حکومت مخالف جماعتوں کی بیٹھک
اپوزیشن کی اے پی سی سے ایسا ہی لگ رہا ہے کہ اب اپوزیشن جماعتیں موجودہ حکومت کو مزید دیکھنے کےلیے تیار نہیں
KARACHI:
کورونا وبا میں کمی کے بعد شہر اقتدار اسلام آباد میں حکومت مخالف جماعتوں کی بڑی بیٹھک ہوئی۔ اس نشست کی بڑی کارروائی سابق وزیراعظم نواز شریف کا لندن سے بذریعہ ویڈیو لنک خطاب تھا۔ حکومت کی یہ کوشش تھی کہ نواز شریف کو مجرم قرار دے کر ان کے خطاب پر پابندی عائد کردی جائے۔ لیکن حکومت نے ایسی غلطی نہیں کی اور ویڈیو لنک کے ذریعے نواز شریف کے خطاب کو نشر کرنے سے روکا نہیں کیا گیا۔
شہر اقتدار میں ہونے والی اپوزیشن جماعتوں کی اے پی سی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف، نائب صدر مریم نواز، جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، جے یو پی کے اویس نورانی اور دیگر جماعتوں کے قائدین و رہنماؤں نے شرکت کی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے صدر آصف علی زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوئے۔ اے اپی سی کا فیصلہ کیا ہوگا؟ اپوزیشن کیا کرنے جارہی ہیں؟ ہر کسی کو ان فیصلوں کا انتظار کے بجائے نوازشریف کے خطاب سے غرض تھی۔ سیاست پر گہری نظر رکھنے والے، سیاست کا شوق رکھنے والے نواز شریف کی تقریر کے انتظار میں تھے کہ علاج کےلیے جلاوطنی اختیار کرنے کے طویل عرصے بعد وہ خاموشی توڑنے جارہے ہیں تو ان کا بیانیہ کیا ہوگا۔ تحریر کو آگے بڑھانے سے قبل نوازشریف کی تقریر کے چیدہ چیدہ نکات بیان کرتا چلوں۔
ہمارا مقابلہ عمران سے نہیں ان کے لانے والوں سے ہے۔
الیکشن کے نتائج میں تبدیلی نہ ہوتی تو بیساکھیوں پر کھڑی حکومت وجود میں نہ آتی۔
عوام کے ووٹ سے جمہوری حکومت بننے پر ہاتھ پاؤں باندھ دیے جاتے ہیں۔
ہماری تاریخ میں 33 سال کا عرصہ فوجی آمریت کی نذر ہوگیا۔
73 سالہ تاریخ میں ایک بار بھی کسی منتخب وزیراعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔
پاکستان کو تجربات کی لیبارٹری بناکر رکھ دیا گیا ہے۔
نواز شریف نے خارجہ پالیسی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو دیگر ممالک کے ساتھ مل کر او آئی سی کو مضبوط کرنا چاہیے۔ خارجہ پالیسی کو بچوں کا کھیل بناکر رکھ دیا گیا ہے۔ ووٹ کو عزت نہ ملی تو پاکستان معاشی طور پر مفلوج ہی رہے گا۔
نواز شریف کی اس تقریر کے بعد اب سیاسی حلقوں میں تبصرے جاری ہیں۔ نواز شریف کی تقریر سے ایسا لگتا ہے کہ نواز شریف اب حکومت کے خلاف کھل کر کھیلیں گے اور انہوں نے تمام اپوزیشن جماعتوں کو یقین بھی دلایا ہے کہ جو بھی تحریک شروع کی جاتی ہے ان کی جماعت بھرپور ساتھ دے گی۔ نواز شریف کے علاج کےلیے باہر جاتے وقت یہ قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں کہ پس پردہ نواز لیگ کے معاملات ٹھیک ہونے لگے ہیں اور شہباز شریف، نوازشریف کو لچک دکھانے کےلیے راضی کرلیں گے۔ لیکن اس تقریر کے بعد یہی نظر آرہا ہے کہ نواز شریف لچک دکھانے کےلیے راضی نہیں اور آنے والے وقت میں نوازشریف کے مشوروں سے مریم نواز اپنی پارٹی کی قیادت کو آگے بڑھائیں گی، اور آنے والے وقت میں نواز شریف کے رویے میں نرمی بھی دکھائی دینے والی نہیں۔
اے پی سی میں شامل اپوزیشن جماعتوں کی قیادت نے باہمی مشاورت کے بعد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے الائنس تشکیل دینے کا اعلان کیا۔ اعلامیے کے مطابق اپوزیشن جماعتوں نے اعلان کیا کہ وہ پارلیمنٹ سے کوئی تعاون نہیں کریں گی۔ متحدہ اپوزیشن ملک گیر احتجاجی تحریک کا اعلان کیا گیا۔ اس تحریک میں وکلا، تاجر، کسان، عوام اور سول سوسائٹی کو بھی شامل کیا جائے گا۔ اب سے جنوری تک ملک بھر میں حکومت مخالف مظاہرے کیے جائیں گے، ریلیاں نکالی جائیں گی، سیمینار کیے جائیں گے اور جنوری میں حکومت کے خلاف اسلام آباد مارچ کیا جائے گا۔
اپوزیشن جماعتوں نے جنوری میں اسلام آباد مارچ کا اعلان کردیا ہے۔ نظریں اب اسی پر لگی ہیں۔ ملک کی تمام حکومت مخالف جماعتیں ایک ہوکر حکومت کو جس طرح دباؤ میں لاتی ہیں کہ وزیراعظم مستعفی ہونے اور ملک میں انتخابات کرانے کا اعلان کریں۔ لیکن بظاہر فی الوقت ایسا کچھ دیکھنے میں ںظر نہیں آرہا۔ ماضی میں وزیراعظم عمران خان نے نواز شریف کو بھی اسی طرح دباؤ میں لانے کی کوشش کی تھی۔ تحریک انصاف نے پارلیمنٹ کے سامنے طویل دھرنا دیا اور اس دھرنے کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اگر اسٹیبلشمنٹ حکومت کے ساتھ ہے تو وزیراعظم عمران خان کو حکومتی مدت پوری کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ اگر ایسا نہیں تو اپوزیشن جماعتیں حکومت کو دباؤ میں لانے میں کامیاب ہوجائیں گی۔
سیاسی حلقوں میں یہ خبریں بھی زیر گردش میں ہیں کہ ملک میں کچھ عرصے کےلیے صدارتی نظام لاگو کردیا جائے اور دو سال کے عرصے کے بعد انتخابات کرادیے جائیں۔ جبکہ یہ بھی اطلاعات ہیں وزیراعظم عمران خان صدر مملکت کو اسمبلیاں توڑنے کا مشورہ دے کر دوبارہ انتخابات کا اعلان کردیں۔ آزاد تجزیہ کاروں کا یہ خیال ہے کہ ملکی اور بین الاقوامی حالات کے تناظر میں ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آرہا۔ اس سے قبل مولانا فضل الرحمان نے بھی اسلام آباد دھرنے کا اعلان کیا تھا، لیکن بقول مولانا فضل الرحمان انہوں نے کسی کی یقین دہانی پر مارچ ختم کرنے کا اعلان کیا تھا اور وہ کئی بار چوہدری برادران کی جانب اشارہ کرچکے ہیں۔ لیکن اب کی بار اس مارچ میں صرف مولانا فضل الرحمان ہی نہیں اپوزیشن کی دیگر جماعتیں بھی شریک ہوں گی۔ حکومت کے علاوہ مقتدر حلقوں سے بات ہوتی ہے تو اس میں فیصلہ تمام اپوزیشن جماعتوں کی قیادت سے مشاورت سے ہوگا۔
اپوزیشن جماعتوں نے تو حکومت مخالف تحریک چلانے کا اعلان کردیا ہے۔ یہاں سوال یہ بھی اٹھائے جارہے ہیں کہ کیا ملک کی تمام حکومت مخالف جماعتیں عوام کو سڑکوں پر لانے میں کامیاب ہوسکیں گی؟ کیونکہ چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی اور ایف اے ٹی ایف بل کی منظوری کے وقت اکثریت اقلیت میں تبدیل ہوگئی تھی۔ ابھی تک اپوزیشن جماعتیں اپنے باغی ارکان کے خلاف کارروائی بھی نہیں کرسکیں۔ اور حکومت کا بھی یہی موقف ہے کہ جو جماعتیں اپنے ارکان کو متحد نہیں کرسکیں وہ عوام کو کیسے حکومت کے خلاف باہر نکالیں گی؟ شاہد اسی لیے اپوزیشن جماعتوں نے اسلام آباد مارچ کی تیاری کےلیے تین ماہ کا وقت لیا ہے۔
اپوزیشن کی اے پی سی سے ایسا ہی لگ رہا ہے کہ اب اپوزیشن جماعتیں موجودہ حکومت کو مزید تسلیم کرنے کےلیے تیار نہیں۔ حکومت پر دباؤ بڑھانے کے علاوہ وہ کسی اور کو بھی دباؤ میں لانا چاہتی ہیں، جیسا کہ نواز شریف نے اپنے بیان میں کہا کہ ہماری لڑائی عمران خان سے نہیں ان کو لانے والوں سے ہے۔ اب آنے والے دنوں میں دیکھنا ہے کہ اپوزیشن کا پلڑا بھاری رہتا ہے، حکومت کا یا حکومت کو لانے والوں کا؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کورونا وبا میں کمی کے بعد شہر اقتدار اسلام آباد میں حکومت مخالف جماعتوں کی بڑی بیٹھک ہوئی۔ اس نشست کی بڑی کارروائی سابق وزیراعظم نواز شریف کا لندن سے بذریعہ ویڈیو لنک خطاب تھا۔ حکومت کی یہ کوشش تھی کہ نواز شریف کو مجرم قرار دے کر ان کے خطاب پر پابندی عائد کردی جائے۔ لیکن حکومت نے ایسی غلطی نہیں کی اور ویڈیو لنک کے ذریعے نواز شریف کے خطاب کو نشر کرنے سے روکا نہیں کیا گیا۔
شہر اقتدار میں ہونے والی اپوزیشن جماعتوں کی اے پی سی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف، نائب صدر مریم نواز، جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، جے یو پی کے اویس نورانی اور دیگر جماعتوں کے قائدین و رہنماؤں نے شرکت کی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے صدر آصف علی زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوئے۔ اے اپی سی کا فیصلہ کیا ہوگا؟ اپوزیشن کیا کرنے جارہی ہیں؟ ہر کسی کو ان فیصلوں کا انتظار کے بجائے نوازشریف کے خطاب سے غرض تھی۔ سیاست پر گہری نظر رکھنے والے، سیاست کا شوق رکھنے والے نواز شریف کی تقریر کے انتظار میں تھے کہ علاج کےلیے جلاوطنی اختیار کرنے کے طویل عرصے بعد وہ خاموشی توڑنے جارہے ہیں تو ان کا بیانیہ کیا ہوگا۔ تحریر کو آگے بڑھانے سے قبل نوازشریف کی تقریر کے چیدہ چیدہ نکات بیان کرتا چلوں۔
ہمارا مقابلہ عمران سے نہیں ان کے لانے والوں سے ہے۔
الیکشن کے نتائج میں تبدیلی نہ ہوتی تو بیساکھیوں پر کھڑی حکومت وجود میں نہ آتی۔
عوام کے ووٹ سے جمہوری حکومت بننے پر ہاتھ پاؤں باندھ دیے جاتے ہیں۔
ہماری تاریخ میں 33 سال کا عرصہ فوجی آمریت کی نذر ہوگیا۔
73 سالہ تاریخ میں ایک بار بھی کسی منتخب وزیراعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔
پاکستان کو تجربات کی لیبارٹری بناکر رکھ دیا گیا ہے۔
نواز شریف نے خارجہ پالیسی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو دیگر ممالک کے ساتھ مل کر او آئی سی کو مضبوط کرنا چاہیے۔ خارجہ پالیسی کو بچوں کا کھیل بناکر رکھ دیا گیا ہے۔ ووٹ کو عزت نہ ملی تو پاکستان معاشی طور پر مفلوج ہی رہے گا۔
نواز شریف کی اس تقریر کے بعد اب سیاسی حلقوں میں تبصرے جاری ہیں۔ نواز شریف کی تقریر سے ایسا لگتا ہے کہ نواز شریف اب حکومت کے خلاف کھل کر کھیلیں گے اور انہوں نے تمام اپوزیشن جماعتوں کو یقین بھی دلایا ہے کہ جو بھی تحریک شروع کی جاتی ہے ان کی جماعت بھرپور ساتھ دے گی۔ نواز شریف کے علاج کےلیے باہر جاتے وقت یہ قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں کہ پس پردہ نواز لیگ کے معاملات ٹھیک ہونے لگے ہیں اور شہباز شریف، نوازشریف کو لچک دکھانے کےلیے راضی کرلیں گے۔ لیکن اس تقریر کے بعد یہی نظر آرہا ہے کہ نواز شریف لچک دکھانے کےلیے راضی نہیں اور آنے والے وقت میں نوازشریف کے مشوروں سے مریم نواز اپنی پارٹی کی قیادت کو آگے بڑھائیں گی، اور آنے والے وقت میں نواز شریف کے رویے میں نرمی بھی دکھائی دینے والی نہیں۔
اے پی سی میں شامل اپوزیشن جماعتوں کی قیادت نے باہمی مشاورت کے بعد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے الائنس تشکیل دینے کا اعلان کیا۔ اعلامیے کے مطابق اپوزیشن جماعتوں نے اعلان کیا کہ وہ پارلیمنٹ سے کوئی تعاون نہیں کریں گی۔ متحدہ اپوزیشن ملک گیر احتجاجی تحریک کا اعلان کیا گیا۔ اس تحریک میں وکلا، تاجر، کسان، عوام اور سول سوسائٹی کو بھی شامل کیا جائے گا۔ اب سے جنوری تک ملک بھر میں حکومت مخالف مظاہرے کیے جائیں گے، ریلیاں نکالی جائیں گی، سیمینار کیے جائیں گے اور جنوری میں حکومت کے خلاف اسلام آباد مارچ کیا جائے گا۔
اپوزیشن جماعتوں نے جنوری میں اسلام آباد مارچ کا اعلان کردیا ہے۔ نظریں اب اسی پر لگی ہیں۔ ملک کی تمام حکومت مخالف جماعتیں ایک ہوکر حکومت کو جس طرح دباؤ میں لاتی ہیں کہ وزیراعظم مستعفی ہونے اور ملک میں انتخابات کرانے کا اعلان کریں۔ لیکن بظاہر فی الوقت ایسا کچھ دیکھنے میں ںظر نہیں آرہا۔ ماضی میں وزیراعظم عمران خان نے نواز شریف کو بھی اسی طرح دباؤ میں لانے کی کوشش کی تھی۔ تحریک انصاف نے پارلیمنٹ کے سامنے طویل دھرنا دیا اور اس دھرنے کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اگر اسٹیبلشمنٹ حکومت کے ساتھ ہے تو وزیراعظم عمران خان کو حکومتی مدت پوری کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ اگر ایسا نہیں تو اپوزیشن جماعتیں حکومت کو دباؤ میں لانے میں کامیاب ہوجائیں گی۔
سیاسی حلقوں میں یہ خبریں بھی زیر گردش میں ہیں کہ ملک میں کچھ عرصے کےلیے صدارتی نظام لاگو کردیا جائے اور دو سال کے عرصے کے بعد انتخابات کرادیے جائیں۔ جبکہ یہ بھی اطلاعات ہیں وزیراعظم عمران خان صدر مملکت کو اسمبلیاں توڑنے کا مشورہ دے کر دوبارہ انتخابات کا اعلان کردیں۔ آزاد تجزیہ کاروں کا یہ خیال ہے کہ ملکی اور بین الاقوامی حالات کے تناظر میں ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آرہا۔ اس سے قبل مولانا فضل الرحمان نے بھی اسلام آباد دھرنے کا اعلان کیا تھا، لیکن بقول مولانا فضل الرحمان انہوں نے کسی کی یقین دہانی پر مارچ ختم کرنے کا اعلان کیا تھا اور وہ کئی بار چوہدری برادران کی جانب اشارہ کرچکے ہیں۔ لیکن اب کی بار اس مارچ میں صرف مولانا فضل الرحمان ہی نہیں اپوزیشن کی دیگر جماعتیں بھی شریک ہوں گی۔ حکومت کے علاوہ مقتدر حلقوں سے بات ہوتی ہے تو اس میں فیصلہ تمام اپوزیشن جماعتوں کی قیادت سے مشاورت سے ہوگا۔
اپوزیشن جماعتوں نے تو حکومت مخالف تحریک چلانے کا اعلان کردیا ہے۔ یہاں سوال یہ بھی اٹھائے جارہے ہیں کہ کیا ملک کی تمام حکومت مخالف جماعتیں عوام کو سڑکوں پر لانے میں کامیاب ہوسکیں گی؟ کیونکہ چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی اور ایف اے ٹی ایف بل کی منظوری کے وقت اکثریت اقلیت میں تبدیل ہوگئی تھی۔ ابھی تک اپوزیشن جماعتیں اپنے باغی ارکان کے خلاف کارروائی بھی نہیں کرسکیں۔ اور حکومت کا بھی یہی موقف ہے کہ جو جماعتیں اپنے ارکان کو متحد نہیں کرسکیں وہ عوام کو کیسے حکومت کے خلاف باہر نکالیں گی؟ شاہد اسی لیے اپوزیشن جماعتوں نے اسلام آباد مارچ کی تیاری کےلیے تین ماہ کا وقت لیا ہے۔
اپوزیشن کی اے پی سی سے ایسا ہی لگ رہا ہے کہ اب اپوزیشن جماعتیں موجودہ حکومت کو مزید تسلیم کرنے کےلیے تیار نہیں۔ حکومت پر دباؤ بڑھانے کے علاوہ وہ کسی اور کو بھی دباؤ میں لانا چاہتی ہیں، جیسا کہ نواز شریف نے اپنے بیان میں کہا کہ ہماری لڑائی عمران خان سے نہیں ان کو لانے والوں سے ہے۔ اب آنے والے دنوں میں دیکھنا ہے کہ اپوزیشن کا پلڑا بھاری رہتا ہے، حکومت کا یا حکومت کو لانے والوں کا؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔