حجاب کلچر پاکستانی معاشرہ اپنے اسلامی تشخص کی طرف لوٹ رہاہے

ترکی وہ ملک تھا جہاں جنگ عظیم دوم کے بعد قانون بنا کر زبردستی حجاب اتروائے گئے تھے


صائمہ اسما September 22, 2020
نائن الیون کے بعد مغربی رویوں نے روایتی اور آزاد خیال دونوں طرح کی خواتین کو اسلامی شناخت اختیار کرنے کی جانب مائل کیا ۔ فوٹو : فائل

یہ نائن الیون کے بعد کے دور تھا۔ امریکی ریاست ورجینیا کی ہیمپٹن یونیورسٹی سے وابستہ محقق ڈاکٹر ممتاز احمد نے 2010ء میں پاکستان میں مذہبی رجحان کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا تھا کہ پاکستان کے نئے مقبول اسلامی رہنمااپنا حلقہ اثر ایسے طبقات تک بڑھانے میں کامیاب ہو گئے ہیں جواس سے پہلے روایتی مذہبی رہنماؤں سے بیگانہ رہتے تھے، خصوصاً متوسط طبقہ اور تعلیم یافتہ خواتین،اور یہ ایسے وقت میں ہوا ہے جبکہ پاکستانی حکومت اور ادارہ جات باقاعدہ طور پر جہاد کی پالیسی سے تائب ہونے کا اعلان کرچکے ہیں (ص2) ۔

اسی طرح کی بات برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کے شعبہ پالیٹکس اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز سے وابستہ محقق پرویز نذیر (2010ء) نے بھی لکھی ہے کہ نائن الیون کے بعد آنے والے وقت میں پاکستان کی روایتی اور ماڈرن دونوں طرح کی عورتوں نے اپنی شناخت کواسلام کی طرف میلان کی شکل میں تیزی سے تبدیل کیا ہے۔

اس تبدیلی کے بارے میں پرویزنذیر مزید لکھتے ہیں کہ دینی اور غیر دینی دونوں طرح کے تعلیمی اداروں سے تعلیم پانے والی خواتین عورتوں کے پبلک رول کی بجائے گھریلو زندگی اختیار کرنے کی وکالت کرنے لگی ہیں اور بطور ماں عورت کے کردار کی عظمت بیان کرتی ہیں۔ نیز انہوں نے اسلامی احکام کی پابندی کرنی اور مغربی تصورات اور طرز زندگی پر سوال اٹھانے شروع کردیے ہیں۔ دونوں محققین نے اپنی رپورٹوں میں خصوصیت کے ساتھ پاکستانی خواتین میں حجاب کے انتہائی تیزی سے بڑھتے ہوئے رجحان کا تذکرہ کیا ہے۔

حجاب کلچر کیوں عام ہو رہا ہے؟

سوال یہ ہے کہ سنہ 2000 کی دہائی میں ایسی کیا تبدیلی آئی کہ حجاب کا رجحان عام ہونا شروع ہوگیا اور عرصہ دس سال میں ہی خواتین میں ایسی نمایاں تبدیلی آئی جسے بین الاقوامی جائزہ رپورٹوں کا حصہ بنایا جانے لگا ۔کہا جا سکتا ہے کہ ایک محرک ترکی میں ہونے والا واقعہ بنا۔ گلوبل میڈیا کے اس دور میں ایک خطے میں ہونے والے حالات و واقعات کا اثر دیگر خطوں میں لازماً پہنچتا ہے۔

مروہ کواکی کا حجاب پر ڈٹ جانا اور پھر اس کے موقف کی جیت ہونا۔ اس کے بعد فرانس میں مروہ شربینی کا دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا۔ لیکن یہ واقعات لاشعور کی تیاری میں مددگار تو ثابت ہو سکتے تھے مگر براہ راست محرک نہیں کہے جا سکتے کیونکہ اس کے لیے کسی مؤثر مقامی حوالے کی ضرورت تھی جبکہ پاکستان میں پردے پر ایسی جبر کی کوئی صورتحال نہیں تھی۔ البتہ یہ ضرور تھا کہ دینی تعبیرات کے حوالے سے نائن الیون کے بعد پالیسیوں اور بیانیوں کو ایک سو اسی درجے پر موڑ دیا گیا تھا۔ کل کے ہیرو آج کے دہشت گرد، کل کے نیک پارسا آج کے مجرم، کل کے دوست آج کے دشمن، کل کے محب وطن آج کے ایجنٹ قرار دے دیے گئے تھے ۔

قوم کی سائیکی کو سارے حقائق جانتے ہوئے بھی اتنی تیزی سے موڑ دینا آسان نہ تھا ۔ یہ پاکستانی قوم کے اجتماعی ضمیر کے لیے ایک بے حد مشکل وقت تھا ۔ خصوصاً دہشت گردی کی جنگ جس کو عرف عام میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کے طور پر لیا جا رہا تھا، اس میں امریکہ کے ساتھ صف اول کا اتحادی ہونے کی حیثیت نے بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دیا تھا ۔ رپورٹیں بتا رہی تھیں کہ یہ فقط فوجی اتحاد نہیں ہے بلکہ پورے کے پورے فکری نظریاتی ڈھانچے کو بدل دینے کی مہم ہے۔

جیسا کہ نائن الیون کے بعد امریکی تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن کی رپورٹ نے تجویز کیا تھا کہ پاکستان میں جدیدیت پسند طبقات کی حمایت کی جائے، جدیدیت پسند لوگوں کے طباعتی اور اشاعتی کام کی مالی سرپرستی کی جائے، تاکہ سیکولرازم اور جدیدیت کو مقابل تہذیب کے طور پر مسلمان نوجوانوں کے لیے پیش کیا جا سکے، کیونکہ پاکستانی نوجوان (بدلے ہوئے حالات میں) خود کو تنہا اور اجنبی محسوس کرکے بغاوت پر آمادہ ہیں ۔ نیز بنیادی نوعیت کی مذہبی تعبیرات میں بنیاد پرستوں اور روایت پسندوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایسے معاملات پر جدیدیت پسندوں کی رائے اور جج منٹس کو وسیع پیمانے پر عوام الناس کے لیے مہیا کیا جائے (شیرل بی نارڈ 2003ء)

انہی خطوط پر جنرل پرویز مشرف نے کئی اقدامات کئے اور صدر بش نے پاکستان کو شرف میزبانی بخشتے ہوئے ان کی پیش رفت کی تعریف بھی کی ۔ رینڈ کارپوریشن کی ہدایات کے مطابق بنیاد پرستوں کی بجائے میڈیا پر غیرروایتی جدیدیت پسند لوگ اسلام پر اتھارٹی بنا کر پیش کیے گئے۔

جنرل مشرف کے ڈاکٹرائن ' روشن خیال اعتدال پسندی ' کا ہر طرف چرچا ہونے لگا ۔ پاکستانی قوم کو سخت تناؤ کے ماحول میں مخلوط میراتھون اور جشن بہاراں کا ہلہ گلہ کرنا سکھایا گیا ۔ نذیر نے لکھا ہے کہ امریکی اور مغربی حکومتوں اور تنظیموں کی جانب سے پاکستان میں ایسے ٹیلیویژن ٹاک شوز، ڈراموں اور فلموں کو سپانسر کیا جانے لگا جو سیکولرازم اور لبرل ڈیموکریسی کی خوبیاں دکھائیں اور مذہب اور روایات کو منفی انداز میں پیش کریں ۔

سوال یہ ہے کہ ان تمام حالات میں جبکہ پاکستانی عوام کی مذہبیت ختم کرنے کے لیے خاصا زور لگایا جا رہا تھا، یہ مذہبیت کم از کم خواتین کی حد تک بڑھ کیسے گئی؟ خصوصاً حجاب اختیار کرنا جو ماڈرن رجحانات اور میڈیا کے دیے ہوئے طرز زندگی کی موجودگی میں کسی عورت کے لیے ایک آسان فیصلہ نہیں ہے ۔ ڈاکٹر ممتاز احمد کی رپورٹ اس کا جواب یہ دیتی ہے کہ وہی میڈیا ٹیکنالوجی جس کا پھیلاؤ نیو لبرل معاشی پالیسیوں کا حصہ تھا، اسی نے اسلامی تعلیمات کا آسان حصول عوام کے لیے خصوصاً خواتین کے لیے ممکن بنا دیا۔اس کے نتیجے میں دینی شعور میں تیزی سے اضافہ ہؤا اور خواتین عملی طور پر اسلام کو سمجھ کر اپنانے کی طرف آنے لگیں ۔

ایک اور وجہ جو بنیادی طور پر اسی طرح کی ہے، محقق پرویز نذیر نے بھی بیان کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ خواتین میں اس تیزی سے آنے والی تبدیلی کو اسلام کی فطرت میں موجود مسئلہ (problematisation of Islam) سے منسوب کیا جا سکتا ہے جس کی وجہ امریکی پالیسی اور دہشت گردی کی جنگ بنی ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اسلام کی فطرت میں موجود یہ مسئلہ جس کی طرف نذیر نے اشارہ کیا ہے، وہی ہے جس کوصفی لکھنوی نے رجزِ مسلم میں یوں بیان کیا ہے:

اس دین کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے

اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے

اب اس فوری اور مقامی ریفرنس پوائنٹ کو ہم عالمی منظرنامے کے ساتھ جوڑ کردیکھیں گے ۔

پاکستانی خواتین میں حجاب کے بڑھتے ہوئے رجحان کا پس منظر بیان کرنے کے بعد اب ہم اس مقامی ریفرنس پوائنٹ کو عالمی منظرنامے کے ساتھ جوڑ کر دیکھیں گے۔ اس سلسلے میں1991ء میں ترک پارلیمنٹیرین مروہ کواکی کا ذکر سب سے پہلے آئے گا ۔

ترکی وہ ملک تھا جہاں جنگ عظیم دوم کے بعد قانون بنا کر زبردستی حجاب اتروائے گئے تھے۔ پھر وہی ترکی تھا جہاں ترکیوں کی فطرت نے دوبارہ انگڑائی لی اور ایک خاتون ڈٹ گئی کہ وہ حجاب لے کر پارلیمنٹ میں جائے گی۔ اس کے ڈٹ جانے نے ایک سپارک پیدا کیا اور پھر جسے ٹرکل ڈاؤن ایفیکٹ کہتے ہیں، وہاں اپنی روٹس کی طرف لوٹنے اور اسلامی اقدار کے احیا کا سلسلہ ایسا شروع ہوا کہ آج تک وہ کسی کے روکے رک نہیں سکا ۔

اس وقت پہلی بار دنیا مسلمان خاتون کے ''حق ِحجاب'' سے آشنا ہوئی تھی ورنہ اس سے پہلے تو اس کو روایت اور جبر یا پسماندگی کی علامت بنا کر پیش کیا جاتا تھا ۔ بلکہ نائن الیون کے بعد تو اس علامت کو بہت ہی زوروشور سے پیش کیا جانے لگا جب افغان عورت کی ایک گھڑی گھڑائی تصویر دنیا کو دکھائی گئی کہ وہ کس قدر قید، بے بس اور مجبور ہے۔

مروہ کی جدوجہد نے ایک بالکل دوسری تصویر دنیا کو دکھائی تو حجاب پر یہ دو متوازی دھارے ساتھ ساتھ بہہ رہے تھے ۔ ایک کے پیچھے وقت کی سوپر پاور اور اس کا سارا زر خرید میڈیا تھا جسے بڑے بڑے ملٹی نیشنل کاروباری جائنٹس فنڈ کر رہے تھے، تو دوسری طرف حجاب کو حق قرار دینے کی ایک تنہا عورت کی موومنٹ، جس کی اپنی حکومت بھی اس کی مخالف تھی، وہ دنیا بھر کی مسلمان آبادی میں اپنی حمایت پیدا کر رہی تھی ۔

اگر ترکی میں ایسا ہو سکتا تھا تو فرانس تو پھر فرانس تھا ۔2003 ء میں فرانس نے سکولوں میں سکارف منع کیا تو 2004 ء میں لندن میں اسمبلی فار دی پروٹیکشن آف حجاب کےاجلاس میں اس پر احتجاج ہوا ۔ اسی میں باحجاب خواتین کے ساتھ اس امتیازی سلوک کے خلاف منظم کوششوں کا فیصلہ کیا گیا جن میں ایک نمایاں بات 4 ستمبر کو عالمی یوم حجاب کے طور پر منانا تھی ۔ 2007 میں مروہ نے یورپین کورٹ آف جسٹس سے کیس جیتا کہ اس کو بنیادی انسانی حقوق کے تحت حجاب کا حق حاصل ہے ۔

نوّے ہی کی دہائی کے آغاز میں ہنٹنگٹن کی تھیوری تہذیبوں کا تصادم منظر عام پر آئی تھی جس کے دوررس اور ہمہ گیر اثرات مرتب ہوئے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کے بعد ہی دنیا میں یہ دو متوازی چلنے والے دھارے شدت اختیار کرتے گئے ۔ نائن الیون کے بعد سے مسلمانوں خصوصاً مسلم خواتین کے خلاف یورپ اور امریکہ میں ہیٹ کرائمز بڑھتے گئے، یہاں تک کہ یکم جولائی 2009 کو 31 سالہ حاملہ خاتون مروہ ال شربینی کو جرمنی کی بھری عدالت میں سفاکی سے قتل کردیا گیا۔

اب ایک طرف تو اندرون خانہ پاکستانی خواتین کے حجاب کی طرف رجحان کی حرکیات تھیں تو ساتھ ہی عالمی حالات کا تناظر اس رجحان کو تقویت دے رہا تھا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستانی عورتوں کی اب تک کی ''پائیٹی موومنٹ '' کی طرز کا جو دینی رجحان تھا، اور حجاب جس کا ایک نمایاں مظہر تھا، اب اس کے متوازی ایک اور رو چلی اور مسلمان عورت کا حق حجاب ایک جدوجہد (ایکٹوازم) میں ڈھل گیا ۔ اس ایکٹو ازم میں کون سے عناصر شامل ہیں اس پر ہم تھوڑا بعد میں آتے ہیں ۔ پہلے ہم مختصراً یہ دیکھتے ہیں کہ اس ایکٹو ازم کی پاکستان میں کیا گنجائش ہے، اور اس کی دلیل آج کے حالات میں کہاں سے آتی ہے؟

جن دنوں پاکستان میں جنرل مشرف کی لبرل اقدار متعارف کروائی جا رہی تھیں، انہی دنوں2005ء کے گیلپ انٹرنیشنل پول نے بتایا کہ مسلم ممالک کی خواتین خود کو ہرگز مظلوم (Oppressed) یا دوسرے درجے کا مقام قبول کرنے پر مجبور نہیں سمجھتیں۔ سروے میں شامل پاکستان سمیت ہر ملک سے بھاری اکثریت میں عورتوں نے یہ بھی اقرار کیا کہ ان کے معاشروں کا بہترین پہلو اپنی اخلاقی اور روحانی اقدار اور مذہبی عقائد سے وابستگی ہے۔

گزشتہ دس سال کے عرصے کا جائزہ لیں تو پیو(PEW) 2014 کے سروے کے مطابق پاکستان میں 98 فیصد لوگ سمجھتے ہیں کہ خاتون کسی نہ کسی شکل میں ڈھکی ہوئی اور کورڈ ہو تو زیادہ خوبصورت لگتی ہے۔ انسان خود کو بناتے سنوارتے ہیں تاکہ خوبصورت لگیں، خاص طور پہ صنف مخالف کی نظر میں۔ اس سروے میں خوبصورت کا لفظ بہت بامعنی ہے اور ایسی خوبصورتی کی طرف اشارہ کرتا ہے جس میں جنسی کشش کی بجائے وقار ہے جو احترام پر ابھارتا ہے یعنی حجاب عورت کو ایسی خوبصورتی دیتا ہے جس کے ساتھ بری نظروں اور برے ارادوں سے بچاؤ ہے۔

ایک حالیہ سوشل میڈیا سروے کے مطابق پاکستان میں85 فیصد سے زیادہ خواتین حجاب کو کسی نہ کسی شکل میں اختیار کرتی ہیں ۔ گیلپ پاکستان کی2019 کی رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان کے اسّی فیصد لوگ پسند کرتے ہیں کہ عورت باہر نکلے تو کسی نہ کسی انداز سے خود کو ڈھانپ کر نکلے۔

پاکستان کے یہ زمینی حقائق ایک طرف تو یہ بتاتے ہیں کہ یہاں سیکولر اور مغرب سے متاثر لبرل ایجنڈوں کا مستقبل کوئی خاص تابناک نہیں ہے۔ دوسری طرف یہ حجاب کے ایکٹو ازم کا بھی سکوپ محدودکردیتے ہیں ۔ پاکستان جیسا ملک جہاں حجاب کا رجحان شعوری یا غیر شعوری طور پر پہلے ہی اتنا زیادہ ہے وہاں حجاب یا حقِ حجاب کا نعرہ لگانے کی کیا گنجائش رہتی ہے؟ ہماری ہر علاقائی ثقافت میں خواتین کا لباس ساتر اور باپردہ ہے ۔ شہروں میں خواتین اور نوجوان لڑکیاں بڑی تعداد میں خود کوکسی نہ کسی شکل میں ڈھانپ کر باہر نکلنا پسند کرتی ہیں ۔ حجاب کے نئے نئے انداز متعارف ہونا بے حجابی کی نہیں بلکہ حجاب کے فروغ کی علامت ہے ۔

اس صورت میں یہاں4 ستمبر کو یوم حجاب کے طور پر منانا اس حد تک سمجھ میں آتا ہے کہ یہ بعض مغربی اور اسلامی ممالک میں مسلم خواتین کے حق حجاب پر پابندی اور مسلم خواتین سے ان کے لباس کی بنیاد پر امتیازی رویوں کے خلاف احتجاج بھی ہے، اور ان رویوں کا نشانہ بننے والی خواتین کے ساتھ اظہارِ یک جہتی بھی۔ اس سے آگے یوم حجاب کا ایکٹو ازم کیا بتانا چاہتا ہے، اس کے لیے معاملے کو ذرا وسیع تر تناظر میں دیکھنا پڑے گا ۔

پاکستان میں یوم حجاب منانے کی '' تْک'' کو سمجھنے سے پہلے یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ فرانس میں ہیڈ سکارف پر پابندی کے نتیجے میں شروع ہونے والایہ دن رفتہ رفتہ بڑھ کر عو رت کی حیثیت کے معاملے میں اسلام اور مغربی تہذیب کے امتیاز کی علامت بن گیا ہے ۔

مغربی تہذیب کے بر عکس اسلام عورت کو نمائش کی چیز اور محض مرد کے لیے دل بہلاوے کا سامان نہیں بلکہ ایک مکمل انسان سمجھتا ہے اور اس کو عورت ہونے کی بنا پراستحصال سے بچانے کے لیے اصول وضع کرتا ہے۔ یہ اصول آج کی سرمایہ دارانہ نظام میں گرفتار دنیا کے لیے، جہاں ہر چیز بکنے کے لیے ہوتی ہے، بے حد انوکھے ہیں اس لیے دیکھنے والوں کے لیے خود بخود ایک دعوت اور لمحہِ فکریہ بن جاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے خوف کا شکار لوگ اسلام کے کسی اصول پر عمل کرنے والوں کو دیکھ کر خوف کا شکار ہو جاتے ہیں ۔

فرانس کے صدر نکولس سارکوزی نے سکولوں میں حجاب پر پابندی لگانے کا یہی جواز دیا تھا کہ یہ اسلام پر عمل کرنے کے لیے دوسروں کو ابھارنے کا باعث بنتا ہے اس لیے ہم اس کی اجازت نہیں دے سکتے، اس سے فرانس کا سیکولر ازم خطرے میں پڑتا ہے ۔ اس بیان سے سیکولر ازم کی حقیقت بھی کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ یہ نظام افراد کو بقائے باہمی کی بنیاد پرعمل کی آزادی دینے کا علمبردار ہے، مگر یہ اصول وہاں غائب ہو جاتا ہے جہاں لوگ اسلام کے کسی سچے اصول کو اپنانے کا انتخاب کر لیں، خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ لہٰذا بجا طور پرکہا جا سکتا ہے کہ ہنٹنگٹن نے تہذیبوں کے جس ٹکراؤ کا اندیشہ ظاہر کیا ہے وہ اس لحاظ سے درست ہے کہ سیکولرازم اور اسلام اپنی اپنی کْلّیت میں ساتھ نہیں چل سکتے کیونکہ ان کی بنیادیں ہی بالکل مخلتف ہیں۔

سیکولر ازم کو کیپیٹلسٹ معیشت پر کوئی اعتراض نہیں جبکہ اسلام اس کو کسی طور قبول نہیں کرتا ۔ عالمگیریت کے عمل پر بھی الزام ہے کہ اس سے مغربی افکارو طرزِ زندگی کا غلبہ دنیا کے ممالک پر مسلط ہو رہا ہے ۔ ایک حالیہ تحقیق بتاتی ہے کہ پاکستان میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اشتہارات پاکستانی کلچر سے ٹکراتی ہوئی اقدار پیش کر رہے ہیں اور ان اقدار کا ہدف نوجوان طبقہ اور خواتین ہیں، نیز یہ رجحان نائن الیون کے بعد کے دور میں جبکہ ملک میں روشن خیال اعتدال پسندی کا چرچا تھا ، زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آیا ہے ۔

مغرب کے اسلام فوبیا اور عالمگیریت کے تسلط کے ساتھ اس معاملے میں ایک اور پہلو اہم ہے۔ یو این کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن کے تحت عورتوں کی بہبود کا ایک جامع پروگرام بیجنگ پلیٹ فارم فار ایکشن کے نام سے 1995 سے جاری ہے نیز اقوام متحدہ کا سیڈا (CEDAW) کنونشن موجود ہے۔ اس کے تحت اقوام متحدہ کے تمام ممالک کو اپنے ہاں عورت کے بارے میں ان کے ایجنڈے لاگو کرنے ضروری ہیں ۔ اس پروگرام میں کئی مفید نکات بھی ہیں مگر بے شمار ایسی چیزیں ہیں جو مسلمان عورت کے لیے اسلام کے بنیادی فکرو فلسفہ سے متصادم ہیں ۔

اس پروگرام پر مسلمان، ترقی پذیر، ایشیائی اور مشرقی ممالک کو تو بہت زیادہ تحفظات رہے ہیں، اور ان کے علاوہ ویٹی کن اور دیگر مذاہب کی تنظیموں نے بھی اس سے ناخوشی کا اظہار کیا ہے، مگر خود جدید مغربی معاشرے میں بھی اس کی مخالفت کی کمی نہیں کیونکہ یہ مغرب کے ان '' الٹرا لبرل'' گروہوں کی بالادستی میں ہے جن کو خود ان کا اپنا معاشرہ بھی بہت قبولیت نہیں دیتا مگر مخصوص نظریاتی و معاشی مفادات کا پروگرام رکھنے والے ایسے طبقے ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں جن کا اثر ونفوذ مغربی ممالک کی حکومتوں میں بھی ہے۔

ویسے بھی عورت کی حیثیت ایسا معاملہ ہے جس میں مشرق اور مغرب کے ماحول کا فرق سب سے زیادہ نمایاں ہو جاتا ہے ۔ بیجنگ کے ابتدائی اجلاسوں میں مسلم ممالک خصوصاً مصر، مراکش اور تیونس نے ویٹی کن اور خاندانی نظام کی حامی مغربی این جی اوز کے ساتھ مل کر اس ایجنڈے پر کئی اعتراضات اٹھائے تھے۔ مشرقی معاشروں میں خاندان مضبوط ہے جس میں مرد کو سربراہ کی حیثیت حاصل ہے، لہٰذا یہاںمرد کے تعاون کے بغیر عورتوں کی بہتری کے منصوبے کامیاب نہیں ہو سکتے۔

نیز فلسطین، کشمیر، شام برما، عراق ، بوسنیا کہیں بھی مسلمان خواتین پر مظالم، حق تلفیوں، مذہب کی بنیاد پر مسلمان عورتوں سے امتیازی سلوک جیسے معاملات کو عورت کی بہبود کے اس پروگرام کا حصہ نہیں بنایا گیا۔گیلپ کی مذکورہ بالا رپورٹ (2005 ء) پر ان کی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ مشرق میں عورتوں کی تقویت خطے میں امریکہ کے اہم مقاصد میں سے ہے، لیکن اس بارے میں کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر ہی کہ دراصل مسلمان عورتیں چاہتی کیا ہیں، وہ محض دلچسپی کی بنا پر سرگرم عمل ہے۔

عورت کی حیثیت کے اسلام اور اسلامی دنیا کے مسائل سے مختلف تعین کی وجہ سے یہ پروگرام مسلمان عورتوں کے حقیقی مسائل کو مخاطب کرنے میں بڑی حد تک ناکام کہا جا سکتا ہے۔ وہ عورت جس کا اصل مسئلہ ہر بات میں مرد کی برابری نہیں بلکہ مرد کا روزگار ہے تاکہ وہ کما کر اپنے کنبے کی کفالت کر سکے، اور جس کو بطور سیکس ورکر اپنے حقوق نہیں منوانے بلکہ بطور ماں ، بہن، بیوی اور بیٹی کے معاشرے میں باعزت مقام کی طلب ہے، اس کے لیے شاید اس پروگرام میں کوئی کشش نہیں ہے جس کو گھر سے نکلنے والے پیاروں کی سلامتی کے لیے امن کا ماحول چاہئے، استعمار کی مسلط کردہ جنگیں اور فساد نہیں۔ جو صنفی فرق کی بنا پر حقوق و فرائض اور دائرہ کار کی تقسیم پر مطمئن ہے، مرد بن کر اپنا سٹیٹس بلند نہیں کرنا چاہتی ۔

اگر اسلام کے دیے ہوئے حق تعلیم، حق وراثت اور حق ملکیت سے ہماری عورت ابھی تک محروم چلی آرہی ہے تو ابارشن کا حق لے کر وہ کیا کرے گی؟ یا اگر غربت دور کرنے کے لیے ملازمتوں میں اس کے برابر کوٹے رکھ بھی دیے جائیں تو کیا یہ مردوں میں احساسِ ذمہ داری پیدا کرنے سے زیادہ بہتر حل ہے؟ کیا طوائف کو سیکس ورکر کہہ دینے سے اس کی یہ بے حرمتی، مجبوری اور حق تلفی امپاورمنٹ میں بدل جاتی ہے؟

کیا عورت کو مضبوط کرنے کے لیے اپنے خاندان سے اس کے تعلق کو کمزور کرنا ضروری ہے؟ پیرا ڈائم کے اس فرق نے مسلمان عورت کے حجاب کو ایک ایسی علامت بنا دیا ہے جو ویمن امپاورمنٹ کے ان بین الاقوامی ایجنڈوں کے بالمقابل اپنے پورے قد سے کھڑا ہے ۔گویا یہ محض خود کو ڈھانپنے کا مسئلہ نہیں بلکہ مسلمان عورت کی معاشرے میں حیثیت، کردار اور حقوق و فرائض کے بارے میں ایک narrative counter کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔

اس پورے پیرا ڈائم کے آگے مزاحمت کی علامت کے طور پر یوم حجاب کی اہمیت کو دیکھا جائے تو فطری طور پر پاکستان میں اس کی روح رواں وہ قوتیں بنیں جو ملک میں سیاسی اسلام یا اسلام ازم کے نظریے پر یقین رکھتی ہیں اور عالم اسلام سے مربوط بھی ہیں ۔ اور ان میں سرفہرست جماعت اسلامی ہے جس کا حلقہ خواتین ایک خودمختار تنظیم کے طور پہ دستور کے تحت منظم ہے۔ اس جماعت کے سابق امیر قاضی حسین احمد ایک وسیع وژن رکھنے والے امیر تھے جو صرف جماعت اسلامی ہی کے نہیں، عالم اسلام کی اسلامی تحریکوں کے مجموعی لیڈر بن کر ابھرے تھے۔

چنانچہ جماعت اسلامی کے ویمن اینڈ فیملی کمیشن نے 2005ء میں پاکستان کے ایوان بالا کی رکن سینیٹر ڈاکٹر کوثر فردوس کی سربراہی میں اس دن کو پاکستان میں منانے کا آغاز کیا جسے گزشتہ پندرہ سالوں سے تسلسل کے ساتھ جاری رکھا گیا ہے یہاں تک کہ اب یہ ایک نمایاں سرگرمی کی صورت معاشرے میں معروف ہے۔

سوال یہ ہے کہ حجاب کے اس ایکٹو ازم کا پورا فلسفہ سمجھنے والے عوام الناس میں کتنے فیصد ہیں؟ جماعت اسلامی جو صرف ڈاکٹر اسراراحمد کی تنظیم کی طرح یا تبلیغی جماعت کی طرح اصلاح ِ معاشرہ ہی کی تنظیم نہیں ہے بلکہ سیاسی جدوجہد پربھی یقین رکھتی ہے مگر ساتھ ہی دینی جماعت ہونے کے ناتے پردے پر ایک سخت موقف بھی رکھتی ہے ۔ قاضی حسین احمد نے عوام سے مربوط ہونے اور جماعت اسلامی کے یوٹوپیائی اندازِ سیاست کو تبدیل کرنے کے لیے اپنے تئیں بہت سی اصلاحات کیں ۔ ان کا مقصد بہت واضح تھا کہ اکیسویں صدی کے عالمی منظرنامے میں پاکستان کے لیے امت مسلمہ سے مربوط وژن ہو کیونکہ یہ ملک قائم ہی اسلام کے نام پر ہوا ہے، اور اس وژن کو جمہوری جدوجہد اور عوامی حمایت کے ذریعے ملک کا مجموعی وژن بنایا جائے ۔

یہ ایک گلوبل سوچ پر مبنی لوکل سٹریٹجی تھی ۔ انہوں نے inclusionکے تصور پر مبنی بہت سی پالیسیاں بنائیں تاکہ ان کے بین الاقوامی وژن کا عوام میں نفوذ ہو، لوگ جماعت اسلامی کے وژن کو سمجھیں، اس کے قائل ہوں اور اس کو سیاسی کامیابی سے ہم کنار کریں ۔ قاضی حسین احمد کا حجاب اور پردے پر موقف بھی ان کے مجموعی وژن سے ہم آہنگ تھا جس پر انہیں جماعت کے اندر تنقید بھی سننا پڑتی تھی مگر ان کے بعد یوں لگتا ہے کہ وہ پالیسیاں اپنی مادی شکل میں تو برقرار رہیں مگر جو مجموعی وژن ان کے اندر جان ڈال رہا تھا وہ موجود نہ رہا ۔

سیاسی کامیابی کے وژن کے بغیر اب اس یوم حجاب کو منانے کا مقصد کتنا ہی ارفع اور اہم کیوں نہ ہو، عوام تک اس کا ابلاغ اس رول ماڈل تک محدود ہو گیا ہے جو خود جماعت اسلامی کی خواتین پردے کے معاملے میں پیش کرتی ہیں اور جو بہت مومنانہ سہی مگر inclusion کی راہ میں بڑی رکاوٹ رہے گا ۔ اسلام ازم کا نظریہ رکھنے والوں کو اپنی عالمگیر سوچ کو سیاسی کامیابی میں ڈھالنے کے لیے اسی لوکل سٹرے ٹیجی کی ضرورت ہے ۔ پردہ پاکستانی عورت کا مسئلہ نہیں ہے۔

ہمارے ہاں عورت کا سب سے بڑا مسئلہ غربت ہے، اچھا طرزِ حکمرانی، آسان انصاف، بے روزگاری سے نجات ، بدامنی کا خاتمہ ، پینے کا صاف پانی، بنیادی صحت ، تعلیم ۔ ہمارے بعض دیہی اور پسماندہ علاقوں میں عورت روایتی جکڑ بندیوں کا شکار ہے، اور افسوس کہ ان علاقوں کے وڈیرے ہماری سیاست کے بڑے نا م ہیں، لڑکیوں پر تعلیم کے دروازے بند کرنے والے ہماری مقننہ کی رونق ہیں، اور ان میں خواتین بھی شامل ہیں۔ ہم نے مذہب کے کردار کو بھی اس ضمن میں بہت نظرانداز کیا ہے جبکہ اسلامی تحریکیںاس معاملے میں بہت جاندار کردار ادا کر سکتی تھیں۔ حکومتی سطح پر اسلام ، اسلام کا شور بہت مچایا جاتا ہے مگر اسلام کی خوبصورتی سے استفادہ کرنے کے لیے اس کو اجتماعی نظام کا حصہ بنانے پر کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔ معاشرتی اصلاح کے پروگراموں میں بھی خال خال عورتوں کے احترام اور ان کے حقوق کی ادائیگی کا تذکرہ سننے کو ملتا ہے ۔ اچھے بھلے سمجھدار گھرانوں میں اکثرخود عورتوں کے حوالے سے روایتی سوچ پائی جاتی ہے۔

عورتوں کے سٹیٹس کے بارے میں مذہب اور روایت کو خلط ملط کرنا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ عورتوں کو اسلام کے عطا کردہ حقوق دلوانے کو مہماتی انداز میں آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ حجاب کے ایکٹو ازم میں شامل عناصر کو مسائل میں گھری ہوئی عام پاکستانی عورت کے دکھوں کا ازالہ کرنا ہے، جو مرد کے آگے بھی مظلوم ہے اور معاشرتی رسوم ورواج کے آگے بھی ۔ اور اس کے لیے اسلام ازم کے علمبرداروں کو اپنے خول کو توڑ کر معاشرے کی پچ پہ آنا ہوگا، اپنے پروگرام کو عام فہم بنانا ہوگا۔ اس کے بغیر عوام کے لیے یوم حجاب کی اس سرگرمی کوسمجھنا اس شعر کے مصداق ہو گا:

مگس کو باغ میں جانے نہ دینا

کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا

٭٭٭

حوالہ جات:

Ahmad, M., Reetz, D., & Johnson, T. H. (2010). Who Speaks for Islam?: Muslim Grassroots Leaders and Popular Preachers in South Asia. National Bureau of Asian Research.

Nazir, P. (2010). War on Terror in Pakistan and Afghanistan: discursive and political contestations. Critical Studies on Terrorism, 3(1), 63-81. Doi:10.1080/17539151003594236

(مصنفہ پی ایچ ڈی سکالر ، ادارہ علوم ابلاغیات، جامعہ پنجاب ، ایک جریدے 'بتول ' کی مدیرہ اور وزٹنگ سٹوڈنٹ ریسرچر یونیورسٹی آف واریک ،یوکے ہیں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں