کراچی کے مسائل حکومت کے لیے چیلنج

پاکستان میں معاشی و اقتصادی ترقی کے پوٹینشل سے استفادہ نہیں کیا جا سکا۔


Editorial September 20, 2020
پاکستان میں معاشی و اقتصادی ترقی کے پوٹینشل سے استفادہ نہیں کیا جا سکا۔ فوٹو: فائل

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ حکومت توانائی خصوصاً بجلی کے شعبہ میں اصلاحات کے عمل کی جلد تکمیل یقینی بناتے ہوئے عوام کو سستی اور بلاتعطل بجلی کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے گی۔

جمعہ کو یہاں عوام کو سستی اور بلاتعطل بجلی کی فراہمی کے حوالے سے جاری اصلاحات کے عمل کے جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ توانائی کا شعبہ ملک کی معاشی و اقتصادی ترقی میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ بد قسمتی سے ماضی میں بجلی کے شعبے میں بدلتے وقت اور گھریلو و صنعتی صارفین کی بڑھتی ضروریات کے پیش نظر اصلاحات کے عمل پر کوئی توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے پاکستان میں معاشی و اقتصادی ترقی کے پوٹینشل سے استفادہ نہیں کیا جا سکا۔

اجلاس میں وفاقی وزراء شبلی فراز، اسد عمر، عمر ایوب، معاون خصوصی ندیم بابر اور سینئر افسران شریک تھے، معاشیات اور توانائی کے شعبوں میں تحقیق کے عمل سے وابستہ بین الاقوامی ماہرین جن میں لندن اسکول آف اکنامکس کے پروفیسر ڈاکٹر رابن برجس اور شکاگو یونیورسٹی کے پروفیسر مائیکل گرین اسٹون شامل تھے نے اجلاس میں ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔ معاشیات اور توانائی کے شعبے سے منسلک ماہرین نے تجاویز پیش کیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے ماہرین کی پاکستان میں بجلی کے شعبہ کے حوالہ سے تحقیق کو سراہتے ہوئے کہا کہ حکومت ماہرین کو اصلاحاتی عمل پر عملدرآمد کے حوالے درکار بین الوزارتی مشاورت اور تحقیق کے ضمن میں ہر ممکن تعاون فراہم کرے گی۔

یہ صائب تجاویز تھیں جو وزیر اعظم تک پہنچیں، ایسا ہی ایک جائزہ ایک سینئر کالم نویس نے ملک کے شہروں میں لائن لاسز کے حوالے سے لیا ہے جس کے مضمرات ارباب حکومت اور پاور ڈویژن کے ماہرین کے لیے چشم کشا ہوسکتے ہیں، انھوں نے انکشاف کیا کہ گزشتہ سال پاکستان بھر میں بجلی کے لائن لاسز اور دیگر بے ضابطگیوں کو چھپانے کے لیے صارفین کو اوور بلنگ کی گئی، حکومتی سطح پر اس کا نوٹس بھی لیا گیا، اس کے باوجود سسٹم کی بہتری کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے، یہ سوالات بجلی کے نظام کی خستہ حالی پر نوحہ کناں ہیں اور کہاجارہا ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں بھی بجلی چوری کم نہیں ہوئی ہے۔

یہ باتیں بھی عام ہیں وہ صارفین جو بجلی کا بل پابندی سے ادا کرتے ہیں ان پر اوور بلنگ ڈال کر نقصان پورا کیا جاتا ہے، ستم ظریفی یہ ہے کہ حکومت بھی یہ اعتراف کرتی ہے کہ بجلی مہنگی اور عام آدمی کے لیے اذیت ناک اور ناقابل برداشت ہوچکی ہے ۔ سابقہ حکومت کے دور میں تو پی ٹی آئی کا تو نعرہ تھا کہ بجلی چوری ختم کرنی ہے تو نیک اور ایماندار حکمراں لانا ہوںگے۔

بلاشبہ موجود حکومت بھی صورتحال کو کنٹرول کرنے لیے جدوجہد کررہی ہے لیکن بعض حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ موجودحکومت کے دور میں ریکوری میں بھی کمی آئی ہے اور بجلی کی قیمت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ موجودہ حکومت کو بجلی کے ٹرانشمیشن اور مارکیٹنگ سسٹم کی ہر خرابی کو ماضی کے حکمرانوں پر ڈالنے کا سلسلہ اب بند کرکے جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا کیونکہ اب سسٹم کی فوری اصلاح کی ضرورت ہے، یہ ایک دردناک حقیقت ہے کہ اوور بلنگ پچھلی حکومتوں میں بھی ہوئی مگر اس وقت بھی صرف نوٹس لینے سے زیادہ کوئی ٹھوس اقدام نہیں ہوا۔

اس وجہ سے تب بھی بجلی صارفین پر اووربلنگ کا بوجھ کم نہیں ہو اور نہ بجلی چوری پر قابو پایا جاسکا، صارفین کو محض اووربلنگ کا مسئلہ ہی درپیش نہیں ہے بلکہ کئی دیگر مسائل بھی ہیں، مثلاً بجلی کے میٹروں کی خرابی پر موصولہ detectable بل پر صارفین کو تکنیکی شکایات کا ایک پلندہ تھمایا جاتا ہے جس کی تفصیل بھی خاصی درد انگیز ہے، بہرحال حکومت کو اس حقیقت کا تو علم ہی ہوگا کہ اوور بلنگ بھی ایک جرم ہی ہے، انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ حکومت ان تمام صارفین کو اووربلنگ کی مد میں وصول کی گئی تمام رقم واپس کرنی چاہیے، پاور جنریشن اور بلنگ شعبہ کے حکام سنجیدگی سے حالات کا جائزہ لیں، بجلی صارفین کو سہولت ملے گی تو یہ بات بھی حکومت کے کریڈٹ میں جائے گی۔

بجلی کی اوور بلنگ کے ساتھ ساتھ ان دنوں کراچی کو گیس لوڈشیڈنگ کا بھی سامنا ہے، گھریلو گیس صارفین کی شکایات کے ازالہ کا کوئی انتظام نہیں، کوئی نہیں جانتا کہ کب گیس جائے گی، کب آئے گی، اس کا ایک نظام الاوقات ہونا چاہیے، جوابدہ مینجمنٹ ہو تاکہ دو کروڑ کی آبادی والے ملک کے سب سے بڑے شہر کے مکینوں، تجارتی مراکز، صنعتی یونٹوں، چائے خانوں، ہوٹلز اور ریسٹورنٹس میں گیس کی فراہمی یا غیر اعلانیہ تعطل پر بے یقینی کا خاتمہ ہو، اندرون سندھ بھی گیس اور بجلی اوور بلنگ کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے، سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور تحریک انصاف کے رہنما فردوس شمیم نقوی کراچی میں بجلی کے ساتھ گیس کے بحران پر خود اپنی ہی وفاقی حکومت پر برس پڑے۔

فردوس شمیم نقوی نے کہا کہ پاکستان میں چاہے حکومت (ن) لیگ کی ہو یا تحریک انصاف کی، اس شہر میں بجلی اورگیس کا بحران ختم نہیں ہوسکا، وزیر اعظم صاحب بھی سنیں، وزیر توانائی عمر ایوب بھی سنیں اور ندیم بابر بھی سنیں۔ میڈیا کے مطابق گیس کے کم پریشر کا مسئلہ حل کرنے کے لیے 2.6 ارب روپے کے تخمینہ لاگت سے مردان سے چارسدہ اور چارسدہ سے پشاور نئی ٹرانسمیشن لائن بچھائی جا رہی ہے جس پر رواں سال نومبر میں کام شروع کر دیا جائے گا۔ یہ بات وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کی زیر صدارت ایک اجلاس میں بتائی گئی۔

انھوں نے سردیوں میں گیس کے کم پریشر کا مسئلہ ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے اور صوبے کے شمالی علاقوں میں گیس کی فراہمی کو ناگزیر قرار دیا۔ ادھر ایک خبر میں بتا گیا ہے کہ وفاقی وزیر منصوبہ بنی اسد عمر نے کہا کہ بجلی و گیس کی پائیدار، سستی فراہمی معاشی و اقتصادی ترقی کی بنیاد ہے، اس سلسلے میں متعدد اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے بلوچستان میں توانائی کی مجموعی صورتحال کے جائزہ اجلاس کی بھی صدارت کی، اجلاس میں بلوچستان میں جاری توانائی کے منصوبوں کی پیشرفت سے آگاہ کیا گیا۔

حرف آخر، وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت جمعہ کو سینما انڈسٹری کی بحالی کے حوالے سے بھی اجلاس ہوا جس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا وطن عزیز اور پاکستانی قوم کے منفرد تشخص کو اندرون ملک اور عالمی سطح پر اجاگر کرنا، پاکستانیت کا فروغ اور نوجوان نسل کو قومی ورثے سے روشناس کرانا موجودہ حکومت کی اوّلین ترجیح ہے۔ عوام کو معیاری اور سستی تفریح کی فراہمی کے ساتھ ساتھ سینما معاشرتی اقدار اور قومی تہذیب و تمدن کو اجاگر کرنے کے ضمن میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

وزیر اعظم نے سینما انڈسٹری کی بحالی اور مقامی سطح پر معیاری فلموں کی تیاری کے حوالے سے مراعاتی پیکیج دینے کی تجاویز پر تمام متعلقہ وزارتوں اور محکموں کو روڈ میپ تیار کرنے کی ہدایت کی۔ لیکن اگر جائزہ لیا جائے تو فلم انڈسٹری کی ترقی اور انٹرٹینمنٹ کے شعبے کی بحالی کا تعلق بھی بجلی کی بلا تعطل فراہمی کے سسٹم سے ہے، کراچی میں ایک زمانہ تھا کہ 60-70 سینما موجود تھے، تین فلم اسٹوڈیوز ایسٹرن اسٹوڈیو، ماڈرن اسٹوڈیو ون اور انٹرنیشنل اسٹوڈیو کام کر رہے تھے، ماہرین اور فلمی نقادوں کے مطابق کراچی کی سدا بہار ثقافتی چہل پہل شہر کی رونقوں اور بجلی کے قمقموں اور سنیماؤں کے تین شوز کے باعث تھی، مگر جب بجلی کا نظام متاثر ہوا اور شہر کو اندھیروں نے اچک لیا تو رفتہ رفتہ پہلے سنیما گھر بند ہونے اور پھر ٹوٹنے لگے، پھر فلم اسٹوڈیوز کی رونقیں ختم ہوئیں،فلم اسٹارز لاہور منتقل ہوئے اور کراچی میں انٹرٹینمنٹ انڈسٹری ٹھپ ہوگئی۔

اب ضرورت کراچی کی مجموعی اقتصادی و ثقافتی بحالی کی ہے، ایک فل اسکیل انفرااسٹرکچر اور بجلی و گیس سمیت مکمل معاشی ٹریکل ڈاؤن کی ہے۔ ارباب اختیار 11سو ارب کے پیکیج پر عملدرآمد کو جلد یقینی بنائیں، کراچی کے غم کو شیئر کرنے میں وفاق و سندھ سمیت دیگر صوبائی حکومتیں بھی کشادہ دلی کا ثبوت دیں۔ کراچی کے مسائل حل ہو جائیں تو اس کا واضح مطلب یہی ہو گا کہ پورے پاکستان کی معیشت رواں ہو جائے گی۔ کراچی کے مسائل حل نہ ہوئے تو اسلام آباد میں بیٹھ کر جتنی مرضی پالیسیاں بنا لیں لیکن ملکی معیشت میں بہتری نہیں آئے گی۔ یہ کراچی ہی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے خزانے میں بھاری محصولات جمع ہوتے ہیں۔

اس لیے وقت کا تقاضا یہی ہے کہ حکومت کی ساری توجہ کراچی کے مسائل حل کرنے پر ہونی چاہیے او راس مقصد کے حصول کے لیے کسی قسم کے نسلی، لسانی، علاقائی اور صوبائی تعصب کی پروا۔ نہ کی جائے۔ پاکستان کے دشمنوں نے کراچی کو برباد کرنے کے لیے یہاں لسانی اور نسلی فسادات بھی کرائے اور صوبائی منافرت پھیلا کر اپنی سیاست چمکانے کی بھی کوشش کی۔ وفاق نے بھی اپنے مفادات کے لیے چھوٹے چھوٹے سیاسی گروپوں کو نظرانداز کیا جس کی وجہ سے کراچی مسائلستان بن گیا۔ اب ایسی لاپروائی کی گنجائش باقی نہیں ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں