محمد ہارون لوگوں کے چہروں میں خوشیاں بکھیرنے والاٹال مین

اب کوئی جوکر اور ٹال مین بننے کو تیار نہیں، محمدہارون


آصف محمود September 23, 2020
محمد ہارون گزشتہ 9 سال سے جوکراورٹال مین کا روپ دھارے ہوئے ہے فوٹو: ظہور احمد

5 فٹ قد کا محمد ہارون گھر کا چولہا جلانے کے لیے گزشتہ 9 سال سے ٹال مین بن کر لوگوں کی تفریح کا سامان بن رہا ہے۔

لاہور چڑیا گھرمیں تفریح کے لئے آنے والے بچوں اور شائقین کے چہروں پرخوشیاں بکھیرنے کے لئے محمد ہارون گزشتہ 9 سال سے جوکراورٹال مین کا روپ دھارے ہوئے ہے۔ پانچ فٹ قد کا یہ نوجوان گھرکا چولہا جلانے کے لئے 10 فٹ اونچا ٹال مین بن جاتا ہے، چڑیاگھرمیں آنیوالے کئی شائقین اس کے ساتھ سیلفیاں بناتے توبعض سنگین مذاق بھی کرتے ہیں، محمدہارون کا کہنا ہے وہ لوگوں کے لئے اب ایک کھلونا ہے ، اس لئے وہ کسی کی بات کا برانہیں مناتا ہے

ملک میں سیکیورٹی وجوہات کی بناپرسرکس اورمیلے ،ٹھیلوں کا سلسلہ محدود ہونے کی وجہ سے سرکس میں کام کرنیوالے کئی فنکارتوگھروں میں بیٹھے ہیں تاہم کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے متبادل تلاش کرلیا۔ 28 سالہ محمدہارون بھی لکی ایرانی سرکس میں کام کرتا تھا، ا سکا کام فلائنگ، آگ کے چھلے سے چھلانگ لگاکرگزرنا، رسی پرچلنا، ٹال مین اورجوکربننا تھا۔ تاہم 2011 میں ہارون کولاہورچڑیا گھرمیں ڈیلی ویجزپر بھرتی کیا گیا۔ اس کا کام چڑیا گھرمیں آنیوالے سیاحوں کوتفریحی مہیا کرنا اور پبلسٹی کرنا تھا ۔

محمدہارون نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ وہ 15 برس کا تھا جب لکی ایرانی سرکس میں کام شروع کیا تھا، تاہم ملک میں امن وامان کی صورتحال خراب ہونے کے بعد جب سرکس بندہونا شروع ہوگئے تواس نے چڑیا گھرمیں نوکری کرلی۔ وہ یہاں سیکیورٹی کے فرائض بھی سرانجام دیتا ہے جبکہ خاص تہواروں اورفارغ وقت میں جوکراورٹال مین کا روپ دھار کریہاں آنیوالوں میں خوشیاں بانٹتا ہے

محمدہارون نے بتایا کہ اس کا خود کا قد پانچ فٹ ہے جبکہ وہ پانچ فٹ کے بانس کی مدد سے 10 فٹ اونچا ٹال مین بن جاتا ہے ، ویسے اس نے 15 اور 18 فٹ کے ٹال مین کا روپ بھی اختیار کیا ہے تاہم اس میں گرنے اور چوٹ لگنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، ہارون کا کہنا ہے قد زیادہ اونچا ہو تو پھر بچے ڈرجاتے ہیں جبکہ انہیں گود میں اٹھانا بھی خاصا مشکل ہوتا ہے۔ یہ اس نے جولباس پہنا ہے وہ لاہورکے ایک مخصوص درزی سے تیارکروایا ہے جو لکی ایرانی سرکس کے فنکاروں کے لئے لباس تیارکرتا ہے۔ اس تیار ہونے اور یہ لباس پہننے کے لئے بھی کسی اونچی جگہ پر بیٹھنا پڑتا ہے۔

نوجوان ٹال مین نے بتایا کہ یہاں کئی قسم کے لوگ آتے ہیں، کئی اسے دیکھ کرخوش ہوتے اوراس کے ساتھ سیلفیاں بناتے ہیں جبکہ بعض سنگین مذاق بھی کرتے ہیں جس سے گرنے کا خطرہ ہوتا ہے ، لیکن وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اب لوگوں کے لئے کھلونابن چکے ہیں اس لئے وہ کسی کی حرکت کا برانہیں مناتے ، ان کے لئے یہی کافی ہے کہ ان کی وجہ سے کسی کے چہرے پرمسکراہٹ آتی ہے۔

محمد ہارون نے یہ بھی بتایا کہ وہ شادی شدہ ہے اوراس کی ایک ایک بیٹی بھی ہے ،چند سال پہلے جب وہ سفاری پارک میں ٹال مین بنتا تھا اس وقت اس نے اپنی بیٹی کو بھی اٹھایا تھا تب اس کی عمرکوئی ڈھائی برس تھی ، اب اسے نہیں معلوم کہ چڑیا گھرمیں ٹال مین اور جوکر بننے والا اس کا باپ ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ یہاں چڑیا گھرمیں آئے تو اسے اس روپ میں پہچان نہیں سکے گی۔

محمدہارون نے بتایا کہ جب کوئی فیملی اس کے ساتھ سیلفی بناتی ہے یا وہ کسی بچے کو گود میں اٹھاتے ہیں تو بعض لوگ اسے اپنی خوشی سے 10، 20 روپے انعام بھی دے دیتے ہیں، وہ چڑیا گھرکے ملازم ہیں اورتنخواہ لیتے ہیں لیکن لوگ اپنی خوشی سے انعام دیتے ہیں، اس کے لئے بعض اوقات لوگ انہیں اپنی نجی محفلوں سالگرہ وغیرہ میں بھی بلالیتے ہیں۔ اب یہ کام ختم ہوتا جارہا ہے لوگ ٹی وی اور انٹرنیٹ پریہ سب دیکھ لیتے ہیں، اس لئے اب کوئی جوکر اور ٹال مین بننے کو تیار نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔