خفیہ معاہدہ
بھارت نے ان شرائط کو بخوشی قبول کرلیا ہے اس لیے کہ اس طرح وہ چین کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست سے بچ گیا ہے۔
ایسا ماحول بن گیا تھا اور لگ یہ رہا تھا کہ کسی بھی وقت طبل جنگ بجنے والا ہے۔ چین بھارت پر حملہ کرکے مودی کے غرورکو خاک میں ملانے والا تھا کہ اسی دوران ماسکو میں چینی اور بھارتی وزرائے خارجہ کے درمیان بات چیت شروع ہوئی اورکیا خفیہ معاملات طے پائے کہ چین بالکل ٹھنڈا پڑگیا۔ جنگ کے بادل چھٹ گئے اور بھارتی میڈیا فتح کے ترانے گانے لگا۔
بھارتی وزراء اور بی جے پی کے لیڈرز چینی خوف ختم ہونے پر مودی کو مبارکباد دینے لگے۔ ادھر مودی اپنی سینا کی نام نہاد بہادری پر انھیں شاباش دینے لگا مگر حقیقت یہ ہے کہ چینی فوجیں لداخ کے ایک وسیع علاقے میں گھس چکی ہیں، وہ گلوان وادی سے لے کرکئی فنگرہلز پر قبضہ جما چکی ہیں اور اب معاہدہ ہونے کے بعد بھی وہ وہاں ہی موجود ہیں۔ چین کا استدلال ہے کہ یہ سارا اس کا اپنا علاقہ ہے جس سے وہ ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ چین شاید ایسا نہ کرتا اگر مودی اپنی ہوشیاری دکھاتے ہوئے چینی سرحد سے ملحق نئی سڑکیں، نئی چوکیاں اور ہوائی اڈے تعمیر نہ کرتا۔ اس نے ایک ایسی سڑک بھی تعمیر کرلی ہے جو کارگل اور سیاچن سے ہوتی ہوئی قراقرم ہائی وے تک جاتی ہے۔ مودی اس راستے کے ذریعے گلگت بلتستان پر حملہ کرکے سی پیک کے راستے کو تہس نہس کرنا چاہتا تھا، اس سلسلے میں اسے ٹرمپ کی پشت پناہی حاصل تھی۔
امریکا چین کے گوادر بندرگاہ کو استعمال کرنے کے سخت خلاف ہے وہ تو بحرہند میں بھی اس کے تجارتی جہازوں کے راستے کو روک کر اس کی تجارت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ مودی گلگت بلتستان پر حملہ کرنے ہی والا تھا کہ چین نے لداخ کی سرحد میں اپنی فوجیں اتار دیں۔ مودی اس اچانک چینی یلغارکو دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا، اس لیے کہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ چینی صدر جن کی دوستی پر وہ بے حد نازاں تھا۔
بھارت کے خلاف ایسی کارروائی کرسکتے ہیں، پھر مودی گلگت بلتستان پر حملہ کیا کرتا، چینی فوجوں کی لداخ میں مزید پیش قدمی روکنے میں لگ گیا۔ اس نے بھی اپنی فوجوں کو چینی فوجوں کے مقابل تعینات کرنا شروع کردیا۔ لداخ کے چھینے گئے علاقوں کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش میں اس کے بیس سے زیادہ فوجی مارے گئے اور دو درجن زخمی ہوگئے۔ چینی فوجوں کو پیچھے ہٹانے میں ناکامی کے بعد اس نے امریکا سے چین کے خلاف مدد مانگی مگر واشنگٹن نے مکمل خاموشی اختیار کرلی۔
امریکا سے مایوس ہوکر اس نے روس کا دروازہ کھٹکھٹایا مگر وہاں سے بھی کوئی جواب نہ ملا۔ پھر وزیر دفاع کو روس بھیجا مگر وہاں چینی وزیر دفاع نے نہ صرف خوب ڈانٹ پلائی بلکہ جن علاقوں میں چین داخل ہوا تھا انھیں خالی کیسے کرتا وہ تو اس کے اپنے ہی علاقے تھے۔ اس کے بعد مودی نے ایران اور سعودی عرب کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کی، مگر بھلا کون سنتا۔ مودی نے بالآخر اپنے وزیر خارجہ جے شنکرکو شنگھائی تعاون تنظیم میں شرکت کے بہانے ماسکو بھیجا جہاں چینی وزیر خارجہ پہلے سے موجود تھے۔
بھارت روس کو پہلے سے دہائی دے رہا تھا کہ وہ اس کی چین سے کسی طرح مفاہمت کرادے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی نے چینی وزیر خارجہ سے میٹنگ کرکے انھیں ان کی شرائط پر بھارت سے مفاہمت کے لیے تیار کرلیا۔ اس کے بعد چینی اور بھارتی وزرائے خارجہ کے درمیان میٹنگ ہوئی جس میں بظاہر پانچ نکاتی امن معاہدہ طے پا گیا ہے مگر اس کے علاوہ ایک خفیہ معاہدہ بھی ہوا ہے جس سے بھارتی عوام کو بے خبر رکھا جا رہا ہے۔
اس خفیہ معاہدے کی شرائط کچھ اس طرح ہیں۔ (1)۔ چین لداخ کے جس تین ہزار مربع کلومیٹر علاقے میں داخل ہو گیا ہے اس سے واپس نہیں جائے گا۔ (2)۔ بھارت چینی سرحد کے قریب اب کبھی کوئی نئی سڑک اور چوکی تعمیر نہیں کرے گا۔ (3)۔ بھارت سی پیک کو نقصان پہنچانے کا خیال دل سے نکال دے گا۔ (4)۔بھارت امریکی بلاک کا حصہ نہیں بنے گا۔ (5)۔اپنے میڈیا کی چین کے خلاف پروپیگنڈا مہم ختم کرائے گا۔ (6)۔بحرہند میں چینی تجارتی جہازوں کے لیے رکاوٹ نہیں بنے گا۔ (7)۔ جلد جموں کشمیر میں پھر سے بھارتی آئین کی شق 370 بحال کردے گا۔ (8)۔ بھارت جنگی تیاریاں ختم کرکے اپنی فوجوں کو سرحد سے واپس بلا لے گا۔ ان تمام شرائط پر بھارت کو عمل درآمد کا پابند بنا دیا گیا ہے۔ روس نے ضامن کا کردار ادا کیا ہے۔
بھارت نے ان شرائط کو بخوشی قبول کرلیا ہے اس لیے کہ اس طرح وہ چین کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست سے بچ گیا ہے۔ دراصل بھارت کی فوجی تیاری مکمل نہیں تھی۔ اس کے پاس نہ تو چین کے مقابلے کے فوجی ہتھیار اور ٹیکنالوجی ہے پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کی فوج چینی فوج جیسی دلیر نہیں ہے۔
اس وقت بھارت بری طرح کورونا کی لپیٹ میں ہے۔ کورونا سے روزانہ ہزاروں افراد ہلاک ہو رہے ہیں۔ مریضوں کا علاج گائے کے پیشاب اورگوبر سے کرنے کی وجہ سے کورونا تیزی سے پھیل رہا ہے۔ کورونا کے علاوہ مودی کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے بھارتی معیشت کا بھٹہ بیٹھ گیا ہے۔ گوکہ مودی نے اپنی زمین بھی کھودی ہے اور ذلت آمیز شرائط کو بھی قبول کرلیا ہے مگر بھارت کے موجودہ گمبھیر حالات میں مودی کے لیے چین سے مفاہمت کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ پھر بھی اس کے لیے یہ سودا مہنگا نہیں ہے کیونکہ اس طرح مودی کا بھرم بھی قائم رہ گیا ہے۔
چین کے ساتھ جو معاہدہ منظر عام پر آیا ہے عوام تو اسی سے واقف ہیں انھیں خفیہ معاہدے کی توکوئی خبر نہیں چنانچہ مودی اپنے عوام سے فخریہ کہہ سکتا ہے کہ اس نے چین سے بغیر لڑے جنگ جیت لی ہے پھر خفیہ معاہدے کی اگر عوام کو کسی طرح خبر ہو بھی جاتی ہے تو بھی مودی فخر سے کہہ سکتا ہے کہ اگر ہم نے اپنی کچھ زمین کھو بھی دی ہے تو کیا ہوا ایسا پہلی دفعہ تو نہیں ہوا اس سے پہلے 1962 کی جنگ میں بھارت اس سے کئی گنا زیادہ زمین چین کے حوالے کر چکا ہے جس میں اکسائی چین کا علاقہ بھی شامل ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا بھارت چین سے مفاہمت کے بعد چین کے خوف سے آزاد ہو گیا ہے تو ایسا نہیں ہے۔ لگتا ہے چین کا خوف کبھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔ البتہ اب مودی اپنی خفت مٹانے کے لیے پاکستان کو جنگ کی دھمکیاں دیتا رہے گا اور لائن آف کنٹرول پر بلا اشتعال فائرنگ کراتا رہے گا۔ ہو سکتا ہے نام نہاد سرجیکل اسٹرائیک کا ڈرامہ بھی رچانے کی کوشش کرے۔ کاش کہ ہم نے مودی کو ترکی بہ ترکی جواب دیا ہوتا تو آج وہ ہم سے بھی چین کی طرح خوفزدہ رہتا۔
بھارتی وزراء اور بی جے پی کے لیڈرز چینی خوف ختم ہونے پر مودی کو مبارکباد دینے لگے۔ ادھر مودی اپنی سینا کی نام نہاد بہادری پر انھیں شاباش دینے لگا مگر حقیقت یہ ہے کہ چینی فوجیں لداخ کے ایک وسیع علاقے میں گھس چکی ہیں، وہ گلوان وادی سے لے کرکئی فنگرہلز پر قبضہ جما چکی ہیں اور اب معاہدہ ہونے کے بعد بھی وہ وہاں ہی موجود ہیں۔ چین کا استدلال ہے کہ یہ سارا اس کا اپنا علاقہ ہے جس سے وہ ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ چین شاید ایسا نہ کرتا اگر مودی اپنی ہوشیاری دکھاتے ہوئے چینی سرحد سے ملحق نئی سڑکیں، نئی چوکیاں اور ہوائی اڈے تعمیر نہ کرتا۔ اس نے ایک ایسی سڑک بھی تعمیر کرلی ہے جو کارگل اور سیاچن سے ہوتی ہوئی قراقرم ہائی وے تک جاتی ہے۔ مودی اس راستے کے ذریعے گلگت بلتستان پر حملہ کرکے سی پیک کے راستے کو تہس نہس کرنا چاہتا تھا، اس سلسلے میں اسے ٹرمپ کی پشت پناہی حاصل تھی۔
امریکا چین کے گوادر بندرگاہ کو استعمال کرنے کے سخت خلاف ہے وہ تو بحرہند میں بھی اس کے تجارتی جہازوں کے راستے کو روک کر اس کی تجارت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ مودی گلگت بلتستان پر حملہ کرنے ہی والا تھا کہ چین نے لداخ کی سرحد میں اپنی فوجیں اتار دیں۔ مودی اس اچانک چینی یلغارکو دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا، اس لیے کہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ چینی صدر جن کی دوستی پر وہ بے حد نازاں تھا۔
بھارت کے خلاف ایسی کارروائی کرسکتے ہیں، پھر مودی گلگت بلتستان پر حملہ کیا کرتا، چینی فوجوں کی لداخ میں مزید پیش قدمی روکنے میں لگ گیا۔ اس نے بھی اپنی فوجوں کو چینی فوجوں کے مقابل تعینات کرنا شروع کردیا۔ لداخ کے چھینے گئے علاقوں کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش میں اس کے بیس سے زیادہ فوجی مارے گئے اور دو درجن زخمی ہوگئے۔ چینی فوجوں کو پیچھے ہٹانے میں ناکامی کے بعد اس نے امریکا سے چین کے خلاف مدد مانگی مگر واشنگٹن نے مکمل خاموشی اختیار کرلی۔
امریکا سے مایوس ہوکر اس نے روس کا دروازہ کھٹکھٹایا مگر وہاں سے بھی کوئی جواب نہ ملا۔ پھر وزیر دفاع کو روس بھیجا مگر وہاں چینی وزیر دفاع نے نہ صرف خوب ڈانٹ پلائی بلکہ جن علاقوں میں چین داخل ہوا تھا انھیں خالی کیسے کرتا وہ تو اس کے اپنے ہی علاقے تھے۔ اس کے بعد مودی نے ایران اور سعودی عرب کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کی، مگر بھلا کون سنتا۔ مودی نے بالآخر اپنے وزیر خارجہ جے شنکرکو شنگھائی تعاون تنظیم میں شرکت کے بہانے ماسکو بھیجا جہاں چینی وزیر خارجہ پہلے سے موجود تھے۔
بھارت روس کو پہلے سے دہائی دے رہا تھا کہ وہ اس کی چین سے کسی طرح مفاہمت کرادے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی نے چینی وزیر خارجہ سے میٹنگ کرکے انھیں ان کی شرائط پر بھارت سے مفاہمت کے لیے تیار کرلیا۔ اس کے بعد چینی اور بھارتی وزرائے خارجہ کے درمیان میٹنگ ہوئی جس میں بظاہر پانچ نکاتی امن معاہدہ طے پا گیا ہے مگر اس کے علاوہ ایک خفیہ معاہدہ بھی ہوا ہے جس سے بھارتی عوام کو بے خبر رکھا جا رہا ہے۔
اس خفیہ معاہدے کی شرائط کچھ اس طرح ہیں۔ (1)۔ چین لداخ کے جس تین ہزار مربع کلومیٹر علاقے میں داخل ہو گیا ہے اس سے واپس نہیں جائے گا۔ (2)۔ بھارت چینی سرحد کے قریب اب کبھی کوئی نئی سڑک اور چوکی تعمیر نہیں کرے گا۔ (3)۔ بھارت سی پیک کو نقصان پہنچانے کا خیال دل سے نکال دے گا۔ (4)۔بھارت امریکی بلاک کا حصہ نہیں بنے گا۔ (5)۔اپنے میڈیا کی چین کے خلاف پروپیگنڈا مہم ختم کرائے گا۔ (6)۔بحرہند میں چینی تجارتی جہازوں کے لیے رکاوٹ نہیں بنے گا۔ (7)۔ جلد جموں کشمیر میں پھر سے بھارتی آئین کی شق 370 بحال کردے گا۔ (8)۔ بھارت جنگی تیاریاں ختم کرکے اپنی فوجوں کو سرحد سے واپس بلا لے گا۔ ان تمام شرائط پر بھارت کو عمل درآمد کا پابند بنا دیا گیا ہے۔ روس نے ضامن کا کردار ادا کیا ہے۔
بھارت نے ان شرائط کو بخوشی قبول کرلیا ہے اس لیے کہ اس طرح وہ چین کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست سے بچ گیا ہے۔ دراصل بھارت کی فوجی تیاری مکمل نہیں تھی۔ اس کے پاس نہ تو چین کے مقابلے کے فوجی ہتھیار اور ٹیکنالوجی ہے پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کی فوج چینی فوج جیسی دلیر نہیں ہے۔
اس وقت بھارت بری طرح کورونا کی لپیٹ میں ہے۔ کورونا سے روزانہ ہزاروں افراد ہلاک ہو رہے ہیں۔ مریضوں کا علاج گائے کے پیشاب اورگوبر سے کرنے کی وجہ سے کورونا تیزی سے پھیل رہا ہے۔ کورونا کے علاوہ مودی کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے بھارتی معیشت کا بھٹہ بیٹھ گیا ہے۔ گوکہ مودی نے اپنی زمین بھی کھودی ہے اور ذلت آمیز شرائط کو بھی قبول کرلیا ہے مگر بھارت کے موجودہ گمبھیر حالات میں مودی کے لیے چین سے مفاہمت کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ پھر بھی اس کے لیے یہ سودا مہنگا نہیں ہے کیونکہ اس طرح مودی کا بھرم بھی قائم رہ گیا ہے۔
چین کے ساتھ جو معاہدہ منظر عام پر آیا ہے عوام تو اسی سے واقف ہیں انھیں خفیہ معاہدے کی توکوئی خبر نہیں چنانچہ مودی اپنے عوام سے فخریہ کہہ سکتا ہے کہ اس نے چین سے بغیر لڑے جنگ جیت لی ہے پھر خفیہ معاہدے کی اگر عوام کو کسی طرح خبر ہو بھی جاتی ہے تو بھی مودی فخر سے کہہ سکتا ہے کہ اگر ہم نے اپنی کچھ زمین کھو بھی دی ہے تو کیا ہوا ایسا پہلی دفعہ تو نہیں ہوا اس سے پہلے 1962 کی جنگ میں بھارت اس سے کئی گنا زیادہ زمین چین کے حوالے کر چکا ہے جس میں اکسائی چین کا علاقہ بھی شامل ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا بھارت چین سے مفاہمت کے بعد چین کے خوف سے آزاد ہو گیا ہے تو ایسا نہیں ہے۔ لگتا ہے چین کا خوف کبھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔ البتہ اب مودی اپنی خفت مٹانے کے لیے پاکستان کو جنگ کی دھمکیاں دیتا رہے گا اور لائن آف کنٹرول پر بلا اشتعال فائرنگ کراتا رہے گا۔ ہو سکتا ہے نام نہاد سرجیکل اسٹرائیک کا ڈرامہ بھی رچانے کی کوشش کرے۔ کاش کہ ہم نے مودی کو ترکی بہ ترکی جواب دیا ہوتا تو آج وہ ہم سے بھی چین کی طرح خوفزدہ رہتا۔