عدالت اور میڈیا
امید ہے کہ اب ججوں کے ریمارکس کے بجائے ان کے فیصلے ان کی ترجمانی کریں گے۔۔۔
سپریم کورٹ میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس کی کوریج صرف ایک چینل کے ذریعے ہونے کی وجہ سے ان کے ریٹائرمنٹ کا ایک دن ایک نئے تنازعہ کا شکار ہوا ۔ چیف جسٹس تصدق جیلانی نے اس واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا ، اور اپنے عملے کو ہدایت کی کہ وہ پبلسٹی کے خواہاں نہیں ہیں، اس لیے سپریم کورٹ کی خبریں دینے والے رپورٹروں کوآگاہ کیا جائے۔ اب یہ خبریں شایع ہوئی ہیں کہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار ڈاکٹر فقیر محمد فوٹیج تنازعہ کی بناء پر مستعفی ہونے پر غور کررہے ہیں ، اس کے ساتھ ایک ٹی وی چینل نے جسٹس جیلانی کو ان کے فرائض سے آگاہ کرنے کے لیے مہم شروع کردی ۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری کے اعزاز میں دیے گئے ریفرنس کی فوٹیج صرف ایک چینل پر نشر ہونے اور سرکاری چینل سمیت تمام چینل اس فوٹیج کو نشر کرنے سے محروم ہوگئے تو ایک مخصوص چینل کو نوازنے کے الزامات درست ثابت ہونے لگے اور ان فوٹیج کو Exclusiveقرار دے کر اس کو کارنامہ قرار دیا گیا اور باقی صحافیوں کو نااہل قرار دے کر رائے عامہ بنا کر گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی ۔
صحافت کی اصطلاح میں Exclusiveسے مراد وہ خبر ، تصویر تجزیہ وغیرہ ہوتا ہے جو صرف ایک اخبار یا چینل کے صحافی حاصل کرتے ہیں اور ان کے ادارہ میں شایع یا نشر کرنا ہے ۔ کسی رپورٹر کے لیے ایکسکلوزیو حاصل کرنا اعزاز ہوتا ہے ۔ صحافت کی تاریخ میں رپورٹر مہینوں scoopeکی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں وہ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر حاصل کرتے ہیں یا کسی عینی شاہد سے آنکھوں دیکھا حال سن کر رپورٹ بناتے ہیں یا ایسی دستاویز حاصل کرتے ہیں جو خبر کی بنیاد بنتی ہے۔ اس طرح کسی ایسی شخصیت کا انٹرویو کرتے ہیں جس تک پہنچا مشکل ہوتا ہے رپورٹر اپنے سوالات کے ذریعے کوئی ایکسکلوزیو خبر حاصل کرتے ہیں مگر بعض تقریبات میں عمومی طور پرسرکاری نیوز ایجنسی اور ریڈیو ٹی وی کے نمایندوں کو بلایا جاتا ہے یوں طے شدہ طریقہ کار کے تحت ان تقریبات کی خبریں سرکاری طور پر شایع اور نشر ہوتی ہیں ،انھیں کسی بھی صورت ایکسکلوزیو قرار نہیں دیا جاتا۔ سپریم کورٹ کے قوانین کے تحت عدالت میں کیمرہ، موبائل، ٹیلی فون وغیرہ لے جانے پر پابندی ہے یوں کیمرہ مین کمرہ عدالت میں نہیں جاسکتے ، عدالتی عملے نے کسی نجی کیمرہ مین سے فل کورٹ ریفرنس کی کوریج کرائی اور پھر یہ فوٹیج اس چینل کو دے دیے گئے، سرکاری سرپرستی میں ملنے والے فوٹیج کسی رپورٹر کا Exclusiveنہیں ہوسکتے۔ یہ دلیل مان لی جائے تو گزشتہ 60 سالوں کے دوران ریڈیو اور پی ٹی وی کی سرکاری کوریج کو ان کے عملے کا کارنامہ قرار دینا پڑے گا۔
چیف جسٹس افتخار چوہدری کا دور اس لحاظ سے یادگار رہے گا کہ انھوں نے از خود نوٹس کے اختیار کو بخوبی استعمال کیا ، ان کااز خود نوٹس اختیار کو استعمال کرنے کا مقصد ریاستی اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانا تھا ۔اس سوال پر بعد میں بحث ہوگی کہ اس عدالتی اختیار کے مسلسل استعمال سے ریاست کے دونوں ستونوں انتظامیہ اور پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار پر قدغن لگی مگر یہ حقیقت واضح ہوئی کہ چیف جسٹس کے ازخود نوٹس عمومی طور پر ایک میڈیا گروپ کے اخبارات میں شایع ہونیو الے خبروں پر اور اس ادارہ کے صحافیوں کی خبروں پر 70فیصد کے قریب نوٹس جاری ہوئے یوں مخصوص ادارے کی ساکھ بہتر ہوئی ۔ سپریم کورٹ کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی عمارت میں موبائل فون استعمال نہیں ہوسکتا یہ پابندی وکلاء صحافیوں اور عام شہریوں کے لیے ہے مگر ایک صحافی کا موبائل فون اس پابندی سے مستثنیٰ رہا ۔ جب ایک سینئر صحافی نے سپریم کورٹ کے ایک معزز جج کی توجہ اس جانب مبذول کرائی توانھوں نے کہا کہ اس صحافی کو سپریم کور ٹ کا18واں جج تصور کیا جانے لگا۔
اس ضمن میں چند سال قبل کا واقعہ اہم ہے جب سپریم کورٹ کے ججوں کو رات گئے سپریم کورٹ طلب کیا گیا۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے ججوں کو بتایا کہ ایک چینل پر خبر نشر ہوئی ہے کہ گیلانی حکومت وکلاء تحریک کے نتیجے میں بحال ہونے والے چیف جسٹس اور ججوں کو نااہل قرار دینے کا نوٹیفیکیشن جاری کرنے والی ہے ، معزز ججوں نے رات گئے حکومت کو پابند کیا کہ وہ اس طرح کا کوئی نوٹیفیکیشن جاری نہیں کرسکتی ، رات گئے سپریم کورٹ کا حکم ایک نئی روایت تھی مگر دوسرے دن معزز عدالت کے سامنے اٹارنی جنرل نے واضح طور پر بتایا کہ حکومت کا ایسا نوٹیفیکیشن جاری کرنے کاکوئی منصوبہ نہیں تھا ۔ سپریم کورٹ نے خبر کی اشاعت کے بارے میں تحقیقات کے لیے صحافیوں پر مشتمل کمیٹی قائم کردی، جسٹس افتخار چوہدری کو کبھی اس مقدمے کی سماعت کا خیا ل نہیں آیا۔ اس کمیٹی میں شامل ایک سینئر صحافی کا کہنا تھا کہ ان کی تحقیقات کے مطابق یہ خبر کسی ایسے ذرایع سے ملی تھی جو اعلیٰ عدالتی شخصیت کے قریب تھا۔
چیف جسٹس افتخار چوہدری نے ازخود اختیار کے ذریعے بہت سے معرکتہ الآراء فیصلے کیے ان فیصلوں میں کچھ مظلوموں کو انصاف ملا مگر اکثر فیصلوں سے ابہام پیدا ہوا، اس ضمن میں 60 سال مدت مکمل کرنے کے بعد دوبارہ ملازمتوں پر رکھے گئے افسروں کو برطرف کرنے کے فیصلہ خاصا مشہور ہوا۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے یف آئی اے کے ڈائریکٹر وسیم احمد کو ریٹائرمنٹ کے بعد اس عہدے پر تعینات کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیامگراپنے رجسٹرار ڈاکٹر فقیر محمد کو ریٹائرمنٹ کے بعد ملازمت پر رکھ لیا ، جب سابق چیف آف اسٹاف جنرل کیانی کے ملازمت میںتوسیع کے خاتمے کی خبر آئی تو ایک فرد نے عدالت سے رجوع کیا ،جسٹس چوہدری نے حکومت کا موقف سنے بغیر فیصلہ دیا کہ جنرل کیانی کو ان کے عہدے سے نہیں ہٹایا جاسکتا ۔ سندھ یونیورسٹی میں اساتذہ کے نمایندے پروفیسربدر سومرو نے سندھ کی یونیورسٹیوں میں تعینات 60 سال سے زائد عرصہ کے وائس چانسلروں کے تقرر کے خلاف ایک عرضداشت سپریم کورٹ میں داخل کی مگر اس عرضداشت کی شنوائی نہیں ہوئی ۔ اس طرح کے فیصلوں سے کچھ لوگ متاثر ہوئے اور باقی اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ مختلف اداروں نے اس فیصلے کو اپنی مرضی سے استعمال کیا۔
افتخار چوہدری نے دوبارہ اپنے عہدے پر بحال ہونے کے بعد لاپتہ افراد کے مقدمات کی مسلسل سماعت کی انھوں نے گزشتہ ہفتے لاپتہ افراد کے معاملے پر سخت ریمارکس پاس کیے ، وزیر دفاع اور اٹارنی جنرل کو بتایا کہ عورتیں ، بچے اور بوڑھے اپنے عزیزوں کی بازیابی کے لیے کوئٹہ سے پیدل مارچ کرتے ہوئے کراچی آگئے ہیں اور پریس کلب کے سامنے کیمپ لگائے بیٹھے ہیں۔ انھوں نے فرنٹیئر کانسٹبلری کے ڈی جی کو توہین عدالت کا نوٹس تک دیا مگر اپنی ملازمت کے آخری دن جو فیصلہ تحریر کیا وہ لاپتہ افراد کو بازیاب نہیں کراسکا تھا ، وکیلوں نے اس فیصلے کو مایوس کن قرار دیا ، یوں کوئٹہ سے پیدل کراچی آنے والے قافلے کے افراد اسلام آباد مارچ کرنے پر مجبورہوگئے ۔
جسٹس افتخار چوہدری کا ایک کمال مقدمات کی سماعت کے دوران ریمارکس پاس کرنا تھا یہ ریمارکس بریکنگ نیوز کی صورت میں فوراََ ٹی وی چینلز سے نشر ہونے لگے۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری کے دور پر تو بحث جاری رہے گی مگر نئے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے افتخار چوہدری کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس میں واضح کیا کہ ازخود نوٹس کے معاملے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔ امید ہے کہ اب ججوں کے ریمارکس کے بجائے ان کے فیصلے ان کی ترجمانی کریں گے اور نئے چیف جسٹس عدالتی نظام کو شفاف بنانے کے لیے اقدامات کریں گے۔