فلسطین کی اقتصادی موت
فلسطین کے حصے پرقابض ناجائزصہیونی ریاست نے آج تک اپنی اس ذمے داری کو نہیں نبھایا جسکی وہ اوسلو معاہدے کے تحت پابند ہے
فلسطینیوں کی محدود خود مختاری کو تسلیم کرنے والی صہیونی ریاست اسرائیل نے آج تک دریائے اردن کے مغربی کنارے کے اکسٹھ فیصد قیمتی علاقے پر اپنا براہ راست تسلط برقرار رکھا ہے۔ اس ناجائز قبضے سے فلسطین کی اقتصادی موت واقع ہو رہی ہے۔ فلسطینی معیشت کو سالانہ تین ارب چالیس کروڑ ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ اس نقصان کا سبب مذکورہ بالا وہ اکسٹھ فیصد زمین جو قدرتی ذخائر سے مالامال ہے، پر اسرائیل کا تسلط ہے۔ اوسلو معاہدے کے تحت اس زمین کا کنٹرول مرحلہ وار فلسطینی انتظامیہ کے حوالے کیا جانا چاہیے تھا۔ یہ اہم کام انیس سو اٹھانوے تک پایہ تکمیل کو پہنچنا چاہیے تھا۔ لیکن فلسطین کے وسیع حصے پر قابض ناجائز صہیونی ریاست نے آج تک اپنی اس ذمے داری کو نہیں نبھایا جس کی وہ اوسلو معاہدے کے تحت پابند ہے۔ یادش بخیر کہ اوسلو معاہدے کے تحت مقبوضہ فلسطین کے جس علاقے پر فلسطینیوں کی حکومت کا حق تسلیم کیا گیا تھا وہ مغربی کنارہ اور غزہ تھے۔ ساڑھے5ہزار مربع کلومیٹر پر محیط مغربی کنارہ کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ایریا اے میں رہائشی شہری علاقہ اور ایریا بی میں قصبے اور دیہات شامل ہیں۔ اور انھیں جزیرہ نما علاقے کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔
یہ دو ایریاز کل مغربی کنارے کا 39فیصد ہیں، انھیں فلسطینی انتظامیہ کے اختیار میں دیا گیا ہے۔ یہ اختیار بھی عجیب تھا کہ یاسر عرفات مغربی کنارے میں زیر زمین بنکر میں چھپ کر اسرائیلیوں سے جان بچا رہے تھے (جو کہ علیحدہ موضوع ہے۔) مغربی کنارے کا 61فیصد علاقہ ایریا سی اسرائیلی کنٹرول میں ہی رہا۔ بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ اکسٹھ فیصد علاقہ یعنی ایریا سی، قدرتی ذخائر کی وجہ سے فلسطینیوں کی اقتصادی لائف لائن ہے۔ ایریا سی کی قسمت جاگی کہ امریکا کے ورلڈ بینک نے اکتوبر2013میں ایک مفصل دستاویز کا عنوان اس علاقے کو قرار دیا۔ ''ایریا سی اور فلسطینی اقتصاد کا مستقبل'' کے عنوان کے تحت اس رپورٹ میں نشان دہی کی گئی ہے کہ اس قیمتی زمین پر اسرائیلی کنٹرول کی وجہ سے فلسطین کی اقتصادی (یا معیشت) کو سالانہ تین ارب چالیس کروڑ ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ یعنی پندرہ سالوں میں اکیاون بلین ڈالر کا نقصان!ورلڈ بینک کی دستاویز کے مطابق فلسطینی اقتصادیات تبھی بہتر ہو سکتی ہے کہ جب اس ایریا سی کا کنٹرول ان کے پاس ہو۔ اس کے نتیجے میں ایک لاکھ تیس ہزار فلسطینیوں کو نئی نوکریاں ملیں گی۔ اس سے ان کی فی کس آمدنی میں پینتیس فیصد اضافہ ہو گا اور غیر ملکی قرضوں پر ان کا انحصار بھی کم ہو گا۔ دستاویز میں اعتراف کیا گیا ہے کہ اس علاقے پر اسرائیلی کنٹرول کے سبب فلسطینی معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ان مضر اثرات کا تذکرہ پچھلے عشرے میں جاری کی گئی ورلڈ بینک کی رپورٹوں میں کیا جاتا رہا ہے۔
ایریا سی کی تین سو پچپن مربع میل پر مشتمل زرعی اراضی پر کاشتکاری کے لیے189 ملین کیوبک میٹر پانی کی ضرورت ہے مگر صہیونی ریاست نے اوسلو معاہدے میں ایک سو اڑتیس ملین کیوبک میٹر پانی دینے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ اس ایریا میں بحیرہ مردار کے معدنی ذخائر بھی ہیں۔ خاص طور پر اس میں پوٹاش اور برومین کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ صہیونی ریاست اور اردن اس کی فروخت سے چار ارب بیس کروڑ ڈالر سالانہ کماتے ہیں۔ پتھر کے ذخائر کے علاوہ پونے بارہ مربع میل پر مشتمل قدرتی کانیں بھی ایریا سی میں پائی جاتی ہیں۔ رہائشی یا صنعتی مقاصد کے لیے تعمیراتی کام، سیاحت اور ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبوں کے ذریعے سوا دو ارب ڈالر سے ڈھائی ارب (یعنی بلین) ڈالر سالانہ کمائے جا سکتے ہیں۔ فزیکل انفرا سٹرکچر کے ذریعے بالواسطہ طور پر مزید یونیو کمایا جا سکتا ہے۔ ایک طرف ورلڈ بینک کی رپورٹ میں فلسطینی معیشت کی بہتری کے لیے مغربی کنارے کی61 فیصد اراضی پر فلسطینیوں کے عدم کنٹرول کی نشان دہی کی جا رہی ہے اور دوسری جانب صہیونی ریاست کا سرپرست امریکا فلسطینیوں کو سرمایہ کاری اور امداد کے نام پر مزید غیر ملکی اور بین الاقوامی قرضوں میں پھنسانے کی سازش پر عمل پیرا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے ذریعے سرمایہ کاری کے منصوبے کا اعلان پہلے ہی کر چکے۔ اب 'کیری پلان' کی اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے جس کے تحت نجی شعبے کی شراکت داری سے زرعی، سیاحت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ہائوسنگ، پانی، انرجی اور مصنوعات کے شعبوں میں تین سال میں چار بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے۔
فلسطینی انتظامیہ کے سابق وزیر اور فلسطین کی بیر زیت یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر علی جرباوی نے عربی میں لکھے گئے ایک مقالے میں انکشاف کیا تھا کہ امریکا کی جانب سے فلسطینی انتظامیہ کے مالی بجٹ کے لیے60 کروڑ ڈالر کی مالی امداد کی بھی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ کیری پلان کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس سے بیروزگاری کی شرح 28فیصد سے کم ہو کر8فیصد ہو جائے گی اور تنخواہوں میں چالیس فیصد تک کا اضافہ ہو جائے گا۔ امریکا کے صہیونی منصوبہ ساز یہ نہیں بتا رہے کہ اس سے فلسطین کی لولی لنگڑی انتظامیہ پر چڑھائے گئے قرضوں میں کتنا اضافہ ہو گا۔ فلسطینیوں اور ان کی حمایت کرنیوالے ممالک کو چاہیے کہ وہ ایسی حکمت عملی مرتب کریں جس سے مغربی کنارے کے ایریا سی کا کنٹرول فلسطینیوں کے حوالے کرنے پر ناجائز صہیونی ریاست مجبور ہو جائے۔ عرب لیگ، او آئی سی، غیر وابستہ تحریک (نام) اور انٹر پارلیمینٹری یونین کے ممالک اقوام متحدہ کو مجبور کریں کہ وہ مغربی کنارے کی اکسٹھ فیصد زمین ایریا سی کو صہیونی تسلط سے آزاد کروائے۔ فلسطینی انتظامیہ خود بین الاقوامی سفارت کاری کے ذریعے دنیا کے ممالک کو اس طرف متوجہ کرے۔ فلسطینی انتظامیہ صہیونی حکومت سے مذاکرات کو اس آزادی سے مشروط کر دے۔
دیگر شرائط بھی اپنی جگہ، لیکن اس اہم ایشو کو ایک لازمی شرط کے طور پر دشمن کے سامنے رکھا جائے۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ فلسطین کی مکمل آزادی کے مطالبے سے دست برداری کی جائے بلکہ قدم بہ قدم اس حتمی ہدف کے حصول کے لیے بھی حرکت کی جائے۔اس کے لیے فلسطینی عوام اور بالخصوص نوجوان تحریک انتفاضہ کا تیسرا مرحلہ شروع کریں۔ ان کا فوری ہدف ایریا سی کی آزادی ہو۔ فلسطین کی مقاومتی تنظیمیں اس پر غور کریں کہ کس طرح اسرائیل کو مجبور کیا جائے کہ وہ اس قیمتی فلسطینی زمین کو چھوڑ دے۔ یہ یاد رکھا جائے کہ فلسطینیوں کی مسلح مزاحمت اور غیر مسلح عوامی انتفاضہ نے ناجائز صہیونی ریاست اور اس کے سرپرستوں کو مجبور کیا کہ وہ بائیس فیصد علاقے پر ہی سہی لیکن فلسطینیوں کی محدود آزادی و خود مختاری کو تسلیم کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ فلسطینی انتظامیہ صہیونیوں سے مذاکرات کو بیت المقدس کی آزادی، ناجائز صہیونی بستیوں کے خاتمے اور تمام غیر ملکی و بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگی کے خاتمے سے بھی مشروط کرے۔
فلسطینی انتظامیہ کو چاہیے کہ پندرہ سالوں میں ایریا سی پر عدم اختیار کے باعث انھیں جو51 بلین ڈالر کا نقصان پہنچایا گیا ہے اس کی تلافی کا بھی مطالبہ کرے۔ خاص طور پر امریکا اور روس جو اوسلو معاہدے کے بین الااقوامی ضامن ہیں انھیں چاہیے کہ فلسطینیوں کو ان کے51 بلین ڈالر لوٹانے کے لیے اسرائیل پر دبائو ڈالیں۔ ورلڈ بینک کی دستاویز سے معلوم ہوا کہ ایریا سی واقعاً فلسطینی اقتصادیات کے بہتر مستقبل کے لیے ضروری ہے۔ فلسطینی انتظامیہ اس کی تعمیر و ترقی کے لیے ابھی سے منصوبہ سازی شروع کرے تا کہ جیسے ہی اس کا کنٹرول حاصل ہو تو فوری طور پر ترقیاتی منصوبوں کے لیے اس کے پاس پیپر ورک مکمل ہو۔ دنیا بھر میں فلسطین کی حامی تنظیمیں اس اہم ایشو کے بارے میں عالمی رائے عامہ ہموار کریں تا کہ جلد از جلد قدرتی ذخائر سے مالا مال فلسطینیوں کی یہ قیمتی زمین ان کے استعمال میں آ سکے۔
یہ دو ایریاز کل مغربی کنارے کا 39فیصد ہیں، انھیں فلسطینی انتظامیہ کے اختیار میں دیا گیا ہے۔ یہ اختیار بھی عجیب تھا کہ یاسر عرفات مغربی کنارے میں زیر زمین بنکر میں چھپ کر اسرائیلیوں سے جان بچا رہے تھے (جو کہ علیحدہ موضوع ہے۔) مغربی کنارے کا 61فیصد علاقہ ایریا سی اسرائیلی کنٹرول میں ہی رہا۔ بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ اکسٹھ فیصد علاقہ یعنی ایریا سی، قدرتی ذخائر کی وجہ سے فلسطینیوں کی اقتصادی لائف لائن ہے۔ ایریا سی کی قسمت جاگی کہ امریکا کے ورلڈ بینک نے اکتوبر2013میں ایک مفصل دستاویز کا عنوان اس علاقے کو قرار دیا۔ ''ایریا سی اور فلسطینی اقتصاد کا مستقبل'' کے عنوان کے تحت اس رپورٹ میں نشان دہی کی گئی ہے کہ اس قیمتی زمین پر اسرائیلی کنٹرول کی وجہ سے فلسطین کی اقتصادی (یا معیشت) کو سالانہ تین ارب چالیس کروڑ ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ یعنی پندرہ سالوں میں اکیاون بلین ڈالر کا نقصان!ورلڈ بینک کی دستاویز کے مطابق فلسطینی اقتصادیات تبھی بہتر ہو سکتی ہے کہ جب اس ایریا سی کا کنٹرول ان کے پاس ہو۔ اس کے نتیجے میں ایک لاکھ تیس ہزار فلسطینیوں کو نئی نوکریاں ملیں گی۔ اس سے ان کی فی کس آمدنی میں پینتیس فیصد اضافہ ہو گا اور غیر ملکی قرضوں پر ان کا انحصار بھی کم ہو گا۔ دستاویز میں اعتراف کیا گیا ہے کہ اس علاقے پر اسرائیلی کنٹرول کے سبب فلسطینی معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ان مضر اثرات کا تذکرہ پچھلے عشرے میں جاری کی گئی ورلڈ بینک کی رپورٹوں میں کیا جاتا رہا ہے۔
ایریا سی کی تین سو پچپن مربع میل پر مشتمل زرعی اراضی پر کاشتکاری کے لیے189 ملین کیوبک میٹر پانی کی ضرورت ہے مگر صہیونی ریاست نے اوسلو معاہدے میں ایک سو اڑتیس ملین کیوبک میٹر پانی دینے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ اس ایریا میں بحیرہ مردار کے معدنی ذخائر بھی ہیں۔ خاص طور پر اس میں پوٹاش اور برومین کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ صہیونی ریاست اور اردن اس کی فروخت سے چار ارب بیس کروڑ ڈالر سالانہ کماتے ہیں۔ پتھر کے ذخائر کے علاوہ پونے بارہ مربع میل پر مشتمل قدرتی کانیں بھی ایریا سی میں پائی جاتی ہیں۔ رہائشی یا صنعتی مقاصد کے لیے تعمیراتی کام، سیاحت اور ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبوں کے ذریعے سوا دو ارب ڈالر سے ڈھائی ارب (یعنی بلین) ڈالر سالانہ کمائے جا سکتے ہیں۔ فزیکل انفرا سٹرکچر کے ذریعے بالواسطہ طور پر مزید یونیو کمایا جا سکتا ہے۔ ایک طرف ورلڈ بینک کی رپورٹ میں فلسطینی معیشت کی بہتری کے لیے مغربی کنارے کی61 فیصد اراضی پر فلسطینیوں کے عدم کنٹرول کی نشان دہی کی جا رہی ہے اور دوسری جانب صہیونی ریاست کا سرپرست امریکا فلسطینیوں کو سرمایہ کاری اور امداد کے نام پر مزید غیر ملکی اور بین الاقوامی قرضوں میں پھنسانے کی سازش پر عمل پیرا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے ذریعے سرمایہ کاری کے منصوبے کا اعلان پہلے ہی کر چکے۔ اب 'کیری پلان' کی اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے جس کے تحت نجی شعبے کی شراکت داری سے زرعی، سیاحت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ہائوسنگ، پانی، انرجی اور مصنوعات کے شعبوں میں تین سال میں چار بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے۔
فلسطینی انتظامیہ کے سابق وزیر اور فلسطین کی بیر زیت یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر علی جرباوی نے عربی میں لکھے گئے ایک مقالے میں انکشاف کیا تھا کہ امریکا کی جانب سے فلسطینی انتظامیہ کے مالی بجٹ کے لیے60 کروڑ ڈالر کی مالی امداد کی بھی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ کیری پلان کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس سے بیروزگاری کی شرح 28فیصد سے کم ہو کر8فیصد ہو جائے گی اور تنخواہوں میں چالیس فیصد تک کا اضافہ ہو جائے گا۔ امریکا کے صہیونی منصوبہ ساز یہ نہیں بتا رہے کہ اس سے فلسطین کی لولی لنگڑی انتظامیہ پر چڑھائے گئے قرضوں میں کتنا اضافہ ہو گا۔ فلسطینیوں اور ان کی حمایت کرنیوالے ممالک کو چاہیے کہ وہ ایسی حکمت عملی مرتب کریں جس سے مغربی کنارے کے ایریا سی کا کنٹرول فلسطینیوں کے حوالے کرنے پر ناجائز صہیونی ریاست مجبور ہو جائے۔ عرب لیگ، او آئی سی، غیر وابستہ تحریک (نام) اور انٹر پارلیمینٹری یونین کے ممالک اقوام متحدہ کو مجبور کریں کہ وہ مغربی کنارے کی اکسٹھ فیصد زمین ایریا سی کو صہیونی تسلط سے آزاد کروائے۔ فلسطینی انتظامیہ خود بین الاقوامی سفارت کاری کے ذریعے دنیا کے ممالک کو اس طرف متوجہ کرے۔ فلسطینی انتظامیہ صہیونی حکومت سے مذاکرات کو اس آزادی سے مشروط کر دے۔
دیگر شرائط بھی اپنی جگہ، لیکن اس اہم ایشو کو ایک لازمی شرط کے طور پر دشمن کے سامنے رکھا جائے۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ فلسطین کی مکمل آزادی کے مطالبے سے دست برداری کی جائے بلکہ قدم بہ قدم اس حتمی ہدف کے حصول کے لیے بھی حرکت کی جائے۔اس کے لیے فلسطینی عوام اور بالخصوص نوجوان تحریک انتفاضہ کا تیسرا مرحلہ شروع کریں۔ ان کا فوری ہدف ایریا سی کی آزادی ہو۔ فلسطین کی مقاومتی تنظیمیں اس پر غور کریں کہ کس طرح اسرائیل کو مجبور کیا جائے کہ وہ اس قیمتی فلسطینی زمین کو چھوڑ دے۔ یہ یاد رکھا جائے کہ فلسطینیوں کی مسلح مزاحمت اور غیر مسلح عوامی انتفاضہ نے ناجائز صہیونی ریاست اور اس کے سرپرستوں کو مجبور کیا کہ وہ بائیس فیصد علاقے پر ہی سہی لیکن فلسطینیوں کی محدود آزادی و خود مختاری کو تسلیم کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ فلسطینی انتظامیہ صہیونیوں سے مذاکرات کو بیت المقدس کی آزادی، ناجائز صہیونی بستیوں کے خاتمے اور تمام غیر ملکی و بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگی کے خاتمے سے بھی مشروط کرے۔
فلسطینی انتظامیہ کو چاہیے کہ پندرہ سالوں میں ایریا سی پر عدم اختیار کے باعث انھیں جو51 بلین ڈالر کا نقصان پہنچایا گیا ہے اس کی تلافی کا بھی مطالبہ کرے۔ خاص طور پر امریکا اور روس جو اوسلو معاہدے کے بین الااقوامی ضامن ہیں انھیں چاہیے کہ فلسطینیوں کو ان کے51 بلین ڈالر لوٹانے کے لیے اسرائیل پر دبائو ڈالیں۔ ورلڈ بینک کی دستاویز سے معلوم ہوا کہ ایریا سی واقعاً فلسطینی اقتصادیات کے بہتر مستقبل کے لیے ضروری ہے۔ فلسطینی انتظامیہ اس کی تعمیر و ترقی کے لیے ابھی سے منصوبہ سازی شروع کرے تا کہ جیسے ہی اس کا کنٹرول حاصل ہو تو فوری طور پر ترقیاتی منصوبوں کے لیے اس کے پاس پیپر ورک مکمل ہو۔ دنیا بھر میں فلسطین کی حامی تنظیمیں اس اہم ایشو کے بارے میں عالمی رائے عامہ ہموار کریں تا کہ جلد از جلد قدرتی ذخائر سے مالا مال فلسطینیوں کی یہ قیمتی زمین ان کے استعمال میں آ سکے۔