شرعی سزاؤں پر متشدد سوچ کیوں
بعض نہیں چاہتے کہ ملک میں جنسی درندوں کو سرعام پھانسی دی جائے
QUETTA:
ایک وفاقی وزیر نے کہا ہے کہ وزیروں کا مجرم کو سرعام پھانسی پر لٹکانے کا مطالبہ ان کی متشدد سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔
انھوں نے دیگر وفاقی وزرا اور پڑھے لکھے طبقات کی طرف سے جنسی تشدد اور جنسی کیسوں میں بے رحمانہ قتل کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے سدباب کے لیے ایسے مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کے لیے قانون سازی کرنے کے مطالبات کے جواب میں یہ بات کہی جب کہ وفاقی وزیروں فیصل واؤڈا، علی محمد خان نے اپنے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ملک میں جنسی تشدد اور ہلاکتوں کے سنگین ہونے جانے والے واقعات کو روکنے کے لیے مجرموں کو سرعام پھانسی اور نامرد کر دینے کی سزائیں پارلیمنٹ سے منظور کرائیں گے۔
ملک میں چار عشروں قبل کمسن بچوں، بچیوں کی بے حرمتی، شناخت چھپانے کے لیے انھیں قتل کر دینے، خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیوں کا ختم نہ ہونے والا ایسا سلسلہ چلا تھا جو اب عروج پر پہنچ چکا ہے جس کی انتہا کراچی میں پانچ سالہ بچی مروا سے جنسی زیادتی کے بعد قتل اور لاہور میں موٹر وے پر تین بچوں کی ماں کے ساتھ زیادتی ایسے واقعات کی انتہا ہو گئی ہے جس نے پنجاب حکومت کو ہلا کر رکھ دیا ہے جس کے خلاف سول سوسائٹی اور خواتین ہی نہیں بلکہ عوامی اور سیاسی حلقے بھی سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں اور ایسے مجرموں کے ہمدرد لوگ بھی سامنے آگئے ہیں اور ترقی پسند خواتین کی اصلیت بھی ظاہر ہو گئی ہے کہ وہ خواتین کے ساتھ بڑھتے ہوئے جنسی تشدد پر متاثرہ خواتین کی کتنی ہمدرد ہیں کہ جنسی تشدد کی انتہا ہو جانے کے بعد بھی وہ حیوانوں سے بدتر ان مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کی مخالفت کر رہی ہیں۔
خواتین کو ان کی مرضی کے خلاف جبری جنسی تشدد کرنے والے مجرموں کی یہ کھلی حمایت ہی ہے کہ وہ جو کچھ بھی کر جائیں انھیں سرعام تو کیا سزائے موت بھی نہ دی جائے کیونکہ ایسا کرنا انسانی حقوق کے خلاف ہے۔
جنرل ضیا الحق نے اپنے دور حکومت میں 1981 میں لاہور میں ایک دس سالہ بچے کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کردینے والے تین مجرموں کو سرعام پھانسی کی سزا دی تھی جس کا اثر یہ ہوا کہ تھا کہ دس سال تک ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا تھا مگر بعد میں ملک میں جمہوری حکومتیں آئیں اور جنرل ضیا کے بعد آنے والی مشرف حکومت سمیت تمام نام نہاد جمہوری حکومتوں میں جنسی زیادتیاں تیزی سے بڑھیں اور گزشتہ ایک سال میں ملک میں جنسی زیادتی و قتل کے تقریباً تین ہزار واقعات رجسٹرڈ ہوئے اور باقیوں کا تو پتا ہی نہیں چلا اگر سب کی ایف آئی آر درج ہو جاتی تو پاکستان امریکا کو بھی پیچھے چھوڑ چکا ہوتا۔
ملک میں جو بھی حکومتیں جمہوریت کے نام پر آئیں وہ نام نہاد جمہوری حکومتیں تھیں ایسی جمہوری کہلانے والی حکومتوں میں جرائم پیشہ عناصر اور بعض جمہوریت کا راگ الاپنے والوں کا آپس میں قریبی تعلق رہا ہے کیونکہ جمہوری اسمبلیوں کے انتخابات جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی اور باہمی تعاون کے بغیر جیتے نہیں جاسکتے اور بعض ارکان اسمبلی کی ضرورت جرائم پیشہ عناصر ہر دور میں رہے ہیں اس لیے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کبھی سخت قانون سازی نہیں کی جاتی اور ایسے جرائم پیشہ عناصر کو نہ صرف گرفتاریوں سے بچایا جاتا ہے بلکہ ان کا تحفظ اور سرپرستی بھی کی جاتی ہے۔
3 بچوں کی ماں کے ساتھ رات کو سیالکوٹ موٹروے پر بے حرمتی اور ڈکیتی کے شرمناک واقعے نے عوام میں اشتعال پیدا کردیا ہے اور عوامی سروے میں جنسی درندوں کو سرعام پھانسی دینے کے حمایتیوں کی تعداد نوے فیصد سے زائد ہے مگر سیاستدان اور ارکان اسمبلی اس سلسلے میں بھی تقسیم ہو چکے ہیں۔
بعض نہیں چاہتے کہ ملک میں جنسی درندوں کو سرعام پھانسی دی جائے۔ میرے خیال میں کمسن بچوں اور بچیوں کو اپنی ہوس کی بھینٹ چڑھا کر اپنی شناخت چھپانے کے لیے یہ درندے پھول جیسے بچوں کو ہلاک کرکے خود کو بچانے میں کامیاب رہیں گے اور وہ نہ پکڑے جائیں گے اور اگر اتفاق سے پکڑے جائیں تو پولیس کی کمزور تفتیش کے ذریعے انھیں عدالتوں سے ضمانتیں مل جائیں گی یا وہ رہا ہو کر دوبارہ اپنی جنسی بھوک مٹانے کے لیے آزاد ہوں گے۔
اگر جنسی درندوں اور کمسن بچوں سے بدفعلی اور ہلاکتوں میں ملوث مجرموں کے لیے ملک میں سرعام پھانسی کی سزا پر عمل ہو جاتا تو ملک میں یہ صورتحال نہ ہوتی ۔ کراچی کے سچل تھانے کی حد میں ایک غیر ملکی خاتون اپنے بے وفا شوہر کو نامرد بنا کر ثبوت کے ساتھ تھانہ خود آئی تھی کیونکہ وہ شادی شدہ عیاشوں کو پیغام دینا چاہتی تھی کہ وہ اپنی بیویوں سے بے وفائی نہ کریں اور غیر شرعی حرکات نہ کریں۔
بعض سینیٹر سے یہ امید نہیں تھی کہ وہ ایسے جنسی مجرموں کو سرعام پھانسی کی مخالفت کریں گے اور موجودہ حکومت کے ایک اچھے فیصلے کی سیاسی طور پر مخالفت کریں گے۔ وزیر اعظم عمران خان اور بعض وزرا اس سلسلے میں جنسی درندوں کو نامرد بنانے کے قانون کے حامی ہیں مگر خود پی ٹی آئی اور پی پی میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو ایسا نہ ہونے دیں اور ایسے اقدامات کو انسانی حقوق کی بھینٹ چڑھا دیں۔ ایسے لوگوں سے کوئی پوچھے کہ تمہاری اپنی فیملی کے کسی بچے یا خاتون کے ساتھ اگر جنسی درندے کچھ کر جائیں تو کیا پھر بھی انھیں شرعی سزائیں غیر ضروری اور سرعام پھانسی یا نامردی کا اقدام غیر انسانی لگے گا؟
ایک وفاقی وزیر نے کہا ہے کہ وزیروں کا مجرم کو سرعام پھانسی پر لٹکانے کا مطالبہ ان کی متشدد سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔
انھوں نے دیگر وفاقی وزرا اور پڑھے لکھے طبقات کی طرف سے جنسی تشدد اور جنسی کیسوں میں بے رحمانہ قتل کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے سدباب کے لیے ایسے مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کے لیے قانون سازی کرنے کے مطالبات کے جواب میں یہ بات کہی جب کہ وفاقی وزیروں فیصل واؤڈا، علی محمد خان نے اپنے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ملک میں جنسی تشدد اور ہلاکتوں کے سنگین ہونے جانے والے واقعات کو روکنے کے لیے مجرموں کو سرعام پھانسی اور نامرد کر دینے کی سزائیں پارلیمنٹ سے منظور کرائیں گے۔
ملک میں چار عشروں قبل کمسن بچوں، بچیوں کی بے حرمتی، شناخت چھپانے کے لیے انھیں قتل کر دینے، خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیوں کا ختم نہ ہونے والا ایسا سلسلہ چلا تھا جو اب عروج پر پہنچ چکا ہے جس کی انتہا کراچی میں پانچ سالہ بچی مروا سے جنسی زیادتی کے بعد قتل اور لاہور میں موٹر وے پر تین بچوں کی ماں کے ساتھ زیادتی ایسے واقعات کی انتہا ہو گئی ہے جس نے پنجاب حکومت کو ہلا کر رکھ دیا ہے جس کے خلاف سول سوسائٹی اور خواتین ہی نہیں بلکہ عوامی اور سیاسی حلقے بھی سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں اور ایسے مجرموں کے ہمدرد لوگ بھی سامنے آگئے ہیں اور ترقی پسند خواتین کی اصلیت بھی ظاہر ہو گئی ہے کہ وہ خواتین کے ساتھ بڑھتے ہوئے جنسی تشدد پر متاثرہ خواتین کی کتنی ہمدرد ہیں کہ جنسی تشدد کی انتہا ہو جانے کے بعد بھی وہ حیوانوں سے بدتر ان مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کی مخالفت کر رہی ہیں۔
خواتین کو ان کی مرضی کے خلاف جبری جنسی تشدد کرنے والے مجرموں کی یہ کھلی حمایت ہی ہے کہ وہ جو کچھ بھی کر جائیں انھیں سرعام تو کیا سزائے موت بھی نہ دی جائے کیونکہ ایسا کرنا انسانی حقوق کے خلاف ہے۔
جنرل ضیا الحق نے اپنے دور حکومت میں 1981 میں لاہور میں ایک دس سالہ بچے کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کردینے والے تین مجرموں کو سرعام پھانسی کی سزا دی تھی جس کا اثر یہ ہوا کہ تھا کہ دس سال تک ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا تھا مگر بعد میں ملک میں جمہوری حکومتیں آئیں اور جنرل ضیا کے بعد آنے والی مشرف حکومت سمیت تمام نام نہاد جمہوری حکومتوں میں جنسی زیادتیاں تیزی سے بڑھیں اور گزشتہ ایک سال میں ملک میں جنسی زیادتی و قتل کے تقریباً تین ہزار واقعات رجسٹرڈ ہوئے اور باقیوں کا تو پتا ہی نہیں چلا اگر سب کی ایف آئی آر درج ہو جاتی تو پاکستان امریکا کو بھی پیچھے چھوڑ چکا ہوتا۔
ملک میں جو بھی حکومتیں جمہوریت کے نام پر آئیں وہ نام نہاد جمہوری حکومتیں تھیں ایسی جمہوری کہلانے والی حکومتوں میں جرائم پیشہ عناصر اور بعض جمہوریت کا راگ الاپنے والوں کا آپس میں قریبی تعلق رہا ہے کیونکہ جمہوری اسمبلیوں کے انتخابات جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی اور باہمی تعاون کے بغیر جیتے نہیں جاسکتے اور بعض ارکان اسمبلی کی ضرورت جرائم پیشہ عناصر ہر دور میں رہے ہیں اس لیے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کبھی سخت قانون سازی نہیں کی جاتی اور ایسے جرائم پیشہ عناصر کو نہ صرف گرفتاریوں سے بچایا جاتا ہے بلکہ ان کا تحفظ اور سرپرستی بھی کی جاتی ہے۔
3 بچوں کی ماں کے ساتھ رات کو سیالکوٹ موٹروے پر بے حرمتی اور ڈکیتی کے شرمناک واقعے نے عوام میں اشتعال پیدا کردیا ہے اور عوامی سروے میں جنسی درندوں کو سرعام پھانسی دینے کے حمایتیوں کی تعداد نوے فیصد سے زائد ہے مگر سیاستدان اور ارکان اسمبلی اس سلسلے میں بھی تقسیم ہو چکے ہیں۔
بعض نہیں چاہتے کہ ملک میں جنسی درندوں کو سرعام پھانسی دی جائے۔ میرے خیال میں کمسن بچوں اور بچیوں کو اپنی ہوس کی بھینٹ چڑھا کر اپنی شناخت چھپانے کے لیے یہ درندے پھول جیسے بچوں کو ہلاک کرکے خود کو بچانے میں کامیاب رہیں گے اور وہ نہ پکڑے جائیں گے اور اگر اتفاق سے پکڑے جائیں تو پولیس کی کمزور تفتیش کے ذریعے انھیں عدالتوں سے ضمانتیں مل جائیں گی یا وہ رہا ہو کر دوبارہ اپنی جنسی بھوک مٹانے کے لیے آزاد ہوں گے۔
اگر جنسی درندوں اور کمسن بچوں سے بدفعلی اور ہلاکتوں میں ملوث مجرموں کے لیے ملک میں سرعام پھانسی کی سزا پر عمل ہو جاتا تو ملک میں یہ صورتحال نہ ہوتی ۔ کراچی کے سچل تھانے کی حد میں ایک غیر ملکی خاتون اپنے بے وفا شوہر کو نامرد بنا کر ثبوت کے ساتھ تھانہ خود آئی تھی کیونکہ وہ شادی شدہ عیاشوں کو پیغام دینا چاہتی تھی کہ وہ اپنی بیویوں سے بے وفائی نہ کریں اور غیر شرعی حرکات نہ کریں۔
بعض سینیٹر سے یہ امید نہیں تھی کہ وہ ایسے جنسی مجرموں کو سرعام پھانسی کی مخالفت کریں گے اور موجودہ حکومت کے ایک اچھے فیصلے کی سیاسی طور پر مخالفت کریں گے۔ وزیر اعظم عمران خان اور بعض وزرا اس سلسلے میں جنسی درندوں کو نامرد بنانے کے قانون کے حامی ہیں مگر خود پی ٹی آئی اور پی پی میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو ایسا نہ ہونے دیں اور ایسے اقدامات کو انسانی حقوق کی بھینٹ چڑھا دیں۔ ایسے لوگوں سے کوئی پوچھے کہ تمہاری اپنی فیملی کے کسی بچے یا خاتون کے ساتھ اگر جنسی درندے کچھ کر جائیں تو کیا پھر بھی انھیں شرعی سزائیں غیر ضروری اور سرعام پھانسی یا نامردی کا اقدام غیر انسانی لگے گا؟