سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس میں جاں بحق افراد کے گھرانوں نے 8 برس بعد سنائے گئے عدالتی فیصلے پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے واقعے میں ملوث سہولت کاروں اور دیگر افراد کو بھی سزا دینے کا مطالبہ کردیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کا عدالتی فیصلہ آگیا جس میں دو مجرموں زبیر چریا اور رحمان بھولا کو سزائے موت سنائی گئی ہے تاہم یہ فیصلہ متاثرہ گھرانوں کو مطمئن نہ کرسکا اور لوگوں نے فیصلے پر عدم اطمینان ظاہر کرتے ہوئے دیگر افراد کو بھی سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ کچھ فیملیز نے مجرموں کو بلدیہ فیکٹری کے سامنے سرعام پھانسی دینے کا مطالبہ بھی کیا۔
بلدیہ ٹاؤن کے رہائشی محمد اقبال قادری اس فیکٹری میں سلائی ماسٹر تھے جو 8 برس قبل جلادی گئی۔ وہ اس واقعہ میں جاں بحق ہوئے جن کے پانچ بچے ہیں۔ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے اقبال قادری کی اہلیہ نے بتایا کہ ان کے شوہر سانحہ سے قبل عمرہ کرکے آئے تھے، وہ اس فیکٹری میں بارہ برس سے ملازم تھے، وہ دن ہم کھبی نہیں بھول سکتے۔
یہ پڑھیں : سانحہ بلدیہ؛ رحمان بھولا اور زبیر چریا کو 264 مرتبہ سزائے موت کا حکم
خاتون نے بتایا کہ شوہر اقبال نے فجر کی نماز ادا کی، ناشتہ کرکے بچوں کو پیار کیا اور کام پر چلے گئے، دوپہر کو گھر آکر کھانا کھایا نماز ادا کی اور دوبارہ فیکٹری چلے گئے شام کو ہمیں اس سانحہ کی اطلاع ملی، ظالموں نے میرے شوہر سمیت کئی افراد کو زندہ جلادیا، میرے بچے یتیم ہوگئے آج اللہ کے سوا ہمارا کوئی سہارا نہیں۔
انہوں ںے کہا کہ مجھے 9 لاکھ روپے کی امداد ملی، کیا اس سے میں زندگی بھر اپنے بچوں کو پال سکتی ہوں؟ ہم کرائے کے گھر میں رہتے ہیں، مشکل سے اخراجات پورے ہوتے ہیں، حکومت سے مطالبہ ہے کہ ہمیں گھر مہیا کردے، سانحہ کے عدالتی فیصلہ سے ہمیں اطمینان نصیب ہوا، قاتلوں کو جلد از جلد پھانسی ملنی چاہیے۔
جاں بحق اقبال کے بھائی محمد اسماعیل نے بتایا کہ اس واقعہ کے تین دن بعد ہمیں بھائی کی لاش ملی، ظالموں نے ہم سے بھائی چھین لیا انہیں حساب دینا ہوگا، میرا بھائی بہت اچھے اخلاق کا مالک تھا۔
مرحوم اقبال قادری کی کزن نے بتایا کہ اس واقعہ کے تین ماہ بعد اقبال کے ہاں بچی پیدا ہوئی، اس بچی نے اپنے باپ کی شکل بھی نہیں دیکھی، حکومت بتائے کہ سانحہ کے متاثرہ خاندانوں کے کفیل مارے گئے کیا قاتلوں کو جیل میں پھانسی دینے سے ان کے غم کم ہوسکتے ہیں۔
مرحوم اقبال کے بڑے صاحبزادے احمد رضا نے کہا کہ دنیا جانتی ہے کہ اس سانحہ میں کون کون ملوث ہے، سب کو پکڑا جائے جن ملزمان کو سزائے موت ہوئی ہے انہیں بلدیہ فیکٹری کے سامنے سرعام پھانسی دی جائے، ہمیں انصاف چاہیے۔
اقبال کی چھوٹی بیٹی ایمن نے کہا کہ میں نے ابو کو نہیں دیکھا، وہ مجھے یاد آتے ہیں۔ اقبال کے چھوٹے بیٹے نے کہا کہ حکومت ہمیں گھر دے۔ یہ متاثرہ خاندان آج بھی اپنے پیارے کو بھول نہیں سکا۔
واقعے کے ایک عینی شاہد اور متاثرہ شخص 46 سالہ شہزاد علی کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن مشرف کالونی کے رہائشی ہیں، شہزاد علی کا ایکسپریس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ 8 سال گزرنے کے بعد کیس کا فیصلہ آیا، اس کا برسوں انتظار کیا، میں بلدیہ فیکٹری کا ملازم تھا اور فیکٹری کی پہلی منزل پر سلائی کرتا تھا، جب آگ بھڑکی میں پہلی منزل پر ہی تھا ہر طرف دھواں ہی دھواں تھا، قیامت جیسے مناظر تھے، لوگ دم گھٹنے کے باعث بے ہوش ہوکر گر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ میں جان بچانے کے لیے گیٹ کی طرف بھاگا تو دیکھا کہ فیکٹری کا مین گیٹ جو کبھی بند نہ ہوتا تھا اس دن بند تھا، میں واپس پہلی منزل پر آگیا ہر شخص اپنی جان بچانے کی کوشش کر رہا تھا میں نے میز پر رکھی سلائی مشین اٹھائی اور کھڑکی پر ماری جس سے کھڑکی کا جنگلا ٹوٹ گیا اور میں نے باہر چھلانگ لگادی۔
شہزاد علی نے کہا کہ جان تو بچ گئی لیکن میں نے زندگی بھر کی معذوری کو گلے لگالیا، میرے گھٹںے کا گولہ ٹوٹ گیا جو آپریشن کے بعد مصنوعی لگایا گیا، آپریشن کروانے کے لیے اپنا ذاتی مکان بیچنا پڑا، اب کرائے کے گھر میں رہ رہا ہوں، ڈاکٹرز نے بیساکھی کے سہارے چلنے کا مشورہ دیا ہے، میرے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں جو اس حادثے کے بعد تعلیم سے بھی محروم ہوگئے، میری خواہش تھی کہ وہ پڑھیں لکھیں اور ترقی کریں لیکن میرے معذور ہونے کے بعد سب خواب چکنا چور ہوگئے، میں بھی ملازمت سے محروم ہوگیا اب گھر پر مختلف کارخانوں سے آرڈر لاکر گھر پر سلائی کرکے بیوی، بچوں کا پیٹ پال رہا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ عدالتی فیصلہ میں دو ملزمان کو سزائے موت سنائی گئی ہے جو اچھا فیصلہ ہے لیکن نہ ہی یہ فیصلہ ہمارے نقصانات کا ازالہ کرسکتا ہے نہ ہی ہمارے زخموں پر مرہم رکھ سکتا ہے، وزیر اعظم، چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ ہے کہ واقعے کے مزید ملزمان، سہولت کاروں اور دیگر ذمہ داروں سمیت فیکٹری مالک کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور عبرت ناک سزا دی جائے تاکہ ایسے واقعات دوبارہ کراچی یا ملک میں رونما نہ ہوں۔
شہزاد علی کی اہلیہ گلشن فرح کا کہنا تھا کہ ہمارے جیسے کئی خاندان ہیں جو واقعے میں متاثر ہوئے ہیں، کئی خاندان اپنے پیاروں کو ہمیشہ کے لیے کھو بیٹھے ہیں، حکومت کو چاہیے کہ کم از کم متاثرہ خاندان کو روزگار فراہم کیا جائے، ہر گھر میں ایک ملازمت فراہم کی جائے، میرے شوہر اب ملازمت نہیں کرسکتے لیکن میرے بچے اس قابل ہیں کہ وہ نوکری کرسکتے ہیں انہیں نوکری دی جائے تاکہ ہمارا گزارا ہوسکے اور پرسکون زندگی گزار سکیں۔
واضح رہے کہ 11 ستمبر 2012ء کو بھتہ نہ دینے پر بلدیہ ٹاؤن میں واقع گارمنٹس فیکٹری علی انٹرپرائزز میں لگائی جانے والی آگ میں 260 افراد زندہ جل گئے تھے۔ انسداد دہشتگردی عدالت نے 2 ستمبر کو سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کا فیصلہ محفوظ کیا جو آج سنا دیا گیا، فیصلے کے مطابق عبدالرحمان بھولا اور زبیر چریا کو سزائے موت جبکہ دیگر ملزمان کو عدم شواہد کی بناء پر بری کردیا گیا ہے۔