اپوزیشن اور حکومت کے سیاسی معرکہ کا میدان پنجاب میں سجے گا

اپوزیشن کو بخوبی اندازہ ہے کہ حکومت سینیٹ میں برتری حاصل کر کے مزید مضبوط ہو گی۔


رضوان آصف September 23, 2020
اپوزیشن کو بخوبی اندازہ ہے کہ حکومت سینیٹ میں برتری حاصل کر کے مزید مضبوط ہو گی۔فوٹو : فائل

DUBAI: اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس نے بحر سیاست میں طلاطم پیدا کر دیا ہے، حکومت اسے''چائے کی پیالی میں طوفان'' قرار دے رہی ہے جبکہ اپوزیشن اس پیش رفت کو'' سیاسی سونامی'' بتا رہی ہے۔

سیاست کے کھیل بڑے عجب انداز میں کھیلے جاتے ہیں۔ اس کے داؤ پیچ جاننے کیلئے ایک عمردرکار ہوتی ہے چنانچہ اسے مکمل طور پر سمجھنے کا دعوی کوئی سیاستدان نہیں کر سکتا۔

پاکستانی سیاست میں مفادات، اہداف اور منافقت کی بنیاد پر دوست اور دشمن تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور پارٹیاں تبدیل کرنا کسی صورت معیوب نہیں سمجھا جاتا بلکہ اگر کوئی چھوڑ کر چلا جائے اور سالوں بعد واپس آجائے تو اس کی واپسی کی خوشی میں منعقدہ پریس کانفرنس میں شرم سے عاری مسکراہٹ کے ساتھ صرف ایک جملہ''صبح کا بھولا شام کو گھر واپس آجائے تو اسے بھولا نہیں کہتے'' کہہ کر اپنی اور آنے والے کی شرمندگی ''کیمو فلاج'' کر دی جاتی ہے۔

آج کی تحریک انصاف عمران خان والی تحریک انصاف نہیں ہے جس کا ایک نظریہ تھا اور اس نظریہ کی خاطر عام پاکستانی اس امید کے ساتھ عمران خان کی جانب بڑھا تھا کہ کپتان اس ملک میں غیر اعلانیہ دو جماعتی حکومتی نظام کے بت کو پاش پاش کر دے گا۔2011 ء میں مینار پاکستان پر ہونے والے جلسے کی فوٹیج یا تصویروں کو غور سے دیکھیں تو ہر جانب ایسی فیملیز دکھائی دیتی ہیں جنہوں نے کبھی کسی جلسے میں شرکت نہیں کی اور الیکشن میں ووٹ ڈالنے سے بھی انہیں کوفت تھی کیونکہ ووٹ کی حرمت اور تحفظ پر سے ان کا یقین اٹھ چکا تھا یہ تمام لوگ اس دن مینار پاکستان میں یہ امید لیکر پہنچے تھے کہ عمران خان ملک کے روایتی سیاسی نظام کی پیداوار نہیں ہے اور اسی سبب وہ اس تعفن زدہ سیاست کا حصہ بننے کی بجائے سٹیٹس کو کے خلاف مزاحمت کرے گا۔

آج اگر عمران خان دوبارہ سے مینار پاکستان پر جلسہ منعقد کرے تو ایسی فیملیز اب اس میں دکھائی نہیں دیں گی۔ اقتدار کے حصول کیلئے عمران خان نے ایک طویل سیاسی جدوجہد کی ہے لیکن اس سفر میں ان کے کئی قریبی ساتھی ''قربان'' بھی ہوئے جن میں سر فہرست جہانگیر ترین ہیں۔ عمران خان کی گزشتہ دس برس کی سیاسی جدوجہد بالخصوص الیکشن جیتنے اور حکومت سازی میں سب سے بڑی محنت جہانگیر ترین کی ہے جس کا اعتراف خود عمران خان ٹی وی چینلز پر کر چکے ہیں لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اقتدار کے حصول یا اس کے دوام کیلئے اپنوں کی''بھینٹ'' چڑھانا پڑتی ہے۔ کپتان نے تبدیلی لانے کا دعوی کیا تھا ملک میں تو ابھی تبدیلی کے واضح آثار یا نتائج دکھائی نہیں دیتے لیکن تحریک انصاف اور حکومت میں نت نئی تبدیلیاں ضرور رونما ہوئی ہیں۔

جنہوں نے برسہا برس کپتان کے شانہ بشانہ جدوجہد کی لیکن جب الیکشن کا وقت آیا تو ''بادشاہ گروں'' کے بھیجے الیکٹ ایبلز کو اس جواز کے ساتھ اولین صف میں شامل کیا گیا کہ ان کے بغیر الیکشن میں جیت ممکن نہیں اور پھر حکومت سازی کا موقع آیا تو دیرینہ ساتھیوں کو چھوڑ کر سردار عثمان بزدار جیسے ''نووارد'' کے سر پر تاج سجا دیا گیا جبکہ کابینہ میں بھی حقیقی انصافین اراکین اسمبلی کی بجائے الیکٹ ایبلز پر مشتمل دھڑوں یا پھر طاقتور حلقوں کے سفارشیوں کو شامل کیا گیا ۔

تحریک انصاف کو قریب سے جاننے والوں کو بخوبی علم ہے کہ آج تحریک انصاف کس توڑ پھوڑ کا شکار ہے ، رہنماوں، ٹکٹ ہولڈرز اور کارکنوں میں کس قدر مایوسی ہے۔ برسہا برس کپتان کے نعرے مارنے اور پارٹی کیلئے مشقت کرنے والے ہزاروں معروف کارکن نظر انداز ہو چکنے کے بعد گوشہ تنہائی میں جا بیٹھے ہیں ۔

بلدیاتی الیکشن لڑوانے کا ''لولی پاپ'' بھی کام نہیں آرہا ایسے میں اگر اپوزیشن سیاسی معرکہ کا آغاز کرتی ہے تو سب سے بڑا میدان پنجاب میں لگے گا اور اپوزیشن حکومت کو ٹف ٹائم دینے میں کامیاب رہے گی ۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اپوزیشن اپنی کسی تحریک کے ذریعے حکومت گرانے کی صلاحیت نہیں رکھتی ۔ یہ کام''بادشاہ گروں''کی آشیر باد کے بغیر ممکن نہیں اور ''ان'' کا موڈ فی الوقت فوری تبدیلی کے حق میں نہیں ہے۔ وہ بھی ''مارنے'' کی بجائے ''گھسیٹنے'' میں زیادہ مزہ لے رہے ہیں ۔

پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے پاس بہت بڑی تعداد موجود ہے جبکہ لاہور سمیت بڑے شہروں میں بالخصوص اور چھوٹے شہروں میں بالعموم ن لیگ کے پاس سٹریٹ پاور بھی دستیاب ہے ۔گرمی کا موسم گزرنے کے بعد ن لیگ سڑکوں پر عوام کو لانے کیلئے منصوبہ بندی کر رہی ہے۔

پنجاب میں تحریک انصاف کے حکومتی حلیف یعنی چوہدری برادران بھی عمران خان کے ساتھ زیادہ خوش و مطمئن نہیں ہیں اور وہ اپنی ناراضگی کا بارہا اظہار کر چکے ہیں ۔ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت گڈ گورننس اور ڈیلیوری کے حوالے سے نمایاں کارکردگی دکھانے میں ناکام ہونے کے بعد مسلسل ایک شدید تنقید کی زد میں ہے اور اس حوالے سے اپوزیشن، عوام اور میڈیا کے ساتھ ساتھ طاقتور حلقوں کا شدید دباو بھی عمران خان پر بڑھتا جا رہا ہے لیکن ابھی تک وہ سردار عثمان بزدار کے سامنے آہنی ڈھال بن کر ڈٹے ہوئے ہیں ۔

مسلم لیگ (ن) کی سیاسی طاقت کا مرکز پنجاب ہے اور پنجاب میں دو سال سے حکومت ہوتے ہوئے بھی تحریک انصاف کی قیادت ن لیگی سیاسی طاقت کو غیر معمولی حد تک کم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے ۔ میاں شہباز شریف کے حوالے سے یہ تاثر پیدا کیا گیا کہ شاید وہ اپنے بھائی کے موقف کے خلاف چلتے ہوئے ''بادشاہ گروں'' کے قریب ہونے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اپوزیشن کی اے پی سی میں اپنے خطاب کے ذریعے میاں نوا ز شریف نے دوبارہ سے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی ہے ۔

مسلم لیگ (ن) کا ووٹر میاں نواز شریف کے نام پر ووٹ ڈالتا ہے اور وہ بڑے میاں کو ہی اپنا قائد تسلیم کرتا ہے آسان الفاظ میں یہ کہنا چاہئے کہ مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بنک میاں نواز شریف کے پاس ہے اور میاں شہباز شریف اگر چاہیں بھی تو اس ووٹ بنک میں اپنا حصہ نہیں بنا سکتے۔

میاں نواز شریف نے جو خطاب کیا ہے وہ غیر معمولی ہے اور ایک ایسا شخص جو 35 برس سے سیاست اور اقتدار کا بڑا کھلاڑی ہے، تین مرتبہ وزیر اعظم رہ چکا ہے وہ اپنے تئیں از خود ایسا خطاب نہیں کر سکتا ۔ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ اس خطاب کے پیچھے کون سے ممالک کی آشیر باد تھی یا ملک کے طاقتور حلقوں میں سے کسی گروہ نے تھپکی دی تھی۔ پیپلز پارٹی سندھ حکومت سے کبھی دستبردار نہیں ہو گی اس لئے اجتماعی استعفوں کی بات کو محض سیاسی چٹکلہ سمجھ کر انجوائے کرنا چاہیئے ۔

حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو دو بڑی پریشانیاں لاحق ہیں جو کہ این ایف سی ایوارڈ اور 18 ویں ترمیم ہیں ۔ ان کی وجہ سے بہت سے اہم ترین قومی اہمیت کے معاملات صوبوں کو تقویض کر دیئے گئے تھے لیکن آج تک صوبوں نے ان معاملات میں سنجیدگی، دانشمندی اور یکجہتی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ اپوزیشن کے فعال ہونے میں ایک بڑا سبب مارچ میں ہونے والے سینٹ الیکشن بھی ہیں۔

اپوزیشن کو بخوبی اندازہ ہے کہ حکومت سینیٹ میں برتری حاصل کر کے مزید مضبوط ہو گی لہٰذا اپوزیشن سیاسی انتشار کے ذریعے سینٹ الیکشن پر اثر انداز ہونا بھی چاہتی ہے ، ویسے تو حکومت نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کر کے قوانین کی منظوری حاصل کرنے کا بہترین حل تلاش کر کے سینٹ میں اپوزیشن کی برتری کو بے معنی کر دیا ہے لیکن حکومت پوری طاقت کے ساتھ سینٹ میں برتری حاصل کرنے میں سنجیدہ ہے۔

میاں شہباز شریف کی ضمانت میں ایک مرتبہ پھر توسیع ہو گئی ہے لیکن یوں معلوم ہوتا ہے کہ مختصر مدت کی توسیع دینے کے سلسلہ کا اختتام مستقبل قریب میں ہونے والا ہے۔ حکومت کے پاس سیاسی اور انتظامی غلطیاں کرنے کی گنجائش ختم ہو چکی ہے اب اسے اپوزیشن کی یلغار کا بھرپور جواب دینے کیلئے مختلف النوع طریقہ استعمال کرنا ہوں گے بالخصوص پنجاب میں ایک نئی حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں