عوام مزدور کسان آگے آئیں

یہ سارا کام ایک منظم اور مربوط طریقے سے کیا جاتا ہے تاکہ اس تفریق اور تقسیم کی وجہ سے ان کی اجتماعی طاقت کمزور ہوجائے۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

سات دہائیاں گزر گئیں، ہمارے عوام جمہوریت کے نام سے تو واقف ہوگئے ہیں کیونکہ پانچ سال میں ایک بار ووٹ ڈالنے جانا پڑتا ہے لیکن جمہوریت کیا بلا ہے اس کا انھیں پتا نہیں۔ اس کے ذمے دار عوام نہیں بلکہ اہل سیاست ،مفکر اور دانشور ہیں۔

ووٹ کی پرچی کو جمہوریت سمجھنے والے، جمہوریت کے سرپرستوں کی چالبازیوں اور جمہوریت کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے والوں کے حربوں سے کیا خاک آگاہ ہوسکتے ہیں۔

بدقسمتی یہ ہے کہ اہل سیاست جن کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ عوام کو سیاست کا مطلب سمجھائیں وہ اس حوالے سے کوئی کلاس تو نہیں لگا سکتے لیکن مفاد پرست لمبے لمبے لیکچرز میں سیاست اور جمہوریت کا مطلب نہیں سمجھا سکتے۔ حالانکہ اہل سیاست کی ساری زندگی سیاست ہی سے منسوب ہوتی ہے بات صرف عوام کو سیاست کا مطلب سمجھانے کی نہیں بلکہ عوام کو سیاست کے حوالے سے باشعور بنانے کی ہے۔

پاکستان کا شمار دنیا کے پسماندہ ملکوں میں ہوتا ہے جہاں لاکھوں لوگ دو وقت کی روٹی سے محروم ہیں۔ ایسے پسماندہ ملک میں اہل سیاست کا عوامی دولت کی لوٹ مار میں سارا وقت گزر رہا ہے۔

ایلیٹ کی زندگی ہر روز عید ہر شب شب برأت ہے ادھر ہمارے عوام بدترین زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اس کی بہت بڑی وجہ عوام میں بے حسی ہے جیساکہ ہم نے واضح کیا ہے۔ ہمارے عوام کی بھاری اکثریت سیاسی شعور سے محروم ہے جس کا فائدہ ہماری لٹیری کلاس اٹھا رہی ہے، لٹیری کلاس عوام کو جمہوریت کا جھانسا دے کر خاندانی حکمرانی کو مستحکم کر رہی ہے اور عوام سیاسی غلاموں جیسی صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں۔

بھارت کا شمار بھی پسماندہ ملکوں میں ہوتا ہے لیکن بھارتی عوام سیاسی شعور سے لیس ہیں ،جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بھارتی عوام جمہوریت سے استفادہ کر رہے ہیں نچلے طبقات بھی جمہوریت سے آشنا ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بھارت کا وزیر اعظم مودی، نچلے طبقے سے تعلق رکھتا ہے اور دوسری بار وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہے۔

ہماری اشرافیہ جمہوریت کی سب سے بڑی حامی ہے کیونکہ ہمارے ملک میں خاندانی حکمرانیوں کا کلچر مستحکم ہے۔ لہٰذا ایلیٹ جمہوریت کی دم پکڑ کر حکمرانی کے مزے لوٹ رہی ہے۔

ساری دنیا میں جمہوریت کا مطلب اکثریت کی حکومت مانا جاتا ہے لیکن ہماری اشرافیہ نے جمہوریت کی جگہ خاندانی حکمرانی کا کلچر اس قدر مستحکم کیا ہے کہ اشرافیہ کی کم عمر اولاد بھی سیاسی پارٹیوں کی سربراہی کر رہی ہے۔ جب تک عوام اشرافیہ کو پیچھے دھکیل کر اس کی جگہ نہیں لیتے اشرافیہ سیاست اور اقتدار پر قابض رہے گی۔


ہمارے عوام جب تک ووٹ ڈالنے کو جمہوریت سمجھتے رہیں گے وہ نہ سیاست میں قدم جما سکتے ہیں نہ اقتدار کی طرف پیش قدمی کرسکتے ہیں۔ جب سے عمران خان نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا ہے ہماری اشرافیہ انگاروں پر لوٹ رہی ہے۔ حکومت کو ختم کرنا ہماری اشرافیہ کی اولین ترجیح ہے ۔ پی ٹی آئی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد اپوزیشن ایک نکاتی ایجنڈے پر کام کر رہی ہے وہ ایک نکاتی ایجنڈا عمران خان سے اقتدار چھیننا ہے۔آج اپوزیشن اے پی سی کر رہی ہے۔

اس سے پہلے بھی کئی اے پی سی ہو چکی ہیں۔ جو نشستند و برخواستند کے علاوہ کچھ نہیں تھیں اس تازہ اے پی سی کا حال بھی ایسا ہی لگتا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ عوام ہمیشہ ملکی سیاست سے ناآشنا رہے ہیں جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہماری اشرافیہ ہمیشہ اقتدار میں رہی ہے خواہ وہ جمہوریت کا دور ہو یا آمریت کا، اشرافیہ ہمیشہ اقتدار میں رہی ہے۔

اس دوران درجنوں حکومتیں انتخابات کے ساتھ اور بغیر انتخابات کے بنیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی ایک حکومت میں بھی کسی مزدور کسی کسان کسی نچلے طبقے کو حکومت میں جگہ دی گئی؟ کیونکہ غریب عوام مزدور کسان احساس کمتری کا شکار ہیں کبھی وہ سوچتے بھی نہیں کہ اقتدار میں آنا ان کا جمہوری حق ہے۔

انتخابات اقتدار میں آنے کی سیڑھی ہیں انتخابات میں حصہ لینا ہر شہری کا حق ہے لیکن ہماری ارب پتی ایلیٹ نے انتخابی نظام ایسا بنایا ہے کہ ایک عام آدمی انتخابات میں حصہ لینے کا سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ انتخابی اخراجات کروڑوں میں آتے ہیں جو عام غریب آدمی کروڑوں روپے خواب میں بھی نہیں دیکھ سکتے۔

دوسرے ملکوں میں بھی انتخابات ہوتے ہیں جن میں عام آدمی حصہ لیتا ہے اور کامیاب ہو کر قانون ساز اداروں میں پہنچ جاتا ہے جس ملک میں انتخابی اخراجات کروڑوں میں آتے ہیں اس ملک کا غریب بھلا انتخابات میں حصہ لینے کی بات کیسے سوچ سکتا ہے؟

ہماری اشرافیہ کی چالاکی کا عالم یہ ہے کہ عوام کی کرپٹ حکومتوں کے خلاف چڑھائی کے خوف سے جہاں اشرافیہ نے کئی نسخے ایجاد کر رکھے ہیں، وہیں اس نے عوام کو ایک متحدہ طاقت بننے سے روکنے کے لیے انھیں کئی حصوں میں بانٹ رکھا ہے ۔اس میں رنگ نسل قومیت زبان وغیرہ شامل ہیں، ان بانٹے گئے لوگوں کو اندر ہی سے نہیں باہر سے بھی بھاری ''مدد'' ملتی ہے اور یہ بٹے ہوئے لوگ تقسیم کو مضبوط کرنے کے لیے یہ بھاری فنڈز استعمال کرتے ہیں۔

یہ سارا کام ایک منظم اور مربوط طریقے سے کیا جاتا ہے تاکہ اس تفریق اور تقسیم کی وجہ سے ان کی اجتماعی طاقت کمزور ہوجائے۔ یہ 1967 کی بات ہے لاہور میں ایک کانفرنس ہو رہی تھی اس سیاسی کانفرنس کے ساتھ نیپ کی زیر نگرانی لاہور سے نکلنے والے ایک رسالے کی طرف سے بھی اس کا نیا نام تجویز کرنے کے حوالے سے بھی ایک میٹنگ کا اہتمام کیا گیا تھا یہ 1967 کی بات ہے رسالے کا نیا نام ''عوامی جمہوریت'' رکھا گیا۔ اہل علم اور اہل سیاست کرنٹ جمہوریت کو ایک فراڈ سمجھتے تھے۔ نئے نام عوامی جمہوریت کی وجہ سے رسالہ بامعنی ہو گیا تھا۔

عوامی جمہوریت کی جگہ اصلی جمہوریت کی طرف عوام کی توجہ موڑنے کے لیے عوامی جمہوریت کو متعارف کرایا گیا اب غریب عوام مزدور اور کسان آگے آئیں اور عوامی جمہوریت کو ملک میں متعارف کرانے کی کوشش کریں۔
Load Next Story