عورت کی عزت نفس
عورت کو عصمت کا نشان کچھ اس طرح بنادیا گیا ہے کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کا ذکر تک نہیں کرسکتیں
ستمبر کی ایک رات لاہور سے گوجرانوالہ کو ملانے والی سڑک پر اپنے تین بچوں کے سامنے تشدد اور زیادتی کا شکار ہونے والی خاتون کے واقعے نے پورے ملک کی اخلاقی و انتظامی کمزوری کی طرف واضح اشارہ کیا ہے۔ خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات پہلے بھی رونما ہوتے رہے ہیں۔ لاہور کی پولیس کے مطابق 2020 کے پہلے 60 دنوں میں خواتین سے زیادتی کے مجموعی 73 واقعات درج ہوئے۔ اس سے یہ اندازہ لگانا آسان ہے کہ مطلع نہ کیے جانے والے واقعات کی تعداد کتنی زیادہ ہوگی؟ لیکن موٹروے زیادتی کیس دو پہلوؤں کی وجہ سے اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ ہے۔ ایک اس میں تین معصوم بچوں کے سامنے ان کی ماں سے زیادتی کی گئی۔ دوم اس واردات سے پہلے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مدد مانگی گئی، جس کا نہ پہنچنا اس سانحے کا باعث بنا۔
اس واقعے پر ردعمل کے طور پر تمام سماجی تنظیمیں معاشرے میں پنپنے والی پدرانہ سوچ کی طرف انگلی اٹھا رہی ہیں۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو اس کی وجوہات اس سے بھی کہیں زیادہ ہیں۔ بلاشبہ معاشرہ تو پدرانہ سوچ کا حامل ہے ہی، لیکن کیا ہم نے یہ سوچا ہے کہ بچے کی پہلی درس گاہ تو ماں ہوتی ہے، دوسری اس کے گھر کا ماحول۔ معاشرے کا کردار تو بہت بعد میں آتا ہے۔ جو خیالات ماں رکھتی ہے وہی بچے (چاہے لڑکی ہو یا لڑکا) کے ذہن میں تاحیات نقش ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح گھر میں جس طرح سے بیٹے اور بیٹی کو صنفی تفریق سے پالا جاتا ہے وہ ان کے طرزعمل کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ہمیں ماؤں سے سوال کرنا چاہیے کہ وہ ایسی تربیت کیوں کرتی ہیں، جس میں بیٹے کو تو جسمانی، ذہنی اور سماجی حکمرانی کا درس جبکہ بیٹی کو ہر ظلم پر خاموشی، صبر اور درگزر کرنے پر راضی کیا جاتا ہے؟ یہی وہ صنفی تفریق ہے جو آگے چل کر زیادہ تر مردوں کو ظالم اور عورتوں کو مظلوم بناتی ہے۔ یہ سلسلہ محض خاندان میں باہمی تعلقات تک ہی محدود نہیں رہتا، بلکہ یہ معاشرے میں بھی اس طرح سے منتقل ہوتا ہے کہ مرد سڑک پر موجود عورت کو کمزور اور تنہا سمجھتے ہوئے مختلف مظالم کرنے کو اپنا حق گردانتا ہے۔ جیسے کہ موٹروے کیس سمیت عورتوں پر معاشرے میں تیزی سے پھیلتے زیادتی اور ہراسگی کے واقعات سے ظاہر ہے۔
دوسری اہم وجہ مذہب کی غلط تشریح ہے۔ جس کو بنیاد بنا کر جابجا صنفی تفریق کو جائز بنایا جاتا ہے۔ اس ضمن میں ازواج مطاہرات رسول، حضرت خدیجہؓ اور حضرت عائشہؓ کی پاک دامنی کی مثال تو دی جاتی ہے، لیکن ان دونوں خواتین کا اسلامی تاریخ میں فیصلہ سازی، خودمختاری اور اصول پرستی کے حوالے سے زیادہ ذکر نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح اسلام میں خواتین کے کردار کی مثال دیتے ہوئے حضرت زینب کا یزید کے دربار میں اُس تاریخی خطبے کا حوالہ کم دیا جاتا، جس میں ظالم کو للکارا جارہا ہے اور پورا خاندان لٹانے کے باوجود بھی حق و سچ کا فرق بتایا جاتا ہے۔ وہ بھی ایک خاتون تھیں جن کو اسلام نے نہ تو جھکنا سکھایا اور نہ ہی ڈرنا۔ تو اس مذہب کے پیروکار کیسے ایک اسلامی معاشرے میں ظلم کے سامنے خواتین کو خاموش رہنا اور جھکنا سکھا سکتے ہیں؟
تیسرا اہم پہلو، عورت کو عصمت کا نشان کچھ اس طرح بنا دینا ہے کہ وہ اپنے ساتھ زیادتی کا ذکر کرتے ہوئے یہ سوچنے پر مجبور ہو کہ ایسا کرنے سے وہ عزت دار نہیں رہے گی۔ کیونکہ اسے عزت کا رکھوالا بنایا گیا ہے۔ اسی خوف سے زیادہ تر خواتین اپنے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کا ذکر نہیں کرسکتیں۔ موٹروے پر زیادتی اور تشدد کا واقعہ تو ایک ایسی خاتون کے ساتھ ہوا جس کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا، اس وجہ سے نہ صرف کیس درج ہوا بلکہ دیکھتے ہی دیکھتے قومی و بین الاقوامی منظرنامے پر بھی چھا گیا۔ کتنی ہی خواتین ہیں پاکستان میں جو روزانہ گھر میں یا گھر سے باہر ایسے ظلم کا شکار ہوتی ہیں؟ لیکن غریب گھرانوں سے تعلق کی وجہ سے اپنے ساتھ روا ظلم کا ذکر صرف اور صرف کسی سے اس لیے نہیں کرتیں کہ کہیں معاشرے میں مقام اور گھرانے میں اپنی عزت نہ کھو بیٹھیں۔
اس بحث کا چوتھا اہم پہلو، خواتیں کے مساوی حقوق کے متعلق جلوسوں اور بحثوں میں مردوں کی اکثریت کی عدم موجودگی ہے۔ معاشرہ تو دونوں کا اس مسئلے پر کردار مانگتا ہے۔ جب تک خواتین کے حقوق کی ہر تحریک میں مرد باقاعدہ شامل نہیں ہوگا، تب تک کوئی اہم پیش رفت ممکن نہیں۔
آخر میں یہ کہنا چاہوں گی کہ پاکستانی معاشرہ نہ پدرانہ ہونا چاہیے اور نہ مدرانہ، یہ صرف ایک انسانی معاشرہ ہونا چاہیے، جہاں صنف کی بنیاد پر نہیں بلکہ انسانیت کی بنیاد پر عفو و درگزر، عزت و احترام اور حقوق کا تحفظ ہو۔ جہاں کوئی مرد عورت کو اس وجہ سے ہراساں نہ کرے کہ وہ عورت ہے اور انکار نہیں کرسکتی۔ جہاں عورت بھی مرد کو سماجی و معاشی دباؤ سے آزاد کرکے ایک انسان سمجھے۔ جب تعلقات کی بنیاد باہمی رضامندی ہوسکتی ہے، تو ختم کرنے کا اصول بھی باہمی احترام اور عزت ہونا چاہیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اس واقعے پر ردعمل کے طور پر تمام سماجی تنظیمیں معاشرے میں پنپنے والی پدرانہ سوچ کی طرف انگلی اٹھا رہی ہیں۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو اس کی وجوہات اس سے بھی کہیں زیادہ ہیں۔ بلاشبہ معاشرہ تو پدرانہ سوچ کا حامل ہے ہی، لیکن کیا ہم نے یہ سوچا ہے کہ بچے کی پہلی درس گاہ تو ماں ہوتی ہے، دوسری اس کے گھر کا ماحول۔ معاشرے کا کردار تو بہت بعد میں آتا ہے۔ جو خیالات ماں رکھتی ہے وہی بچے (چاہے لڑکی ہو یا لڑکا) کے ذہن میں تاحیات نقش ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح گھر میں جس طرح سے بیٹے اور بیٹی کو صنفی تفریق سے پالا جاتا ہے وہ ان کے طرزعمل کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ہمیں ماؤں سے سوال کرنا چاہیے کہ وہ ایسی تربیت کیوں کرتی ہیں، جس میں بیٹے کو تو جسمانی، ذہنی اور سماجی حکمرانی کا درس جبکہ بیٹی کو ہر ظلم پر خاموشی، صبر اور درگزر کرنے پر راضی کیا جاتا ہے؟ یہی وہ صنفی تفریق ہے جو آگے چل کر زیادہ تر مردوں کو ظالم اور عورتوں کو مظلوم بناتی ہے۔ یہ سلسلہ محض خاندان میں باہمی تعلقات تک ہی محدود نہیں رہتا، بلکہ یہ معاشرے میں بھی اس طرح سے منتقل ہوتا ہے کہ مرد سڑک پر موجود عورت کو کمزور اور تنہا سمجھتے ہوئے مختلف مظالم کرنے کو اپنا حق گردانتا ہے۔ جیسے کہ موٹروے کیس سمیت عورتوں پر معاشرے میں تیزی سے پھیلتے زیادتی اور ہراسگی کے واقعات سے ظاہر ہے۔
دوسری اہم وجہ مذہب کی غلط تشریح ہے۔ جس کو بنیاد بنا کر جابجا صنفی تفریق کو جائز بنایا جاتا ہے۔ اس ضمن میں ازواج مطاہرات رسول، حضرت خدیجہؓ اور حضرت عائشہؓ کی پاک دامنی کی مثال تو دی جاتی ہے، لیکن ان دونوں خواتین کا اسلامی تاریخ میں فیصلہ سازی، خودمختاری اور اصول پرستی کے حوالے سے زیادہ ذکر نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح اسلام میں خواتین کے کردار کی مثال دیتے ہوئے حضرت زینب کا یزید کے دربار میں اُس تاریخی خطبے کا حوالہ کم دیا جاتا، جس میں ظالم کو للکارا جارہا ہے اور پورا خاندان لٹانے کے باوجود بھی حق و سچ کا فرق بتایا جاتا ہے۔ وہ بھی ایک خاتون تھیں جن کو اسلام نے نہ تو جھکنا سکھایا اور نہ ہی ڈرنا۔ تو اس مذہب کے پیروکار کیسے ایک اسلامی معاشرے میں ظلم کے سامنے خواتین کو خاموش رہنا اور جھکنا سکھا سکتے ہیں؟
تیسرا اہم پہلو، عورت کو عصمت کا نشان کچھ اس طرح بنا دینا ہے کہ وہ اپنے ساتھ زیادتی کا ذکر کرتے ہوئے یہ سوچنے پر مجبور ہو کہ ایسا کرنے سے وہ عزت دار نہیں رہے گی۔ کیونکہ اسے عزت کا رکھوالا بنایا گیا ہے۔ اسی خوف سے زیادہ تر خواتین اپنے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کا ذکر نہیں کرسکتیں۔ موٹروے پر زیادتی اور تشدد کا واقعہ تو ایک ایسی خاتون کے ساتھ ہوا جس کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا، اس وجہ سے نہ صرف کیس درج ہوا بلکہ دیکھتے ہی دیکھتے قومی و بین الاقوامی منظرنامے پر بھی چھا گیا۔ کتنی ہی خواتین ہیں پاکستان میں جو روزانہ گھر میں یا گھر سے باہر ایسے ظلم کا شکار ہوتی ہیں؟ لیکن غریب گھرانوں سے تعلق کی وجہ سے اپنے ساتھ روا ظلم کا ذکر صرف اور صرف کسی سے اس لیے نہیں کرتیں کہ کہیں معاشرے میں مقام اور گھرانے میں اپنی عزت نہ کھو بیٹھیں۔
اس بحث کا چوتھا اہم پہلو، خواتیں کے مساوی حقوق کے متعلق جلوسوں اور بحثوں میں مردوں کی اکثریت کی عدم موجودگی ہے۔ معاشرہ تو دونوں کا اس مسئلے پر کردار مانگتا ہے۔ جب تک خواتین کے حقوق کی ہر تحریک میں مرد باقاعدہ شامل نہیں ہوگا، تب تک کوئی اہم پیش رفت ممکن نہیں۔
آخر میں یہ کہنا چاہوں گی کہ پاکستانی معاشرہ نہ پدرانہ ہونا چاہیے اور نہ مدرانہ، یہ صرف ایک انسانی معاشرہ ہونا چاہیے، جہاں صنف کی بنیاد پر نہیں بلکہ انسانیت کی بنیاد پر عفو و درگزر، عزت و احترام اور حقوق کا تحفظ ہو۔ جہاں کوئی مرد عورت کو اس وجہ سے ہراساں نہ کرے کہ وہ عورت ہے اور انکار نہیں کرسکتی۔ جہاں عورت بھی مرد کو سماجی و معاشی دباؤ سے آزاد کرکے ایک انسان سمجھے۔ جب تعلقات کی بنیاد باہمی رضامندی ہوسکتی ہے، تو ختم کرنے کا اصول بھی باہمی احترام اور عزت ہونا چاہیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔