سندھ میں سیاسی جماعتوں میں محاذ آرائی عروج پر پہنچ گئی

ملک کے معاشی حب کراچی کو ایسا لگتا ہے کہ کسی نظر لگ گئی ہے۔


عامر خان September 23, 2020
ملک کے معاشی حب کراچی کو ایسا لگتا ہے کہ کسی نظر لگ گئی ہے۔ فوٹو : فائل

DHAKA, BANGLADESH:

اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس کے اثرات سندھ میں بھی نظرآنا شروع ہوگئے ہیں اور سیاسی جماعتوں نے صف بندی شروع کردی ہے۔


اپوزیشن کی جانب سے وسیع تر ڈیموکریٹک الائنس کے قیام کے اعلان کے بعد سندھ میں برسراقتدار پیپلزپارٹی کو ٹف ٹائم دینے کے لیے پاکستان تحریک انصاف متحرک ہوگئی ہے جبکہ کراچی کے مسائل کے حوالے سے ایم کیو ایم پاکستان،جماعت اسلامی اور پاک سرزمین پارٹی بھی سرگرم ہے۔


ایم کیو ایم کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا پریس کانفرنس میں 24 ستمبر کو کراچی،4اکتوبر کو حیدر آباد اور11اکتوبر کو میر پور خاص میں شہری سندھ کے حقوق کیلئے مارچ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہنا تھا کہ شہری سندھ کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور حق تلفی کی ایک طویل تاریخ ہے، گزشتہ50سالوں سے صوبے میں نافذ کوٹہ سسٹم جس کے تحت شہری سندھ کو 40 فیصد حصہ ملنا تھا لیکن 4 فیصد بھی نہ مل سکا۔انہوں نے ایک مرتبہ پھر دوہرایا کہ ان کی جماعت کی جانب سے نئے صوبے کے قیام کا مطالبہ کسی طور پر بھی غیرآئینی نہیں ہے۔

خالد مقبول صدیقی کی اس پریس کانفرنس کا پیپلزپارٹی کی جانب سے سخت ردعمل دیکھنے میں آیا۔ وزیراطلاعات سندھ سید ناصر حسین شاہ کاایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ کو جواب دیتے ہوئے کہنا تھا کہ سندھ دشمن سن لیں کہ سندھ ایک تھا اور ایک رہے گا۔کراچی سندھ کادل ہے اور دل کے بغیرکوئی جسم مکمل نہیں ہوتا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ ایم کیوایم نے قائد سے علیحدگی توکی لیکن ان کی سوچ کی اب بھی وارث بنی ہوئی ہے۔

ادھر پی ایس پی کے سربراہ بھی شہر کے مختلف مقامات پر عوامی اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے نظرآئے، جہاں ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کی تعصب زدہ کرپٹ حکومت نے کراچی سے کشمور تک سب تباہ و برباد کردیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ایس پی کے پیش کردہ 6 نکات میں کراچی کے تمام مسائل کا حل ہے۔

دوسری جانب جماعت اسلامی نے بھی 27 ستمبر کو ''حقوق کراچی مارچ'' کا اعلان کیا ہے۔ امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق کا کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وزیر اعظم بارش میں شہر ڈوبنے کے کئی دن بعد آئے اور 1100ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا مگر یہ نہیں بتایا کہ کراچی کی آبادی کو تو مردم شماری میں درست شمار نہیں کیا گیا ۔ پہلے کراچی کی درست آبادی کا تو اعلان کیا جائے ۔ انہوں نے کراچی سمیت ملک کے تمام بڑے شہروں میں با اختیار شہری حکومت قائم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔

تحریک انصاف نے بھی سندھ میں پیپلزپارٹی کو ٹف ٹائم دینے کے لیے صوبے میں تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔اس ضمن میں پی ٹی آئی رہنما خرم شیر زمان کا کہنا تھا کہ سندھ کے عوام کو بتائیں گے کہ کس طرح پی پی نے سندھ کو برباد کیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا موجودہ صورت حال پر کہنا ہے اس وقت تمام سیاسی جماعتیں پوائنٹ اسکورنگ کی سیاست کر رہی ہیں۔

عوام کو بظاہر ایسا محسوس نہیں ہو رہا کہ یہ تمام جماعتیں ان کے مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ ہیں۔ایم کیو ایم پاکستان اور پیپلزپارٹی ماضی میں مشترکہ طور پر سندھ پر حکومت کرتی رہی ہیں لیکن اگر آج بھی کراچی سمیت صوبے کے مسائل جوں کے توں موجود ہیں تو اس کی ذمہ دار بھی یہ جماعتیں ہیں۔ صوبے کے نام پر سیاست پر کر کے ایک مرتبہ پھر عوام کو ٹرک کی بتی پیچھے لگایا جا رہا ہے۔

اسی طرح تحریک انصاف نے اپوزیشن کی اے پی سی سے متاثر ہو کر سندھ میں پیپلزپارٹی کے خلاف تحریک چلانے کا اعلا ن کر دیا ہے جو ایک نئی محاذ آرائی کو جنم دے گا۔ عوام کی فلاح و بہبود اور شہر کراچی کی بہتری کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام جماعتیں وزیراعظم کے اعلان کردہ 11سو ارب روپے کے پیکج پر عملدرآمد کے لیے ایک پیج پر آجائیں اور اپنی توجہ اس پر مرکوز رکھیں ۔ وزیراعلیٰ سندھ کی سربراہی میں کراچی ٹرانسفارمیشن پیکج کی عملدرآمد کمیٹی کے قیام کا نوٹی فکیشن تو جاری کردیا گیا ہے لیکن زمینی حقائق یہی بتا رہے ہیں کہ اس پیکج کا اعلان بھی ماضی کے اعلان کردہ پیکجز کی طرح ہوگا۔

ملک کے معاشی حب کراچی کو ایسا لگتا ہے کہ کسی نظر لگ گئی ہے۔شہر اس وقت مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ایک مسئلہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا سر اٹھائے کھڑا ہوتا ہے۔ بارشوں کی تباہی، بجلی کی لوڈشیڈنگ کے بعد اب شہر قائد کے عوام گیس بحران سے نبردآزما ہیں۔ شہریوں کو نہ گاڑیوں کے لیے گیس دستیاب اور نہ ہی گھروں میں چولہے جلانے کے لیے گیس موجود ہے ۔ سوئی سدرن گیس کمپنی نے سی این جی اسٹیشنز کی بندش کا دورانیہ بھی ہے بڑھا دیا ۔

سوئی سدرن گیس کمپنی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مختلف گیس فیلڈز سے ایس ایس جی سی کے گیس سسٹم میں موصول ہونے والی گیس کے مقدار میں کمی ہوئی ہے۔ عوامی حلقوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت گیس کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں