا جائے۔ یہ بات بہت دیر بعد سمجھ میں آئی کہ شیخ مجیب کے 6 نکات کی بدولت صرف مشرقی پاکستان کو ہی خود مختاری نہ ملتی پنجاب، خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان بھی ان کی روشنی میں اپنی علیحدہ کرنسیوں اور دوسرے ممالک سے اپنے تئیں تجارتی معاہدے کرنے کے اختیار حاصل کر سکتے تھے۔ کاش ہماری اشرافیہ شیخ مجیب الرحمن کو کوئی ایسا فارمولا دے سکتی جسے انتخابات کے بعد والی جذباتی فضاء میں وہ اپنے لوگوں کے سامنے رکھ کر قبول کرا سکتا۔ ایسا نہ ہو سکا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ کئی دہائیوں سے جاری عمل کا منطقی انجام تھا جس میں افراد المیہ اساطیری داستانوں والے محض مہرے تھے۔ دُکھ تو اس بات کا ہے کہ اتنے برس گزر جانے کے بعد عبدالقادر ملا کو بھی ایک اور سیاسی کھیل کا مہرہ بنا کر پٹوا دیا گیا۔ فیضؔ کے ''خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد'' کے سوا اس سلسلے میں کیا کہا جا سکتا ہے؟