پاکستان کی سالمیت کو درپیش خطرات…

محتاط اندازے کے مطابق اب تک ڈرون حملوں میں تقریباً 4 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بنے۔۔۔


مجاہد حسین December 17, 2013

9/11 کے سانحے نے جہاں پوری دنیا کو دہشت گردی کے خطرات کے گھیرے میں لے کر ہراساں کیا وہیں پاکستان کو امریکا کا دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن دوست بنا کر مسائل میں الجھا دیا۔ امریکا کا خیال تھا کہ پاکستان ہی دہشت گردی کے خاتمے میں اس کا مددگار ثابت ہو گا اور بھرپور طریقے سے اس کی معاونت کرے گا۔ لیکن امریکا کی اس جنگ کے باعث نہ صرف پاکستان میں دہشت گردی کے خطرات بڑھ گئے بلکہ یہ جنگ اب پاکستان کی اپنی جنگ بن گئی ہے۔ بالخصوص وزیرستان اس کی زد میں رہا ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر امریکی مداخلت سے قبل تک ہمارے یہاں مثالی امن قائم رہا لیکن نام نہاد امریکی مجاہدین کی وجہ سے یہاں ڈکیتی، بھتہ اور اغوا برائے تاوان سمیت دیگر آلائشوں کی بھرمار ہو گئی۔

2004میں جارج بش دوم نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سرزمین پاکستان پر ڈرون حملے کرنا شروع کر دیے اور باراک اوباما کے امریکی صدر منتخب ہونے کے بعد ان حملوں کی شدت میں اضافہ ہوا اور 2010میں ان کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ اس سلسلے میں پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق اس سال 900 افراد ہلاک ہوئے۔ پاکستان نے مسلسل ان حملوں کی مذمت اور ان کی روک تھام کا مطالبہ بھی کیا۔ لیکن امریکی حکام کا دعویٰ ہے کہ ان حملوں کے باعث اسے کئی مرتبہ اہم کامیابیاں حاصل ہوئیں اور القاعدہ و طالبان کے اہم اور مرکزی کمانڈروں کو مارا ہے۔ 2005میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے ابو حمزہ ربیعہ، 2008 جنوری میں ابواللیث الہب جب کہ ترکمان، عرب اور پنجابی طالبان مارے گئے اور اسی سال القاعدہ کے اہم رہنما اور بم بنانے کے ماہر مدحت المصری المعروف ابو جناب المصری کو ہلاک کیا گیا۔ علاوہ ازیں فروری 2009 میں ازبک اور عرب جنگجو ڈرون حملوں میں مارے گئے۔

محتاط اندازے کے مطابق اب تک ڈرون حملوں میں تقریباً 4 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بنے جن میں 175 بچے، 535 سے زائد سویلین 2390 کے قریب دیگر افراد شامل ہیں جس پر عالمی سطح پر مذمت کی گئی اور حسن اتفاق یہ ہے کہ خود امریکا میں ان حملوں کے خلاف اس کی عوام نے احتجاجی مظاہروں کے ساتھ ساتھ ریلیاں نکالیں اور یاد داشتیں بھی اقوام متحدہ میں پیش کیں تا کہ اس کی روک تھام کے اقدامات کیے جائیں۔

12 سال سے جاری اس دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کی اندرونی سالمیت خطرے میں ہے جس کی وجہ سے وطن عزیز معاشی طور پر تباہ حال ہو گیا ہے۔ صنعتیں بین الاقوامی تجارت نہ ہونے کے باعث بند ہیں اور اسی وجہ سے مقامی سرمایہ کاروں کو بھی عدم تحفظ کے احساسات نے گھیر لیا ہے۔ وہ اپنے سرمائے سمیت بنگلہ دیش کا رخ کرنے پر مجبور ہیں جو ملکی معاملات سے لے کر عام آدمی کے لیے خطرے کا موجب ہے۔

اس تناظر میں بے روزگاری انتہا کو پہنچ گئی ہے اور دوسری جانب توانائی کا بحران عفریت بن کر ملک کے طول و عرض میں تباہی پھیلا رہا ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق دہشت گردی اور شدت پسندی کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو 80 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ دیکھا جائے تو بم دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ اور خودکش حملوں کی آلائشوں کی موجودگی سے چالیس ہزار کے قریب بے گناہ شہری اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے وابستہ افراد جان کی بازی ہار گئے۔ ڈرون حملوں کا مسئلہ پوری پاکستانی قوم اور ملک کی آزادی، خود مختاری، سلامتی کے علاوہ عزت و وقار کی بے قدری ہے۔ اس کا تعلق اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قوانین اور پاکستان کے دستور سے ہے جن کی دھجیاں ڈرون حملوں کے ذریعے بکھیری جا رہی ہیں۔ یہ ایک انسانی مسئلہ ہونے کے ساتھ ساتھ عالمی انسانی حقوق سے اس کا گہرا تعلق ہے۔ امریکی تحقیقاتی اداروں کی رپورٹس شایع ہوئیں جس کا حاصل یہ ہے کہ ڈرون حملوں سے ہلاک ہونے والے عالمی قانون، ملک کا دستور، عالمی انسانی حقوق و قانون اور انسانی معاشرے کے بنیادی آداب الغرض ہر پہلو سے ڈرون حملے ناجائز اور اس ملک اور اس کے باسیوں کے خلاف اقدام جنگ کے علاوہ کھلم کھلا ظلم کا ارتکاب ہے۔ ان حملوں کے لیے جواز فراہم کرنا ذہنی اور اخلاقی دیوالیہ پن کی دلیل ہے۔ نواز شریف نے امریکی وزیر دفاع سے پاکستان آمد پر ان حملوں کے بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈرون حملوں سے دہشت گردی کے خاتمے کی کوششوں پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ امریکا اور پاکستان کے درمیان بہتر تعلقات کے لیے ضروری ہے کہ ڈرون حملے بند کیے جائیں لیکن امریکا و دیگر قوتیں پاکستان میں قیام امن کی خواہاں نہیں ہیں۔ گو بظاہر وہ طالبان سے مذاکرات کی حمایت کر رہی ہیں۔

میاں صاحب نے اس وقت ملک میں بہتر صورتحال کے لیے مذاکرات کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے ملک بھر کی تمام جماعتوں کو اے پی سی میں مدعو کر کے آگاہی حاصل کی اور باہمی مشاورت سے مذاکرات کی جانب پیش قدمی کی لیکن امریکا نے دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے اس وقت طالبان کمانڈر حکیم اﷲ محسود کو ہلاک کر ڈالا کہ جب باہمی امن مذاکرات کے لیے حکومتی اور طالبان وفد ملاقات کرنے چلا تھا اس حملے نے امن و امان کی بہتری کے تمام تر اقدامات کو سبوتاژ کر ڈالا اور ثابت کر دیا کہ امریکی صدر کی خواہش ہے کہ پاکستانی قوم ہمیشہ مغلوب رہے اور آپس ہی میں لڑ مرے۔ تا کہ وہ مفادات کے حصول کے کا سلسلہ جاری و ساری رہے۔

صورت حال اس قدر ابتر ہے کہ جب بھی ڈرون حملوں کے خلاف وطن عزیز میں احتجاج کیا گیا ہمارے یہاں سیاسی سطح پر اختلافات ہی نظر آئے۔ مولانا فضل الرحمن اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے خصوصی طور پر خاموشی اختیار کی۔ دوسری جانب قوم کے احساس کو مجروح کرنے کے لیے وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ سرتاج عزیز نے جانے کس دھن میں آ کر کہہ دیا کہ امریکا مذاکرات کے درمیان ڈرون حملے کر دے گا جب کہ اگلے ہی دن صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے ہنگو میں ایک مدرسے پر حملہ کر دیا جس میں 6 افراد ہلاک ہوئے۔ قبائلی علاقہ جات سے باہر یہ پہلا حملہ تھا۔ اس غیر متوقع حملے کی زد میں حقانی نیٹ ورک کا ایک کمانڈر بھی آیا تھا۔ اس واقعے کے خلاف حزب اختلاف کی تمام بڑی جماعتوں نے حکومت اور امریکا پر سخت تنقید کی۔ انھوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ سرتاج عزیز نے کیسے یقین کر لیا کہ امریکا اس طرح کے اقدامات سے باز آ جائے گا جب کہ وہ کہتا ہے کہ مطلوب افراد کے حوالے سے کبھی بھی ان حملوں کو بند نہیں کرے گا۔ امریکی ڈالروں کی وجہ سے ملک بھر میں آگ لگی ہوئی ہے۔ لہٰذا اب عزت نفس یا ڈالروں میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا ہو گا۔

یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی نے ڈرون حملوں کے خلاف مہم کا آغاز کیا اور نیٹو سپلائی کو بند کرنے کا واضح موقف اختیار کرتے ہوئے پشاور کے رنگ روڈ پر دھرنے کا اہتمام کر رکھا ہے۔ جہاں تحریک انصاف سمیت دیگر جماعتوں کے کارکنان سراپا احتجاج ہیں۔ نیٹو سپلائی کی بندش کا یہ پہلا موقع نہیں بلکہ 26 نومبر 2011 کو سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی حملے میں 24 فوجی جوانوں کی شہادت کے بعد پاکستان نے امریکا کی معافی تک نیٹو سپلائی بند کی تھی۔ لیکن حملے تھے کہ نہ رکے جب کہ اس بار دفاع پاکستان کونسل، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے باقاعدہ حکمت عملی اختیار کی ہے کہ اس بار امریکا کو سبق سکھایا جائے گا۔ عمران خان نے ڈرون کے خلاف مہم کے آغاز پر 23 نومبر 2013کو جلسہ عام میں کہا کہ امریکا پاکستان کے موجودہ حکمرانوں کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہے جب تک ان حملوں کی مکمل بندش کی یقین دہانی نہیں کرائی جاتی، سپلائی بند رہے گی۔ جب کہ کئی سیاسی جماعتیں اس مہم کے خلاف ہیں اور ان کے سربراہان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدامات کے نتائج صفر ہی ہوں گے۔ انھیں سپلائی سے وابستہ ٹرانسپورٹرز اور دیگر افراد کے روزگار کی فکر بھی لاحق ہے۔ اس طرح سے اندازہ ہوتا ہے کہ جیسے ان بیانات کے درپردہ وہ عزائم ہیں جن کو زبان پر لاتے ہوئے وہ ڈرتے ہیں البتہ قوم ان کو بخوبی جانتی ہے۔

گزشتہ دنوں امریکی وزیر دفاع چیک ہیگل نے وزیر اعظم نواز شریف سے وزیر اعظم ہائوس میں ملاقات کے دوران براہ راست دھمکی دی کہ سپلائی بحال نہ کی گئی تو امداد کے حوالے سے پابندی کو برداشت کرنا ہو گا۔ اس کے بعد تو کوئی دوسری رائے نہیں ہونی چاہیے کہ امریکی مشن کیا ہے لہٰذا ملک میں امن کے قیام اور امریکی مداخلت کے خلاف جامع منصوبہ بندی کی جائے جب کہ ہمیں خدشہ ہے کہ ہنگو پر حملے کے بعد امریکا کا اگلا ہدف خدانخواستہ ہمارے نیو کلیئر اثاثوں کی جانب نہ ہو۔ حکومت اور تمام سیاسی جماعتوں کو پاکستان اور اس کے اثاثوں کی فکر کرنی چاہیے اور ان کا مقصد سیاست نہیں فقط ان اثاثوں کی حفاظت مقدم ہونا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں